پاکستانی معیشت بھٹو نے تباہ کی؟

جاسم محمد

محفلین
پاکستانی معیشت بھٹو نے تباہ کی؟

عمران خان نے چینی کمپنیوں سے درخواست کی کہ پاکستان کو انڈسٹریلائز کرنے میں پاکستان کی مدد کریں اور میرا دل لہو سے بھر گیا۔ یاد آیا کہ بھٹو کے دور میں کس بے رحمی سے ہم نے اپنی انڈسٹری اپنے ہی ہاتھوں تباہ کی اور آج پچاس سال بعد کس بے بسی سے ہم دنیا سے التجا کرتے پھر رہے ہیں کہ صاحب پلیز اپنی کچھ صنعتیں پاکستان منتقل کر دیجیے۔اللہ عمر دراز کرے بھٹو صاحب تو آج بھی زندہ ہیں لیکن پاکستان کی معیشت کو انہوں نے ایسا زندہ درگور کیا کہ ہم آج تک نہیں سنبھل پائے۔ ساٹھ کی دہائی تک پاکستان میں انڈسٹری فروغ پا رہی تھی۔ اصفہانی ، آدم جی ، سہگل ، جعفر برادرز ، رنگون والا، افریقہ والا برادرز جیسے ناموں نے پاکستان کو انڈسٹریلائزیشن کے راستے پر ڈال دیا تھا۔ دنیا پاکستان کو انڈسٹریل پیراڈائز کہا کرتی تھی۔ماہرین کا کہنا تھا ترقی کی رفتار یہی رہی تو پاکستان ایشیاء کا ٹائیگر بن جائے گا۔

یہاں فیکٹریاں ، ملیں اور کارخانے لگ رہے تھے۔بجائے ان کاروباری خاندانوں کے مشکور ہونے کے کہ وہ معاشی سرگرمی کو زندہ رکھے ہوئے تھے ہمارے ہاں سرمایہ دار کو ہمیشہ دشمن سمجھا گیا‘ رہی سہی کسر بھٹو کے سوشلزم کے خواب نے پوری کر دی۔ ہمارے ہاں نظمیں پڑھی جانے لگیں ’’ چھینو مل لٹیروں سے ‘‘۔چنانچہ ایک دن بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن کے ذریعے یہ سب کچھ چھین لیا۔ لوگ رات کو سوئے تو بڑے وسیع کاروبار کے مالک تھے صبح جاگے تو سب کچھ ان سے چھینا جا چکا تھا۔ بھٹو نے 31 صنعتی یونٹ، 13 بنک ،14 انشورنش کمپنیاں ،10 شپنگ کمپنیاں اور 2 پڑٹرولیم کمپنیوں سمیت بہت کچھ نیشنلائز کر لیا۔سٹیل کارپوریشن آف پاکستان ، کراچی الیکٹرک، گندھارا انڈسٹریز ، نیشنل ریفائنریز، پاکستان فرٹیلائزرز، انڈس کیمیکلز اینڈ اندسٹریز، اتفاق فائونڈری، پاکستان سٹیلز، حبیب بنک ، یونائیٹڈ بنک ، مسلم کمرشل بنک ، پاکستان بنک ، بینک آف بہاولپور ، لاہور کمرشل بنک ، کامرس بنک ، آدم جی انشورنس، حبیب انشورنس، نیو جوبلی، پاکستان شپبگ ، گلف سٹیل شپنگ، سنٹرل آئرن ایند سٹیل سمیت کتنے ہی اداروں کو ایک حکم کے ذریعے ان کے جائز مالکان سے چھین لیا گیا۔ مزدوروں اور ورکرز کو خوش کرنے کے لیے سوشلزم کے نام پر یہ واردات اس بے ہودہ طریقے سے کی گئی شروع میں کہا گیا حکومت ان صنعتوں کا صرف انتظام سنبھال رہی ہے جب کہ ملکیت اصل مالکان ہی کی رہے گی۔ پھر کہا گیا ان ان صنعتوں کی مالک بھی حکومت ہو گی۔پہلے کہا گیا کسی کو کوئی زر تلافی نہیں ملے گا۔

پھر کہا گیا دیا جائے گا۔ کبھی کہا گیا مارکیٹ ریٹ پر دیا جائے گا پھر کہا گیا ریٹ کا تعین حکومت کرے گی۔ یوں سمجھیے ایک تماشا لگا دیا گیا۔مزدور اور مالکان کے درمیان معاملات خراب تھے یا دولت کا ارتکاز ہو رہا تھا تو اس معاملے کو اچھے طریقے سے بیٹھ کر حل کیا جا سکتا تھا۔مزدوروں کی فلاح کے لیے کچھ قوانین بنائے جا سکتے تھے لیکن بھٹو کا مسئلہ اور تھا۔ وہ مزدور اور کارکن کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ سرمایہ داروں کے خلاف انہوں نے انقلاب برپا کر دیا ہے۔یہ تاثر قائم کرتے کرتے انہوں نے پاکستانی معیشت کو برباد کر دیا۔ عمران خان کے مشیر رزاق دائود کے دادا سیٹھ احمد دائود کو جیل میں ڈال کر ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔ بعد ازاں وہ مایوس ہو کر امریکہ چلے گئے اور وہاں تیل نکالنے کی کمپنی بنا لی ۔اس کمپنی نے امریکہ میں تیل کے چھ کنویں کھودے اور کامیابی کی شرح 100 فیصد رہی۔ آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم تیل کی تلاش کی کھدائی کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کے محتاج ہیں۔ صادق دائود نے بھی ملک چھوڑ دیا ، وہ کینیڈا شفٹ ہو گئے۔ایم اے رنگون والا ایک بہت بڑا کاروباری نام تھا۔

