سید رافع
محفلین
ایک مختصر مگر جامع کتاب فن لینڈ کا نظام تعلیم کا مطالعہ کرنا ہوا۔ سوچا کیوں نا پاکستانی والدین تک اس کے خاص نکات پہنچاوں۔
فن لینڈ کے اِس قدر بہترین تعلیمی نظام کے پس منظر کو دیکھا جائے تو یہ بات نہایت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے کہ اُنھوں نے اِس راز کو پا لیا ہے کہ اقوام کی لازوال بقا اور ناقابل تسخیر ترقی و خوشحالی فوجی اور عسکری قوتوں میں نہیں بلکہ علم کی طاقت میں ہوتی ہے۔ کوئی قوم جغرافیائی لحاظ سے اگر کسی فوجی و عسکری قوت کے اندھا دھند زور سے تباہ و برباد بھی کر دی جائے۔ لیکن وہ نظریاتی لحاظ سے تب تک مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹائی نہیں جا سکتی کہ جب تک کوئی اُس قوم کی قومی انفرادیت کے تحت علمی ذہانت کو مکمل طور پر ختم نہ کر دئے۔ پاکستانی والدین کے لیے بھی یہ بات اب راز نہیں رہنی چاہیے اور انہیں اپنی اولاد کو بہترین سے بہترین تعلیم کے حصول کے لیے اسکولز کے ساتھ مل کر ضروری ماحول پیدا کرنا چاہیے۔
۱) فن لینڈ کے اسکولز میں صرف 7 سالہ بچوں کو ہی داخلہ دیا جاتا ہے، یعنی فن لینڈ میں لازمی تعلیم کی عمر 7 سال سے شروع ہوتی ہے۔ اِس 7 سالہ عمر کی حد کے پیچھے میرے مطابق یہ حکمت کارِ فرما ہو سکتی ہے کہ بچے اِسی 7 سال کی ابتدائی عمر سے قبل شعوری اور لا شعوری طور پر اپنی بقیہ تمام زندگی کی تمام تر ترجیحات، جذبات اور نظریات کی سرسری اور نا پختہ بنیادیں رکھتے ہیں جو کہ پھر بقیہ زندگی کے ماحولیاتی اور نظریاتی اثرات کے ارتقائی منازل سے گزرتی ہوئی مزید پختہ ہو جاتی ہیں۔
۲) فن لینڈ میں ایک ملازمت یافتہ فنش ماں کو بچے کی پیدائش پر حکومت کی جانب سے ملازمت سے، مکمل چار ماہ کی چھٹی کے ساتھ ساتھ پوری تنخواہ بھی دی جاتی ہے اور اگر اِس کے بعد بھی والدین میں سے کوئی ایک اپنے بچے کی نگہداشت کے لیے ملازمت سے چھٹی لینا مناسب سمجھے تو اُسے مزید چھ ماہ کی چھٹی پوری تنخواہ کے ساتھ بآسانی دی دئے جاتی ہے۔ نیز فنش حکومت کی جانب سے، اہلیت کے معیار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فنش والدین کو بچے کی پیدائش پر ایک خطیر رقم ’چائیلڈ بینیفٹ سکیم‘ کے تحت دی جاتی ہے یہ سکیم بچے کے 17 سال کے ہونے تک جاری و ساری رہتی ہے اِس سکیم کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اِس سے والدین کے لیے رسمی تعلیم سمیت غیر رسمی گھریلو تعلیم کی فراہمی کو مالی اعتبار سے بھی یقینی بنایا جا سکے ۔
۳) فن لینڈ میں تمام تر تعلیمی ادارے سرکاری تحویل یا نگرانی کے زیر اثر ہیں یعنی فن لینڈ میں کوئی شخص تعلیم کی فراہمی کے نام پر ذاتی ملکیت کی نوعیت کے مہنگے ترین تعلیمی کاروباری اڈے ’پرائیوٹ ایجوکیشن سنٹر‘ چلا ہی نہیں سکتا ہے لہذا وہاں تعلیم کا حصول نہایت آسان، عام اور مفت ہے نیز اسکول کی تعلیم سے وابستہ تمام اشیاء مفت فراہم کی جاتی ہیں مثلاً کتابیں، بستے اور سامان اسٹیشنری وغیرہ مفت تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ہاں البتہ یہ الگ بات ہے فنش اسکولز میں بہت زیادہ کتابوں، کاپیوں اور بھاری بھر کم بیگ کا کوئی تصور تک موجود نہیں ہے۔ بہرحال اِسی مفت مساوی فنش تعلیم کی وجہ سے ہی فنش اسکولز کے مابین زیادہ داخلوں کی دوڑ اور اچھے اور بُرے اسکولز کی جاگیرداری قائم نہیں ہو پاتی ہے۔
۴)فن لینڈ کے تمام تر تعلیمی اداروں میں سرکاری سطح پر ایک ہی تعلیمی نظام اور نصاب رائج ہے اور اِسی طرح مالی یا نسلی برتری کی تمیز روا رکھے بغیر ہر فنش شہری کو یکساں تعلیمی نظام سے مستفید کیا جاتا ہے۔ جس سے فنش طالبانِ علم میں مساوات اور انفرادی خود اعتمادی جیسی عظیم خصوصیات جنم لیتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اِسی یکساں تعلیمی نظام کی برکت سے فنش طالبانِ علم میں بچپن ہی سے طبقہ واری سوچ کا خاتمہ کرنے کی حد درجہ کاوش کی جاتی ہے۔
