جاسم محمد
محفلین
پاکستانی فوج کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافے کی تجویز: یہ رقم آئے گی کہاں سے؟
فرحت جاوید بی بی سی اردو، اسلام آباد
تصویر کے کاپی رائٹ Getty Images
پاکستان کی وزارت دفاع نے مسلح افواج کے اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے وزارت خزانہ کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مسلح افواج کے اہلکاروں کی تنخواہوں میں 20 فیصد کا اضافہ کیا جائے۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ کورونا کی وبا کی وجہ سے آنے والے دنوں میں ملکی معیشت کے لیے شدید مشکل دور کی پیشنگوئی کی جا رہی ہے، اس خط میں تجویز دی گئی ہے کہ 2016 سے 2019 کے دوران فوجی اہلکاروں اور افسران کی تنخواہ میں عارضی اضافے یعنی ایڈہاک الاؤنس کو مستقل طور پر بنیادی تنخواہ کا حصہ بنا دیا جائے اور اس کے بعد تنخواہ میں 20 فیصد اضافہ کیا جائے۔
پاکستان کی مسلح افواج کو 2016، 2017 اور 2018 کے مالیاتی بجٹ میں دس، دس فیصد کا ایڈہاک ریلیف دیا گیا۔ 2019 - 20 کے مالیاتی سال میں یہ ریلیف پانچ فیصد تھا۔ اس کے علاوہ 2018 میں المیزان ریلیف فنڈ بھی دس فیصد دیا گیا۔ اس سے قبل 2015 میں بھی مسلح افواج کے گزشتہ چند برسوں کی ایڈہاک فنڈ کو تنخواہ کا حصہ بنا کر مجموعی تنخواہ میں اضافہ کیا گیا تھا۔ 2015 کے بعد بنیادی تنخواہ میں کسی بھی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ ایڈہاک ریلیف دیا گیا۔
ایڈہاک ریلیف دینے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بنیادی تنخواہ میں اضافے کی وجہ سے تنخواہ کے ساتھ منسلک دیگر مراعات، جن میں پینشن بھی شامل ہے، میں اضافہ ہو جاتا ہے، جو قومی خزانے پر بوجھ کا باعث بنتا ہے۔
خط میں اس اضافے سے بجٹ میں اضافے کا تخمینہ بھی دیا گیا ہے جو کہ اس دستاویز کے مطابق 63 ارب 69 کروڑ روپے سے زیادہ ہوگا۔
خیال رہے کہ ملک کے مجموعی دفاعی بجٹ کا بڑا حصہ مسلح افواج کے فوجی و سول اہلکاروں کی تنخواہوں اور دیگر الاؤنسز کے لیے مختص ہے، تاہم ریٹائر ہونے والے اہلکاروں کی پینشن اس کا حصہ نہیں ہوتی۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے خط کی تصدیق کرتے ہوئے اسے ایک 'معمول کی کارروائی' قرار دیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر سال بجٹ پیش کیے جانے سے پہلے وزارت خزانہ ’پے کمیشن‘ سے تجاویز مانگتی ہے۔ تمام حکومتی وزارتیں اور محکمے اس سلسلے میں اپنی سفارشات کا ڈرافٹ بهیجتے ہیں۔ ان سفارشات پر حتمی فیصلے سے قبل بحث کی جاتی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اسی سلسلے میں وزارت دفاع نے بهی وزارت خزانہ کو ڈرافٹ بهیجا ہے۔
جوائنٹ سٹاف ہیڈکوارٹرز کی جانب سے تینوں سروسز سے مشاورت کے بعد وزارت دفاع کو لکھے گئے اس خط کے متن کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کے باعث فوجی اہلکاروں کو ان کی موجودہ تنخواہ میں مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ خط کے مطابق روپے کی قدر میں کمی، کنزیومر پرائس انڈیکس، یوٹیلٹی بلوں میں اضافے اور مہنگائی سے اہلکار متاثر ہو رہے ہیں۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال کے بجٹ میں بریگیڈیئر کے رینک تک یعنی گریڈ 17 سے 20 کی تنخواہ میں پانچ فیصد ایڈ ہاک ریلیف اور گریڈ ایک سے سولہ تک میں دس فیصد ایڈہاک ریلیف دیا گیا تها تاہم گریڈ اکیس اور بائیس میں اضافہ نہیں کیا گیا تها۔
تصویر کے کاپی رائٹ Getty Images
Image caption پہلی مرتبہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے فروری 1999 میں کارگل کا دورہ کیا اور انھوں نے اس سال اعلان کیا تها کہ فوجیوں کی تنخواہ میں بڑا اضافہ کیا جائے گا
