یوسف-2
محفلین
مشرقی پاکستان کو جب بنگلہ دیش نام دے دیا گیا تو عوامی لیگ کی مربی اندرا گاندھی ڈھاکہ آئیں اور اعلان کیا کہ ’’ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا‘‘… ان کے اس بیان کو ہمارے ہاں بھی سیکولر دانشوروں نے خوب سراہا تھا لیکن آج اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی، اس کی قائم کی ہوئی عدالت اور بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے یہ بات تسلیم کرلی کہ خلیج بنگال میں نظریہ پاکستان زندہ ہے۔ انہوں نے نظریہ پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز پھانسی کا پھندا بلند کرکے کردیا ہے۔ یہ ’’پھانسی کا پھندا‘‘ سانحات کے اس سلسلے کی کڑی ہے جو شیخ مجیب الرحمٰن کے ہاتھ پر ثبت تھی۔
1970ء میں مشہور دست شناس میر بشیر لندن سے کراچی آئے ہوئے تھے۔ میر بشیر، جنگ کے بانی محترم میر خلیل الرحمٰن کے قریبی دوست تھے اور کراچی میں وہ انہی کے مہمان تھے، میر بشیر ایک تقریب میں جمعیت الفلاح میں مدعو تھے یہاں وہ دست شناسی کے بارے میں لیکچر دے رہے تھے کہ اس دوران ایک اخباری فوٹو گرافر نے ان کے سامنے ایک ہاتھ کی بڑی سی تصویر رکھی اور کہا کہ اس ہاتھ کے بارے میں بتائیے۔ میر بشیر نے اس ہاتھ کو غور سے دیکھا اور ان کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ انہوں نے فوٹو گرافر سے پوچھا ’’یہ ہاتھ کس کا ہے؟‘‘
فوٹو گرافر نے بتایا کہ یہ تصویر شیخ مجیب الرحمٰن کے ہاتھ کی ہے۔ شیخ مجیب بھی اس دن کراچی کے دورے پر آئے ہوئے تھے اور اس فوٹو گرافر نے ایک تقریب کے خطاب کے دوران میں یہ تصویر اتاری تھی۔
میر بشیر بہت دیر خاموش رہے پھر دل گرفتہ انداز میں بولے ’’یہ ایک بدقسمت انسان کا ہاتھ ہے، اس کے ہاتھ پر بدقسمتی اور سانحات کا سلسلہ ملتا ہے‘‘۔
ہاتھ کے بارے میں ان کے اس بیان کی لوگوں نے اپنے اپنے انداز سے تاویل کی… لیکن بعد کے حالات نے بتانا شروع کیا کہ اس ہاتھ پر واقعی سانحات اور بدقسمتی کے نشانات بنے ہوئے تھے۔
شیخ مجیب کی پارٹی عوامی لیگ نے الیکشن جیت لیا تھا لیکن ’’اِدھر ہم، اُدھر تم‘‘ کا نعرہ لگوا کر اس کو اقتدار سے محروم کردیا گیا…یہ بدقسمتی کی پہلی زنجیر تھی پھر اس کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان لایا گیا اور مشرقی پاکستان میں اس کی پارٹی کے خلاف ایکشن شروع کیا گیا۔ بھارت نے اس موقع سے فائدہ اٹھاکر مکتی باہنی کی آڑ میں اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کردیں۔ ہندوستان کی فوج جیت گئی پاکستانی فوج سے ہتھیار ڈلوائے گئے۔ پاکستان توڑنے کا اعلان ہوا۔ یہ مجیب الرحمٰن کی دوسری بدقسمتی تھی۔