۵) حکومتِ فن لینڈ 1948ء سے اپنے تعلیمی اداروں میں ہائی اسکولز کی سطح تک مفت دوپہر کا کھانا ’’اسکول مِیل‘‘ فراہم کر رہی ہے اور اِس حوالے سے فن لینڈ دنیا کا وہ سب پہلا ملک ہے کہ جس نے ایک وسیع پیمانے پر، یعنی اپنی ملکی سطح پر، شعبۂ تعلیم و تدریس کے لیے مفت خوراک رسانی کے نظام کو متعارف کروایا۔ یہ دوپہر کا کھانا ایک بڑی پلیٹ پر مشتمل ہوتا ہے۔ کھانے کی پلیٹ کا آدھا حصہ تازہ سلاد اور پکی ہوئی سبزیوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ ایک اُبلے آلو، پاستہ یا چاولوں نے پلیٹ کا ایک تہائی حصہ گھیرا ہوتا ہے۔ آخری ایک چوتھائی حصے میں کٹی مچھلی کے گوشت کا ایک ٹکڑا یا مارجرین اور بریڈ ہوتا ہے۔ (مچھلی کا گوشت صرف گوشت خور طلباء کو اُن کی مرضی و پسند کی بنا پر فراہم کیا جاتا ہے۔) نیز مشروبات میں ایک پانی اور ایک دُودھ کا بھرا ہوا گلاس پینے کی خاطر فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ دوپہر کے کھانے کے یہ وہ بنیادی اجزاء ہے جو کہ طبی لحاظ سے ایک نہایت متوازن اور صحت مند غذا کو جنم دیتے ہیں۔
۶) فن لینڈ کے تمام تعلیمی اداروں میں اسکول کی ابتدائی تعلیم سے لے کر یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیمی سطح تک طالبان علم پر کوئی خاص وردی یا مخصوص یونیفارم کو مسلط نہیں کیا گیا ہے۔ گویا فنش طلباء اپنے سارے زمانۂ طالب علمی میں اپنی پسند کا لباس پہنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں کہ جس میں وہ خود کو پُر سکون اور محفوظ محسوس کریں اور اِسی طرح ناخنوں اور بالوں کو بڑھانے، رنگنے یا کسی بھی من پسندیدہ انداز سٹائل میں رکھنے کے حوالے سے بھی کوئی پابندی عائد نہیں ہے اور نہ ہی کوئی جسمانی زیبائش و آرائش پر قدغن لگائی گئی ہے۔ بس اِن سب آزادیوں کے پس منظر میں ایک بنیادی شرط کارِ فرما ہے کہ جسمانی زیبائش و آرائش اور لباس و حلیہ علاقائی اور معاشرتی اعتبار سے غیر مہذبانہ نہ ہوں۔
۷) فنش اسکولز کی کلاسز میں بچوں کو روایتی کرسیوں پر بٹھانے کی بجائے نہایت آرام دہ فرشی صوفوں (بین بیگز) پر بیٹھایا جاتا ہیں کیونکہ فنش ماہرینِ تعلیمی نفسیات کے مطابق بچے فرشی صوفوں (بین بیگز) پر بیٹھ کر 20% زیادہ سیکھتے ہیں۔ تاہم مزید یہ کہ فرشی صوفوں (بین بیگز) پر بیٹھنے کے علاوہ بھی طلباء کسی بھی اپنی پسندیدہ مناسب حالت میں یعنی لیٹ کر، چلتے ہوئے، چار زانو بیٹھ کر یا ٹیک لگاتے ہوئے پڑھ سکتے ہیں۔ کیونکہ مقصد تو صرف بہترین طور پر پڑھنا اور سیکھنا ہی ہے۔
۸) فن لینڈ کے تعلیمی اداروں میں یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ آپ صرف اپنے تعلیمی ادارے یا اپنی کلاس کی جغرافیائی حدود میں ہی قید ہو کر روایتی طریقے سے پڑھیں، بلکہ آپ ادارے یا اپنی کلاس سے باہر کسی بھی پُر سکون و دلنشین مقام پر کلاسز لیتے ہوئے پڑھ سکتے ہیں مثلاً ندی یا سمندر کے کنارے روح پرور رومانوی ہواؤں کے سنگ، جنگل میں سایہ دار درختوں کے سائے تلے یا پارک کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وغیرہ۔ کیونکہ فنش اساتذہ کا ماننا ہے کہ ہر جگہ پر سِیکھا اور سکھایا جا سکتا ہے اور اِس اعتبار سے فنش طلباء کے لیے فن لینڈ کی ساری زمین ہی ایک وسیع علمی درسگاہ (کلاس) کی حیثیت رکھتی ہے
۹) فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں میرے لیے اِک بے حد مُتاثر کن اور پُر کشش بات یہ بھی ہے کہ وہاں طلباء کو اساتذہ یا انتظامی عملے کی جانب سے کسی بھی قسم کی سزا یا پُر تشدد رویے کا سامنا ہرگز نہیں ہوتا ہے یعنی کہ فنش تعلیمی اداروں میں مار کٹائی، تذلیل یا کسی بھی حوالے سے جسمانی یا ذہنی تشدد کرنا نہ صرف قانونی جرم ہے ۔
