پاکستانی معیشت: حیرت انگیز انکشافات

موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں پاکستان کے ملکی و بیرونی قرضوں میں تاریخی تیز رفتاری سے اضافہ ہوا، سرمایہ کاروں نے ہاتھ کھینچ لیا۔مہنگائی، بیروزگاری میں انتہائی اضافہ ہوا۔ موجودہ حکومت نے بھی ”امداد نہیں تجارت“ کا نعرہ لگایا مگر دنیا بھر میں کشکول لئے گھومتے رہے نتیجتاً مجموعی تجارت کا حجم جو مالی سال 2008ءمیں تقریباً 59/ارب ڈالر تھا مالی سال 2010ءمیں تقریباً 54/ارب ڈالر رہ گیا جبکہ ملک کے مجموعی قرضوں اور واجبات کا حجم جو جون 2008ءمیں 6691/ارب روپے تھا صرف 30ماہ بعد دسمبر 2010ءمیں بڑھ کر 11000/ارب روپے ہوگیا جوکہ 4300/ارب روپے کے اضافے کو ظاہر کرتا ہے حالانکہ اس سے قبل کے دو برسوں میں اس مد میں 1900/ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔

وطن عزیز میں کرپشن، ٹیکس کی چوری اور شاہانہ اخراجات وغیرہ کی وجہ سے قومی خزانے کو ہونے والے نقصانات تو موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے بھی ہوتے رہے تھے جن میں کچھ اضافہ یقیناً ہوا ہے مگر اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا جانا چاہئے کہ معیشت کی زبردست تباہی کی اہم وجہ یہ ہے کہ این آر او کے کندھوں پر سوار ہو کر اور امریکی آشیرباد سے اقتدار میں آنے والی حکومت نے 26ستمبر 2008ءکو فرینڈز آف پاکستان گروپ کے ساتھ ایک سودے کے نتیجے میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر پاکستان کے اندر لڑی جانے والی جنگ میں عملاً امریکہ کو اپنا تیکنیکی پارٹنر بنانا منظور کیا اور اس کے صلے میں تباہ کن معاشی شرائط پر آئی ایم ایف سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ حاصل کیا۔ وطن عزیز پر مزید تیزی سے ڈرون حملے کرنے کی اجازت دینا اور سوات و جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنا بھی اسی سودے کا اعجاز ہے۔

دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ سے جولائی 2005ءسے جون 2008ء کے 36ماہ میں پاکستان کی معیشت کو 18.7/ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا لیکن صدر زرداری کا اپنے عہدہ کا حلف اٹھانے کے17دن بعد فرینڈز آف پاکستان کے ساتھ کئے گئے سودے کے نتیجے میں اگلے 32ماہ میں پاکستان کی معیشت کو 30/ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا ہے جس کے معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ اس موضوع پر ملک میں زیادہ بات نہیں کی جا رہی کیونکہ قومی اسمبلی سے باہر کی سیاسی پارٹیاں بھی ایک حد سے زیادہ امریکہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں۔ اسی سودے کے تحت پاکستانی سیکورٹی ایجنسی کی کلیئرنس کے بغیر واشنگٹن اور ابوظبی میں پاکستانی سفیروں نے کئی سو امریکیوں کو حیرت انگیز سرعت کے ساتھ ویزے جاری کئے اور ریمنڈ جیسے سیکڑوں سی آئی اے اور بلیک واٹر کے کنٹریکٹرز پاکستان میں داخل ہو کر پاکستان دشمن کارروائیوں میں ملوث ہوگئے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے 30/اکتوبر 2009ءکو تسلیم کیا تھا کہ پاکستان میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کے جو افراد موجود ہیں ان میں سے بیشتر کو سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔

امریکہ فرینڈز آف پاکستان، آئی ایم ایف اور بھارت سے گٹھ جوڑ کر کے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے۔ ممتاز امریکی دانشور نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی اشرافیہ کو خرید لیا ہے ہمارے کچھ سیاستدان و تجزیہ نگار جو امریکہ مخالف بیانات (ممکنہ طور پر امریکہ کی اجازت سے) جاری کرتے ہیں ان کو ان اصحاب کے ماضی کے بیانات اور تجزیوں کی روشنی میں بھی دیکھا جانا چاہئے۔ اس وقت امریکی آشیرباد سے اقتدار میں آنے کی خواہش رکھنے والے کچھ سیاستدان دراصل ”اِن ہاوس“ تبدیلی کیلئے سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی گزشتہ 3برسوں سے امریکی پالیسیوں کے بڑے مداح رہے ہیں چند حقائق نذر قارئین ہیں۔

(1) گزشتہ 2برسوں سے صرف ہم ہی تسلسل سے کہتے رہے ہیں کہ فرینڈز آف پاکستان گروپ نے پاکستان کو نقد رقوم دینے کا کوئی وعدہ نہیں کیا ہے اور حکومت و اسٹیٹ بینک کے تمام دعوے غلط ہیں۔ شاہ محمود قریشی 17/اکتوبر 2009ءکو یہ تسلیم کر بیٹھے کہ اس گروپ سے پاکستان کو کوئی رقم ملنا ہی نہیں تھی جس سے حکمران سکتے میں آ گئے۔ قریشی صاحب نے جولائی 2010ءمیں اپنا بیان بدل کر کہا کہ اس گروپ سے پاکستان کو 2.2/ارب ڈالر مل چکے ہیں اور بقایا 3/ارب ڈالر اکتوبر تک مل جائیں گے یہ دونوں باتیں غلط تھیں۔

(2) دہشت گردی کی جنگ سے پاکستان کی معیشت کو 13/ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے مگر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کیری لوگر ایکٹ کے تحت ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ ملنے سے پاکستان کی معیشت میں انقلاب آجائے گا!!

(3)کیری لوگر بل کی منظوری کے فوراً بعد سے امریکہ نے پاکستان پر ڈرون حملوں کی رفتار تین گنا کر دی۔ اقوام متحدہ نے ان حملوں کو عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان حملوں سے معصوم شہری جاں بحق ہو رہے ہیں مگر قریشی صاحب کا ضمیر اس ریاستی دہشت گردی پر بھی نہیں جاگا۔

(4) دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ پاکستان کیلئے تباہی کا نسخہ رہی ہے مگر 9 جون 2010ءکو شاہ محمود صاحب نے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنا حکومت کی اگلی ترجیح ہے۔

(5) حکومت پاکستان کی درخواست پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دور میں دسمبر 2008ءمیں چین نے ویٹو کرنے کے بجائے سلامتی کونسل میں اس قرارداد کی حمایت کی جس میں پاکستان کی تین جہادی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا اس طرح کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔

http://www.karachiupdates.com/v2/in...02-01&catid=105:2009-10-10-16-56-29&Itemid=33
 
Top