جاسم محمد
محفلین
پاکستانی پی ایچ ڈی: خطوط ِغالب سے خلائی مشن تک
ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرز، ریاضی دان، ماہرین معاشیات، فلسفی، ادیب اگر عالم انسانیت کی فکر چھوڑ کر صرف پاکستان کو درپیش مسائل کو ہی محور بنا کر ہر تحقیق کریں، سائنسی پیپر لکھیں، حل نکالیں، جواب کھوجیں تو ان کی بڑی خدمت ہوگی۔
عفت حسن رضوی مصنفہ، صحافی @IffatHasanRizvi
جمعرات 20 اگست 2020 6:15
(روئٹرز)
’اچھا ہوا کہ نرگس ماول والا پاکستان سے امریکہ چلی گئیں، وہاں جا کر ایم آئی ٹی کی ڈین بن گئیں۔ یہاں ہوتیں تو ماتحت ریسرچرز اور سکالرز نے ان کے کردار سے لے کر مذہب تک کچھ نہیں بخشنا تھا۔ وہ یہاں لیب بنا لیتیں تو فنڈز کے لیے سفارشات بھیجتی رہ جاتیں، سپروائزر بنتیں تو مرد سکالرز کو ان کی سائنسی منطقوں پر ’عورتوں کے پاگل پن‘ کا شبہ رہتا۔‘
میں جینیات کے ایک پاکستانی سائنس دان سے بات کر رہی تھی۔ وہ مسلسل کہے جا رہے تھے کہ آپ جو کالم لکھنا چاہتی ہیں اسے پڑھے گا کون، پڑھنے والی نسل تو اب معدوم ہوگئی۔
میرا ایک عمومی سا سوال ہے کہ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں قائم جامعات پی ایچ ڈی کی سند جاری کر رہی ہیں۔ ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالوں کی کئی گز لمبی اشاعت ہو رہی ہیں۔ حکومت کروڑوں روپے مالیت کی ریسرچ گرانٹس جاری کرتی ہے، کتنی ہی ریسرچ لیبارٹریز ہیں جو دوا دارو سے لے کر خلا کے رازوں تک کو جاننے کے لیے بنائی گئیں مگر جب بھی کسی مسئلے کا سائنسی حل ڈھونڈنا ہو، کسی نئے سائنسی ایجاد یا ٹیکنالوجی کی بات ہو تو پاکستان کا نام شاذ و نادر ہی آتا ہے۔
کیا وجہ ہے؟ کیا تحقیق نہیں ہو رہی یا تحقیق تو ہو رہی ہے مگر معیاری نہیں؟ یا پھر معیاری تحقیق بالکل ہو رہی ہے لیکن اس تحقیق کو ایک ریسرچ پیپر سے نکال کر عوام الناس کے فائدے تک لانے میں جتنے مرحلے درکار ہے ہم ان تمام مرحلوں میں ناکام ہیں۔
ایک خبر آئی کہ کراچی میں مالیکیولر سائنس میں پی ایچ ڈی کی طالبہ نادیہ اشرف نے خودکشی کر لی۔ وہ پچھلے سولہ برس سے پی ایچ ڈی کر رہی تھیں۔ ان سولہ برسوں میں کسی سطح پر یہ بات تشویش نہیں سمیٹ سکی کہ آخر ایک طالبہ تحقیقی مقالے پر دو دہائیاں کیوں لگا رہی ہے اور اس کا نتیجہ نکل کیوں نہیں رہا، جبکہ اسے مالی گرانٹ مل رہی ہے۔
میں نے شدید سائنسی موضوعات میں پی ایچ ڈی کرنے والے کچھ سکالرز سے بات کی، ایک نے کہا کہ پی ایچ ڈی میں دس بارہ سال لگ جانا تو عام سی بات ہے۔ یہاں تو لیبارٹری کا کوئی پرزہ خراب ہو جائے تو اسے ٹھیک ہونے اور ریسرچ دوبارہ شروع کرنے میں چھ چھ ماہ نکل جاتے ہیں۔
ایک اور سکالر کہنے لگے کہ تحقیق تو کر لیں مگر زیادہ تر طالب علموں کو ایسے ریسرچ سپروائزر ملتے ہیں جنہیں یا تو اپنے نام سے ریسرچ پیپر سائنسی جرنلز میں چھپوانے کا خبط ہوتا ہے یا پھر ان کی مطلوبہ موضوع پر گرفت بہت کمزور ہوتی ہے۔
