پاکستان تحریک انصاف کی معاشی پالیسی

آج بہت دنوں بعد ایک بہت ہی اہم اور ضروری موضوع پر ایک عمدہ سیاسی پروگرام دیکھا اور محسوس ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف عمدہ بنیادوں پر آگے بڑھ رہی ہے اور پوری تیاری سے چناؤ کا انتظار کر رہی ہے۔

 

ساجد

محفلین
محب علوی ابھی تو میں جلدی میں ہوں۔ رات کو یہ ویڈیو دیکھوں گا اور آپ سے "اختلافِ رائے" کروں گا :) ۔ ویسے آج صبح CNBC پر حسن نثار بھی کہہ رہے تھے کہ عمران نے دو بڑی پارٹیوں کی رعونت ختم کر دی ہے۔ اسی لئے اب ان کے ممبران پارٹیوں سے اختلاف کا حوصلہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔
 
محب علوی ابھی تو میں جلدی میں ہوں۔ رات کو یہ ویڈیو دیکھوں گا اور آپ سے "اختلافِ رائے" کروں گا :) ۔ ویسے آج صبح CNBC پر حسن نثار بھی کہہ رہے تھے کہ عمران نے دو بڑی پارٹیوں کی رعونت ختم کر دی ہے۔ اسی لئے اب ان کے ممبران پارٹیوں سے اختلاف کا حوصلہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔
حسن نثار کے دل میں عمران کیلیے نرم گوشہ ہے اور اسکا وہ کئی مرتبہ ذکر کر چکے ہیں:)
 
محب علوی ابھی تو میں جلدی میں ہوں۔ رات کو یہ ویڈیو دیکھوں گا اور آپ سے "اختلافِ رائے" کروں گا :) ۔ ویسے آج صبح CNBC پر حسن نثار بھی کہہ رہے تھے کہ عمران نے دو بڑی پارٹیوں کی رعونت ختم کر دی ہے۔ اسی لئے اب ان کے ممبران پارٹیوں سے اختلاف کا حوصلہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔

اختلاف ضرور کریں مگر خدارا ملک کو اقتدار میں موجود پارٹیوں سے بچانے کی بھی کوشش کریں اور اس دفعہ تبدیلی کے نام پر ووٹ دیں اور دلوائیں۔
 

mfdarvesh

محفلین
اقتدار سے باہر تمام لوگ ہی بڑھکیں مارتے ہیں، مگر حکومت آنے کے بعد وہ بھی وہی کرتے ہیں، جو اب ہورہا ہے،
اللہ ہمیں مخلص حکمران عطا فرمائے، آمین
 

mfdarvesh

محفلین
اس کے لیے ہم سب کو ایک دفعہ تحریک انصاف کو موقع دینا ہوگا اور یہ بتانا ہوگا کہ عوام نئے لوگوں کو اور تبدیلی کو پسند کرتے ہیں اور پرانے فرعونوں کو مسترد کر سکتے ہیں۔

درست
مگر ووٹ تو اس ان پڑھ نے ہی دینا ہے جس کو شاہ جی کے چند سکے عزیز ہیں
 
پہلی بار کوئی پارٹی بھرپور انداز میں تمام اہم امور پر پالیسیاں مرتب کرکے پیش بھی کر رہی ہے۔

پہلی بار کوئی پارٹی اپنی لیڈر شپ کے اثاثے اپنی ویب سائٹ پر شائع کر رہی ہے۔

پہلی بار کوئی پارٹی اپنے اندر الیکشن کے سال میں بھی الیکشن کروا رہی ہے۔
 
درست
مگر ووٹ تو اس ان پڑھ نے ہی دینا ہے جس کو شاہ جی کے چند سکے عزیز ہیں

جی نہیں ووٹ اس دفعہ ان تمام پڑھے لکھوں نے بھی دینا ہے جنہوں نے کئی عشروں سے یہ حق محفوظ رکھا ہے۔

