سروش
محفلین
پاکستانی کبوتر باز کا انڈین وزیر اعظم سے مطالبہ: ’مودی جی میرا کبوتر واپس کریں‘
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
پاکستان کے ایک شہری نے انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جاسوسی کے الزام میں انڈیا میں پکڑا گیا اس کا کبوتر واپس کریں۔
گذشتہ روز انڈیا کی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ایک پاکستانی جاسوس کبوتر کو حراست میں لیا ہے۔
انڈین پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ کبوتر کے پاؤں میں ایک رِنگ (چھلا) نصب ہے جس میں کچھ نمبر درج ہیں، پولیس کے مطابق یہ نمبر درحقیقت خفیہ کوڈ ہے جسے سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تاہم بدھ کے روز پاکستان کے شہر سیالکوٹ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے شہری حبیب اللہ نے دعویٰ کیا کہ انڈیا میں پکڑا گیا کبوتر اس کا ہے جسے عید کے روز معمول کے مطابق کبوتروں کے غول کے ہمراہ اڑایا گیا مگر وہ غول سے بچھٹر کر سرحد پار چلا گیا اور واپس نہیں آیا۔
حبیب اللہ کا گاؤں انڈین سرحد سے صرف چار کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔
یہ بھی پڑھیے
پتہ کرو، کبوتر مسلمان ہے یا ہندو؟
انڈیا: ’جاسوس کبوتر جانباز خان‘ فرار ہونے میں کامیاب
جب امریکہ نے جاسوسی کے لیے کبوتر استعمال کیے
’ایک کپ چائے پلا کر اس کبوتر کو پاکستان کے حوالے کیا جائے‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ نمبر جسے خفیہ کوڈ قرار دیا جا رہا ہے درحقیقت ان کا فون نمبر ہے اور وہ اپنے ملکیتی ہر کبوتر کے پنجے میں اپنا فون نمبر درج کرتے ہیں تاکہ غول سے بچھڑنے والے کبوتروں کو اُن تک واپس پہنچایا جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ عموماً ہر کبوتر باز اپنے کبوتروں پر کوئی نہ کوئی شناختی علامت درج کرتا ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹANI
Image captionانڈیا میں پکڑے جانے والا کبوتر جو حبیب اللہ کے مطابق اس کا ہے
حبیب اللہ نے پاکستان کے انگریزی اخبار ’ڈان‘ کو بتایا کہ کبوتر تو امن کا پرندہ ہے اور انڈیا کو اس معصوم پرندے کو تنگ کرنے سے باز رہنا چاہیے۔
اطلاعات کے مطابق دو روز قبل کچھ مقامی لوگوں نے اس کبوتر کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا۔ پولیس نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ پاکستانی اداروں نے اس پرندے کو جاسوسی کی تربیت دے رکھی تھی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب انڈیا نے پاکستان کا ’جاسوس کبوتر‘ پکڑنے کا دعویٰ کیا ہو۔
اس سے پہلے ریاست پنجاب اور راجستھان کے سکیورٹی حکام بھی پاکستان کی طرف سے آنے والے کبوتروں کو مبینہ جاسوس قرار دے کر پکڑ چکے ہیں۔
اسی طرح سنہ 2015 میں انڈین پنجاب میں ایک چودہ سالہ لڑکے نے سرحد کے قریب سے ایک کبوتر پکڑ پولیس کے حوالے کیا تھا۔
انڈین پولیس نے سنہ 2016 میں ایک اور کبوتر کو ’حراست‘ میں لینے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ کبوتر نے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک دھمکی آمیز پیغام اٹھا رکھا تھا۔
- 7 گھنٹے پہلے
- بشکریہ بی بی سی اردو
پاکستان کے ایک شہری نے انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جاسوسی کے الزام میں انڈیا میں پکڑا گیا اس کا کبوتر واپس کریں۔
گذشتہ روز انڈیا کی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ایک پاکستانی جاسوس کبوتر کو حراست میں لیا ہے۔
انڈین پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ کبوتر کے پاؤں میں ایک رِنگ (چھلا) نصب ہے جس میں کچھ نمبر درج ہیں، پولیس کے مطابق یہ نمبر درحقیقت خفیہ کوڈ ہے جسے سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تاہم بدھ کے روز پاکستان کے شہر سیالکوٹ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے شہری حبیب اللہ نے دعویٰ کیا کہ انڈیا میں پکڑا گیا کبوتر اس کا ہے جسے عید کے روز معمول کے مطابق کبوتروں کے غول کے ہمراہ اڑایا گیا مگر وہ غول سے بچھٹر کر سرحد پار چلا گیا اور واپس نہیں آیا۔
حبیب اللہ کا گاؤں انڈین سرحد سے صرف چار کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔
یہ بھی پڑھیے
پتہ کرو، کبوتر مسلمان ہے یا ہندو؟
انڈیا: ’جاسوس کبوتر جانباز خان‘ فرار ہونے میں کامیاب
جب امریکہ نے جاسوسی کے لیے کبوتر استعمال کیے
’ایک کپ چائے پلا کر اس کبوتر کو پاکستان کے حوالے کیا جائے‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ نمبر جسے خفیہ کوڈ قرار دیا جا رہا ہے درحقیقت ان کا فون نمبر ہے اور وہ اپنے ملکیتی ہر کبوتر کے پنجے میں اپنا فون نمبر درج کرتے ہیں تاکہ غول سے بچھڑنے والے کبوتروں کو اُن تک واپس پہنچایا جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ عموماً ہر کبوتر باز اپنے کبوتروں پر کوئی نہ کوئی شناختی علامت درج کرتا ہے۔
Image captionانڈیا میں پکڑے جانے والا کبوتر جو حبیب اللہ کے مطابق اس کا ہے
حبیب اللہ نے پاکستان کے انگریزی اخبار ’ڈان‘ کو بتایا کہ کبوتر تو امن کا پرندہ ہے اور انڈیا کو اس معصوم پرندے کو تنگ کرنے سے باز رہنا چاہیے۔
اطلاعات کے مطابق دو روز قبل کچھ مقامی لوگوں نے اس کبوتر کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا۔ پولیس نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ پاکستانی اداروں نے اس پرندے کو جاسوسی کی تربیت دے رکھی تھی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب انڈیا نے پاکستان کا ’جاسوس کبوتر‘ پکڑنے کا دعویٰ کیا ہو۔
اس سے پہلے ریاست پنجاب اور راجستھان کے سکیورٹی حکام بھی پاکستان کی طرف سے آنے والے کبوتروں کو مبینہ جاسوس قرار دے کر پکڑ چکے ہیں۔
اسی طرح سنہ 2015 میں انڈین پنجاب میں ایک چودہ سالہ لڑکے نے سرحد کے قریب سے ایک کبوتر پکڑ پولیس کے حوالے کیا تھا۔
انڈین پولیس نے سنہ 2016 میں ایک اور کبوتر کو ’حراست‘ میں لینے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ کبوتر نے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک دھمکی آمیز پیغام اٹھا رکھا تھا۔