پاکستانی لڑکیاں، بلندی کی تلاش

پاکستان میں پیشہ وارانہ کوہ پیمائی عموماً گنے چُنے مردوں کا خاصا سمجھی جاتی ہے لیکن اِس روایت کو توڑنے کا خواب لیے، شمالی خطے گلگت بلتستان کے بلند و بالا پہاڑوں کی چند نو عمر لڑکیاں میدانی علاقوں کی طرف نکلی ہیں۔

130301121110_climbing-15.jpg


بہ شکریہ بی بی سی اردو
 
جنوب کے سمندر یا شمال کی چوٹیوں کے قریب پرورش پانے والی اِن لڑکیوں کی ذاتی زندگیاں بالکل متضاد ہیں لیکن اب جب وہ ایک ساتھ ہیں تو اُنہوں دنیا کے بلند ترین مقام پر کمند ڈالنے کی ٹھان رکھی ہے۔

130301121108_climbing-14.jpg
 
کراچی کی شہربانو سید کو لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے سیاحتی دوروں کے دوران پہاڑوں سے الفت ہوئی۔ جنوری دو ہزار بارہ میں اُنہوں نے بالائی ہُنزہ کے گاؤں شمشال کی لڑکیوں کے بارے میں سنا جنہوں نے موسمِ سرما میں چھ ہزار میٹر (تقریباً بیس ہزار فُٹ) اونچی مقامی چوٹی سر کی تھی۔

130301121106_climbing-13.jpg
 
اِس کارنامے سے متاثر ہو کر شہربانو، کوہ پیما لڑکیوں کے بارے میں دستاویزی فلم بنانے شمشال گئیں جہاں اُن کی ملاقات کوہ پیمائی کی مقامی اکیڈمی میں زیرِ تربیت ندیمہ سحر، تخت بیکا، شکیلا نما اور مہرا جبیں سمیت آٹھ مقامی لڑکیوں سے ہوئی۔

130301121104_climbing-12.jpg
 
ندیمہ سحر قراقرم یونیورسٹی میں بی اے کی طالبہ ہیں جبکہ اُن کی ساتھیوں میں سے کسی نے پرائمری تو کسی نے مڈل تک تعلیم حاصل کی ہے۔ سب سے زیادہ مرتبہ چھ ہزار میٹر بلند پہاڑ سر کرنے والی مہرا جبیں ان پڑھ ہیں۔ کچھ حد تک اردو سمجھتی ہیں لیکن اپنے کارنامے سنانے کے لیے اُنہیں مادری زبان واخی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

130301121019_climbing-9.jpg
 
کوہ پیمائی کے تجربے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’بھائی کو دیکھ کر کوہ پیمائی کا شوق پیدا ہوا۔ پہلی مرتبہ اُس کے ساتھ گئی تھی۔‘

130301121017_climbing-8.jpg
 
گلگت بلتستان کے بالائی علاقوں کی معیشت کا دارومدار سیاحت پر ہے۔ مقامی مرد، دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی رہنمائی کرکے یا کوہ پیماؤں کی معاونت کے ذریعے روزگار کماتے ہیں۔

130301121014_climbing-7.jpg
 
ایسا نہیں کہ خواتین کو یہ ہُنر سیکھنے کا موقع نہیں ملتا بلکہ بقول ندیمہ کے ’ہمارے یہاں لڑکوں اور لڑکیوں کو برابر قرار دیا جاتا ہے البتہ روایتی امورِ خانہ داری اور محدود وسائل کے باعث خواتین پیشہ ورانہ مقام تک نہیں پہنچ پاتیں۔‘

130301121011_climbing-6.jpg
 
تخت بیکا کی بڑی بہن کو شادی کے بعد کوہ پیمائی کا شوق ترک کرنا پڑا۔ اُنہوں نے بتایا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے یا برف توڑ کر پینے کے لیے پانی جمع کرنے جیسے معمولاتِ زندگی ہی مقامی خواتین کی صلاحیتوں کو نچوڑ لیتے ہیں۔

130301121008_climbing-5.jpg
 
دو ہزار تین میں سڑک بننے کے بعد، شمشال گاؤں کے نزدیک ترین شہر ہُنزہ تک، تین دنوں کا پیدل سفر، چھ گھنٹوں کی مسافت میں سِمٹ گیا لیکن اُس کے لیے بھی کار کی بجائے طاقتور جیپ کی ضرورت پڑتی ہے۔

130301121005_climbing-4.jpg
 
دور دراز کی کٹھن زندگی کی بنیادی کوہ پیمائی میں عبور حاصل کرنے کے بعد اِن لڑکیوں کی خواہش ہے کہ وہ بھی سیاحتی رہنماء (ٹؤر گائیڈ) اور بین الاقوامی کوہ پیماؤں کی معاونت جیسے مقامی پیشوں کے ذریعے اپنے پیروں پر کھڑی ہوں۔

130301121001_climbing-3.jpg
 
چھ ہزار میٹر بلند چوٹیوں پر چڑھنا اترنا شمشال گاؤں کی لڑکیوں کا معمول بن گیا ہے مگر جب اُنہوں نے ایک ہزار میٹر مزید اوپر جانے کا ارادہ کیا تو وسائل آڑے آ گئے۔

130301120956_climbing-1.jpg
 
Top