پاکستان اور خلیج بنگال

یوسف-2

محفلین
مشرقی پاکستان کو جب بنگلہ دیش نام دے دیا گیا تو عوامی لیگ کی مربی اندرا گاندھی ڈھاکہ آئیں اور اعلان کیا کہ ’’ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا‘‘… ان کے اس بیان کو ہمارے ہاں بھی سیکولر دانشوروں نے خوب سراہا تھا لیکن آج اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی، اس کی قائم کی ہوئی عدالت اور بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے یہ بات تسلیم کرلی کہ خلیج بنگال میں نظریہ پاکستان زندہ ہے۔ انہوں نے نظریہ پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز پھانسی کا پھندا بلند کرکے کردیا ہے۔ یہ ’’پھانسی کا پھندا‘‘ سانحات کے اس سلسلے کی کڑی ہے جو شیخ مجیب الرحمٰن کے ہاتھ پر ثبت تھی۔
1970ء میں مشہور دست شناس میر بشیر لندن سے کراچی آئے ہوئے تھے۔ میر بشیر، جنگ کے بانی محترم میر خلیل الرحمٰن کے قریبی دوست تھے اور کراچی میں وہ انہی کے مہمان تھے، میر بشیر ایک تقریب میں جمعیت الفلاح میں مدعو تھے یہاں وہ دست شناسی کے بارے میں لیکچر دے رہے تھے کہ اس دوران ایک اخباری فوٹو گرافر نے ان کے سامنے ایک ہاتھ کی بڑی سی تصویر رکھی اور کہا کہ اس ہاتھ کے بارے میں بتائیے۔ میر بشیر نے اس ہاتھ کو غور سے دیکھا اور ان کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ انہوں نے فوٹو گرافر سے پوچھا ’’یہ ہاتھ کس کا ہے؟‘‘
فوٹو گرافر نے بتایا کہ یہ تصویر شیخ مجیب الرحمٰن کے ہاتھ کی ہے۔ شیخ مجیب بھی اس دن کراچی کے دورے پر آئے ہوئے تھے اور اس فوٹو گرافر نے ایک تقریب کے خطاب کے دوران میں یہ تصویر اتاری تھی۔
میر بشیر بہت دیر خاموش رہے پھر دل گرفتہ انداز میں بولے ’’یہ ایک بدقسمت انسان کا ہاتھ ہے، اس کے ہاتھ پر بدقسمتی اور سانحات کا سلسلہ ملتا ہے‘‘۔
ہاتھ کے بارے میں ان کے اس بیان کی لوگوں نے اپنے اپنے انداز سے تاویل کی… لیکن بعد کے حالات نے بتانا شروع کیا کہ اس ہاتھ پر واقعی سانحات اور بدقسمتی کے نشانات بنے ہوئے تھے۔