۱۰) 2016ء تک فن لینڈ کے اسکولز میں بہت کم ہوم ورک دیا جا تا تھا۔ جبکہ 2016 ء کے بعد اِسے مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔ تاکہ بچے اسکول سے چھٹی کے بعد اپنے خاندان، دوستوں اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو وقت دے سکیں، اور ہوم ورک کے ذہنی دباؤ سے بالاتر ہو کر، اپنے ذاتی، عملی و نظریاتی مشاہدات کے زیرِ سایہ اپنے بچپن کو، خوب آزادانہ انداز میں جی سکے۔
۱۱) فن لینڈ کے اسکولز میں ٹیکنالوجی، جدید ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ وغیرہ کا تعلیمی مقاصد کے لیے بھر پور استعمال کیا جاتا ہے اور طلباء کو مختلف عوامی ویب سائٹز اور کئی مخصوص دلچسپ تعلیمی ایپس مثلاً :یو ٹیوب، گوگل، فیس بک، پلانٹ نیٹ، پکچر دِیس، ڈولنگو، برڈ نیٹ، وغیرہ اور دیگر بہت سی چھوٹی، بڑی تعلیمی ایپس سے تعلیم فراہم کی جاتی ہے نیز علمی تحقیق و تعلم کے حوالے سے طلباء کو وسیع پیمانے پر انٹرنیٹ ویب سائٹس کا ہمہ پہلو استعمال سکھایا جاتا ہے۔
۱۲) تفریح کے حوالے سے فن لینڈ میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’جو علم آپ مزے اور لطف کے بغیر سیکھتے ہیں اُسے آپ جلد ہی آسانی سے بھول جاتے ہیں۔‘ لیکن جب فن لینڈ کی اِس مشہورِ زمانہ کہاوت سے بے خبر ایک امریکی محقق نے فنش اسکولز کے مختلف اوقات میں دورے کیے تو ہر بار یہی دیکھا کہ وہاں ہر وقت بچے شور و غل کرتے ہوئے، کھیل و کود میں مگن ہوتے ہیں۔ یہ دلچسپ منظر دیکھنے کے بعد وہ بہت حیران ہوا اور اسکول انتظامیہ سے پوچھا کہ ’’یہ پڑھتے کب ہیں، اور اتنے اچھے نمبر کیسے لے لیتے ہیں؟‘‘ تو اُسے بتاتا گیا کہ یہاں طالب علموں کو ہر 45 منٹ کی کلاس کے بعد 15 منٹ کی تفریح دی جاتی ہے جبکہ فن لینڈ میں اسکول کا عموماً دورانیہ 9:00 یا 9:45 تا 2:00 یا 2:45 بجے تک، تقریباً 5 گھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے یعنی اِن 5 گھنٹوں میں بھی 15، 15 منٹوں کی تفریحات کو ملا کر کل 75 منٹ کی تفریح وقفے وقفے سے دی جاتی ہے۔
۱۳) فنش اسکولز میں بازیچۂ اطفال ٹیکنالوجی اور جسمانی کھیلوں کی سہولیات سے مزین ہوتے ہیں۔ نیز تفریح کے اوقات میں طلباء کو کلاسز سے باہر بازیچۂ اطفال میں جا کر کھیلنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔
۱۴) فن لینڈ کے اسکولز میں طلباء کی ذہنی سطح کے پیشِ نظر کسی بھی قسم کی ذہنی درجہ بندی کرنے کو جرم خیال کیا جاتا ہے۔ یعنی کہ وہاں طلباء کو ذہنی سطح کی نام نہاد پیمائش کے مرحلے سے گزارتے ہوئے لائق یا نالائق اور ’سکشن اے-بی-ڈی یا سی‘ جیسے طبقاتی درجوں میں ہرگز تقسیم نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ وہ اِس بات سے بخوبی طور پر آگاہ ہیں کہ ہر بچہ الگ الگ اکتسابی یا پیدائشی ’گاڈ گفٹیڈ‘ خصوصیات کے ساتھ ذہین ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ بچہ آپ کے تعلیمی یا معاشرتی اقدار کی وضع کردہ ذہانت کی ایک، دو یا چند مخصوص نشانیوں پر پورا نہ اُتر پائے، پھر اگرچہ وہ دیگر کئی حوالوں سے ذہانت کے اعلیٰ ترین مراتب پر فائض ہو ۔
۱۵) فن لینڈ کے اسکولز میں طلباء سے ابتدائی تقریباً 8 سالوں تک کسی بھی قسم کا معیاری، رسمی یا لازمی امتحان ہرگز نہیں لیا جاتا ہے۔ یعنی کہ اگر ایک بچے نے 7 سال کی عمر میں اسکول میں داخلہ لیا ہے تو اُس سے پہلا باضابطہ تحریری امتحان تقریباً تقریباً 15 سال کی عمر میں لیا جائے گا۔ اِس 8 سالہ آزاد امتحانی دورانیے میں اساتذہ خود ہی ایک طالب علم کی کار کردگی کے معیار کو پرکھتے ہوئے، اُس کی تعلیمی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں اور طلباء کی غلطیوں اور کمزوریوں کو پُر امن علمی طریقے سے آگاہ کرتے ہوئے، اصلاح کی بھرپور کاوشیں کرتے ہیں نیز اِس دورانیے میں بچے کی تعلیمی کار کردگی سے والدین کو بھی مکمل طور پر باخبر رکھا جاتا ہے۔ گویا اِس 8 سالہ آزاد امتحانی طریقہ کار سے معیاری، رسمی اور باضابطہ امتحانات لیے بغیر ہی ہر سال والدین کے سامنے زبانی مشاورت یعنی والدین-اساتذہ گفت و شنید (پیرنٹس ٹیچرز میٹنگ) کے ذریعے ایک سالانہ تعلیمی رزلٹ کارڈ رکھ دیا جاتا ہے۔