وہ رنگون سے بمبئی آئے اور قیام پاکستان کے وقت سارا کاروبار لے کر پاکستان آ گئے۔ وہ یہاں ایک یا دو نہیںپینتالیس کمپنیاں چلا رہے تھے۔ انہوں نے بھی مایوسی اور پریشانی میں ملک چھوڑ دیا، وہ ملائیشیا چلے گئے۔ بٹالہ انجینئرنگ کمپنی والے سی ایم لطیف بھی بھارت سے پاکستان آ چکے تھے اور بادامی باغ لاہور میں انہوں نے پاکستان کا سب سے بڑا انجینئرنگ کمپلیکس قائم کیا تھا جو ٹویوٹا کے اشتراک سے کام کر رہا تھا۔یہ سب بھی ضبط کر لیا گیا۔ انہیں اس زمانے میں ساڑھے تین سو ملین کا نقصان ہوا اور دنیا نے دیکھا بٹالہ انجینئرنگ کے مالک نے دکھ اور غم میں شاعری شروع کر دی۔ رنگون والا ، ہارون ، جعفر سنز ، سہگل پاکستان چھوڑ گئے۔

کچھ نے ہمت کی اور ملک میں ہی رہے‘ جیسے دادا گروپ ، آدم جی، گل احمد اور فتح لیکن ان کا اعتماد یوں مجروح ہوا کہ پھر کسی نے انڈسٹریلائزیشن کو سنجیدہ نہیں لیا۔احمد ابراہیم کی جعفر برادرز اس زمانے میں مقامی طور پر کار بنانے کے قریب تھی ۔ہم آج تک کار تیار نہیں کر سکے۔ فینسی گروپ اکتالیس صنعتیں تباہ کروا کے یوں ڈرا کہ اگلے چالیس سالوں میں اس نے صرف ایک فیکٹری لگائی ، وہ بھی بسکٹ کی۔ہارون گروپ کی پچیس صنعتیں تھیں ، وہ اپنا کاروبار لے کر امریکہ چلے گئے۔ آج پاکستان میں ان کے صرف دو یونٹ کام کر رہے ہیں۔ کاروباری خاندان ملک چھوڑ گئے یا پاکستان میں سرمایہ کاری سے تائب ہو گئے۔

ادھر بھٹو نے صنعتیں قبضے میں تو لے لیں لیکن چلا نہ سکے۔ ان اداروں میں سیاسی کارکنوں کی فوج بھرتی کر دی گئی۔ مزدور اب سرکار کے ملازم تھے ، کام کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ نتیجہ یہ نکلا ایک ہی سال میں قومیائی گئی صنعت کا 80 فیصد برباد ہو گیا۔زرعی گروتھ کی شرح میں تین گنا کمی واقع ہوئی۔نوبت قرضوں تک آ گئی۔ جتنا قرض مشرقی اور مغربی یعنی متحدہ پاکستان نے اپنی پوری تاریخ میں لیا تھا اس سے زیادہ قرض بھٹو حکومت نے چند سالوں میں لے لیا۔ خطے میں زیادہ افراط زر پاکستان میں تھا۔ادائیگیوں کے خسارے میں 795 فیصد اضافہ ہو گیا۔سٹیٹ بنک ہر سال ایک رپورٹ پیش کرتا ہے۔ بھٹو نے چار سال سٹیٹ بنک کو یہ رپورٹ ہی پیش نہ کرنے دی تا کہ لوگوں کو علم ہی نہ ہو سکے کتنی تباہی ہو چکی۔ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ اپنی انڈسٹری اپنے ہاتھوں سے تباہ کر کے اب ہم چین کی منتیں کر رہے ہیں یہاں اندسٹری لگائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھٹو نے چار سال سٹیٹ بنک کو یہ رپورٹ ہی پیش نہ کرنے دی تا کہ لوگوں کو علم ہی نہ ہو سکے کتنی تباہی ہو چکی۔
اسی لئے 1977 کے الیکشن میں دھاندلی کی ضرورت پڑی :
’’انتخابات کے دو دن بعد حکمران جماعت کے انتہائی اہم افراد اجلاس میں شریک تھے۔ سب خوش تھے کیونکہ اکیلے ان کی پارٹی نے نو پارٹیوں کو شکست دی تھی۔ وہ سب مسکراتے چہروں کے ساتھ پی ایم ہاؤس میں موجود بھٹو کی طرف دیکھ رہے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ کب وہ کچھ بول کر خاموشی توڑ دیں۔ کچھ ہی لمحوں بعد بھٹو نے حفیظ پیرزادہ کی طرف دیکھا اور گویا ہوکر خاموشی توڑ ہی دی ’ ”حفیظ کتنی سیٹوں پر گڑ بڑ ہوئی ہوگی“؟
حفیظ پیرزادہ نے برجستہ جواب دیا ”سر تیس سے چالیس تک۔
بھٹو نے یہ سنا تو وہاں موجود تمام افراد سے پوچھا۔ ”کیا پی این اے والوں سے بات نہیں ہوسکتی کہ وہ ان تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کردیں ہم ضمنی انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیں گے؟
اس کہانی کا ذکر بھٹو مرحوم کے دست راست اور انتہائی قابل اعتماد ساتھی مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب ”اور لائن کٹ گئی“ میں کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ یہ سن کر میرے چودہ طبق روش ہوگئے کیونکہ میں پورے الیکشن کمپین کے دوران اس بات سے بے خبر رہا کہ بھٹو صاحب نے دھاندلی کا منصوبہ بھی بنایا ہے جس کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ ‘‘
بس نظام ہی پٹڑی سے اتر جاتا ہے - ہم سب