شیخ مجیب کی پارٹی عوامی لیگ نے الیکشن جیت لیا تھا لیکن ’’اِدھر ہم، اُدھر تم‘‘ کا نعرہ لگوا کر اس کو اقتدار سے محروم کردیا گیا…یہ بدقسمتی کی پہلی زنجیر تھی پھر اس کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان لایا گیا اور مشرقی پاکستان میں اس کی پارٹی کے خلاف ایکشن شروع کیا گیا۔ بھارت نے اس موقع سے فائدہ اٹھاکر مکتی باہنی کی آڑ میں اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کردیں۔ ہندوستان کی فوج جیت گئی پاکستانی فوج سے ہتھیار ڈلوائے گئے۔ پاکستان توڑنے کا اعلان ہوا۔ یہ مجیب الرحمٰن کی دوسری بدقسمتی تھی۔
بنگلہ دیش کے نام سے ملک بنایا گیا اور 2سال ہی میں شیخ مجیب الرحمٰن کو اس کے بیوی بچوں سمیت اس کے گھر میں قتل کر دیا گیا۔ 3دن تک لاشیں وہاں پڑی رہیں۔ شیخ مجیب کی یہ تیسری بدقسمتی تھی۔ تیسرا سانحہ تھا جس سے اس کی ایک بیٹی جو بیرون ملک تھی محفوظ رہی۔ یہ بیٹی 2مرتبہ وزیراعظم بنی اور اس کے دوسرے دور میں پاکستان کے نظریئے کے خلاف جنگ کا آغاز کیا گیا۔ انسان قدرت کے عوامل کو بعض اوقات نہیں سمجھ پاتا۔ شیخ حسینہ واجد کی زندگی اور ان کو اقتدار ملنا، شیخ مجیب کے ہاتھ پر لکھے سانحات کی کڑی ہو سکتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اس کے حالیہ اقدام سے خلیج بنگال کے پانیوں پر نظریہ پاکستان کی روشنی کا مینار ایک بار پھر نظر آنے لگے۔ یہ شیخ مجیب کے ہاتھ پر لکھی چوتھی بدقسمتی ہوسکتی ہے۔
چوہدری رحمت علی نے اپنی کتاب Now Or Never میں ہندوستان میں 3نئے مسلم ملکوں کی نشاندہی کی تھی۔ پاکستان۔ بنگسام (بنگال اور آسام) اور عثمانستان (حیدرآباد دکن اور ملحقہ علاقے) پھر لکھا کہ ان تینوں ملکوں کی ایک فیڈریشن ہوگی۔ چوہدری رحمت علی کا بنایا ہوا نقشہ ابھی نامکمل ہے لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس طرف سفر شروع ہوچکا ہے۔
1971ء میں مشرقی پاکستان میں فوجیں داخل کرنے سے پہلے بھارت نے سوویت یونین سے 25سالہ جنگی معاہدہ کیا تھا۔ پاکستان توڑنے میں سوویت یونین نے بھرپور مدد دی، پاکستان کے سوویت نواز دانشوروں نے بھی خوب کنفیوژن پیدا کیا لیکن پاکستان توڑنے کے بعد سوویت یونین بھی ٹوٹ گیا۔ پاکستان توڑنے والے باقی حصے داروں کا ٹوٹنا ابھی باقی ہے۔ یہ فیصلہ بھی دفتر عمل میں موجود ہے۔ علامہ اقبال کا ایک شعر میں خلیج بنگال کے اس طوفان کے تناظر میں پڑھ رہا ہوں اور دل میں خوشی کی اک لہر سی اٹھ رہی ہے۔ اقبال نے شاید آج کے لئے ہم سے کہا تھا۔ ؛

کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کوذرا دیکھ​
(تحریر عظیم سرور، جنگ 19 دسمبر 2013)
 

یوسف-2

محفلین
سولہ دسمبر کا دن گزر چکا ہے اسے ہماری قومی تاریخ میں سیاہ ترین دن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس دن پاکستان دولخت ہو گیا تھا۔ برسوں پہلے 16دسمبر کے بعد جو شام آئی تھی اس کے آنگن میں غم اور اداسی تھی۔ اس شام چراغ بجھ گئے تھے۔ ہمارے دشمن بھارت نے ایک خطرناک کھیل کے ذریعے ہمارے وجود کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا تھا۔ صاحبو! آج میں صرف دو تین باتوں پر بات کروں گا۔ اس میں 1971ء سے پہلے والی پاکستانی سیاست پر بات ہوگی، پھر جو سیاست آج ہو رہی ہے، کچھ اس پر لکھوں گا اور چند باتیں دفتر خارجہ کی نئی ترجمان تسنیم اسلم کے بارے میں ہوں گی کہ وہ دوسری مرتبہ دفتر خارجہ کی ترجمان بنی ہیں۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان کے خلاف سازشوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ پہلی سازش کا شاخسانہ مائونٹ بیٹن کی بھارت نوازیوں کے باعث ہوا۔ پاکستان کو وہ بہت سے علاقے نہ مل سکے جہاں مسلم اکثریت تھی۔ کشمیر بھی ایک سازش کے تحت بھارتی قبضے میں دیا گیا۔ یہ بھی بدقسمتی تھی کہ قائداعظمؒ کی وفات ایک سال بعد ہو گئی۔ ان کی موت کے پس پردہ بھی کئی سازشیں تھیں۔ سازشوں کا ایک جال قیام پاکستان کے ساتھ ہی بنگال میں بچھ گیا تھا۔ وہاں کے پروگریسو لوگوں نے 1948ء میں یہ مطالبہ کر دیا تھا کہ بنگالی کو ریاست کی زبان بنایا جائے۔ اس تحریک کو عروج 21 فروری 1952ء کو اس وقت ملا جب پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کچھ لوگ مارے گئے۔ وہ مسلم لیگ جو بنگال میں بہت مضبوط ہوا کرتی تھی، 1954ء میں کمزور ہو گئی۔ وہاں دوسری جماعتیں طاقت پکڑنے لگیں۔ 1963ء میں حسین شہید سہروردی کی وفات کے بعد عوامی لیگ شیخ مجیب الرحمن کے ہتھے چڑھ گئی اور مجیب الرحمن بھارت کے ہتھے چڑھ گیا، یہیں سے کام خراب ہوا۔ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات نے ملک کو دولخت کر دیا حالانکہ 1970ء کے انتخابات کے بعد 11جنوری 1971ء کو یحییٰ خان، بھٹو سے ملنے کیلئے لاڑکانہ بھی گئے لیکن اس وقت کیا ہو سکتا ہے جب سیاست میں سازش شامل ہو۔ اس کی ایک مثال اس طرح ہے کہ شیخ مجیب الرحمن، ایک ماہر تعلیم محمد علی رضا کے ساتھ مشرقی بھارت کے شہر اگرتلہ میں کیا لینے گیا تھا۔ اگرتلہ، تری پورہ کی سیر کرنے کو جب آئی ایس آئی کے کرنل شمس العالم نے بے نقاب کیا تو بنگال رجمنٹ کے رئوف الرحمن نے کرنل عالم کی زندگی چھیننے کی کوشش کی، مگر بہادری سے دفاع کرنے والا کرنل بچ گیا اور پھر اسے ستارۂ بسالت دیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے 1966ء میں چھ نکات لاہور میں پیش کئے تھے۔ جب کبھی بھی پاکستان کے دولخت ہونے کی بات ہو گی تو مکتی باہنی کا ذکر ضرور آئے گا، جس کے سربراہ پاک فوج کے ایک سابق آفیسر کرنل ایم اے جی عثمانی تھے۔ مکتی باہنی علیحدگی پسندوں کی وہ فورس تھی جس میں ایک لاکھ افراد شامل تھے اور پاکستان کی فوج وہاں اس کے نصف سے بھی کم تھی پھر بھارت مغربی بنگال، آسام اور تری پورہ سے مکتی باہنی کی پوری مدد کر رہا تھا۔ مکتی باہنی کے بارے میں حقائق جاننے کیلئے شرمیلا بوسے کی کتاب پڑھی جا سکتی ہے یا پھر بنگلہ دیش تحریک کے ایک رہنما ڈاکٹر ایم عبدالمعنیم چوہدری کی کتاب میں بھی کافی کڑوے سچ ہیں، جو انہوں نے 1996ء میں بولے ہیں۔ ایک اور صاحب نے بھی سچ سے گریز نہیں کیا۔ ان کا نام کرنل اختر حسین ہے جو بنگلہ دیش میں پہلے ضیاء الرحمن کی کابینہ میں وزیر تھے، پھر خالدہ ضیاء کی کابینہ کا حصہ تھے۔ ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج تو وہاں بالکل ظالم نہ تھی چونکہ جب فوج نے آپریشن شروع کیا تو مکتی باہنی کے ایک لاکھ مسلح افراد کے علاوہ مشرقی بنگال رجمنٹ، مشرقی بنگال رائفلز، پولیس اور دیگر فورسز کے علاوہ طالب علموں اور دیگر سرگرم کارکنوں نے پاکستانی فوج کی مخالفت شروع کر دی اور یہ مخالفت عملی جدوجہد کے روپ میں تھی۔ آپ پاکستانی فوج کی تعداد کا اندازہ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ بیانوے ہزار جنگی قیدیوں میں سے چالیس ہزار فوج کے تھے، باقی سویلینز تھے۔ ان میں ریلوے، ڈاک، پی آئی اے اور دیگر محکموں کے لوگ شامل تھے، بعض کاروباری افراد بھی تھے۔
مکتی باہنی کو بھارت کی مدد سے کامیابی مل گئی اور جب بنگلہ دیش کی فارمیشن ہوئی تو مکتی باہنی کے سربراہ کرنل ایم اے جی عثمانی کو بنگلہ دیش کی تمام فورسز کا کمانڈر انچیف بنایا گیا اور انہیں جرنیل بنا دیا گیا۔ آج بنگلہ دیش ایک الگ ملک ہے اور ہم مغربی پاکستان، پورے پاکستان کے طور پر ایک ملک ہیں۔ پاکستان سے محبت کرنا پتہ نہیں کہاں کہاں جرم بن جاتا ہے۔ آج بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے والوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں، تو آج ہمارے پیارے پاکستان میں وطن کی مخالفت کرنا فیشن بن چکا ہے۔ اگرچہ یہ فیشن بہت کم لوگوں میں ہے۔ آج بھی ہمارا دشمن بھارت ہمارے ہاں زندگی کے مختلف شعبوں کے افراد کے ذریعے بہت کچھ کر رہا ہے۔ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے اور تاریخ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ 1970ء سے پہلے پاکستانی سیاست میں دولت کا کھیل نہیں تھا، کرپشن نہیں تھی، مگر آج کی سیاست کرپشن کا گڑھ بن چکی ہے۔ اسی طرح تاریخ کا سبق ہے کہ اپنی صفوں میں سے دشمنوں کی پہچان ضرور رکھو بلکہ ان پر نگاہ رکھو اگر ہو سکے تو ان کی افزائش سے پہلے ہی انہیں ختم کر دو کہ تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔
سیاست کی بے رحمی ایک مرتبہ پھر مخدوم جاوید ہاشمی پر وار کرنے والی ہے۔ یہ 2010ء کا واقعہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے کہنے پر میں ہاشمی صاحب کے پاس حاضر ہوا کہ آپ مسلم لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں کیونکہ ن لیگ آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرے گی۔ ہاشمی صاحب نے سوچنے کیلئے وقت لیا اور پھر جواب دے دیا کہ ’’نہیں، مجھ سے بڑھاپے میں یہ ظلم نہ کرائو‘‘۔ میں نے کہا ’’اوکے‘‘ پھر پتہ نہیں ن لیگ نے ان کے ساتھ کیا کیا کہ وہ تحریک انصاف کی نذر ہو گئے۔ آج ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ ن کے کچھ افراد جاوید ہاشمی پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ ن لیگ میں واپس آ جائیں۔ سنا ہے کہ ہاشمی صاحب کے دل میں بھی کچھ محبت ن لیگ کی جاگ اٹھی ہے۔ میں اس مرحلے پر بس یہی کہنا چاہتا ہوں کہ روز روز پارٹیاں بدلنا اچھی بات نہیں ہے۔
آخر میں کچھ بات دفتر خارجہ کی نئی ترجمان کے بارے میں ہو جائے۔ راولا کوٹ کشمیر کی رہنے والی تسنیم اسلم، قائداعظمؒ یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ہیں۔ تسنیم اسلم، جنرل مشرف کے دور میں بھی دفتر خارجہ کی ترجمان تھیں۔ یہ خوبرو خاتون روحانیت پر بہت یقین رکھتی ہیں۔ وہ صاحبہ مرشد ہیں۔ موسیقی پر انہیں دسترس حاصل ہے۔ نفاست ان کے ہاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ چند ماہ پیشتر ہی وہ مختلف ملکوں میں سفارت کاری نباہ کر آئی ہیں۔ وہ جہاں بھی گئیں، پاکستان کا نام بلند کرنے کی کوشش کی۔ مطالعہ تسنیم اسلم کی زندگی کا خاصا ہے۔ آکر میں معروف شاعرہ ڈاکٹر صغریٰ صدف کا خوبصورت شعر آپ کی نذر