ان نوجوانوں نے بھی دینا ہے جنہیں اب ووٹ ڈالنے کا موقع ملے گا۔

ان تارکین وطن نے بھی دینا ہے جنہیں پہلی بار یہ موقع ملے گا۔
 

mfdarvesh

محفلین
درست
ابھی ان کو پارٹی بننا ہے، اندرونی طور پہ ابھی کافی لڑائیاں ہیں پارٹی کے اندر
اب شیخ رشید کا معاملہ ہی دیکھ لیں، عمران خان کو پارٹی کے اندر سے احتساب کا سامنا ہے
پھر بھی
میری نیک تمنائیں اس پارٹی کے ساتھ ہیں، آزمانے میں کیا حرج ہے
 

mfdarvesh

محفلین
جی نہیں ووٹ اس دفعہ ان تمام پڑھے لکھوں نے بھی دینا ہے جنہوں نے کئی عشروں سے یہ حق محفوظ رکھا ہے۔

ان نوجوانوں نے بھی دینا ہے جنہیں اب ووٹ ڈالنے کا موقع ملے گا۔

ان تارکین وطن نے بھی دینا ہے جنہیں پہلی بار یہ موقع ملے گا۔

ٹھیک ہے
مگر یہ پڑھے لکھے تعداد میں بہت کم ہیں، یہی تو مسئلہ ہے جمہوریت میں سر گنے جاتے ہیں تولے نہیں جاتے
 

ساجد

محفلین
پہلی بار کوئی پارٹی بھرپور انداز میں تمام اہم امور پر پالیسیاں مرتب کرکے پیش بھی کر رہی ہے۔

پہلی بار کوئی پارٹی اپنی لیڈر شپ کے اثاثے اپنی ویب سائٹ پر شائع کر رہی ہے۔

پہلی بار کوئی پارٹی اپنے اندر الیکشن کے سال میں بھی الیکشن کروا رہی ہے۔
واقعی یہ مثبت نقاط ہیں پی ٹی آئی کے۔
 