غیرجمہوری فوج کی غلطیاں ایک طرف رکھ دیں۔ یہ جو ملک کے سب سے بڑے جمہوریوں نے ملک کے ساتھ کیا ہے اس کا حساب کون دے گا؟
 

فرقان احمد

محفلین
مناسب ہوم ورک کیے بغیر اور محض سیاسی شہرت کے حصول کے لیے جو کام کیے جائیں، وہ عام طور پر گلے ہی پڑتے ہیں ۔۔۔! تاہم، یہ عمومی بیانیے بالکل غلط اور تاریخی حقائق کے برعکس ہیں کہ معیشت محض بھٹو نے برباد کر دی، ملک بھٹو نے توڑ دیا ۔۔۔! ہماری دانست میں، یہ سطحی قسم کے بیانیے ہیں؛ ان سے گریز بہتر ہے وگرنہ ہم اسی طرح تاریخی مغالطوں کا شکار رہیں گے۔ آمریت کو جواز بخشنے کے لیے چن چن کر بھٹو مرحوم کی غلطیوں کو نمایاں کیا جا رہا ہے جب کہ آمروں کی پہاڑ ایسی غلطیوں پر یوں ہی پردا پڑا ہوا ہے ۔۔۔!
 

جان

محفلین
اس آرٹیکل سے قطع نظر، پیپلز پارٹی کے خلاف خاکیان کی باقاعدہ مہم جاری ہے اور آپ کو اس طرح کے کئی مزید آرٹیکل پڑھنے کو ملیں گے۔ اس کا اصل مقصد بھٹو پہ تنقید نہیں بلکہ بھٹو کی آڑ میں پیپلز پارٹی کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور آمریت کا جواز بخشا جا رہا ہے۔
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
92 نیوز چینل کو پچھلے چند دنوں سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ چینل باقاعدہ مذہب کے نام پر سازشی تھیوریاں بیچنے اور خاکیان کے اقدامات درست ثابت کے لیے ہائر کیا گیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
تاہم، یہ عمومی بیانیے بالکل غلط اور تاریخی حقائق کے برعکس ہیں کہ معیشت محض بھٹو نے برباد کر دی
کسی بھی ملک کی معیشت میں مقامی صنعتیں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوتی ہیں۔ کیونکہ صنعتی ترقی ملک کی خام پیداوار میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ جس سے ملکی برآمداد میں اضافہ ہوتا ہے، سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھلتے ہیں اور یوں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔
بھٹو صاحب کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اقتدار میں آتے ساتھ ہی قیام پاکستان سے لے کر ایوب دور تک کا صنعتی انقلاب قومی تحویل میں دے دیا۔ جب منافع بخش نجی صنعتوں کو اس طرح بے ہنگم انداز میں قومیایا جاتا ہے تو ان میں منافع دینے اور پھلنے پھولنے کی صلاحیت یکسر ختم ہو جاتی ہے۔ یوں رفتہ رفتہ ملک اقتصادی تباہی کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔
یہی غلط کام ماضی و حال کے دیگر سوشلسٹ ممالک میں کیا جا چکا ہے۔ جس کا نتیجہ وہاں بھی مستقل اقتصادی و معاشی بحران کے سوا اور کچھ نہیں نکلا۔
تیل کے قدرتی ذخائر رکھنے والا سب سے بڑا ملک وینیزویلا آج بھی معاشی بدحالی کی وجہ سے بغاوت و انقلاب سے گزر رہا ہے۔ کیونکہ وہاں ماضی کے لیڈران نے دانستہ طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی بجائے سوشل ازم کو فروغ دیا تھا۔ جس نے تیل کی دولت کی فراوانی کے باوجود آج تک ملک کی معیشت کو اٹھنے ہی نہیں دیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
92 نیوز چینل کو پچھلے چند دنوں سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ چینل باقاعدہ مذہب کے نام پر سازشی تھیوریاں بیچنے اور خاکیان کے اقدامات درست ثابت کے لیے ہائر کیا گیا ہے۔
اسی وجہ سے چینل کے سینیر صحافی رؤف کلاسرا اور عامر متین نے حال ہی میں چینل کو خیر باد کہا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