۱۶) فن لینڈ میں لفظی رٹا لگانا اِک قابل مزاحمت تعلیمی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں میری لفظی رٹا لگانے کی اصطلاح سے مراد خصوصاً یہ ہے کہ ایسی معلومات یا علم جو طالب علم صحیح غور و تفکر کیے بغیر، صرف تیز زبانی کے سہارے اِس توجہ سے یاد کرے کہ اُس کا ذہنی حافظہ بمشکل صرف الفاظ یا جملوں کی ترتیب کو محفوظ کر پائے ناکہ معلومات یا علم کے حقیقی فہم یا مطالب کو سمجھے۔ لہذا اہلِ فن لینڈ بھی لفظی رٹا بازی کی اِسی تعریف کے پیشِ نظر یہ بات بخوبی طور پر جانتے ہیں کہ لفظی رٹا بازی سے حاصل کردہ معلومات کے ذریعے طلباء امتحانات میں با مشقت طریقے سے اعلیٰ نمبر یا ایک کھوکھلی کاغذی سند تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن معلومات یا علم کے حقیقی فہم اور علمی اطلاق کا عشر عشیر بھی حاصل کر نہیں پاتے ہیں کہ جس سے طالبانِ علم صرف انسان نما روبوٹ یا وکی- پیڈین طلباء کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔
۱۷) پیشہ وارانہ تعلیم (وُکیشنل ایجوکیشن) بنیادی طور پر ایسی تعلیم ہے کہ جو لوگوں کو مختلف ہنر یا ملازمتوں جیسے تجارت، دستکاری یا بطور ٹیکنیشین کام کرنے کے لئے تیار کرتی ہے۔ اِسی بنا پر پیشہ ورانہ تعلیم کو اکثر تعلیمِ ہنر، فنی یا تکنیکی (ٹیکنیکل) تعلیم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تعلیم عالمی سطح پر اُن طلباء کے مالی مستقبل اور ذہنی ہم آہنگی کے لیے نہایت کار آمد تصور کی جاتی ہے کہ جن کا شوق عام رسمی تعلیم سے ہٹ کے تعلیمِ ہنر سیکھنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ یہ پیشہ وارانہ تعلیم کا ایک عمومی تعارف ہے اور فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں اِسی پیشہ وارانہ تعلیم کو نہایت اعلیٰ اہمیت و افادیت حاصل ہے یعنی فن لینڈ میں پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر کو سائنسی علوم کی تعلیم کی طرح ہی قابل رشک اور عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ایک فنش طالب علم کو اسکول کی نو سالہ ابتدائی تعلیم کے بعد سولہ سال کی عمر میں ہی یہ اختیار دے دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو باقاعدہ رسمی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرے یا پھر وہ اعلیٰ یونیورسٹی تعلیم کا انتخاب کرے۔
۱۸) غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) طریقۂ تدریس فنش طلباء میں نہ صرف تخلیقی، تقابلی اور تنقیدی سوچ کی نشو و نما کرتا ہے بلکہ اُنھیں جدید ٹیکنالوجیکل ذرائع علم سے باہمی تعاون تلے اجتماعی تحقیق (گروپ ری-سرچ) کرنے، طلباء میں دوستانہ علمی ماحول کو برقرار رکھنے، عملی اور تجرباتی اعلیٰ ذہنیت کی تعمیر و تشکیل کے ساتھ ساتھ دلچسپ اور دیر-پا آموزش کی ذہن نشینی کو بھی یقینی بناتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُنھیں اساتذہ کے وضع کردہ دائرے کے باہر خود مختاری اور آزادی سے سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی بخشتا ہے۔ لہذا میں اِنھی سب اسباب و فوائد اور درج ذیل بالا سارے مقدمے کی بنا پر غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) طریقۂ تدریس کو کسی موضوع یا مسئلے میں ایک حد درجہ پی۔ ایچ ڈی کرنے کے مترادف سمجھتا ہوں اور اِسی ضمن میں غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) کی مختصر لیکن جامع اور آسان فہم تعریف بھی پیشِ خدمت ہے کہ غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) دراصل کسی مسئلے یا موضوع میں تنقیدی، تقابلی، تخلیقی اور عملی طریقہ کار سے اعلیٰ فہم حاصل کرنے کا نام ہے۔