یہاں صرف پسند ہی کا بٹن نہیں چاہیے بلکہ تاثرات بھی رقم کرنے کی ضرورت ہے۔

خوش آئین بات ہے کہ مسلم لیگ ن نے بھی معاشی پالیسی دی ہے گو وہ اتنی تفصیلی نہیں جتنی پاکستان تحریک انصاف کی ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
درست
ابھی ان کو پارٹی بننا ہے، اندرونی طور پہ ابھی کافی لڑائیاں ہیں پارٹی کے اندر
اب شیخ رشید کا معاملہ ہی دیکھ لیں، عمران خان کو پارٹی کے اندر سے احتساب کا سامنا ہے
پھر بھی
میری نیک تمنائیں اس پارٹی کے ساتھ ہیں، آزمانے میں کیا حرج ہے
شیخ کے لیے اہم تحریک انصاف یا راولپنڈی کے عوام؟
تحریر: خضرحیات
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں میزبان کو اس بات پر قائل کررہے تھے کہ ان کی سیاست پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ نہیں لیکن وہ عمران خان کا احترام کرتے ہیں۔ان کی کوشش ہوگی کہ خان صاحب 13 اگست کو عوامی مسلم لیگ کے لیاقت باغ میں ہونیوالے جلسہ میں شرکت کریں ۔اس کیلئے وہ ذاتی طورپر عمران خان کے پاس بھی جائینگے ۔مطلب شیخ صاحب عمران خان کے ساتھ سیاسی ویل ڈیل کرنے پر تیارہیں۔اس پروگرام کے آخر پر میزبان نے بتایا کہ انہوں نے ناظرین سے یہ سوال پوچھاتھاکہ شیخ صاحب کو تحریک انصاف میں شامل ہوناچاہیے یاپھر عوامی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر ہی سیاست جاری رکھنی چاہیے جس کے جواب میں اکثریت نے اس بات کی سپورٹ کی کہ شیخ رشید کو تحریک انصاف جوائن کرلینی چاہیے۔
ادھر اطلاعات ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی چاہتے تھے کہ شیخ رشید کو پارٹی میں پوری شان وشوکت کے ساتھ شامل کرلیاجائے ۔اپنے اس فیصلے کو حتمی شکل دینے کیلئے عمران خان نے پارٹی کے قریبی ساتھیوں کے ساتھ مشاورت شروع کردی تھی۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ عمران خان کیلئے مشکل صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب تحریک انصاف کی اس لیڈرشپ نے شیخ صاحب کی پارٹی میں شمولیت کی مخالفت کردی جو شیخ رشید کے ساتھ جنرل مشرف کی قیادت میں اکٹھے تھے اور شیخ صاحب کے ساتھ جنرل مشرف کو باوردی صدر بنوانے کیلئے لائن میں لگ کر ووٹ ڈال رہے تھے ۔
اسی طرح لال مسجد آپریشن اور نواب اکبر بگٹی کوٹارگٹ کرنے پر قوم کی آواز سننے کی بجائے شیخ رشید کی طرح مشرف کا ڈنکے کی چوٹ پر ساتھ دے رہے تھے ۔عمران خان پارٹی کے اندر شیخ رشید کی مخالفت میں دلائل پر مسکر ا رہے تھے اور اس بات کو انجوائے کررہے تھے کہ ان کے ساتھی دلائل کے ساتھ شیخ رشید پر الزامات کی بارش کررہے تھے، اس بات کے باوجود ان کے اپنے دامن پر جنرل مشرف کی کالک لگی ہوئی ہے۔ عمران خان کی شیخ رشید کے بارے میں ابھی تک خاموشی سے یوں لگتاہے کہ وہ پارٹی لیڈرشپ کی مخالفت کے باوجود شیخ رشید کے عوامی انداز سیاست کو پسند کرتے ہیں اور مناسب وقت کا انتظارکررہے ہیں کہ جب شیخ رشید کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جلسہ عام میں اس بات کا اعلان کریں کہ شیخ صاحب اب ہمارے ساتھ ہیں ۔
اب یہاں سوال یہ اٹھتاہے کہ عمران خان شیخ رشید کو تحریک انصاف میں پارٹی لیڈرشپ کی مخالفت اور مشرف کا ساتھی ہونے کے باوجود کیوں لینا چاہتے ہیں تو اس بات کا جواب یوں ملتاہے کہ جب عمران خان خود جنرل مشرف کے ساتھ ہاتھ ملاکر ریفرنڈم کی حمایت کرچکے ہیں اور ان کے حمایتی اس غلطی کو تسلیم کرنے اور معافی مانگنے پر انہیں معاف کرچکے تو پھر شیخ رشید کو اس عام معافی کی سہولت سے محروم رکھنا ان خیال میں زیادتی ہوگی ۔ساتھ اس بات کو بھی سب جانتے ہیں کہ عمران خان کے سیاسی ٹرک پر اس وقت جہانگیر ترین سمیت جنرل مشرف کے وفاداروں کی اکثریت سوار ہوچکی ہے۔یوں مشرف کے ساتھی شیخ رشید کی تحریک انصاف کے ٹرک پر سواری کوئی انہونی بات نہیں ہوگی ۔
