پاکستان تحریک انصاف کی نظریاتی ویڈیو

arifkarim

معطل
تمام پاکستانی جو پاکستان یا پاکستان سے باہر مقیم ہیں سے عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ اس بار الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیں۔ فی الوقت یہ واحد سیاسی پارٹی ہے جو ہمارے پیارےوطن عزیز کو مشرقی ایشیائی ممالک کے شانہ بشانہ کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ شکریہ۔
 

نایاب

لائبریرین
تمام پاکستانی جو پاکستان یا پاکستان سے باہر مقیم ہیں سے عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ اس بار الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیں۔ فی الوقت یہ واحد سیاسی پارٹی ہے جو ہمارے پیارےوطن عزیز کو مشرقی ایشیائی ممالک کے شانہ بشانہ کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ شکریہ۔
محترم عارف کریم بھائی
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا
کے مصداق اس وقت بلا شبہ صرف " عمران خان " کی شخصیت پاکستان کے بہتر مستقبل کے افق پر اک دھندلی لکیر کی صورت نظر آ رہی ہے ۔
اس بہتر مستقبل کے لالچ میں اک ڈر اپنی پوری سچائی کے ساتھ اک رکاوٹ ہے ۔ وہ لالچ جو کسی کسان نے رات کمبل کے بنا گزارتے سردی کی شدت و اذیت سے بے حال ہوتے کمبل کی خواہش کی ۔ اور جب اسے پانی میں بہتی بالوں بھری چیز نظر آئی تو وہ کمبل جان پانی میں کود پڑا ۔ اور جب اس چیز کو گرفت میں لیا تو جانا کہ یہ تو اک ریچھ ہے ۔ اور اس طرح " میں کمبل کو چھوڑتا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑتا " کی مثال وجود میں لایا ۔
جیسا کہ کبھی ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت امت مسلمہ کے بہتر مستقبل کے افق پر اک دھندلی لکیر بن کر چمکی تھی ۔
اور جب یہ شخصیت مکمل چاند بن کر افق پر ابھری تو یہ راز کھلا کہ " کٹھ پتلی " ہے اک ایسی
جس کی ڈوریاں تو مشہور و معروف بازیگروں کے ہاتھ میں ہیں ۔
بھٹو کی ذات سے ابھری چاندنی قریب چالیس سال سے اک آسیب بن کر پاکستان کے عوام کا خون چوس رہی ہے ۔
" اکیلا چنا کیا بھاڑ جھونکے گا " کی کہاوت اپنی مکمل معنویت کے ساتھ پاکستان کے عوام پر روشن ہو چکی ہے ۔
بھٹو ۔ بے نظیر بھٹو ۔ پرویز مشرف ۔ نظریات اچھے تھے مگر ان نظریات کو عملی صورت دینے والے وہی تھے ۔
جن کو قائد اعظم کی زبان سے " کھوٹے سکوں " کا خطاب مل چکا تھا ۔
 

arifkarim

معطل
جیسا کہ کبھی ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت امت مسلمہ کے بہتر مستقبل کے افق پر اک دھندلی لکیر بن کر چمکی تھی ۔
ہر لیڈر میں خوبیاں اور خامیاں تو ہوتی ہیں۔ جہاں بھٹو نے ملک کو آئین، امن اور جوہری ٹیکنالوجی فراہم کی وہیں وہ مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے اور ملک میں قائم شدہ نجی صنعتوں کے خاتمے کا باعث بھی بنا۔
عمران خان کی سیاست ’’شخصی‘‘ سیاست سے بالا تر ہے۔ وہ سیاسی طاقت اور اقتدار نہیں بلکہ ملک میں دائمی تبدیلی چاہتے ہیں۔ عمران خان کے تمام انٹرویوز سے یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے وہ کسی بھی حزب اختلاف جماعت سے محض اقتدار کی خاطر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اور باقی تمام اقتدار حوث جماعتیں بشمول پی پی پی اپنی ساکھ اور اعتماد عوام پاکستان میں کب کی کھو چکی ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
میرے محترم بھائی
عمران خان کے پاس کونسی جادو کی چھڑی ہے ۔ ؟
اس کے ساتھ بھی اکثریت ان ہی افراد کی ہے ۔
جو کہ کماحقہ شامل ہیں بگاڑ پاکستان میں ۔
قائد اعظم سے لیکر بھٹو سے گزرتے پرویز مشرف تک
سب کی ناکامی میں بس اک ہی فیکٹر شامل رہا ۔
اور وہ ہے نظریات کو عملی صورت دینے کے ذمہ دار پارٹی کارکنان ۔۔
" کھوٹے سکے "
جو ہر نئی جماعت کے ساتھ وفاداری دکھانے پہنچ جاتے ہیں ۔
 