فن لینڈ کے اِس قدر بہترین تعلیمی نظام کے پس منظر کو دیکھا جائے تو یہ بات نہایت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے کہ اُنھوں نے اِس راز کو پا لیا ہے کہ اقوام کی لازوال بقا اور ناقابل تسخیر ترقی و خوشحالی فوجی اور عسکری قوتوں میں نہیں بلکہ علم کی طاقت میں ہوتی ہے۔ کوئی قوم جغرافیائی لحاظ سے اگر کسی فوجی و عسکری قوت کے اندھا دھند زور سے تباہ و برباد بھی کر دی جائے۔ لیکن وہ نظریاتی لحاظ سے تب تک مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹائی نہیں جا سکتی کہ جب تک کوئی اُس قوم کی قومی انفرادیت کے تحت علمی ذہانت کو مکمل طور پر ختم نہ کر دئے۔ پاکستانی والدین کے لیے بھی یہ بات اب راز نہیں رہنی چاہیے اور انہیں اپنی اولاد کو بہترین سے بہترین تعلیم کے حصول کے لیے اسکولز کے ساتھ مل کر ضروری ماحول پیدا کرنا چاہیے۔
۱) فن لینڈ کے اسکولز میں صرف 7 سالہ بچوں کو ہی داخلہ دیا جاتا ہے، یعنی فن لینڈ میں لازمی تعلیم کی عمر 7 سال سے شروع ہوتی ہے۔ اِس 7 سالہ عمر کی حد کے پیچھے میرے مطابق یہ حکمت کارِ فرما ہو سکتی ہے کہ بچے اِسی 7 سال کی ابتدائی عمر سے قبل شعوری اور لا شعوری طور پر اپنی بقیہ تمام زندگی کی تمام تر ترجیحات، جذبات اور نظریات کی سرسری اور نا پختہ بنیادیں رکھتے ہیں جو کہ پھر بقیہ زندگی کے ماحولیاتی اور نظریاتی اثرات کے ارتقائی منازل سے گزرتی ہوئی مزید پختہ ہو جاتی ہیں۔
۲) فن لینڈ میں ایک ملازمت یافتہ فنش ماں کو بچے کی پیدائش پر حکومت کی جانب سے ملازمت سے، مکمل چار ماہ کی چھٹی کے ساتھ ساتھ پوری تنخواہ بھی دی جاتی ہے اور اگر اِس کے بعد بھی والدین میں سے کوئی ایک اپنے بچے کی نگہداشت کے لیے ملازمت سے چھٹی لینا مناسب سمجھے تو اُسے مزید چھ ماہ کی چھٹی پوری تنخواہ کے ساتھ بآسانی دی دئے جاتی ہے۔ نیز فنش حکومت کی جانب سے، اہلیت کے معیار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فنش والدین کو بچے کی پیدائش پر ایک خطیر رقم ’چائیلڈ بینیفٹ سکیم‘ کے تحت دی جاتی ہے یہ سکیم بچے کے 17 سال کے ہونے تک جاری و ساری رہتی ہے اِس سکیم کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اِس سے والدین کے لیے رسمی تعلیم سمیت غیر رسمی گھریلو تعلیم کی فراہمی کو مالی اعتبار سے بھی یقینی بنایا جا سکے ۔
۳) فن لینڈ میں تمام تر تعلیمی ادارے سرکاری تحویل یا نگرانی کے زیر اثر ہیں یعنی فن لینڈ میں کوئی شخص تعلیم کی فراہمی کے نام پر ذاتی ملکیت کی نوعیت کے مہنگے ترین تعلیمی کاروباری اڈے ’پرائیوٹ ایجوکیشن سنٹر‘ چلا ہی نہیں سکتا ہے لہذا وہاں تعلیم کا حصول نہایت آسان، عام اور مفت ہے نیز اسکول کی تعلیم سے وابستہ تمام اشیاء مفت فراہم کی جاتی ہیں مثلاً کتابیں، بستے اور سامان اسٹیشنری وغیرہ مفت تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ہاں البتہ یہ الگ بات ہے فنش اسکولز میں بہت زیادہ کتابوں، کاپیوں اور بھاری بھر کم بیگ کا کوئی تصور تک موجود نہیں ہے۔ بہرحال اِسی مفت مساوی فنش تعلیم کی وجہ سے ہی فنش اسکولز کے مابین زیادہ داخلوں کی دوڑ اور اچھے اور بُرے اسکولز کی جاگیرداری قائم نہیں ہو پاتی ہے۔
۴)فن لینڈ کے تمام تر تعلیمی اداروں میں سرکاری سطح پر ایک ہی تعلیمی نظام اور نصاب رائج ہے اور اِسی طرح مالی یا نسلی برتری کی تمیز روا رکھے بغیر ہر فنش شہری کو یکساں تعلیمی نظام سے مستفید کیا جاتا ہے۔ جس سے فنش طالبانِ علم میں مساوات اور انفرادی خود اعتمادی جیسی عظیم خصوصیات جنم لیتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اِسی یکساں تعلیمی نظام کی برکت سے فنش طالبانِ علم میں بچپن ہی سے طبقہ واری سوچ کا خاتمہ کرنے کی حد درجہ کاوش کی جاتی ہے۔