کسی بھی ملک کی معیشت میں مقامی صنعتیں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوتی ہیں۔ کیونکہ صنعتی ترقی ملک کی خام پیداوار میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ جس سے ملکی برآمداد میں اضافہ ہوتا ہے، سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھلتے ہیں اور یوں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔
بھٹو صاحب کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اقتدار میں آتے ساتھ ہی قیام پاکستان سے لے کر ایوب دور تک کا صنعتی انقلاب قومی تحویل میں دے دیا۔ جب منافع بخش نجی صنعتوں کو اس طرح بے ہنگم انداز میں قومیایا جاتا ہے تو ان میں منافع دینے اور پھلنے پھولنے کی صلاحیت یکسر ختم ہو جاتی ہے۔ یوں رفتہ رفتہ ملک اقتصادی تباہی کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔
یہی غلط کام ماضی و حال کے دیگر سوشلسٹ ممالک میں کیا جا چکا ہے۔ جس کا نتیجہ وہاں بھی مستقل اقتصادی و معاشی بحران کے سوا اور کچھ نہیں نکلا۔
تیل کے قدرتی ذخائر رکھنے والا سب سے بڑا ملک وینیزویلا آج بھی معاشی بدحالی کی وجہ سے بغاوت و انقلاب سے گزر رہا ہے۔ کیونکہ وہاں ماضی کے لیڈران نے دانستہ طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی بجائے سوشل ازم کو فروغ دیا تھا۔ جس نے تیل کی دولت کی فراوانی کے باوجود آج تک ملک کی معیشت کو اٹھنے ہی نہیں دیا۔
یہ بھی دیکھ لیجیے ۔۔۔! :) بھٹو کی غلطیاں تو آپ ہائی لائیٹ کرتے ہی رہتے ہیں ۔۔۔! :)


کیا ایوب خان کا دور اقتصادی طور پر پاکستان کا سنہری دور تھا؟

’ایوب خان کا دور ایک لحاظ سےاچھا تھا کہ اس دور میں بہت تیزی سے اور بڑے پیمانے پر معاشی اثاثے بنے جس سے پیدوار میں بہت اضافہ ہوا۔ لیکن ترقی کرنے کے اس ماڈل نے علاقوں اور لوگوں میں آمدنی کی ناہمواری پیدا کی۔‘

’ایوب خان کے دور میں جو صنعتی ترقی ہوئی وہ پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن(پی آئی ڈی سی) نےکی۔ یہ ایک مفروضہ بنا لیا گیا ہے کہ پاکستان میں جو ترقی ہوئی وہ نجی شعبے نے کی ہے۔ یہ تاریخی طور پر غلط ہے۔ پاکستان میں صنعتوں کو جو جال بچھایا گیا وہ پی آئی ڈی سی نےبچھایا جو ایک ریاستی ادارہ تھا۔‘

’ریاست کارخانے لگاتی تھی اور اسے کمرشل بنیادوں پر چلا کر اسے پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔ یہ ماڈل ایوب خان کے دور کا نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے سے چل رہا تھا۔‘

’میں سمجھتا ہوں اگر ہمیں کوئی ماڈل چاہیے تو ہمیں کچھ ردوبدل کے ساتھ پی آئی ڈی سی کا ماڈل کو برقرار رکھنا چاہیے تاکہ صنعت کاری کا جو سلسلہ رکا ہے وہ پھر سے چلے۔‘
ایوب دور کو مستقبل کے لیے ایک مثال کے طور پر پیش کیا جانا درست ہے؟

’پاکستان کی تاریخ میں دو ادوار ایسے آئے ہیں جب بہت تیزی سے اثاثے بنے ہیں۔ ایک ایوب خان کا دور تھا اور دوسرا ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں سرکاری شعبے میں صنعتی ادارے بنائے گئے۔ اگر ایوب خان کے ماڈل کے ساتھ ناہمواری بھی آنی ہے تو یہ ماڈل نہ ہی آئےتو اچھا ہے۔‘

’ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کے چند حصوں میں ترقی ہوئی اس کے اعداد و شمار بھی موجود ہیں لیکن جو علاقائی ناہمواری تھی وہ بہت بڑھی تھی۔ لیکن جب آپ مرکزیت کے فلسفے پر آگے بڑھتے ہیں تو وہ چند علاقے جو مرکز کے قریب ہوتے ہیں یا جن کی مرکز میں نمائندگی زیادہ ہوتی ہے وہاں ترقی تو بڑھتی ہے لیکن محروم خطے اس سے بہت زیادہ دور ہو جاتے ہیں۔ اسی دور میں بہت سارے صوبائی معاملات اٹھے اور جو اتنے بڑھے کہ ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے۔‘