arifkarim

معطل
میرے محترم بھائی
عمران خان کے پاس کونسی جادو کی چھڑی ہے ۔ ؟
علم و تجربہ کی چھڑی جو کسی اور موجودہ سیاست دان کے پاس نہیں۔


اس کے ساتھ بھی اکثریت ان ہی افراد کی ہے ۔
چند پرانے کرپٹ سیاست دان جو اسکی پارٹی میں ہیں، وہ اکثریت ہے؟


اور وہ ہے نظریات کو عملی صورت دینے کے ذمہ دار پارٹی کارکنان ۔۔
" کھوٹے سکے "
نظریات کو عملی صورت دینا عوام کا کام ہے۔ پارٹی ممبران کا نہیں۔ یاد رہے کہ عمران خان شخصی سیاست سے بالا تر ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
علم و تجربہ کی چھڑی جو کسی اور موجودہ سیاست دان کے پاس نہیں۔



چند پرانے کرپٹ سیاست دان جو اسکی پارٹی میں ہیں، وہ اکثریت ہے؟



نظریات کو عملی صورت دینا عوام کا کام ہے۔ پارٹی ممبران کا نہیں۔ یاد رہے کہ عمران خان شخصی سیاست سے بالا تر ہے۔
میرے محترم بھائی
کیا تضاد سے بھرپور دلائل ہیں ۔
اک شخص جو کہ شخصی سیاست سے بالاتر ہونے کا اظہار کرتا ہے ۔
اور اپنی سیاست کو تقویت دینے کے لیئے گندی سیاست کے حامل مفاد پرست کھلاڑیوں کو اپنے ساتھ شامل کرتا ہے ۔
کیا یہ اس کے علم و تجربے کی دلیل ہے ۔ ؟
نہیں میرے محترم یہ اس چھڑی کا کمال ہے جو کچھ بازیگر دور کھڑے گھما رہے ہیں ۔
ورنہ عمران جیسی عظیم شخصیت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ
اک مچھلی سارے جل کو گندا کرتی ہے میرے محترم
اور نظریات پر اک عظیم عمارت ان نظریات کو پیش کرنے والے ہی کھڑی کرتے ہیں ۔
عوام کاالانعام تو اس عمارت میں سکھ پاتے ان نظریات کو پیش کرنے والوں کی قول و عمل کی اقتدا کرتے ہیں ۔
 

arifkarim

معطل
میرے محترم بھائی
کیا تضاد سے بھرپور دلائل ہیں ۔
اک شخص جو کہ شخصی سیاست سے بالاتر ہونے کا اظہار کرتا ہے ۔
اور اپنی سیاست کو تقویت دینے کے لیئے گندی سیاست کے حامل مفاد پرست کھلاڑیوں کو اپنے ساتھ شامل کرتا ہے ۔
کیا یہ اس کے علم و تجربے کی دلیل ہے ۔ ؟
نہیں میرے محترم یہ اس چھڑی کا کمال ہے جو کچھ بازیگر دور کھڑے گھما رہے ہیں ۔
ورنہ عمران جیسی عظیم شخصیت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ
اک مچھلی سارے جل کو گندا کرتی ہے میرے محترم
اور نظریات پر اک عظیم عمارت ان نظریات کو پیش کرنے والے ہی کھڑی کرتے ہیں ۔
عوام کاالانعام تو اس عمارت میں سکھ پاتے ان نظریات کو پیش کرنے والوں کی قول و عمل کی اقتدا کرتے ہیں ۔
عمران خان کی پارٹی میں حسن نثار جیسے دانشور، ابرار الحق جیسے گلوکار اور سوشل ورکر سے لیکر بعض پرانی پارٹیوں کے لوٹے بھی شامل ہیں۔ اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپکی پارٹی میں ایک خراب بندہ آگیا تو پوری پارٹی ناکام ہو جائے گی۔ جیسا کہ میں نے کہاں کہ تحریک انصاف شخصی سیاست سے آزاد ہے۔ آج کا بیان جو عمران نے فیصل آباد میں جلسہ کے دوران دیا اس بات کا اعتراف کرتا ہے:
آپ جسکو ووٹ دیں گے وہی تحریک انصاف کی قیادت ہوگی۔ جو لوٹے ہیں انکو آپ ووٹ نہ دیں۔ وہ اپنے آپ تحریک انصاف سے باہر ہو جائیں گے۔
 