میرے لئے تو زندگی جنگل کی رات تھی
پر اس کی یاد نے مجھے ڈرنے نہیں دیا​
(مظہر برلاس، جنگ 19 دسمبر 2013)
 

یوسف-2

محفلین
جناب سجادمیر نے کہا:
’’ تیار ہو جاؤ ، میں کراچی آرہا ہوں‘‘
اور میں نے تیاری شروع کردی۔اس تیاری کا پس منظر بھی خوب ہے۔استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود اور میرا کئی ماہ تک یہ معمول رہا ہے کہ میر صاحب کے کالم پڑھتے اور ان کے روحانی پہلوؤں پر گفت گو کرتے۔میر صاحب کے کالم ان دنوں کیا مزے کے ہوتے تھے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب انھوں نے تصوف پر اوپر تلے بہت سے کالم لکھے۔اتفاق سے ان ہی دنوں میر صاحب عمرہ بھی کر آئے تھے۔ اس لیے طاہر صاحب کا اندازہ تھا کہ میرصاحب کا یہ نیا انداز اس دربار پر حاضری کا فیض ہے۔پھر اس بحث میں نصیر احمد سلیمی صاحب بھی شامل ہو گئے اور ہم لوگوں نے سوچا کہ کچھ ایسا ہو کہ تصوف پر میر صاحب کے کچھ لیکچروں کا اہتما م ہو جائے تو بڑا اچھا ہو۔ شاید ایسی بات میں نے ایک بار فون پر میر صاحب سے کہہ بھی ڈالی تھی ۔ اس طرح کی خواہشات بڑی محترم اور مقدس ہوتی ہیں لیکن میرے جیسے دنیا دار لوگ جلد ہی روزمرہ کی مصروفیات میں کھو جاتے ہیں ۔ کچھ ایسا ہی اس خواہش کے ساتھ بھی ہوا۔اب میر صاحب نے اپنی آمد کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ ہی یہ پرانی خواہش بھی انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔میری تیاری کا ایک پس منظر دوسرا بھی تھا جس کا تعلق ایک تلخ حالیہ بحث سے ہے جس میں ڈاکٹر طاہر مسعودصاحب کی بہت دل آزاری کی گئی۔ سجاد میر اور میں بلکہ اور بھی کئی دوست اس تلخ معاملے پر بہت دل گرفتہ تھے۔میرا خیال تھا کہ میر صاحب کی آمد سے ہم دکھی لوگوں کو ڈھارس ہوگی لیکن یہ معاملہ تو کچھ اور ہی نکلا ۔ میر صاحب دراصل جماعت اسلامی کے مہمان تھے ۔ پتہ چلا کہ جماعت نے لاہور سے صرف میر صاحب کو مدعو نہیں کیا، اوریا مقبول جان کو بھی بلایا ہے اور امیر جماعت یعنی سید منور حسن صاحب کو بھی تاکہ اس شام اکٹھے ہو کر16 دسمبر کے اُن واقعات کی یاد منائی جاسکے جب قوم کے سر شرم سے جھکا دیے گئے تھے۔بس ، اس شام مشرقی پاکستان کو یاد کیا گیا اور مشرقی پاکستان کے ذکر سے شہید عبدالقادر ملا کا ذکر تو ہو نا ہی تھا۔یہ ذکر بھی ہوااور دل کے تار ایسے چھڑے کہ دل اب تک نڈھال ہے۔
میرے یار شاہ نواز نے اس شام خوب بات کہی۔ شاہ نواز صحافت کا طالب علم ہے ۔اس علم یا یوں کہئے کہ فن کی نشست و برخواست ہم دونوں نے ایک ساتھ ہی سیکھی ہے اور زندگی کے چار پابچ برس یوں اکٹھے گزارے ہیں کہ طاہر صاحب کہا کرتے تھے کہ تم لوگ تو یک جان دو قالب بن چکے ہو لیکن صحافت کایہ طالب علم اب تاریخ اور فلسفے کے معاملات میں کچھ ایسا ڈوبا ہے کہ صحافت کہیں پیچھے رہ گئی ہے اور ایک نیا شاہ نواز وجود میں آگیا ہے جسے لوگ مفکر اور فلسفی قرار دیتے ہیں تو میرے اس فلسفی یار نے اس شام یہ کہہ کر مجلس کو چونکا دیا کہ یہ جو سقوط ڈھاکہ ہے، دراصل ہمارے اجتماعی ضمیر پر ایک بوجھ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شکست کو قوم نے اپنی زندگی کا حصہ نہیں بناکر اس کا حق ادا نہیں کیا،اس لیے اس واقعے سے نہ ہمیں کوئی سبق ملا اور نہ ہم تباہی کا راستہ بدل کر اپنی منزل کی طرف گامزن ہوسکے۔