واضح رہے کہ گزشتہ برس مسلح افواج نے ملک کی معاشی صورتحال کے باعث دفاعی بجٹ میں اضافے سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا تها۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان نے فیصلہ کیا تها کہ وہ ایڈہاک ریلیف کی صورت میں افواج کے مختلف رینکس کی الاؤنسز میں پانچ سے دس فیصد اضافہ کریں گے۔
خط کے مطابق ٹیکس سلیب میں اضافے کے باعث وہ افسران جن کی تنخواہوں میں ایڈہاک اضافہ ہوا تها انہیں بهی پہلے سے زیادہ ٹیکس دینا پڑا اور یوں تکنیکی طور پر 'ان کی تنخواہیں کم ہوئی ہیں'۔
ماضی میں مسلح افواج کے ارکان کی تنخواہوں میں بڑا اضافہ دو مواقع پر کیا گیا تھا۔ پہلی مرتبہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے فروری 1999 میں کارگل کا دورہ کیا اور انھوں نے اس سال اعلان کیا تها کہ فوجیوں کی تنخواہ میں بڑا اضافہ کیا جائے گا۔
اس کے بعد 2010 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے مسلح افواج کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ کیا تها۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے دلیل دی تهی کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جاری بڑے فوجی آپریشنز کے باوجود اہلکاروں کی تنخواہیں انتہائی کم ہیں۔
اس وقت ایک تقابلی رپورٹ بهی پیش کی گئی جس کے مطابق پاکستان کی مسلح افواج کے اہلکاروں کی تنخواہیں خطے میں موجود دیگر افواج سے جن میں بنگلہ دیش بهی شامل ہے، کم تهیں۔
حالیہ اضافے کی تجویز کے بارے میں وزارت خزانہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ عام طور پر یہ وزارت کی صوابدید ہے کہ وہ کسی بهی ادارے، محکمے یا وزارت کے ملازمین کی تنخواہ میں کتنا اضافہ کرے گی۔
’خاص طور پر سول سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ دیگر کئی عوامل کو دیکھ کر کیا جاتا ہے اور کچھ ایسا ہی طریقہ کار مسلح افواج کے ملازمین کے لیے بهی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ 'بعض اوقات یہ ممکن ہے کہ کوئی ادارہ اپنی وزارت کے ذریعے ہمارے نوٹس میں اپنی مشکلات لائے، لیکن اس پر فیصلہ وزارت خزانہ نے ہی کرنا ہوتا ہے۔ وزارت خزانہ اس سلسلے میں کچھ مختلف تجاویز اور آپشنز تیار کرتی ہے جن میں کسی بهی قسم کے اضافے کے بجٹ اور قومی خزانے پر اثرات کے حوالے سے رائے دی جاتی ہے، یہ بهی بتایا جاتا ہے کہ اضافے سے کوئی اور شعبہ متاثر ہو گا یا نہیں، اور یہ بهی کہ کیا یہ دباؤ کسی اور جانب سے ریونیو آنے کی صورت میں پورا کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔‘
تصویر کے کاپی رائٹ Getty Images
ان کے مطابق ’یہ تجاویز بجٹ دستاویز قومی اسمبلی میں پیش ہونے سے قبل اُسی دن کابینہ کے اجلاس میں پیش کی جاتی ہیں جہاں وزیراعظم کی صدارت میں کابینہ ان میں سے کوئی بهی تجویز منتخب یا مسترد کرتی ہے۔ جس کے بعد اس کو آخری موقع پر بجٹ تقریر کا حصہ بنایا جاتا ہے'۔
وزارت خزانہ کے ہی ایک اور اہلکار کے مطابق گذشتہ چار برسوں میں مسلح افواج کی بنیادی تنخواہ میں اضافے کی بجائے انہیں ایڈہاک ریلیف دیا گیا جو کسی بهی وقت ختم کیا جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق 'اگرچہ مسلح افواج بهی وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں مگر ان کی تنخواہوں اور دیگر مراعات اور الاؤنسز سے متعلق علیحدہ سمری تیار کی جاتی ہے اور کئی الاؤنسز جیسا کہ آپریشنل علاقوں یا ہارڈ ایریاز الاؤنسز (وہ علاقے جہاں فوجی آپریشن کیے جا رہے ہیں) ایسے ہیں جو دیگر وفاقی ملازمین کو نہیں ملتے۔
یہ رقم آئے گی کہاں سے؟