دوست

محفلین
شخصی سیاست سے آزاد ہے تو عمران خان شخص نہیں ہے کیا؟
سادہ سے لفظوں میں ووٹ اسے دو جو کم ب ے غ ی ر ت ہے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
جی بجا۔۔۔۔۔!کیونکہ مکمل باغیرت نہ ہے اور نہ ہم عوام میں ڈھونڈنے کی ہمت۔۔۔۔۔!
اور اسی لحاظ سے تان عمران خان پر آ کے ہی ٹوٹتی ہے۔۔۔۔!
 

نایاب

لائبریرین
اخبار'وال اسٹریٹ جرنل' نے اپنے ایک مضمون میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے انہیں ایک ایسا 'چرب زبان بازی گر' قرار دیا ہے جس کے پاس ملک کو بحرانوں سے نکالنے کا کوئی قابلِ اعتبار منصوبہ موجود نہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان اتنے طویل عرصے سے بحرانوں میں گھرا چلا آرہا ہے کہ اب وہاں کوئی بھی ڈرامائی پیش رفت ایک معمول کی بات لگتی ہے۔
لیکن 'پیو ریسرچ سینٹر' کے ایک حالیہ سروے کے نتائج نے ماہرین کو چونکا دیا ہے جس کے مطابق بے تحاشا مسائل سےعاجز آئے پاکستان کے لوگ تیزی سے انتہا پسندی پر مائل ہورہے ہیں اور انہوں نے ایک ایسے شخص کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لیا ہے جس کا کل اثاثہ محض شعلہ بیانی ہے۔
'پیو ریسرچ' کے مطابق سابق کرکٹر اور موجودہ سیاست دان عمران خان کی پاکستانیوں میں مقبولیت 72 فی صد تک جاپہنچی ہے جو ان کے مخالفین کا دل جلانے کے لیے کافی ہے۔
'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ فوجی حکمران پرویز مشرف کے نو سالہ دورِ اقتدار کو نکال کر گزشتہ ربع صدی کے دوران پاکستان کے سیاسی افق پر بھٹو اور شریف خاندانوں کا غلبہ رہا ہے جن سے اب لوگ عاجز آگئے ہیں۔
ایسے میں ان دونوں خاندانوں کے بڑوں، یعنی صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیرِاعظم میاں نواز شریف کے مقابلے میں 59 سالہ عمران خان ایک متبادل بن کر ابھرے ہیں۔ مایوسی کے اس دور میں عمران خان کو دیکھ کر پاکستانیوں کے ذہن میں اپنے اس سنہری ماضی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جب عمران کی کپتانی میں پاکستان نے 1992ء میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا۔
لیکن 'وال اسٹریٹ جرنل' کے مضمون نگار کے بقول عمران خان اپنی اس مقبولیت کے باوجود اب تک ان بحرانوں کا کوئی ٹھوس حل پیش نہیں کرسکے ہیں جن میں پاکستان ان دنوں گھرا ہوا ہے۔ اس کے برعکس وہ ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور دیگر مسائل کا الزام امریکہ پر دھرتے ہیں اور طالبان کو ایک خطرہ ماننے سے صاف انکاری ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ تحریکِ انصاف کے رہنمائوں کی 'دفاعِ پاکستان کونسل' نامی اتحاد سے گاڑھی چھنتی ہے جس میں کئی کالعدم اور شدت پسند جماعتیں شامل ہیں۔
'وال اسٹریٹ جرنل' کے مطابق عمران کی معاشی پالیسی بھی ٹھوس منصوبہ بندی سے عاری ہے۔ وہ اقتدار میں آنے کے بعد 90 دن میں ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کا دعویٰ کر رہے ہیں جو مضحکہ خیز لگتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانےکا وعدہ کرتے ہیں جو پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔
اخبار نے لکھا ہے کہ اس وقت پاکستان کو سرمایہ کار دوست ماحول اور ذمہ دارانہ معاشی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے نہ کہ دن میں دیکھے جانے والے خوابوں کی۔
'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ 'پیو ریسرچ سینٹر' کے اس تازہ ترین سروے کے مطابق چین جیسا دوست ملک اور مصر ، اردن اور تیونس جیسے برادر مسلم ممالک کے عوام کی اکثریت پاکستان کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو ایک ایسے سنجیدہ رہنما کی ضرورت ہے جو داخلی حالات سدھارنے اور بین الاقوامی چلینجز سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
اخبار لکھتا ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا عمران خان انتخاب جیت پائیں گے یا نہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ تحریکِ انصاف کے سربراہ کم از کم وہ رہنما نہیں جس کی پاکستان کو ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مندرجہ بالا مضمون میں عمران خان اور تحریک انصاف بارے اٹھائے گئے نکات اس سوچ کو تقویت دیتے ہیں کہ
اس بار عمران خان کو بھی آزما ہی لیا جائے ۔ شاید کہ واقعی مسیحا مل جائے ۔
 