شاہ نواز کی اس بات سے مجھے مرحوم سلیم احمد یاد آگئے۔شاہ نواز کو ان کی فرزندی میں آنے کا شرف حاصل ہے اور طاہر صاحب اور میر صاحب نے ان سے براہ راست فیض حاصل کیا ہے۔اس لیے ان کی شاگردی کے منصب پر فائز ہیں ۔سلیم احمد نے اپنی معرکہ آراکتاب نئی نظم اور پورا آدمی میں سدو میاں کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے کہ جو شخص پاکیزگی اختیار نہیں کرتا ،یہ ذات شریف اس پربھوت کی طرح سوا رہوجاتی ہے۔شاہ نواز کے اس سخن سے میں نے جانا کہ سقوط ڈھاکہ کا چونکہ ہم نے اجتماعی طور پر حق ادا نہیں کیا، اس کے تقاضے پورے کر کے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا نہیں کیا ، اس لیے سقوط کا یہ واقعہ بھی سدو میاں کی طرح ہمارے سر پر سوار ہوگیا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ کبھی بلوچستان میں گڑ بڑ ہوجاتی ہے، کبھی فاٹا میں اور کراچی تو مستقل ایک عذاب میں گرفتار ہے۔
منور حسن صاحب یوں تو سیاست دان ہیں لیکن ان کی باتیں کسی طرح دار ادیب کی طرح رمز و کنایہ سے بھرپور ہوتی ہیں۔انھوں نے اس سانحے کی رمز یہ بیان کی کہ دین کو ہم نے بہ حیثیت قوم اپنے اوپر لادا تو بہت ہے لیکن اس بوجھ کے سبب دین کی روح کہیں غائب ہوگئی ہے۔ ان کی تشخیص یہ تھی کہ سانحہ مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا سبب یہی ہے۔ رہ گئے سجاد میرتو انھوں نے اس شب خوب رلایا۔رونے میں خرابی یہ ہوتی ہے کہ انسان مایوسی کی طرف جانکلتا ہے ۔ میر صاحب بڑے صحافی ضرو ر ہیں لیکن فی الاصل تو ادیب ہیں اس لیے اس انسانی کمزوری کو بھی خوب جانتے ہیں۔انھوں نے دکھوں کی یاد بھی تازہ کی اور مجیب کی بیٹی کو بھی خوب للکارا۔صرف حسینہ کو ہی نہیں للکارا بلکہ اپنے جسد قومی میں موجود ان کالی بھیڑوں کی بھی شناخت کی جن کے ہاتھ مشرقی پاکستان کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ میر صاحب کا کہنا تھا کہ عبدالقادر ملا کی پھانسی کے خلاف قومی اسمبلی میں پیش ہونے والی قرار داد پر پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم نے جو کچھ کیا،اس پر انھیں کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ ان لوگوں کو یہی کرنا چاہئے تھا ۔انھیں حیرت تو ولی خان کی اے این پی پر ہوئی جس کامشرقی پاکستان کے المیے پر جماعت اسلامی جیسا مؤقف تھا ۔اس پر ان کا خیال بیگم نسیم ولی خان کی طرف گیا جو ان دنوں کہا کرتی ہیں کہ اسفند یار نے اپنے باپ کی جماعت کو بیچ ڈالا۔یہ شام اس لیے بھی یاد رہے گی کہ پاکستان کے اس مکتبہ فکر کی طرف سے پہلی بار یہ آواز بلند ہوئی کہ پاکستان اور اسلام سے محبت کر نے والے اب یہ فیصلہ کر لیں کہ کل تک وہ جن کے اتحادی تھے اور جن کے ساتھ مل کر نظریے کی خاطر ہتھیار اٹھایا کرتے تھے،وہی تو اصل میں بے وفا ہیں، ان ہی پر تو اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔اس سفر کی اگلی منزلیں اب ان نام نہاد ہم سفروں کے بغیر طے ہوں گی۔ میر صاحب اپنی گرج دار آواز میں یہ اعلا ن کررہے تھے میرے کانوں میں پٹ سن کے بھرے بوٹوں کے سرسرانے کی آواز گونجی اور سانسوں میں اس کی خوش بو مہکی۔ یوں گویا یہ شام میں نے مشرقی پاکستان کے ساتھ گزاری۔ (فاروق عادل، نئی بات)
 