۵) حکومتِ فن لینڈ 1948ء سے اپنے تعلیمی اداروں میں ہائی اسکولز کی سطح تک مفت دوپہر کا کھانا ’’اسکول مِیل‘‘ فراہم کر رہی ہے اور اِس حوالے سے فن لینڈ دنیا کا وہ سب پہلا ملک ہے کہ جس نے ایک وسیع پیمانے پر، یعنی اپنی ملکی سطح پر، شعبۂ تعلیم و تدریس کے لیے مفت خوراک رسانی کے نظام کو متعارف کروایا۔ یہ دوپہر کا کھانا ایک بڑی پلیٹ پر مشتمل ہوتا ہے۔ کھانے کی پلیٹ کا آدھا حصہ تازہ سلاد اور پکی ہوئی سبزیوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ ایک اُبلے آلو، پاستہ یا چاولوں نے پلیٹ کا ایک تہائی حصہ گھیرا ہوتا ہے۔ آخری ایک چوتھائی حصے میں کٹی مچھلی کے گوشت کا ایک ٹکڑا یا مارجرین اور بریڈ ہوتا ہے۔ (مچھلی کا گوشت صرف گوشت خور طلباء کو اُن کی مرضی و پسند کی بنا پر فراہم کیا جاتا ہے۔) نیز مشروبات میں ایک پانی اور ایک دُودھ کا بھرا ہوا گلاس پینے کی خاطر فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ دوپہر کے کھانے کے یہ وہ بنیادی اجزاء ہے جو کہ طبی لحاظ سے ایک نہایت متوازن اور صحت مند غذا کو جنم دیتے ہیں۔
۶) فن لینڈ کے تمام تعلیمی اداروں میں اسکول کی ابتدائی تعلیم سے لے کر یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیمی سطح تک طالبان علم پر کوئی خاص وردی یا مخصوص یونیفارم کو مسلط نہیں کیا گیا ہے۔ گویا فنش طلباء اپنے سارے زمانۂ طالب علمی میں اپنی پسند کا لباس پہنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں کہ جس میں وہ خود کو پُر سکون اور محفوظ محسوس کریں اور اِسی طرح ناخنوں اور بالوں کو بڑھانے، رنگنے یا کسی بھی من پسندیدہ انداز سٹائل میں رکھنے کے حوالے سے بھی کوئی پابندی عائد نہیں ہے اور نہ ہی کوئی جسمانی زیبائش و آرائش پر قدغن لگائی گئی ہے۔ بس اِن سب آزادیوں کے پس منظر میں ایک بنیادی شرط کارِ فرما ہے کہ جسمانی زیبائش و آرائش اور لباس و حلیہ علاقائی اور معاشرتی اعتبار سے غیر مہذبانہ نہ ہوں۔
۷) فنش اسکولز کی کلاسز میں بچوں کو روایتی کرسیوں پر بٹھانے کی بجائے نہایت آرام دہ فرشی صوفوں (بین بیگز) پر بیٹھایا جاتا ہیں کیونکہ فنش ماہرینِ تعلیمی نفسیات کے مطابق بچے فرشی صوفوں (بین بیگز) پر بیٹھ کر 20% زیادہ سیکھتے ہیں۔ تاہم مزید یہ کہ فرشی صوفوں (بین بیگز) پر بیٹھنے کے علاوہ بھی طلباء کسی بھی اپنی پسندیدہ مناسب حالت میں یعنی لیٹ کر، چلتے ہوئے، چار زانو بیٹھ کر یا ٹیک لگاتے ہوئے پڑھ سکتے ہیں۔ کیونکہ مقصد تو صرف بہترین طور پر پڑھنا اور سیکھنا ہی ہے۔
۸) فن لینڈ کے تعلیمی اداروں میں یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ آپ صرف اپنے تعلیمی ادارے یا اپنی کلاس کی جغرافیائی حدود میں ہی قید ہو کر روایتی طریقے سے پڑھیں، بلکہ آپ ادارے یا اپنی کلاس سے باہر کسی بھی پُر سکون و دلنشین مقام پر کلاسز لیتے ہوئے پڑھ سکتے ہیں مثلاً ندی یا سمندر کے کنارے روح پرور رومانوی ہواؤں کے سنگ، جنگل میں سایہ دار درختوں کے سائے تلے یا پارک کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وغیرہ۔ کیونکہ فنش اساتذہ کا ماننا ہے کہ ہر جگہ پر سِیکھا اور سکھایا جا سکتا ہے اور اِس اعتبار سے فنش طلباء کے لیے فن لینڈ کی ساری زمین ہی ایک وسیع علمی درسگاہ (کلاس) کی حیثیت رکھتی ہے
۹) فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں میرے لیے اِک بے حد مُتاثر کن اور پُر کشش بات یہ بھی ہے کہ وہاں طلباء کو اساتذہ یا انتظامی عملے کی جانب سے کسی بھی قسم کی سزا یا پُر تشدد رویے کا سامنا ہرگز نہیں ہوتا ہے یعنی کہ فنش تعلیمی اداروں میں مار کٹائی، تذلیل یا کسی بھی حوالے سے جسمانی یا ذہنی تشدد کرنا نہ صرف قانونی جرم ہے ۔