اس وقت تحریک انصاف کی موجودہ قیادت میں واحد جاوید ہاشمی ایک ایسے لیڈر ہیں جو شیخ رشید کی پارٹی میں شمولیت پر اعتراض کرسکتے ہیں کیونکہ انہوں نے جنرل مشرف کے اقتدارکو ڈنکے کی چوٹ پر للکارا اور اسکی اقتدار کی آفروں کو ٹھکر ا کر جیل کئی برس گزار دیئے ۔اس بات کو بھی جاوید ہاشمی خاطر میں نہیں لایاتھاکہ اس کا لیڈرنوازشریف مشرف کے ساتھ خفیہ ڈیل کرکے سعودی عرب جاچکاہے اور جنرل مشرف کے اقتدار کو تسلیم کرلیاہے۔
یہاں دلچسپ صورتحال یوں بھی پیدا ہوتی ہے کہ جاوید ہاشمی جب جنرل مشرف کے دیگر ساتھیوں کے ساتھ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر سیاست کرسکتے ہیں تو شیخ رشید کی پارٹی میں موجودگی ان کیلئے تکلیف دہ کیونکر ہوگی ۔فرق تو صرف اتنا پڑے گاکہ پہلے عمران خان کی پریس کانفرنس میں جاوید ہاشمی عمران خان کے ایک طرف بیٹھے ہوتے ہیں تو دوسری طرف جنرل مشرف کے دست راست جہانگیر ترین موجود ہوتے ہیں پھر اس کرسی پر شیخ صاحب براجمان ہونگے۔
یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ جب 12 اکتوبر 1999 ء کو جنر ل مشرف نے طاقت کے زور پر نواز شریف کی عوامی حکومت پرقبضہ کر لیاتھا تو اسوقت ملک کے سیاستدانوں کی اکثریت نے نوازشریف کاساتھ دینے کی بجائے جنرل مشرف کی حمایت میں نکل کھڑی ہوئی تھی۔ اس کے اقتدار کوجائز کو قرار دینے کیلئے دلائل کی بھرمار کردی گئی تھی ۔ساری دنیا اس وقت حیر ت زدہ رہ گئی جب سیاستدانوں کے ساتھ ملک کی اعلی عدلیہ بھی جنرل مشرف کے عوامی اقتدار پر قبضہ کی حمایت میں آگئی تھی۔بات آگے بڑھی تو صحافت کے چوہدری بھی آئین کس نے توڑا کے عنوان سے کالم لکھ کر جنرل مشرف کو آئین سے غداری کا موروزالزام نہیں ٹھہراتے بلکہ منتخب وزیراعظم نوازشریف کو آئین توڑنے کا مرتکب قرارد ے رہے تھے ۔
پھر ملکی سیاست نے کروٹ لی تو جمہوری دور کی آمد کے ساتھ ہی ہم دیکھتے ہیں کہ وہی سیاسی کردار جو جنرل مشرف کے قریبی ساتھی تھے اور اس کے قصیدے پڑھتے تھے، وہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی صف اول کی لیڈرشپ کے ساتھ کھڑے ہی نہیں ہوتے بلکہ اعلی حکومتی عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں ۔ اس واردات پر دونوں جماعتوں کی لیڈرشپ شرمندہ ہونے کی بجائے ڈھٹائی کے ساتھ ان کی اپنی پارٹیوں میں شمولیت کا دفاع کرتی ہیں۔جیسے جنرل مشرف کے صلاح کار طارق عظیم کی مسلم لیگ نواز میں شمولیت پر نوازشریف کررہے تھے۔سیاست میں ایک نیا موڑ آیاتو جنرل مشرف کے دیگر اقتدار کے ساتھی عمران خان کے ٹرک پر بھی سوار ہوگئے ہیں اور اپنے آپ کو ملک میں نظام کی تبدیلی کیلئے ناگریز قراردے رہے ہیں۔
شیخ رشید اور راولپنڈی کے عوام کے سیاسی رشتہ کو سب واقف ہیں ۔ موصوف کو سیاست کے میدان میں بلندیوں پر پہنچانے والے بھی پنڈی کے عوام تھے اور پھر ناراضگی کا اظہار کیاتو کہ شیخ صاحب کی الیکشن میں ضمانت تک ضبط کروادی ۔کہانی کا دلچسپ موڑ یوں نظرآتاہے کہ شیخ رشید نے الیکشن میں ضمانت ضبط ہونے پر ہمت نہیں ہاری تو عوام نے بھی انہیں دوبارہ منتخب نہ کرنے کی یوں لگتاہے قسم کھالی ہے۔ سیاسی مبصر اس صورتحال پر یوں تبصرہ کرتے ہیں شیخ رشید مستقبل میں سیاست عوامی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے کریں یاپھر تحریک انصاف کے ٹرک پر سوار ہوکر عمران خان کا ہاتھ تھام لیں، ان کی انتخابی سیاست میں کامیابی راولپنڈی کے عوام کے ہاتھ میں ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
عمران خان کی پارٹی میں شامل لوگوں میں بامشکل چند ایک ہی ایسے ہیں جن کی کوئی سیاسی ساکھ ہو اور کوئی نظریاتی حیثیت ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی ساکھ جتنی بھی آج ہے وہ عمران خان کی وجہ سے ہی ہے، اور اگر ہمارا انتخابی نظام، علاقائی سیاست، عوام کی اندھی تقلید کی عادت اور دیگر عوامل درپیش نہ ہوتے تو شاید عمران خان کو ان سب لوگوں کا احسان بھی نہ اُٹھانا پڑتا ۔
 