سائنس کے شعبوں میں ہونے والی پی ایچ ڈی تحقیق کامیاب ہو جائے تو اس کا بام عروج یہ ہوتا ہے کہ سائنس دان اپنی تحقیق کا پیٹنٹ حاصل کر لیتا ہے۔ فرض کریں مالیکیولر سائنس میں اگر کوئی پی ایچ ڈی محقق برین ٹیومر کی کوئی نئی دوا دریافت کر لیتا ہے تو اس کی زیادہ سے زیادہ اڑان یہ ہوگی کہ اس کے ڈرگ ڈیزائن کو سرٹیفائیڈ کر دیا جائے گا۔ لیکن اس دوا کے کلینکل ٹرائلز، انسانی ٹرائلز، اس کی مینوفیکچرنگ، مارکیٹنگ یہاں تک کہ عوام تک پہنچ دیوانے کا خواب ہے۔
ہمارے ایک عزیز جرمنی سے خلائی سائنس کی گتھیاں سلجھانے کے طریقے سیکھ کر آئے۔ اس خلائی سائنس دان کو پاکستان کے سیٹلائٹ پروگرام میں ملازمت ملی۔ میں نے ان کے شعبے کا حال پوچھا کیونکہ یہ وہ شعبے ہے جس کی میڈیا رپورٹنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کہنے لگے ملازمت نہیں ملامت کر رہا ہوں کہ واپس کیوں آگیا۔
ہر تحقیق ضروری نہیں کہ کوئی فائدہ دے یا انسانی استعمال کی چیز ہی ایجاد یا دریافت کرے۔ کچھ تحقیقی کام بڑی ایجادوں کی چھوٹی سی بنیاد بنتے ہیں۔ کچھ مزید تحقیق کے در وا کرتے ہیں۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ اگر کوئی تحقیق کئی برسوں پر محیط ہو مگر اس کا ثمر ندارد، اس کا نتیجہ مبہم، اس کا اثر بالکل صفر۔
ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرز، ریاضی دان، ماہرین معاشیات، فلسفی، ادیب اگر عالم انسانیت کی فکر چھوڑ کر صرف پاکستان کو درپیش مسائل کو ہی محور بنا کر ہر تحقیق کریں، سائنسی پیپر لکھیں، حل نکالیں، جواب کھوجیں تو ان کی بڑی خدمت ہوگی۔ جیسے کہ پاکستان میں شہری آبادی کا انتظام، سمندر اور زمین میں چھپے معدنی ذخیرے، ماحولیاتی تبدیلی، ہمارے مقامی پیمانوں پر مبنی ڈیٹا سائنس یا پھر ہمارے لوگوں کی ڈی این اے پروفائلنگ، یا بچوں میں محدود جسمانی و ذہنی نشوونما۔
کچھ عرصے قبل سابق چئیرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد سے ایک تفصیلی ملاقات رہی۔ میرا سوال اکیڈمک نہیں عامیانہ سا تھا کہ اتنے پی ایچ ڈی سکالرز ڈاکٹرز بن رہے ہیں لیکن تحقیق کا شعبہ ہمارا منہ چڑاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا شکوہ بھی بجا تھا کہنے لگے سوشل سائنس کے موضوعات جیسے کے ادب، مذہب، فلسفہ، میڈیا، سیاست، تاریخ میں اکثر پی ایچ ڈی تحقیق عوامی سطح پر بےاثر رہتی ہے۔ ہر دوسرے تیسرے طالب علم کو اقبال کی شاعری، غالب کے خطوط پر تحقیق مقصود ہو تو کوئی کیا کہے؟
فزکس کے استاد پرویز ہود بھائی تو پاکستان کے پروفیسرز مافیا اور ناقص تحقیقی نتائج پر کافی کھل کر لکھ چکے ہیں، مگر اپنے محاسبے کو بھلا کون تیار ہوتا ہے۔ اسی لیے میں نے سوچا ایک مشورہ میں بھی دیتی جاؤں کہ ان تحریروں سے گر کچھ نہیں بدلتا تو کوئی ان بےثمر، بےاثر پی ایچ ڈیوں کے موضوع پر ہی پی ایچ ڈی کر لے، کسی کا تو بھلا ہوگا۔
ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرز، ریاضی دان، ماہرین معاشیات، فلسفی، ادیب اگر عالم انسانیت کی فکر چھوڑ کر صرف پاکستان کو درپیش مسائل کو ہی محور بنا کر ہر تحقیق کریں، سائنسی پیپر لکھیں، حل نکالیں، جواب کھوجیں تو ان کی بڑی خدمت ہوگی۔
عفت حسن رضوی مصنفہ، صحافی @IffatHasanRizvi
جمعرات 20 اگست 2020 6:15
(روئٹرز)
’اچھا ہوا کہ نرگس ماول والا پاکستان سے امریکہ چلی گئیں، وہاں جا کر ایم آئی ٹی کی ڈین بن گئیں۔ یہاں ہوتیں تو ماتحت ریسرچرز اور سکالرز نے ان کے کردار سے لے کر مذہب تک کچھ نہیں بخشنا تھا۔ وہ یہاں لیب بنا لیتیں تو فنڈز کے لیے سفارشات بھیجتی رہ جاتیں، سپروائزر بنتیں تو مرد سکالرز کو ان کی سائنسی منطقوں پر ’عورتوں کے پاگل پن‘ کا شبہ رہتا۔‘
میں جینیات کے ایک پاکستانی سائنس دان سے بات کر رہی تھی۔ وہ مسلسل کہے جا رہے تھے کہ آپ جو کالم لکھنا چاہتی ہیں اسے پڑھے گا کون، پڑھنے والی نسل تو اب معدوم ہوگئی۔
میرا ایک عمومی سا سوال ہے کہ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں قائم جامعات پی ایچ ڈی کی سند جاری کر رہی ہیں۔ ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالوں کی کئی گز لمبی اشاعت ہو رہی ہیں۔ حکومت کروڑوں روپے مالیت کی ریسرچ گرانٹس جاری کرتی ہے، کتنی ہی ریسرچ لیبارٹریز ہیں جو دوا دارو سے لے کر خلا کے رازوں تک کو جاننے کے لیے بنائی گئیں مگر جب بھی کسی مسئلے کا سائنسی حل ڈھونڈنا ہو، کسی نئے سائنسی ایجاد یا ٹیکنالوجی کی بات ہو تو پاکستان کا نام شاذ و نادر ہی آتا ہے۔
کیا وجہ ہے؟ کیا تحقیق نہیں ہو رہی یا تحقیق تو ہو رہی ہے مگر معیاری نہیں؟ یا پھر معیاری تحقیق بالکل ہو رہی ہے لیکن اس تحقیق کو ایک ریسرچ پیپر سے نکال کر عوام الناس کے فائدے تک لانے میں جتنے مرحلے درکار ہے ہم ان تمام مرحلوں میں ناکام ہیں۔
ایک خبر آئی کہ کراچی میں مالیکیولر سائنس میں پی ایچ ڈی کی طالبہ نادیہ اشرف نے خودکشی کر لی۔ وہ پچھلے سولہ برس سے پی ایچ ڈی کر رہی تھیں۔ ان سولہ برسوں میں کسی سطح پر یہ بات تشویش نہیں سمیٹ سکی کہ آخر ایک طالبہ تحقیقی مقالے پر دو دہائیاں کیوں لگا رہی ہے اور اس کا نتیجہ نکل کیوں نہیں رہا، جبکہ اسے مالی گرانٹ مل رہی ہے۔
میں نے شدید سائنسی موضوعات میں پی ایچ ڈی کرنے والے کچھ سکالرز سے بات کی، ایک نے کہا کہ پی ایچ ڈی میں دس بارہ سال لگ جانا تو عام سی بات ہے۔ یہاں تو لیبارٹری کا کوئی پرزہ خراب ہو جائے تو اسے ٹھیک ہونے اور ریسرچ دوبارہ شروع کرنے میں چھ چھ ماہ نکل جاتے ہیں۔
ایک اور سکالر کہنے لگے کہ تحقیق تو کر لیں مگر زیادہ تر طالب علموں کو ایسے ریسرچ سپروائزر ملتے ہیں جنہیں یا تو اپنے نام سے ریسرچ پیپر سائنسی جرنلز میں چھپوانے کا خبط ہوتا ہے یا پھر ان کی مطلوبہ موضوع پر گرفت بہت کمزور ہوتی ہے۔