بنگلہ دیش کے نام سے ملک بنایا گیا اور 2سال ہی میں شیخ مجیب الرحمٰن کو اس کے بیوی بچوں سمیت اس کے گھر میں قتل کر دیا گیا۔ 3دن تک لاشیں وہاں پڑی رہیں۔ شیخ مجیب کی یہ تیسری بدقسمتی تھی۔ تیسرا سانحہ تھا جس سے اس کی ایک بیٹی جو بیرون ملک تھی محفوظ رہی۔ یہ بیٹی 2مرتبہ وزیراعظم بنی اور اس کے دوسرے دور میں پاکستان کے نظریئے کے خلاف جنگ کا آغاز کیا گیا۔ انسان قدرت کے عوامل کو بعض اوقات نہیں سمجھ پاتا۔ شیخ حسینہ واجد کی زندگی اور ان کو اقتدار ملنا، شیخ مجیب کے ہاتھ پر لکھے سانحات کی کڑی ہو سکتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اس کے حالیہ اقدام سے خلیج بنگال کے پانیوں پر نظریہ پاکستان کی روشنی کا مینار ایک بار پھر نظر آنے لگے۔ یہ شیخ مجیب کے ہاتھ پر لکھی چوتھی بدقسمتی ہوسکتی ہے۔
چوہدری رحمت علی نے اپنی کتاب Now Or Never میں ہندوستان میں 3نئے مسلم ملکوں کی نشاندہی کی تھی۔ پاکستان۔ بنگسام (بنگال اور آسام) اور عثمانستان (حیدرآباد دکن اور ملحقہ علاقے) پھر لکھا کہ ان تینوں ملکوں کی ایک فیڈریشن ہوگی۔ چوہدری رحمت علی کا بنایا ہوا نقشہ ابھی نامکمل ہے لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس طرف سفر شروع ہوچکا ہے۔
1971ء میں مشرقی پاکستان میں فوجیں داخل کرنے سے پہلے بھارت نے سوویت یونین سے 25سالہ جنگی معاہدہ کیا تھا۔ پاکستان توڑنے میں سوویت یونین نے بھرپور مدد دی، پاکستان کے سوویت نواز دانشوروں نے بھی خوب کنفیوژن پیدا کیا لیکن پاکستان توڑنے کے بعد سوویت یونین بھی ٹوٹ گیا۔ پاکستان توڑنے والے باقی حصے داروں کا ٹوٹنا ابھی باقی ہے۔ یہ فیصلہ بھی دفتر عمل میں موجود ہے۔ علامہ اقبال کا ایک شعر میں خلیج بنگال کے اس طوفان کے تناظر میں پڑھ رہا ہوں اور دل میں خوشی کی اک لہر سی اٹھ رہی ہے۔ اقبال نے شاید آج کے لئے ہم سے کہا تھا۔ ؛
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کوذرا دیکھ(تحریر عظیم سرور، جنگ 19 دسمبر 2013)
1970ء میں مشہور دست شناس میر بشیر لندن سے کراچی آئے ہوئے تھے۔ میر بشیر، جنگ کے بانی محترم میر خلیل الرحمٰن کے قریبی دوست تھے اور کراچی میں وہ انہی کے مہمان تھے، میر بشیر ایک تقریب میں جمعیت الفلاح میں مدعو تھے یہاں وہ دست شناسی کے بارے میں لیکچر دے رہے تھے کہ اس دوران ایک اخباری فوٹو گرافر نے ان کے سامنے ایک ہاتھ کی بڑی سی تصویر رکھی اور کہا کہ اس ہاتھ کے بارے میں بتائیے۔ میر بشیر نے اس ہاتھ کو غور سے دیکھا اور ان کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ انہوں نے فوٹو گرافر سے پوچھا ’’یہ ہاتھ کس کا ہے؟‘‘
فوٹو گرافر نے بتایا کہ یہ تصویر شیخ مجیب الرحمٰن کے ہاتھ کی ہے۔ شیخ مجیب بھی اس دن کراچی کے دورے پر آئے ہوئے تھے اور اس فوٹو گرافر نے ایک تقریب کے خطاب کے دوران میں یہ تصویر اتاری تھی۔
میر بشیر بہت دیر خاموش رہے پھر دل گرفتہ انداز میں بولے ’’یہ ایک بدقسمت انسان کا ہاتھ ہے، اس کے ہاتھ پر بدقسمتی اور سانحات کا سلسلہ ملتا ہے‘‘۔