ساجد

محفلین
عمران کی سیاست کے انداز میں کیا کوئی چیز روایتی سیاست سے مختلف ہے؟۔ اگر ہے تو مجھے بھی آگاہ فرمائیں۔
 

علی خان

محفلین
ساجد بھائی۔
میں بھی تحریک انصاف سے تعلق رکھتا ہوں۔ یہاں میں اپکو ایک بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، جو واضح فرق مجھے معلوم ہے، وہ یہی ہے، کہ دوسرے تمام پارٹیوں میں انتخابات کے لئے ٹکٹ پارٹی کے سنٹرل کمانڈ سے دیا جاتا ہے، اور تحریک انصاف میں صوبائی اسمبلی کے لئے چنوتی تحصیل کے سطح پر پارٹی کے ممبران الیکشن کے ذریعے کریں گے، اور نیشنل اسمبلی کے لئے ضلع کے سطح پر پارٹی ممبران الیکشن کے ذریعے چنوتی کریں گے۔ اور جو بندہ اس میں سے پاس ہوگا، اُسی کو ہی پارٹی ٹکٹ دے گی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میں پاکستان کی اس خاموش اکثریت میں سے ہوں جو انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالتی۔ لیکن کچھ عرصہ قبل میرا ذہن بدلنا شروع ہوا تھا میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اس بار ووٹ عمران خان کو دونگا۔ لیکن میں عمران خان کو ووٹ کیسے دونگا، ظاہر ہے کہ اس کے ٹکٹ ہولڈر کو ووٹ دونگا تو وہ ایسے ہی ہوگا جیسے عمران خان کو ووٹ دیا۔

اب اس کو ایک تمثیل میں یوں کہیں کہ ایک لشکر ہے جس کا سرادر یا کمانڈر ایک شیر ہے لیکن اس لشکر میں باقی سب کتّے بلّے بھیڑیے گیدڑ اور سؤر ہیں۔ اب کمانڈر لاکھ کہتا رہے کہ میں شیر ہوں اس کی فوج اپنے کتّے پن اور سؤر پن سے کبھی باز نہیں آئے گی۔

تو کیا میں کسی کتے بلے بھیڑیے یا سؤر کو ووٹ دوں تا کہ شیر کو ووٹ دینے کے مترادف ہو؟ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میرے حلقے میں جو تحریک انصاف کی ٹکٹ کا سب سے بڑا امیدوار ہے اور جس نے عمران خان کے سیالکوٹ جلسے میں سب سے زیادہ رقم لگائی اور پروپیگنڈہ کیا وہ شرابی، عیاش اور منشیات فروش رہا ہے، تو کیا میں اس کو ووٹ دوں تا کہ میرا ووٹ عمران خان کو جائے؟