مرکز نے چند خاندانوں کو مضبوط کیا جنہوں نے اس دولت کو ملک کے دوسرے طبقوں کے ہاتھ میں جانے سے روکا۔ جو دولت صنعتی ترقی سے حاصل کی گئی وہ باہر کے ملکوں میں گئی۔ جب آپ ایک مخصوص طبقے کو مضبوط کرتے ہیں تو اس سے دولت نیچے سفر نہیں کرتی۔‘

’ایوب خان کے دور میں کہا گیا کہ ہم اس دولت کو نیچے کے طبقوں تک لے کر آئیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور بہت ساری دولت ملک سے باہر چلی گئی۔ پھر ایک وقت وہ آیا جب ہمیں صنعتوں کو قومیانہ پڑا کیونکہ لوگوں کے پاس روزگار نہیں تھا۔ میرے خیال میں ترقی کی یہ کہانی ایک افسانوی کہانی ہے۔‘

’نہیں میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔ میں مثال دیتا ہوں کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بلوچستان اور سندھ کےایک بڑے حصے کی پسماندگی ہے۔

’ہم جتنے مرکزیت کی طرف جائیں گے تو وہاں پسماندگی پھیلے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم اس غلطی کو ایک بار پھر دہرانے جا رہے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ اس غلطی کے اثرات زیادہ شدید ہوں گے کیونکہ صوبوں میں پہلے ہی محرومی کا احساس بڑھا ہوا ہے۔ اگر ہم مرکزیت پر زور دیں گے تو اس کے خطرناک نتائج نکلیں گے اور مجھےلگتا ہے کہ اس سےفیڈریشن کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

’ایوب خان کے دور سے ہی ہمیں بیرونی قرضوں پر انحصار کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ امریکہ اور یورپ کے ساتھ سینٹو اور سیٹو معاہدوں کے بعد ہمیں مفت میں اسلحہ ملا کرتا تھا۔ انھوں نے ہمیں کنٹونمنٹ بھی بنا کر دیے۔ اس وجہ سے ہمارے ڈیفنس بجٹ پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ اسی طرح ہمیں امریکہ سے تقریباً مفت گیہوں آتا تھا جسے ہم مارکیٹ میں بیچ کر سویلین بجٹ کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ہماری عادتیں اسی وجہ سے خراب ہوگئی ہیں۔‘

’ایوب خان کو اپنی حکومت کو برقرار رکھنےکے لیے جاگیرداروں اور کاروباری لوگوں کی حمایت چاہیے تھے۔ اسی زمانے میں کرپشن بھی بہت شروع ہو گئی۔ ان کے صاحبزادے گوہر ایوب گندھارا انڈسٹری کے مالک بن گئے۔ پھر انتخابات میں فاطمہ جناح کو جس طریقے سے ہرایا گیا وہ سب کو معلوم ہے۔ جو موجودہ دور کی خرابیاں ہیں یہ سب ایوب خان کے دورسےشروع ہو گئی تھیں۔‘

’مشرقی اور مغربی پاکستان میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں ۔ ہم ان کا پٹسن بیچ کر مغربی پاکستان پر خرچ کرتے تھے جس کی وجہ مشرقی پاکستان میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور پھر ان کے مطالبے بھی بڑھتے چلے گئے۔پاکستان سے علیحدگی کے جراثیم ایوب خان کےدور میں ہی پیدا ہوئےتھے۔‘

’پی آئی ڈی سی صنعتیں قائم کرکے اپنے دوستوں میں اونے پونے داموں میں فروخت کر دیتی تھی جس سے پورے ملک کی دولت بائیس خاندانوں کے ہاتھ میں جمع ہو گئی ہے جس سے عدم مساوات بڑھی۔‘
کیا ایوب خان کے ماڈل کو اب اپنایا جا سکتا ہے؟

’نہیں ہرگز نہیں۔ ساری دنیا میں اسی ماڈل پر ہی تو تنقید ہو رہی ہے۔ ابھی حال ہی تھامس پکٹی نے اپنی کتاب ’کیپٹل‘ میں سرمایہ داری نظام کا ایک سو سالہ اعداد و شمار کا جائزہ لے کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس سے دنیا میں معاشی ناہمواری بڑھی ہے اور دنیا کی ستر، اسی فیصد دولت صرف باسٹھ لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد درمیانی طبقے کو جو فاہدہ ہوا تھا وہ تھیچر اور رونلڈ ریگن کے دور میں ختم ہو گیا ہے۔ وہ تمام کام جو پہلے ریاست کی ذمہ داری ہوتی تھی وہ پرائیوٹ سیکٹر کو دے دیئے گئے۔ اتنی دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے کے بعد دولت مندوں نے بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو خرید لیا ہے۔