سائنس کے شعبوں میں ہونے والی پی ایچ ڈی تحقیق کامیاب ہو جائے تو اس کا بام عروج یہ ہوتا ہے کہ سائنس دان اپنی تحقیق کا پیٹنٹ حاصل کر لیتا ہے۔ فرض کریں مالیکیولر سائنس میں اگر کوئی پی ایچ ڈی محقق برین ٹیومر کی کوئی نئی دوا دریافت کر لیتا ہے تو اس کی زیادہ سے زیادہ اڑان یہ ہوگی کہ اس کے ڈرگ ڈیزائن کو سرٹیفائیڈ کر دیا جائے گا۔ لیکن اس دوا کے کلینکل ٹرائلز، انسانی ٹرائلز، اس کی مینوفیکچرنگ، مارکیٹنگ یہاں تک کہ عوام تک پہنچ دیوانے کا خواب ہے۔
ہمارے ایک عزیز جرمنی سے خلائی سائنس کی گتھیاں سلجھانے کے طریقے سیکھ کر آئے۔ اس خلائی سائنس دان کو پاکستان کے سیٹلائٹ پروگرام میں ملازمت ملی۔ میں نے ان کے شعبے کا حال پوچھا کیونکہ یہ وہ شعبے ہے جس کی میڈیا رپورٹنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کہنے لگے ملازمت نہیں ملامت کر رہا ہوں کہ واپس کیوں آگیا۔
ہر تحقیق ضروری نہیں کہ کوئی فائدہ دے یا انسانی استعمال کی چیز ہی ایجاد یا دریافت کرے۔ کچھ تحقیقی کام بڑی ایجادوں کی چھوٹی سی بنیاد بنتے ہیں۔ کچھ مزید تحقیق کے در وا کرتے ہیں۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ اگر کوئی تحقیق کئی برسوں پر محیط ہو مگر اس کا ثمر ندارد، اس کا نتیجہ مبہم، اس کا اثر بالکل صفر۔
ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرز، ریاضی دان، ماہرین معاشیات، فلسفی، ادیب اگر عالم انسانیت کی فکر چھوڑ کر صرف پاکستان کو درپیش مسائل کو ہی محور بنا کر ہر تحقیق کریں، سائنسی پیپر لکھیں، حل نکالیں، جواب کھوجیں تو ان کی بڑی خدمت ہوگی۔ جیسے کہ پاکستان میں شہری آبادی کا انتظام، سمندر اور زمین میں چھپے معدنی ذخیرے، ماحولیاتی تبدیلی، ہمارے مقامی پیمانوں پر مبنی ڈیٹا سائنس یا پھر ہمارے لوگوں کی ڈی این اے پروفائلنگ، یا بچوں میں محدود جسمانی و ذہنی نشوونما۔
کچھ عرصے قبل سابق چئیرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد سے ایک تفصیلی ملاقات رہی۔ میرا سوال اکیڈمک نہیں عامیانہ سا تھا کہ اتنے پی ایچ ڈی سکالرز ڈاکٹرز بن رہے ہیں لیکن تحقیق کا شعبہ ہمارا منہ چڑاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا شکوہ بھی بجا تھا کہنے لگے سوشل سائنس کے موضوعات جیسے کے ادب، مذہب، فلسفہ، میڈیا، سیاست، تاریخ میں اکثر پی ایچ ڈی تحقیق عوامی سطح پر بےاثر رہتی ہے۔ ہر دوسرے تیسرے طالب علم کو اقبال کی شاعری، غالب کے خطوط پر تحقیق مقصود ہو تو کوئی کیا کہے؟
فزکس کے استاد پرویز ہود بھائی تو پاکستان کے پروفیسرز مافیا اور ناقص تحقیقی نتائج پر کافی کھل کر لکھ چکے ہیں، مگر اپنے محاسبے کو بھلا کون تیار ہوتا ہے۔ اسی لیے میں نے سوچا ایک مشورہ میں بھی دیتی جاؤں کہ ان تحریروں سے گر کچھ نہیں بدلتا تو کوئی ان بےثمر، بےاثر پی ایچ ڈیوں کے موضوع پر ہی پی ایچ ڈی کر لے، کسی کا تو بھلا ہوگا۔