خیال رہے کہ پاکستانی فوج کی جانب سے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب عالمی مالیاتی ادارے نے اپریل 2019 میں پاکستان کے بارے میں پیشن گوئی کی تھی کہ ملک میں رواں مالی سال کے دوران ملکی معیشت کا حجم ڈیڑھ فیصد کم ہوگا جبکہ گذشتہ برس اس میں 3.3 فیصد کی بڑھوتری دیکھی گئی تھی۔
آئی ایم ایف کے علاوہ عالمی بینک نے بھی ملک کی معاشی ترقی کی شرح میں 1.3 فیصد تنزلی کی پیشگوئی کی ہے۔
ادھر سٹیٹ بینک نے زراعت سے متعلق پالیسی بیان میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا وائرس سے معاشی شعبوں کو دھچکا لگے گا۔ اس کے ساتھ حال ہی میں مرکزی بینک کی جانب سے ایک ماہ میں دو بار پالیسی ریٹ میں مجموعی طور پر 4.25 فیصد کٹوتی کی گئی ہے۔ اس سے قبل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک بھی کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں کاروباری سرگرمیاں رکنے کی وجہ سے پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار میں کمی پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان اداروں کے مطابق گذشتہ برس کے 3.3 فیصد شرح نمو کے مقابلے میں لاک ڈاؤن کے باعث پاکستانی معیشت کی شرح نمو منفی 0.5 فیصد تک ہونے کا امکان ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو بے روزگاری، غربت اور بھوک میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک کی مجموعی معاشی صوتحال پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان میں بجٹ کا بڑا حصہ قرضوں کی واپسی اور دفاع کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں پر صرف ہوتا ہے۔
وزارت خزانہ کے سابق مشیر اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزارت خزانہ عموماً ہر سال مجموعی قومی پیداوار کا ڈھائی فیصد دفاع کے لیے رکھتی ہے۔
واضح رہے کہ سپری یعنی سٹاک ہام انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں دفاعی بجٹ کی شرح 2015 سے 18 کے درمیان جی ڈی پی کے 3 سے 4 فیصد کے درمیان رہی۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب دفاعی بجٹ ملک کے جی ڈی پی کا سات فیصد تھا تاہم اکیسویں صدی میں داخلے کے ساتھ اس میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی۔
ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق مشکل معاشی صورتحال کے باوجود اس بار حکومت پر تمام شعبوں کی جانب سے تنخواہوں میں اضافے کا دباؤ ہوگا جس کی بنیادی وجہ ’موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی میں اضافہ ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’آئی ایم ایف کی شرائط پر قرضے لینے کے باعث ملک میں مہنگائی کی شرح میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ تمام سرکاری ملازمین، چاہے وہ مسلح افواج کا حصہ ہوں یا نہیں، شدید متاثر ہوئے ہیں۔ اب جو اضافہ مانگا جا رہا ہے اس کے بعد کل اثر 20 فیصد ہوگا اور میرا خیال ہے کہ دیگر تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔‘
تاہم انھوں نے کہا ’اس طرح ہونے والا خسارہ ریونیو سے حاصل کیا جاتا ہے تاہم اس بار کورونا وائرس کے باعث کاروبار بند رہے ہیں اس لیے زیادہ اضافہ ہونے کی امید نہیں ہے‘۔
خیال رہے کہ پاکستان میں کورونا کی وبا کی وجہ سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور وزیراعظم کے مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ نے گذشتہ جمعے کو ہی بتایا ہے کہ رواں مالی سال میں مالی خسارے کی شرح مجموعی قومی پیداوار کے نو فیصد تک رہنے کا اندیشہ ہے جبکہ ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف بھی پورا نہیں ہو سکے گا اور اس ہدف میں بھی تقریباً 20 فیصد کی کمی ہو گی۔
