درست
ابھی ان کو پارٹی بننا ہے، اندرونی طور پہ ابھی کافی لڑائیاں ہیں پارٹی کے اندر
اب شیخ رشید کا معاملہ ہی دیکھ لیں، عمران خان کو پارٹی کے اندر سے احتساب کا سامنا ہے
پھر بھی
میری نیک تمنائیں اس پارٹی کے ساتھ ہیں، آزمانے میں کیا حرج ہے
شیخ کے لیے اہم تحریک انصاف یا راولپنڈی کے عوام؟
تحریر: خضرحیات
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں میزبان کو اس بات پر قائل کررہے تھے کہ ان کی سیاست پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ نہیں لیکن وہ عمران خان کا احترام کرتے ہیں۔ان کی کوشش ہوگی کہ خان صاحب 13 اگست کو عوامی مسلم لیگ کے لیاقت باغ میں ہونیوالے جلسہ میں شرکت کریں ۔اس کیلئے وہ ذاتی طورپر عمران خان کے پاس بھی جائینگے ۔مطلب شیخ صاحب عمران خان کے ساتھ سیاسی ویل ڈیل کرنے پر تیارہیں۔اس پروگرام کے آخر پر میزبان نے بتایا کہ انہوں نے ناظرین سے یہ سوال پوچھاتھاکہ شیخ صاحب کو تحریک انصاف میں شامل ہوناچاہیے یاپھر عوامی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر ہی سیاست جاری رکھنی چاہیے جس کے جواب میں اکثریت نے اس بات کی سپورٹ کی کہ شیخ رشید کو تحریک انصاف جوائن کرلینی چاہیے۔
ادھر اطلاعات ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی چاہتے تھے کہ شیخ رشید کو پارٹی میں پوری شان وشوکت کے ساتھ شامل کرلیاجائے ۔اپنے اس فیصلے کو حتمی شکل دینے کیلئے عمران خان نے پارٹی کے قریبی ساتھیوں کے ساتھ مشاورت شروع کردی تھی۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ عمران خان کیلئے مشکل صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب تحریک انصاف کی اس لیڈرشپ نے شیخ صاحب کی پارٹی میں شمولیت کی مخالفت کردی جو شیخ رشید کے ساتھ جنرل مشرف کی قیادت میں اکٹھے تھے اور شیخ صاحب کے ساتھ جنرل مشرف کو باوردی صدر بنوانے کیلئے لائن میں لگ کر ووٹ ڈال رہے تھے ۔
اسی طرح لال مسجد آپریشن اور نواب اکبر بگٹی کوٹارگٹ کرنے پر قوم کی آواز سننے کی بجائے شیخ رشید کی طرح مشرف کا ڈنکے کی چوٹ پر ساتھ دے رہے تھے ۔عمران خان پارٹی کے اندر شیخ رشید کی مخالفت میں دلائل پر مسکر ا رہے تھے اور اس بات کو انجوائے کررہے تھے کہ ان کے ساتھی دلائل کے ساتھ شیخ رشید پر الزامات کی بارش کررہے تھے، اس بات کے باوجود ان کے اپنے دامن پر جنرل مشرف کی کالک لگی ہوئی ہے۔ عمران خان کی شیخ رشید کے بارے میں ابھی تک خاموشی سے یوں لگتاہے کہ وہ پارٹی لیڈرشپ کی مخالفت کے باوجود شیخ رشید کے عوامی انداز سیاست کو پسند کرتے ہیں اور مناسب وقت کا انتظارکررہے ہیں کہ جب شیخ رشید کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جلسہ عام میں اس بات کا اعلان کریں کہ شیخ صاحب اب ہمارے ساتھ ہیں ۔
اب یہاں سوال یہ اٹھتاہے کہ عمران خان شیخ رشید کو تحریک انصاف میں پارٹی لیڈرشپ کی مخالفت اور مشرف کا ساتھی ہونے کے باوجود کیوں لینا چاہتے ہیں تو اس بات کا جواب یوں ملتاہے کہ جب عمران خان خود جنرل مشرف کے ساتھ ہاتھ ملاکر ریفرنڈم کی حمایت کرچکے ہیں اور ان کے حمایتی اس غلطی کو تسلیم کرنے اور معافی مانگنے پر انہیں معاف کرچکے تو پھر شیخ رشید کو اس عام معافی کی سہولت سے محروم رکھنا ان خیال میں زیادتی ہوگی ۔ساتھ اس بات کو بھی سب جانتے ہیں کہ عمران خان کے سیاسی ٹرک پر اس وقت جہانگیر ترین سمیت جنرل مشرف کے وفاداروں کی اکثریت سوار ہوچکی ہے۔یوں مشرف کے ساتھی شیخ رشید کی تحریک انصاف کے ٹرک پر سواری کوئی انہونی بات نہیں ہوگی ۔