نایاب

لائبریرین
پاکستان تحریک انصاف پاکستان کی ایک سیاسی جماعت ہے۔ 20 اکتوبر 2002ء کے قانون سازی اسمبلی کے انتخابات میں اس پارٹی کو 0.8 فیصد ووٹ ملے۔ اسی طرح ان انتخابات میں کل 272 ممبران میں سے ایک ممبر تحریک انصاف کی طرف سے منتخب ہوا۔ اسی طرح صوبائی انتخابات میں صوبہ سرحد کی طرف سے تحریک انصاف کا ایک رکن منتخب ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ مشہور سابق کرکٹر عمران خان ہیں۔ "انصاف، انسانیت اور باعث فخر"جماعت کا نعرہ ہے۔ عمران خان اس سیاسی جماعت کے چئیرمین ہیں اور اس کے علاوہ وہ براڈفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں۔ عمران خان نے پولیٹیکل سائنس، اکنامکس اور فلسفہ میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں عمران خان کی طرف پاکستان کے موجودہ نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کے لئے ایک حل پیش کیا گیا ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل تین نکات ہیں:

آزاد الیکشن کمیشن
آزاد عدلیہ
آزاد احتساب بیورو
قوم کی عزت نفس کو برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسا منصف معاشرہ تشکیل دینا کہ جس کی بنیاد میں انسانی اقدار شامل ہوں۔ تحریک انصاف حقیقی اقتدار اور لوگوں کو ان کی مرضی کے سیاسی اور معاشی مقاصد کو معاشرتی، ثقافتی اور مذہبی اقدار کے مطابق چننے کا اصل حق دے گی۔ ہم ایک ایسی تحریک کے داعی ہیں جس کا مقصد انصاف پر مبنی آزاد معاشرہ ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ قومی نشاۃ ثانیہ تبھی جنم لے سکتی ہے اگر لوگ حقیقی معنوں میں آزاد ہوں۔ پاکستان تحریک انصاف لوگوں سے خلوص نیت سے رابطہ کرتی ہے اور اسے تاریخی حقائق کا علم بھی ہے اور یہ وعدہ کرتی ہے کہ:
سیاسی، معاشی اور ذہنی غلامی سے نجات۔ تاکہ ایک آزاد اور مستحکم جدید اسلامی ریاست بنائی جا سکے
نا انصافی سے نجات۔ لوگوں کو سستا اور قابل رسائی انصاف ملے
غربت کا خاتمہ۔ ملکی فی کس آمدنی میں پانچ سال کے دوران ‪50%‬ اضافہ
بے روزگاری کا خاتمہ۔ ہر سال بیس لاکھ نئی ملازمتیں پیدا کرنا
بے گھر ہونے کا خاتمہ۔ ہر سال دو لاکھ گھر بنا کر اور کچی آبادیوں کو مکمل مالکانہ حقوق دینا
جہالت کا خاتمہ۔ 2018 تک مکمل شرح خواندگی
دولت اکٹھا کرنے کی آزادی۔ ذاتی انکم ٹیکس کا خاتمہ
خوف کا خاتمہ۔ سوچ اور اظہار کی مکمل آزادی
حقوق خواتین۔ میٹرک تک غریب خاندانوں کی لڑکیوں کو مفت تعلیم
اقلیتوں کو برابر حقوق۔ مذہبی بنیاد پر کوئی تفریق نہ رکھنا
قران اور سنت کی روشنی میں جمہوری اسلامی حکومت کا قیام