شمشاد

لائبریرین
صاحب مراسلہ پر اعتراضات کرنے کی بجائے اگر آپ سب مراسلوں پر بات کرتے تو زیادہ بہتر تھا۔
 

ظفری

لائبریرین
صاحب مراسلہ پر اعتراضات کرنے کی بجائے اگر آپ سب مراسلوں پر بات کرتے تو زیادہ بہتر تھا۔
ہاں بھئی بلکل صحیح بات ہے کہ نظریاتی اختلاف اپنی جگہ مگر یہ بھی نہیں ہونا چاہیئے کہ " ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے " ۔ ;)
 

کاشفی

محفلین
پاکستان۔ بنگسام (بنگال اور آسام) اور عثمانستان (حیدرآباد دکن اور ملحقہ علاقے) پھر لکھا کہ ان تینوں ملکوں کی ایک فیڈریشن ہوگی۔ چوہدری رحمت علی کا بنایا ہوا نقشہ ابھی نامکمل ہے لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس طرف سفر شروع ہوچکا ہے۔
1971ء میں مشرقی پاکستان میں فوجیں داخل کرنے سے پہلے بھارت نے سوویت یونین سے 25سالہ جنگی معاہدہ کیا تھا۔ پاکستان توڑنے میں سوویت یونین نے بھرپور مدد دی، پاکستان کے سوویت نواز دانشوروں نے بھی خوب کنفیوژن پیدا کیا لیکن پاکستان توڑنے کے بعد سوویت یونین بھی ٹوٹ گیا۔ پاکستان توڑنے والے باقی حصے داروں کا ٹوٹنا ابھی باقی ہے۔ یہ فیصلہ بھی دفتر عمل میں موجود ہے۔
(تحریر عظیم سرور، جنگ 19 دسمبر 2013)

مِرا نشیمن بکھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے
جو خواب زندہ ہے مر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

نہ جانے کیوں اِضطرار سا ہے، ہر اک پل بے قرار سا ہے
یہ خوف دل میں اُتر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

عجب سی ساعت ہے آج سر پر، کہ آنچ آئی ہوئی ہے گھر پر
دُعا کہیں بے اثر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

یہ سجدہ گاہیں یہ فرش و منبر، جو ہیں ہمارے ہی خون سے تر
لہو کی یہ رُت ٹھہر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

یہ کن دُکھوں میں سلگ رہے ہیں، دماغ بارود لگ رہے ہیں
رَگوں میں یہ زہر بھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

رُتوں کے تیور نہیں ہیں اچھے، بدل چکے دوستوں کے لہجے
یہ سیلِ نفرت بپھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

نشانِ منزل تو ہے فروزاں مگر ہم ایسے مسافروں کی
کہیں اُسی پر نظر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

رفاقتوں کا خیال رکھنا، دِلوں کو پیہم سنبھال رکھنا
بچھڑ کوئی ہم سفر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

سدا مُقدّم ہے تیری حُرمت، مِرے وطن تو رہے سلامت
وفا کا احساس مر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے
(شاہدہ حسن - کراچی پاکستان)
 
Top