’دراصل پاکستان کی فوج ایوب خان کے دور کو بہت اچھا سمجھتی ہے ۔ میں نے پہلی دفعہ جنرل پرویز مشرف کے منہ سے ایوب خان کے دور کی تعریف سنی۔ پھر عمران خان کی تاریخ بھی اپنی مرضی کی ہے۔ عمران خان کا بچپن اور جوانی لاہور کے بہت ہی امیر علاقوں میں گذرا ہے۔ عمران خان بغیر تاریخ پڑھے پاکستان میں ترقی کو ایوب خان کے دور سے منسلک کر دیتے ہیں۔‘

’اسی طرح پاکستان کی فوج کی ادارہ جاتی یاداشت بھی اپنی ضرورت کے مطابق ہے۔ وہ صرف قرار داد مقاصد کو یاد رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ محمد علی جناح کی گیارہ اگست 1947کی تقریر کو بھول جانا چاہتے ہیں کیونکہ اس سے ان کے اپنے مفادات پر زد پڑتی ہے لیکن قرار مقاصد میں ان کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے اسی لیے ضیاالحق نے قرار داد مقاصد کو آئین کا حصہ بنا دیا۔‘

ڈاکٹر قیصر بنگالی
 

جان

محفلین
کسی بھی ملک کی معیشت میں مقامی صنعتیں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوتی ہیں۔ کیونکہ صنعتی ترقی ملک کی خام پیداوار میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ جس سے ملکی برآمداد میں اضافہ ہوتا ہے، سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھلتے ہیں اور یوں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔
بھٹو صاحب کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اقتدار میں آتے ساتھ ہی قیام پاکستان سے لے کر ایوب دور تک کا صنعتی انقلاب قومی تحویل میں دے دیا۔ جب منافع بخش نجی صنعتوں کو اس طرح بے ہنگم انداز میں قومیایا جاتا ہے تو ان میں منافع دینے اور پھلنے پھولنے کی صلاحیت یکسر ختم ہو جاتی ہے۔ یوں رفتہ رفتہ ملک اقتصادی تباہی کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔
یہی غلط کام ماضی و حال کے دیگر سوشلسٹ ممالک میں کیا جا چکا ہے۔ جس کا نتیجہ وہاں بھی مستقل اقتصادی و معاشی بحران کے سوا اور کچھ نہیں نکلا۔ تیل کے قدرتی ذخائر رکھنے والا سب سے بڑا ملک وینیزویلا آج بھی معاشی بدحالی کی وجہ سے بغاوت و انقلاب سے گزر رہا ہے۔ کیونکہ وہاں ماضی کے لیڈران نے دانستہ طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی بجائے سوشل ازم کو فروغ دیا تھا۔ جس نے تیل کی دولت کی فراوانی کے باوجود آج تک ملک کی معیشت کو اٹھنے ہی نہیں دیا۔
اس میں شک نہیں کہ سوشلزم نے کئی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لیا لیکن یہ کہنا یکسر غلط ہے کہ محض بھٹو اس کا ذمہ دار ہے۔ اس دور کے بعد پاکستان میں سوشلسٹ طبقہ تو برائے نام رہ گیا ہے۔ اس کے بعد آنے والے حکمرانوں نے کیا کیا؟ ضیا نے کیا کیا؟ مشرف نے کیا کیا؟ یہ تو خود مختار تھے اور عوام کے ووٹ سے نہ آئے تھے اس لیے ان کے پاؤں میں تو ووٹ کی بیڑیاں بھی نہیں تھیں تو انہوں نے کیا کیا ملک کے ساتھ؟ ایک نے امریکہ سے پیسے اور اسلحہ لے کر مذہبی منافرت کا آغاز کیا اور دوسرے نے امریکہ کو دہشتگردی کی آڑ میں اپنے بندے بیچے۔ سوشلزم کا کردار تو بہت کم ہے ملک کی تباہی میں، اصل وبا تو وہ ہے جو یہ دو صاحبان تحفے میں دے کر گئے تھے اور آج تک خاکیان کی سرپرستی میں پھیل رہی ہیں۔ رہی جمہوری حکومتوں کی بات تو ان میں سے کس نے اتنا عرصہ مسلسل حکومت کی ہے جتنے اکیلے اکیلے ہر ڈکٹیٹر نے کی ہے؟ سیاسی حکمرانوں کو استحکام ملا ہی کب ہے؟ کس کس طرح کے حربے نہیں کھیلے گئے ان کو غیر مستحکم کرنے میں۔ طاہر القادری صاحب کو دھرنے کے لیے کون لے کر آیا تھا؟ خادم رضوی کو کون لے کر آیا تھا؟ خان نے جو دھرنا دیا تھا وہ کس کی ایما پر تھا، کیا وہ معیشت کے لیے ساز گار تھا؟ پیپلز پارٹی کی ہر حکومت کو کس کس مسائل کا سامنا نہیں رہا؟ نواز شریف کو تین مرتبہ کس نے مدت پوری کرنے نہیں دی؟ کیا اس سے ملک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے؟ ان کے ظاہری جواز بے تحاشا ہیں اور وہی شاید آپ پیش کریں لیکن حقیقت اس ظاہر کے برعکس ہے۔ جس ملک کو بے چینی، افرا تفری، غیر یقینی صورت حال اور مذہبی منافرت کا سامنا ہو وہاں معیشت تباہ ہی ہوتی ہے۔ سرمایہ دار وہاں آتا ہے جہاں امن ہو، استحکام ہو، اس کو یقین ہو کہ اس کا پیسہ ڈوبے گا نہیں، ادارے اسے تنگ نہیں کریں گے بلکہ کاروبار کے لیے سازگار ماحول مہیا کریں گے۔ بھٹو کو گئے ہوا اتنا عرصہ بیت گیا اس کے جانے کے بعد دو آمروں کے آنے کے باوجود بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی مضبوط کیوں نہیں ہوئی؟
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
’ایوب خان کے دور میں کہا گیا کہ ہم اس دولت کو نیچے کے طبقوں تک لے کر آئیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور بہت ساری دولت ملک سے باہر چلی گئی۔ پھر ایک وقت وہ آیا جب ہمیں صنعتوں کو قومیانہ پڑا کیونکہ لوگوں کے پاس روزگار نہیں تھا۔ میرے خیال میں ترقی کی یہ کہانی ایک افسانوی کہانی ہے۔‘
یہ منافع بخش صنعتوں کو قومیانے کی ایک انتہائی بھونڈی سوشلسٹ دلیل ہے۔ قوموں کی معاشی ترقی کے ساتھ ناہمواری بھی اپنے آپ بڑھتی ہے:
income-shares-across-world.jpg