جس شخص کو
تحریک انصاف کے موجودہ چیئرمین جناب عمران خان نے اپنا عہدہ یہ کہکر پیش کیا تھا ۔ کہ شاید یہ عہدہ ہی آپ کی شان کے لائق ہے ۔ مگر عشقِ پاکستان سے سرشار اس شخص نے عمران خان کو ایک بے فکر درویش کے بے لاگ شکریے کی طرح واپس کرتے ہوئے کہا ۔ کہ میں عہدوں کے لئے نہیں ایک مقصد کے ساتھ تحریکِ انصاف میں آیا ہوں ۔" ہاں میں باغی ہوں " کا نعرہ مستانہ لگانے والا اس شخص "جاوید ہاشمی کا یہ بیان خوش آئند ہے کہ ۔
"میں تحریک انصاف کا منشور بنا رہا ہوں ۔ اور مرے کہنے پر ہی اسے نئے سرے سے ترتیب دیا جارہا ہے ۔ پی پی ، پاکستان مسلم لیگ نون ، قاف ، جماعتِ اسلامی ، جے یو آئی اور جے یو پی اور ایم کیو ایم کے منشور بھی عوام کے لئے دکھ درد سے بھرے الفاظ رکھتے ہیں ۔ مگران جماعتوں کے اعمال ، افعال اور اقوال سے ماضی و حال تک اسکی صریحا نفی ہوتی آئی ہے ۔الفاظ اعمال کے درمیان زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے ۔ اگرچہ الفاظ دل موہ لینے والے اور خوشنما ہوتے ہیں ۔ مگر سچ کہوں تو بالکل کاغذ کے ان پھولوں کی طرح ۔ کہ جنکی اصلا کوئی خوشبو نہیں ہوا کرتی ۔
سوال یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے منشور میں آخر کیا ایسی خاص بات ہے یا ہو گی ۔ کہ جو اسے ان تمام جماعتوں سے ممتاز کردے گی ۔ اس کا بہت آسان اور سیدھا سا جواب ہے ۔
یہ منشور ماضی میں تمام جماعتوں کے دھوکہ دینے والے منشوروں میں استعمال ہونے والی بدنیتی کے قلم کی سیاہی سے نہیں لکھا جائے گا ۔ اسمیں 37 سال سے سیاست کو عبادت کی طرح سے گزارنے والے ایک درویش صفت سیاستدان کا خونِ جگر شامل ہو گا ۔ اور اسکے پیچھے 17 سال سے پاکستان کو ایک کرپشن اور بد عنوانی سے پاک پاکستان کی خواہش رکھنے والے عمران خان کی بھرپور حمایت حاصل ہوگی ۔ جو قائدِاعظم کے پاکستان کا چلوہء زیبا لیکر سیاست میں آیا ہے اور اسے پاکستان کے ان نوجوانوں کے خون کی سیاہی میسر ہوگی، جو عمران خان کے دیوانے بن چکے ہیں ۔ سبطِ علامہ اقبال و فراز و پگارا و غفار خان ،جسٹس وجیہ الدین ، ڈاکٹر علوی ، احسن رشید ، محمود الرشید ، ڈاکٹر شیریں مزاری ، ھامد خان جیسے انصاف کے متوالوں کا جذبہ ہو گا ۔ اور اسکے علاوہ دوسری پارٹیوں سے آنیوالے صاحبِ کردار، کرپشن سے پاک اور ایماندار رہناؤں کی نیک خواہشات شامل ہونگی ۔ یہ منشور پرانے نظام سے بغاوت پر مبنی منشور ہوگا ۔ کیونکہ اسے تیار کرنے والا بھی ایک باغی ہے ۔ جو پاکستان کے کرپٹ معاشرے کے خلاف عرصہ 37 سال سے عَلَمِ بغاوت بلند کیے ہوئے ہے ۔ مگر پارٹیوں کی موروثیت کے عفریت کے باعث اسکی بغاوت نتیجہ خیز نہ ہوسکی ۔ مگر انشائ اللہ العزیز تحریکِ انصاف کے پرچم تلے اس باغی کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا جو احسن فیصلہ کیا گیا ہے ، اسکے دور رس نتائج برآمد ہونگے۔ یہ وہ باغی ہے جب اس نے پہلا نعرہ ء مستانہ لگایا تو اس نعرہء بغاوت میں کراچی کے عوام کو اپنی فرسودہ اور عصبیت و نفرت کی پرچارک اور نفرتوں کے تعفن زدہ خمیر سے اٹھی ہوئی پارٹیوں کی سیاست سے بغاوت کی دعوت تھی ۔
بشکریہ
اردو ٹائمز
پاکستان تحریک انصاف سائٹ
 
Top