خرم شہزاد خرم
لائبریرین
جب میں اپنے کمرے سے باہر نکلا تو اپنے گھر کو دیکھ کر ہی بہت پرشان ہو گیا صبح، صبح اتنی صفائی۔ ہر چیز ترتیب سے رکھی ہوئی سب کھانے کے لیے تیار بیٹھے تھے ایسا لگ رہا تھا میرا ہی انتظار کر رہیں ہوں مجھے دیکھتے ہی سب نے مسکرا کر مجھے خوش آمدید کیا۔ میںان کو دیکھ کر شرمندہ سا ہو گیا بھاگتا ہوا غسل خانے میں گیا اور جلدی سے تیار ہو کر کھانے کی ٹیبل پر آ گیا۔سب بہت پُر سکون ناشتہ کر رہے تھے یہ سب دیکھ کر میں بہت حیران ہو رہا تھا ہمارے ہاں کبھی ایسا نہیں ہوا کبھی بھی سب نے مل کر ناشتہ نہیں کیا یہ آج کیا انقلاب آ گیا ہے۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ ابو جی ناشتہ ختم کر کے آفس جانے لگے اور سب کو سلام کیا ۔ خیر صبح اکثر میں ابوجی سے ملاقات ہوا کرتی تھی کیوں کے میں اور ابو جی ہی آفس جاتے تھے اس لے صبح جلدی ہی اٹھتے تھے لیکن آج سب مجھ سے بھی پہلے اٹھے ہوئے تھے میں نے بھی ابو جی کو سلام کیا اور آفس کے لیے تیار ہونے لگا جس کی طرف دیکھتا وہ مسکرا کر بات کرتا اللہ اللہ یہ کیا ہوگیا ہے ہمارے گھر کو یہ کیا انقلاب ہے۔ آفس سے باہر نکلتے وقت ماں جی کو خدا خافظ کہنے لگا ہی تھا کے سب گھر والوں نے مجھے پہلے ہی خدا خافظ کہہ دیا ۔ جہاں سب اتنے دیر سے جاگتے تھے آج وہاں سب مجھ سے پہلے جاگے ہوئے تھے۔ یہ سب مجھے حیران کرنے کے لیے کافی نا تھا جب میں گھر سے باہر نکلا گلی میں قدم ہی رکھا تھا کہ آنکھں نکل کر باہر آنے لگی دور دور تک جتنے بھی مجھے مکان نظر آ رہے تھے سب کے سب بہت خوبصورت لگ رہے تھے ساری گلیاں صاف تھی۔ میں راستے میں جو بھی مجھے ملتا مسکرا کر السلام علیکم کہتا اور آگے نکل جاتا مجھے خوشی بھی ہو رہی تھی لیکن خوشی سے زیادہ حیرت ہو رہی تھی یہاں تو سب اپنے کام سے کام رکھتے ہیں راستے میںکیا ہو رہا ہے کوئی زندہ ہے یا مر گیا ہے کسی کو اس کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا لیکن یہ آج کیا ہو رہا ہے ۔ چلتے چلتے جب میں بس سٹاپ کے پاس پونچا تا ایک بار پھر حیرت کا ایک طوفان میری طرف آیا میں نے خود کو قابوں میں کیا اور کیا دیکھتا ہوں بس سٹاپ ایسے نظر آ رہا تھا جیسے کوئی پارک ہو بٹھنے کے لیے کرسیاں لگی ہوئی سب لوگ بہت آرام سے بس کا انتظار کر رہے تھے بہت اخترام سے گفتگو کا سلسلہ چل رہا تھا کہ اتنے میں ایک خاتوں بس سٹاپ کی طرف آئی میں نے دیکھا کوئی کرسی خالی نہیں تھی وہاں سے ایک نوجوان اٹھا اور ان کو بیٹھنے کی جگہ دی یہ سب کچھ دیکھ کر میں پرشان ہو ہی رہا تھا کہ اتنے میں بس آ گی۔ جب بس سٹاپ پر آ کے رکی پہلے مسافر قطار بناکر اترے اور پھر جو مسافر انتظار کر رہے تھے وہ سب بھی قطار بنا کر کھڑے ہو گے سب سے پہلے خواتین بس میں سوار ہوئی اس کے بعد باقی مسافر بس میں سوار ہونے لگے میں سب کو خیرت سے دیکھتا رہا جب سب مسافر بس میں سوار ہو گے تو اور بس چلے لگی تب مجھے یاد آیا میں نے بھی اسی بس میں جانا ہے اتنے میں بس کا دروازہ بند ہو گیا لیکن میں بھاگ کر لٹکنے کے لیے بس کے دروازے کو ہاتھ ہی رکھا تھا کے بس کی رفتار تیز ہو گی اور میں پیچھ زمیں پر گیرگیا اور بے ہوش ہو گیا جب ہوش آئی تو کیا دیکھتا ہوں میں اپنی چارپائی سے نیچے زمیں پر گیرا ہوا ہوں صبح کے 7 بج رہے ہیں سارے کمرے کی چیزیں بے ترتیب رکھی ہوئی ہیں کتابیں ٹیبل پر اور کرسیوں پر رکھی ہوئی ہیں جوتے کمرے کے درمیان میں پڑھے ہوئے ہیں اور بستر یہاں کا وہاں جا رہا ہے میں جلدی سے اٹھا اور باہر کی طرف بھاگا یہ سوچ کر سب کھانے کی ٹیبل پر انتظار کر رہیں ہونگے لیکن جب دروازے سے باہر نکلا تو سامنے دیکھتا ہوں چھوٹے بھائی کا کمرہ بند ہے اس کا مطلب ہو ابھی تک سو رہا ہے باورچی خانے سے آمّی جی کی آواز آئی جلدی غسل کر کے آو ناشتہ تیار ہے میں نے پوچھا باقی سب کہاں ہے تو بولی وہ سب تو اپنے ٹیم پر اٹھے گے نا