۱۰) 2016ء تک فن لینڈ کے اسکولز میں بہت کم ہوم ورک دیا جا تا تھا۔ جبکہ 2016 ء کے بعد اِسے مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔ تاکہ بچے اسکول سے چھٹی کے بعد اپنے خاندان، دوستوں اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو وقت دے سکیں، اور ہوم ورک کے ذہنی دباؤ سے بالاتر ہو کر، اپنے ذاتی، عملی و نظریاتی مشاہدات کے زیرِ سایہ اپنے بچپن کو، خوب آزادانہ انداز میں جی سکے۔
۱۱) فن لینڈ کے اسکولز میں ٹیکنالوجی، جدید ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ وغیرہ کا تعلیمی مقاصد کے لیے بھر پور استعمال کیا جاتا ہے اور طلباء کو مختلف عوامی ویب سائٹز اور کئی مخصوص دلچسپ تعلیمی ایپس مثلاً :یو ٹیوب، گوگل، فیس بک، پلانٹ نیٹ، پکچر دِیس، ڈولنگو، برڈ نیٹ، وغیرہ اور دیگر بہت سی چھوٹی، بڑی تعلیمی ایپس سے تعلیم فراہم کی جاتی ہے نیز علمی تحقیق و تعلم کے حوالے سے طلباء کو وسیع پیمانے پر انٹرنیٹ ویب سائٹس کا ہمہ پہلو استعمال سکھایا جاتا ہے۔
۱۲) تفریح کے حوالے سے فن لینڈ میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’جو علم آپ مزے اور لطف کے بغیر سیکھتے ہیں اُسے آپ جلد ہی آسانی سے بھول جاتے ہیں۔‘ لیکن جب فن لینڈ کی اِس مشہورِ زمانہ کہاوت سے بے خبر ایک امریکی محقق نے فنش اسکولز کے مختلف اوقات میں دورے کیے تو ہر بار یہی دیکھا کہ وہاں ہر وقت بچے شور و غل کرتے ہوئے، کھیل و کود میں مگن ہوتے ہیں۔ یہ دلچسپ منظر دیکھنے کے بعد وہ بہت حیران ہوا اور اسکول انتظامیہ سے پوچھا کہ ’’یہ پڑھتے کب ہیں، اور اتنے اچھے نمبر کیسے لے لیتے ہیں؟‘‘ تو اُسے بتاتا گیا کہ یہاں طالب علموں کو ہر 45 منٹ کی کلاس کے بعد 15 منٹ کی تفریح دی جاتی ہے جبکہ فن لینڈ میں اسکول کا عموماً دورانیہ 9:00 یا 9:45 تا 2:00 یا 2:45 بجے تک، تقریباً 5 گھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے یعنی اِن 5 گھنٹوں میں بھی 15، 15 منٹوں کی تفریحات کو ملا کر کل 75 منٹ کی تفریح وقفے وقفے سے دی جاتی ہے۔
۱۳) فنش اسکولز میں بازیچۂ اطفال ٹیکنالوجی اور جسمانی کھیلوں کی سہولیات سے مزین ہوتے ہیں۔ نیز تفریح کے اوقات میں طلباء کو کلاسز سے باہر بازیچۂ اطفال میں جا کر کھیلنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔
۱۴) فن لینڈ کے اسکولز میں طلباء کی ذہنی سطح کے پیشِ نظر کسی بھی قسم کی ذہنی درجہ بندی کرنے کو جرم خیال کیا جاتا ہے۔ یعنی کہ وہاں طلباء کو ذہنی سطح کی نام نہاد پیمائش کے مرحلے سے گزارتے ہوئے لائق یا نالائق اور ’سکشن اے-بی-ڈی یا سی‘ جیسے طبقاتی درجوں میں ہرگز تقسیم نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ وہ اِس بات سے بخوبی طور پر آگاہ ہیں کہ ہر بچہ الگ الگ اکتسابی یا پیدائشی ’گاڈ گفٹیڈ‘ خصوصیات کے ساتھ ذہین ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ بچہ آپ کے تعلیمی یا معاشرتی اقدار کی وضع کردہ ذہانت کی ایک، دو یا چند مخصوص نشانیوں پر پورا نہ اُتر پائے، پھر اگرچہ وہ دیگر کئی حوالوں سے ذہانت کے اعلیٰ ترین مراتب پر فائض ہو ۔
۱۵) فن لینڈ کے اسکولز میں طلباء سے ابتدائی تقریباً 8 سالوں تک کسی بھی قسم کا معیاری، رسمی یا لازمی امتحان ہرگز نہیں لیا جاتا ہے۔ یعنی کہ اگر ایک بچے نے 7 سال کی عمر میں اسکول میں داخلہ لیا ہے تو اُس سے پہلا باضابطہ تحریری امتحان تقریباً تقریباً 15 سال کی عمر میں لیا جائے گا۔ اِس 8 سالہ آزاد امتحانی دورانیے میں اساتذہ خود ہی ایک طالب علم کی کار کردگی کے معیار کو پرکھتے ہوئے، اُس کی تعلیمی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں اور طلباء کی غلطیوں اور کمزوریوں کو پُر امن علمی طریقے سے آگاہ کرتے ہوئے، اصلاح کی بھرپور کاوشیں کرتے ہیں نیز اِس دورانیے میں بچے کی تعلیمی کار کردگی سے والدین کو بھی مکمل طور پر باخبر رکھا جاتا ہے۔ گویا اِس 8 سالہ آزاد امتحانی طریقہ کار سے معیاری، رسمی اور باضابطہ امتحانات لیے بغیر ہی ہر سال والدین کے سامنے زبانی مشاورت یعنی والدین-اساتذہ گفت و شنید (پیرنٹس ٹیچرز میٹنگ) کے ذریعے ایک سالانہ تعلیمی رزلٹ کارڈ رکھ دیا جاتا ہے۔