ہاتھ کے بارے میں ان کے اس بیان کی لوگوں نے اپنے اپنے انداز سے تاویل کی… لیکن بعد کے حالات نے بتانا شروع کیا کہ اس ہاتھ پر واقعی سانحات اور بدقسمتی کے نشانات بنے ہوئے تھے۔
شیخ مجیب کی پارٹی عوامی لیگ نے الیکشن جیت لیا تھا لیکن ’’اِدھر ہم، اُدھر تم‘‘ کا نعرہ لگوا کر اس کو اقتدار سے محروم کردیا گیا…یہ بدقسمتی کی پہلی زنجیر تھی پھر اس کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان لایا گیا اور مشرقی پاکستان میں اس کی پارٹی کے خلاف ایکشن شروع کیا گیا۔ بھارت نے اس موقع سے فائدہ اٹھاکر مکتی باہنی کی آڑ میں اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کردیں۔ ہندوستان کی فوج جیت گئی پاکستانی فوج سے ہتھیار ڈلوائے گئے۔ پاکستان توڑنے کا اعلان ہوا۔ یہ مجیب الرحمٰن کی دوسری بدقسمتی تھی۔
بنگلہ دیش کے نام سے ملک بنایا گیا اور 2سال ہی میں شیخ مجیب الرحمٰن کو اس کے بیوی بچوں سمیت اس کے گھر میں قتل کر دیا گیا۔ 3دن تک لاشیں وہاں پڑی رہیں۔ شیخ مجیب کی یہ تیسری بدقسمتی تھی۔ تیسرا سانحہ تھا جس سے اس کی ایک بیٹی جو بیرون ملک تھی محفوظ رہی۔ یہ بیٹی 2مرتبہ وزیراعظم بنی اور اس کے دوسرے دور میں پاکستان کے نظریئے کے خلاف جنگ کا آغاز کیا گیا۔ انسان قدرت کے عوامل کو بعض اوقات نہیں سمجھ پاتا۔ شیخ حسینہ واجد کی زندگی اور ان کو اقتدار ملنا، شیخ مجیب کے ہاتھ پر لکھے سانحات کی کڑی ہو سکتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اس کے حالیہ اقدام سے خلیج بنگال کے پانیوں پر نظریہ پاکستان کی روشنی کا مینار ایک بار پھر نظر آنے لگے۔ یہ شیخ مجیب کے ہاتھ پر لکھی چوتھی بدقسمتی ہوسکتی ہے۔
چوہدری رحمت علی نے اپنی کتاب Now Or Never میں ہندوستان میں 3نئے مسلم ملکوں کی نشاندہی کی تھی۔ پاکستان۔ بنگسام (بنگال اور آسام) اور عثمانستان (حیدرآباد دکن اور ملحقہ علاقے) پھر لکھا کہ ان تینوں ملکوں کی ایک فیڈریشن ہوگی۔ چوہدری رحمت علی کا بنایا ہوا نقشہ ابھی نامکمل ہے لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس طرف سفر شروع ہوچکا ہے۔
1971ء میں مشرقی پاکستان میں فوجیں داخل کرنے سے پہلے بھارت نے سوویت یونین سے 25سالہ جنگی معاہدہ کیا تھا۔ پاکستان توڑنے میں سوویت یونین نے بھرپور مدد دی، پاکستان کے سوویت نواز دانشوروں نے بھی خوب کنفیوژن پیدا کیا لیکن پاکستان توڑنے کے بعد سوویت یونین بھی ٹوٹ گیا۔ پاکستان توڑنے والے باقی حصے داروں کا ٹوٹنا ابھی باقی ہے۔ یہ فیصلہ بھی دفتر عمل میں موجود ہے۔ علامہ اقبال کا ایک شعر میں خلیج بنگال کے اس طوفان کے تناظر میں پڑھ رہا ہوں اور دل میں خوشی کی اک لہر سی اٹھ رہی ہے۔ اقبال نے شاید آج کے لئے ہم سے کہا تھا۔ ؛
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کوذرا دیکھ