لیکن صرف اس بنیاد پر منافع بخش کاروبار کو قومیایا نہیں جا سکتا کہ ان میں جبری بھرتیاں کروا کر بیروزگاری کم ہو جائے گی۔ بھٹو کی اس غلط سوشلسٹ پالیسی سے قومی ناہمواری کیا کم ہونی تھی۔ جو صنعتی ترقی کا معاشی سفر پاکستان شروع کر چکا تھا اسے بھی تباہ و برباد کر دیا گیا۔
مثال کے طور پر شریف خاندان کی اتفاق فاؤنڈری قومیانے سے قبل ملک کی ایک بڑی اسٹیل پروڈیوسر تھی۔ جو قومیانے کے کچھ سال بعد ہی کباڑ میں تبدیل ہو گئی۔ ضیا دور میں جب میاں شریف کی لابنگ پر یہ کارخانہ واپس کیا گیا تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ یہی حال قومیائی گئی ہر دوسری بڑی صنعت کا ہوا۔
اس دانستہ معاشی بربادی کا انتقام لینے کیلئے میاں شریف نے نواز شریف کو ملکی سیاست میں لانچ کروایا تھا۔ آج یہ سیاسی خاندان دوبارہ ارب پتی ہے مگر قوم پہلے سے زیادہ مقروض اور کنگال ہو چکی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ منافع بخش صنعتوں کو قومیانے کی ایک انتہائی بھونڈی سوشلسٹ دلیل ہے۔ قوموں کی معاشی ترقی کے ساتھ ناہمواری بھی اپنے آپ بڑھتی ہے:
income-shares-across-world.jpg

لیکن صرف اس بنیاد پر منافع بخش کاروبار کو قومیایا نہیں جا سکتا کہ ان میں جبری بھرتیاں کروا کر بیروزگاری کم ہو جائے گی۔ بھٹو کی اس غلط سوشلسٹ پالیسی سے قومی ناہمواری کیا کم ہونی تھی۔ جو صنعتی ترقی کا معاشی سفر پاکستان شروع کر چکا تھا اسے بھی تباہ و برباد کر دیا گیا۔
مثال کے طور پر شریف خاندان کی اتفاق فاؤنڈری قومیانے سے قبل ملک کی ایک بڑی اسٹیل پروڈیوسر تھی۔ جو قومیانے کے کچھ سال بعد ہی کباڑ میں تبدیل ہو گئی۔ ضیا دور میں جب میاں شریف کی لابنگ پر یہ کارخانہ واپس کیا گیا تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ یہی حال قومیائی گئی ہر دوسری بڑی صنعت کا ہوا۔
اس دانستہ معاشی بربادی کا انتقام لینے کیلئے میاں شریف نے نواز شریف کو ملکی سیاست میں لانچ کروایا تھا۔ آج یہ سیاسی خاندان دوبارہ ارب پتی ہے مگر قوم پہلے سے زیادہ مقروض اور کنگال ہو چکی ہے۔
یہ تجزیہ کرنا اب آسان ہے ۔۔۔ تب کی بات کچھ اور تھی ۔۔۔ نیشنلائزیشن کا فیصلہ کافی حد تک غلط تھا اور عجلت میں کیا گیا ۔۔۔! کم از کم مناسب ہوم ورک کیا جانا چاہیے تھا ۔۔۔ !!!
 