فرحت جاوید بی بی سی اردو، اسلام آباد
- 3 گھنٹے پہلے
تصویر کے کاپی رائٹ Getty Images
پاکستان کی وزارت دفاع نے مسلح افواج کے اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے وزارت خزانہ کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مسلح افواج کے اہلکاروں کی تنخواہوں میں 20 فیصد کا اضافہ کیا جائے۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ کورونا کی وبا کی وجہ سے آنے والے دنوں میں ملکی معیشت کے لیے شدید مشکل دور کی پیشنگوئی کی جا رہی ہے، اس خط میں تجویز دی گئی ہے کہ 2016 سے 2019 کے دوران فوجی اہلکاروں اور افسران کی تنخواہ میں عارضی اضافے یعنی ایڈہاک الاؤنس کو مستقل طور پر بنیادی تنخواہ کا حصہ بنا دیا جائے اور اس کے بعد تنخواہ میں 20 فیصد اضافہ کیا جائے۔
پاکستان کی مسلح افواج کو 2016، 2017 اور 2018 کے مالیاتی بجٹ میں دس، دس فیصد کا ایڈہاک ریلیف دیا گیا۔ 2019 - 20 کے مالیاتی سال میں یہ ریلیف پانچ فیصد تھا۔ اس کے علاوہ 2018 میں المیزان ریلیف فنڈ بھی دس فیصد دیا گیا۔ اس سے قبل 2015 میں بھی مسلح افواج کے گزشتہ چند برسوں کی ایڈہاک فنڈ کو تنخواہ کا حصہ بنا کر مجموعی تنخواہ میں اضافہ کیا گیا تھا۔ 2015 کے بعد بنیادی تنخواہ میں کسی بھی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ ایڈہاک ریلیف دیا گیا۔
ایڈہاک ریلیف دینے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بنیادی تنخواہ میں اضافے کی وجہ سے تنخواہ کے ساتھ منسلک دیگر مراعات، جن میں پینشن بھی شامل ہے، میں اضافہ ہو جاتا ہے، جو قومی خزانے پر بوجھ کا باعث بنتا ہے۔
خط میں اس اضافے سے بجٹ میں اضافے کا تخمینہ بھی دیا گیا ہے جو کہ اس دستاویز کے مطابق 63 ارب 69 کروڑ روپے سے زیادہ ہوگا۔
خیال رہے کہ ملک کے مجموعی دفاعی بجٹ کا بڑا حصہ مسلح افواج کے فوجی و سول اہلکاروں کی تنخواہوں اور دیگر الاؤنسز کے لیے مختص ہے، تاہم ریٹائر ہونے والے اہلکاروں کی پینشن اس کا حصہ نہیں ہوتی۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے خط کی تصدیق کرتے ہوئے اسے ایک 'معمول کی کارروائی' قرار دیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر سال بجٹ پیش کیے جانے سے پہلے وزارت خزانہ ’پے کمیشن‘ سے تجاویز مانگتی ہے۔ تمام حکومتی وزارتیں اور محکمے اس سلسلے میں اپنی سفارشات کا ڈرافٹ بهیجتے ہیں۔ ان سفارشات پر حتمی فیصلے سے قبل بحث کی جاتی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اسی سلسلے میں وزارت دفاع نے بهی وزارت خزانہ کو ڈرافٹ بهیجا ہے۔
جوائنٹ سٹاف ہیڈکوارٹرز کی جانب سے تینوں سروسز سے مشاورت کے بعد وزارت دفاع کو لکھے گئے اس خط کے متن کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کے باعث فوجی اہلکاروں کو ان کی موجودہ تنخواہ میں مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ خط کے مطابق روپے کی قدر میں کمی، کنزیومر پرائس انڈیکس، یوٹیلٹی بلوں میں اضافے اور مہنگائی سے اہلکار متاثر ہو رہے ہیں۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال کے بجٹ میں بریگیڈیئر کے رینک تک یعنی گریڈ 17 سے 20 کی تنخواہ میں پانچ فیصد ایڈ ہاک ریلیف اور گریڈ ایک سے سولہ تک میں دس فیصد ایڈہاک ریلیف دیا گیا تها تاہم گریڈ اکیس اور بائیس میں اضافہ نہیں کیا گیا تها۔
تصویر کے کاپی رائٹ Getty Images
Image caption پہلی مرتبہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے فروری 1999 میں کارگل کا دورہ کیا اور انھوں نے اس سال اعلان کیا تها کہ فوجیوں کی تنخواہ میں بڑا اضافہ کیا جائے گا