اس وقت تحریک انصاف کی موجودہ قیادت میں واحد جاوید ہاشمی ایک ایسے لیڈر ہیں جو شیخ رشید کی پارٹی میں شمولیت پر اعتراض کرسکتے ہیں کیونکہ انہوں نے جنرل مشرف کے اقتدارکو ڈنکے کی چوٹ پر للکارا اور اسکی اقتدار کی آفروں کو ٹھکر ا کر جیل کئی برس گزار دیئے ۔اس بات کو بھی جاوید ہاشمی خاطر میں نہیں لایاتھاکہ اس کا لیڈرنوازشریف مشرف کے ساتھ خفیہ ڈیل کرکے سعودی عرب جاچکاہے اور جنرل مشرف کے اقتدار کو تسلیم کرلیاہے۔
یہاں دلچسپ صورتحال یوں بھی پیدا ہوتی ہے کہ جاوید ہاشمی جب جنرل مشرف کے دیگر ساتھیوں کے ساتھ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر سیاست کرسکتے ہیں تو شیخ رشید کی پارٹی میں موجودگی ان کیلئے تکلیف دہ کیونکر ہوگی ۔فرق تو صرف اتنا پڑے گاکہ پہلے عمران خان کی پریس کانفرنس میں جاوید ہاشمی عمران خان کے ایک طرف بیٹھے ہوتے ہیں تو دوسری طرف جنرل مشرف کے دست راست جہانگیر ترین موجود ہوتے ہیں پھر اس کرسی پر شیخ صاحب براجمان ہونگے۔
یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ جب 12 اکتوبر 1999 ء کو جنر ل مشرف نے طاقت کے زور پر نواز شریف کی عوامی حکومت پرقبضہ کر لیاتھا تو اسوقت ملک کے سیاستدانوں کی اکثریت نے نوازشریف کاساتھ دینے کی بجائے جنرل مشرف کی حمایت میں نکل کھڑی ہوئی تھی۔ اس کے اقتدار کوجائز کو قرار دینے کیلئے دلائل کی بھرمار کردی گئی تھی ۔ساری دنیا اس وقت حیر ت زدہ رہ گئی جب سیاستدانوں کے ساتھ ملک کی اعلی عدلیہ بھی جنرل مشرف کے عوامی اقتدار پر قبضہ کی حمایت میں آگئی تھی۔بات آگے بڑھی تو صحافت کے چوہدری بھی آئین کس نے توڑا کے عنوان سے کالم لکھ کر جنرل مشرف کو آئین سے غداری کا موروزالزام نہیں ٹھہراتے بلکہ منتخب وزیراعظم نوازشریف کو آئین توڑنے کا مرتکب قرارد ے رہے تھے ۔
پھر ملکی سیاست نے کروٹ لی تو جمہوری دور کی آمد کے ساتھ ہی ہم دیکھتے ہیں کہ وہی سیاسی کردار جو جنرل مشرف کے قریبی ساتھی تھے اور اس کے قصیدے پڑھتے تھے، وہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی صف اول کی لیڈرشپ کے ساتھ کھڑے ہی نہیں ہوتے بلکہ اعلی حکومتی عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں ۔ اس واردات پر دونوں جماعتوں کی لیڈرشپ شرمندہ ہونے کی بجائے ڈھٹائی کے ساتھ ان کی اپنی پارٹیوں میں شمولیت کا دفاع کرتی ہیں۔جیسے جنرل مشرف کے صلاح کار طارق عظیم کی مسلم لیگ نواز میں شمولیت پر نوازشریف کررہے تھے۔سیاست میں ایک نیا موڑ آیاتو جنرل مشرف کے دیگر اقتدار کے ساتھی عمران خان کے ٹرک پر بھی سوار ہوگئے ہیں اور اپنے آپ کو ملک میں نظام کی تبدیلی کیلئے ناگریز قراردے رہے ہیں۔
شیخ رشید اور راولپنڈی کے عوام کے سیاسی رشتہ کو سب واقف ہیں ۔ موصوف کو سیاست کے میدان میں بلندیوں پر پہنچانے والے بھی پنڈی کے عوام تھے اور پھر ناراضگی کا اظہار کیاتو کہ شیخ صاحب کی الیکشن میں ضمانت تک ضبط کروادی ۔کہانی کا دلچسپ موڑ یوں نظرآتاہے کہ شیخ رشید نے الیکشن میں ضمانت ضبط ہونے پر ہمت نہیں ہاری تو عوام نے بھی انہیں دوبارہ منتخب نہ کرنے کی یوں لگتاہے قسم کھالی ہے۔ سیاسی مبصر اس صورتحال پر یوں تبصرہ کرتے ہیں شیخ رشید مستقبل میں سیاست عوامی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے کریں یاپھر تحریک انصاف کے ٹرک پر سوار ہوکر عمران خان کا ہاتھ تھام لیں، ان کی انتخابی سیاست میں کامیابی راولپنڈی کے عوام کے ہاتھ میں ہے۔