جاسم محمد

محفلین
اس کے بعد آنے والے حکمرانوں نے کیا کیا؟ ضیا نے کیا کیا؟ مشرف نے کیا کیا؟
بھٹو کے بعد آنے والے حکمرانوں کو بھٹو دور کی غلط معاشی پالیسیز مکمل طور پر ریورس کر دینی چاہیے تھی۔ تاکہ اقتصادی ترقی کا سفر دوبارہ وہیں سے شروع ہو جہاں پر منقطع ہوا تھا۔ یوں ملک کی معاشی بربادی کا ذمہ دار بھٹو کے بعد میں والے حکمران بھی ہیں۔ بھٹو کا قصور زیادہ اس لئے ہے کیونکہ موصوف نے اس تسلسل کا آغاز کیا تھا۔
 

جان

محفلین
بھٹو کے بعد آنے والے حکمرانوں کو بھٹو دور کی غلط معاشی پالیسیز مکمل طور پر ریورس کر دینی چاہیے تھی۔ تاکہ اقتصادی ترقی کا سفر دوبارہ وہیں سے شروع ہو جہاں پر منقطع ہوا تھا۔ یوں ملک کی معاشی بربادی کا ذمہ دار بھٹو کے بعد میں والے حکمران بھی ہیں۔ بھٹو کا قصور زیادہ اس لئے ہے کیونکہ موصوف نے اس تسلسل کا آغاز کیا تھا۔
اگر قصور آغاز کرنے والے پہ ہی ڈالنا ہے تو سب سے زیادہ قصور ایوب کا ہے۔ اسی کی وجہ سے مشرقی پاکستان الگ ہوا اور اسی کا بویا ہوا بیج آج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔
 
آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
92 نیوز چینل کو پچھلے چند دنوں سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ چینل باقاعدہ مذہب کے نام پر سازشی تھیوریاں بیچنے اور خاکیان کے اقدامات درست ثابت کے لیے ہائر کیا گیا ہے۔
92 اور بول مقدس ادارے ہیں
 
92 اور بول مقدس ادارے ہیں
جی آ۔ کسان گھی والے بہت نیک لوگ ہیں پورے رمضان المبارک میں مدینہ منورہ میں افطار دیتے ہیں اور بڑی گیارہویں کے موقع پر بغداد شریف میں پورا مہینہ لنگر بھی تقسیم کرتے ہیں۔

اور دوسرا تو ہے ہی کفار، غیر مسلموں اور نالائق عربوں سے چھینے ہوئے مال غنیمت پر قائم ہوا ہوا۔ سو ان کی مقدسیت پر کوئی دو رائے نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جی آ۔ کسان گھی والے بہت نیک لوگ ہیں پورے رمضان المبارک میں مدینہ منورہ میں افطار دیتے ہیں اور بڑی گیارہویں کے موقع پر بغداد شریف میں پورا مہینہ لنگر بھی تقسیم کرتے ہیں۔

اور دوسرا تو ہے ہی کفار، غیر مسلموں اور نالائق عربوں سے چھینے ہوئے مال غنیمت پر قائم ہوا ہوا۔ سو ان کی مقدسیت پر کوئی دو رائے نہیں۔
اور اے آر وائی نیوز؟
 
اور اے آر وائی نیوز؟
اے آر وائی بطور چینل مشہور ہونے سے پہلے ملک میں صرف اور صرف خالص سونا 'مکمل قانونی' طریقے سے لانے کا قصوروار ہے۔ جو ملکی معیشت کی ڈوبتی ہوئی سانسوں کو بحال کرنے میں بہت مددگار ہوتا تھا۔ اور سنا ہے کہ یہ تعاون عوام نامی بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے رکھوالوں اور قمیض پر پیتل کے بٹن لگا کر غربت کا اظہار کرنے والوں کو ابھی بھی تحفتاً مہیا کیا جاتا ہے۔

مقدس اداروں کی فہرست میں جو اعلی اور ارفع مقام اے آر وائی کو حاصل ہے باقیوں کو اس کی گرد تک پہنچنے میں بھی سالوں لگیں گے۔
 

ربیع م

محفلین
جی آ۔ کسان گھی والے بہت نیک لوگ ہیں پورے رمضان المبارک میں مدینہ منورہ میں افطار دیتے ہیں اور بڑی گیارہویں کے موقع پر بغداد شریف میں پورا مہینہ لنگر بھی تقسیم کرتے ہیں۔

اور دوسرا تو ہے ہی کفار، غیر مسلموں اور نالائق عربوں سے چھینے ہوئے مال غنیمت پر قائم ہوا ہوا۔ سو ان کی مقدسیت پر کوئی دو رائے نہیں۔
اب اندر کی مزید کہانیوں کے متحمل یہ صفحات نہیں ہو سکتے
 
Top