واضح رہے کہ گزشتہ برس مسلح افواج نے ملک کی معاشی صورتحال کے باعث دفاعی بجٹ میں اضافے سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا تها۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان نے فیصلہ کیا تها کہ وہ ایڈہاک ریلیف کی صورت میں افواج کے مختلف رینکس کی الاؤنسز میں پانچ سے دس فیصد اضافہ کریں گے۔
خط کے مطابق ٹیکس سلیب میں اضافے کے باعث وہ افسران جن کی تنخواہوں میں ایڈہاک اضافہ ہوا تها انہیں بهی پہلے سے زیادہ ٹیکس دینا پڑا اور یوں تکنیکی طور پر 'ان کی تنخواہیں کم ہوئی ہیں'۔
ماضی میں مسلح افواج کے ارکان کی تنخواہوں میں بڑا اضافہ دو مواقع پر کیا گیا تھا۔ پہلی مرتبہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے فروری 1999 میں کارگل کا دورہ کیا اور انھوں نے اس سال اعلان کیا تها کہ فوجیوں کی تنخواہ میں بڑا اضافہ کیا جائے گا۔
اس کے بعد 2010 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے مسلح افواج کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ کیا تها۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے دلیل دی تهی کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جاری بڑے فوجی آپریشنز کے باوجود اہلکاروں کی تنخواہیں انتہائی کم ہیں۔
اس وقت ایک تقابلی رپورٹ بهی پیش کی گئی جس کے مطابق پاکستان کی مسلح افواج کے اہلکاروں کی تنخواہیں خطے میں موجود دیگر افواج سے جن میں بنگلہ دیش بهی شامل ہے، کم تهیں۔
حالیہ اضافے کی تجویز کے بارے میں وزارت خزانہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ عام طور پر یہ وزارت کی صوابدید ہے کہ وہ کسی بهی ادارے، محکمے یا وزارت کے ملازمین کی تنخواہ میں کتنا اضافہ کرے گی۔
’خاص طور پر سول سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ دیگر کئی عوامل کو دیکھ کر کیا جاتا ہے اور کچھ ایسا ہی طریقہ کار مسلح افواج کے ملازمین کے لیے بهی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ 'بعض اوقات یہ ممکن ہے کہ کوئی ادارہ اپنی وزارت کے ذریعے ہمارے نوٹس میں اپنی مشکلات لائے، لیکن اس پر فیصلہ وزارت خزانہ نے ہی کرنا ہوتا ہے۔ وزارت خزانہ اس سلسلے میں کچھ مختلف تجاویز اور آپشنز تیار کرتی ہے جن میں کسی بهی قسم کے اضافے کے بجٹ اور قومی خزانے پر اثرات کے حوالے سے رائے دی جاتی ہے، یہ بهی بتایا جاتا ہے کہ اضافے سے کوئی اور شعبہ متاثر ہو گا یا نہیں، اور یہ بهی کہ کیا یہ دباؤ کسی اور جانب سے ریونیو آنے کی صورت میں پورا کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔‘
تصویر کے کاپی رائٹ Getty Images
ان کے مطابق ’یہ تجاویز بجٹ دستاویز قومی اسمبلی میں پیش ہونے سے قبل اُسی دن کابینہ کے اجلاس میں پیش کی جاتی ہیں جہاں وزیراعظم کی صدارت میں کابینہ ان میں سے کوئی بهی تجویز منتخب یا مسترد کرتی ہے۔ جس کے بعد اس کو آخری موقع پر بجٹ تقریر کا حصہ بنایا جاتا ہے'۔
وزارت خزانہ کے ہی ایک اور اہلکار کے مطابق گذشتہ چار برسوں میں مسلح افواج کی بنیادی تنخواہ میں اضافے کی بجائے انہیں ایڈہاک ریلیف دیا گیا جو کسی بهی وقت ختم کیا جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق 'اگرچہ مسلح افواج بهی وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں مگر ان کی تنخواہوں اور دیگر مراعات اور الاؤنسز سے متعلق علیحدہ سمری تیار کی جاتی ہے اور کئی الاؤنسز جیسا کہ آپریشنل علاقوں یا ہارڈ ایریاز الاؤنسز (وہ علاقے جہاں فوجی آپریشن کیے جا رہے ہیں) ایسے ہیں جو دیگر وفاقی ملازمین کو نہیں ملتے۔
یہ رقم آئے گی کہاں سے؟