۱۶) فن لینڈ میں لفظی رٹا لگانا اِک قابل مزاحمت تعلیمی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں میری لفظی رٹا لگانے کی اصطلاح سے مراد خصوصاً یہ ہے کہ ایسی معلومات یا علم جو طالب علم صحیح غور و تفکر کیے بغیر، صرف تیز زبانی کے سہارے اِس توجہ سے یاد کرے کہ اُس کا ذہنی حافظہ بمشکل صرف الفاظ یا جملوں کی ترتیب کو محفوظ کر پائے ناکہ معلومات یا علم کے حقیقی فہم یا مطالب کو سمجھے۔ لہذا اہلِ فن لینڈ بھی لفظی رٹا بازی کی اِسی تعریف کے پیشِ نظر یہ بات بخوبی طور پر جانتے ہیں کہ لفظی رٹا بازی سے حاصل کردہ معلومات کے ذریعے طلباء امتحانات میں با مشقت طریقے سے اعلیٰ نمبر یا ایک کھوکھلی کاغذی سند تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن معلومات یا علم کے حقیقی فہم اور علمی اطلاق کا عشر عشیر بھی حاصل کر نہیں پاتے ہیں کہ جس سے طالبانِ علم صرف انسان نما روبوٹ یا وکی- پیڈین طلباء کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔
۱۷) پیشہ وارانہ تعلیم (وُکیشنل ایجوکیشن) بنیادی طور پر ایسی تعلیم ہے کہ جو لوگوں کو مختلف ہنر یا ملازمتوں جیسے تجارت، دستکاری یا بطور ٹیکنیشین کام کرنے کے لئے تیار کرتی ہے۔ اِسی بنا پر پیشہ ورانہ تعلیم کو اکثر تعلیمِ ہنر، فنی یا تکنیکی (ٹیکنیکل) تعلیم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تعلیم عالمی سطح پر اُن طلباء کے مالی مستقبل اور ذہنی ہم آہنگی کے لیے نہایت کار آمد تصور کی جاتی ہے کہ جن کا شوق عام رسمی تعلیم سے ہٹ کے تعلیمِ ہنر سیکھنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ یہ پیشہ وارانہ تعلیم کا ایک عمومی تعارف ہے اور فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں اِسی پیشہ وارانہ تعلیم کو نہایت اعلیٰ اہمیت و افادیت حاصل ہے یعنی فن لینڈ میں پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر کو سائنسی علوم کی تعلیم کی طرح ہی قابل رشک اور عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ایک فنش طالب علم کو اسکول کی نو سالہ ابتدائی تعلیم کے بعد سولہ سال کی عمر میں ہی یہ اختیار دے دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو باقاعدہ رسمی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرے یا پھر وہ اعلیٰ یونیورسٹی تعلیم کا انتخاب کرے۔
۱۸) غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) طریقۂ تدریس فنش طلباء میں نہ صرف تخلیقی، تقابلی اور تنقیدی سوچ کی نشو و نما کرتا ہے بلکہ اُنھیں جدید ٹیکنالوجیکل ذرائع علم سے باہمی تعاون تلے اجتماعی تحقیق (گروپ ری-سرچ) کرنے، طلباء میں دوستانہ علمی ماحول کو برقرار رکھنے، عملی اور تجرباتی اعلیٰ ذہنیت کی تعمیر و تشکیل کے ساتھ ساتھ دلچسپ اور دیر-پا آموزش کی ذہن نشینی کو بھی یقینی بناتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُنھیں اساتذہ کے وضع کردہ دائرے کے باہر خود مختاری اور آزادی سے سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی بخشتا ہے۔ لہذا میں اِنھی سب اسباب و فوائد اور درج ذیل بالا سارے مقدمے کی بنا پر غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) طریقۂ تدریس کو کسی موضوع یا مسئلے میں ایک حد درجہ پی۔ ایچ ڈی کرنے کے مترادف سمجھتا ہوں اور اِسی ضمن میں غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) کی مختصر لیکن جامع اور آسان فہم تعریف بھی پیشِ خدمت ہے کہ غیر معمولی آموزش (پی-ایچ-بی-ایل) دراصل کسی مسئلے یا موضوع میں تنقیدی، تقابلی، تخلیقی اور عملی طریقہ کار سے اعلیٰ فہم حاصل کرنے کا نام ہے۔