خیال رہے کہ پاکستانی فوج کی جانب سے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب عالمی مالیاتی ادارے نے اپریل 2019 میں پاکستان کے بارے میں پیشن گوئی کی تھی کہ ملک میں رواں مالی سال کے دوران ملکی معیشت کا حجم ڈیڑھ فیصد کم ہوگا جبکہ گذشتہ برس اس میں 3.3 فیصد کی بڑھوتری دیکھی گئی تھی۔
آئی ایم ایف کے علاوہ عالمی بینک نے بھی ملک کی معاشی ترقی کی شرح میں 1.3 فیصد تنزلی کی پیشگوئی کی ہے۔
ادھر سٹیٹ بینک نے زراعت سے متعلق پالیسی بیان میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا وائرس سے معاشی شعبوں کو دھچکا لگے گا۔ اس کے ساتھ حال ہی میں مرکزی بینک کی جانب سے ایک ماہ میں دو بار پالیسی ریٹ میں مجموعی طور پر 4.25 فیصد کٹوتی کی گئی ہے۔ اس سے قبل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک بھی کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں کاروباری سرگرمیاں رکنے کی وجہ سے پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار میں کمی پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان اداروں کے مطابق گذشتہ برس کے 3.3 فیصد شرح نمو کے مقابلے میں لاک ڈاؤن کے باعث پاکستانی معیشت کی شرح نمو منفی 0.5 فیصد تک ہونے کا امکان ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو بے روزگاری، غربت اور بھوک میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک کی مجموعی معاشی صوتحال پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان میں بجٹ کا بڑا حصہ قرضوں کی واپسی اور دفاع کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں پر صرف ہوتا ہے۔
وزارت خزانہ کے سابق مشیر اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزارت خزانہ عموماً ہر سال مجموعی قومی پیداوار کا ڈھائی فیصد دفاع کے لیے رکھتی ہے۔
واضح رہے کہ سپری یعنی سٹاک ہام انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں دفاعی بجٹ کی شرح 2015 سے 18 کے درمیان جی ڈی پی کے 3 سے 4 فیصد کے درمیان رہی۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب دفاعی بجٹ ملک کے جی ڈی پی کا سات فیصد تھا تاہم اکیسویں صدی میں داخلے کے ساتھ اس میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی۔
ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق مشکل معاشی صورتحال کے باوجود اس بار حکومت پر تمام شعبوں کی جانب سے تنخواہوں میں اضافے کا دباؤ ہوگا جس کی بنیادی وجہ ’موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی میں اضافہ ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’آئی ایم ایف کی شرائط پر قرضے لینے کے باعث ملک میں مہنگائی کی شرح میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ تمام سرکاری ملازمین، چاہے وہ مسلح افواج کا حصہ ہوں یا نہیں، شدید متاثر ہوئے ہیں۔ اب جو اضافہ مانگا جا رہا ہے اس کے بعد کل اثر 20 فیصد ہوگا اور میرا خیال ہے کہ دیگر تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔‘
تاہم انھوں نے کہا ’اس طرح ہونے والا خسارہ ریونیو سے حاصل کیا جاتا ہے تاہم اس بار کورونا وائرس کے باعث کاروبار بند رہے ہیں اس لیے زیادہ اضافہ ہونے کی امید نہیں ہے‘۔
خیال رہے کہ پاکستان میں کورونا کی وبا کی وجہ سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور وزیراعظم کے مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ نے گذشتہ جمعے کو ہی بتایا ہے کہ رواں مالی سال میں مالی خسارے کی شرح مجموعی قومی پیداوار کے نو فیصد تک رہنے کا اندیشہ ہے جبکہ ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف بھی پورا نہیں ہو سکے گا اور اس ہدف میں بھی تقریباً 20 فیصد کی کمی ہو گی۔