اس کے جواب میں کئی بار عمران خان نے خود اور ان کی تمام پروپیگنڈہ مشنیری نے یہی جواب دیا ہے کہ ابھی تو ہم نے کسی کو ٹکٹ نہیں دی، ابھی تو ہم نے پارٹی میں الیکشن ہی نہیں کروائے؟ یہ منطق بھی خوب ہے یعنی ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ ٹکٹ کسی الف کو ملے گی یا دال کو یا کسی بڑے چور کو ملے گی یا چھوٹے چور کو یا تمثیل میں یوں کہیے کہ ٹکٹ کسی کتے کو ملے گی یا سؤر کو؟ بھئی انہی ہی کو ٹکٹ ملے گی نا جو عمران خان کے آس پاس ہونگے تو عمران خان کے آس پاس کون ہیں، بڑے بڑے بزرجمہر کون ہیں؟ جن کو ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہی لٹیرے، وہی ڈاکو، وہی کرپٹ، وہی حرام خور یا تمثیل کے مطابق وہی کتے بلے بھیڑیے گیدڑ سؤر جو پہلے اوروں کے ساتھ تھے اب عمران خان کے ساتھ ہیں۔

مجھے بہت دکھ ہوا تھا جب عمران خان نے آزمائے ہوئے سیاستدانوں کے اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور اسی وقت میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اس بار بھی کسی کو ووٹ نہیں دینا۔

اس طرح کی باتوں پر بہت سے ناصح آتے ہیں کہ آپ ووٹ نہیں دیں گے تو ملک کی تقدیر کیسے بدلے گی اور یہ کہ کم برائی کو ووٹ دیں یعنی انکے کہنے کا مطلب ہوتا ہے کہ بڑے سؤر کو چھوڑ کر چھوٹے سؤر کو ووٹ دو، یا سؤر کی جگہ کسی کتے کو ووٹ دے دو۔

لعنة اللہ علی الکاذبین و الظالمین و المنافقین و الکافرین۔
 

ساجد

محفلین
محمد وارث بھائی سے متفق ہوں۔ عمران خان کے لئے دل میں ایک گوشہ موجود تھا لیکن جب یہ دیکھا کہ تمام لوٹے ، لٹیرے اور غنڈے بد معاش اس پارٹی کا دھڑا دھڑ حصہ بن رہے ہیں تب سے سوچ 90 درجے کے زاوئیے پر یُو ٹرن لے چکی ہے۔ لاہور میں تحریکِ انصاف کی رکنیت سازی جاری ہے۔ بھلا کیسے؟ چوک میں ایک کیمپ لگایا جاتا ہے جس سے ٹریفک میں خلل پڑتا ہے۔ کان پھاڑ دینے والے اونچی آواز میں سیاسی موسیقی بجائی جاتی ہے۔ سارے علاقے کے نکمے نوجوان وہاں کرسیوں پر براجمان ہوتے ہیں جن کا کام سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ کیمپ کے سامنے سے گزرنے والی خواتین کو سر سے پاؤں تک چبھنے والی نظروں سے دیکھیں اور وہاں موجود دیگر ساتھیوں کے ساتھ اپنے اس کمینے پن کو شئیر کریں یا پھر خاتون پر ہی ذو معنی جملہ کس دیں۔ لعنت ہے بھئی ایسی سیاست اور رکنیت سازی پر۔
پرسوں میرے علاقے میں تحریک انصاف کے ابرارالحق صاحب وارد ہوئے ۔ یہ جلسہ لاہور جنرل ہسپتال سے دو فرلانگ کے فاصلے پر تھا۔ جس کے لئے ہسپتال جانے کا راستہ مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔ یوں سروس روڈ سے گزرنے والی ٹریفک الٹے ہاتھ پر جانے پر مجبور کر دی گئی اور ریپڈ ٹرانسپورٹ کے منصوبے کی وجہ سے فیروز پور روڈ پہلے ہی سے کافی تنگ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کی وجہ سے ایمبولینسں کے گزرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور پھر جو ٹریفک کی درگت بنی کہ پھاٹک سٹاپ سے لے کر پاک عرب تک ٹریفک کئی گھنٹے جام رہی۔ لوگ گرمی سے بلبلاتے رہے ، ایمبولینسز شور مچاتی رہیں اور مریض کراہتے رہے لیکن جلسے کی "سونامی" تھی کہ اس تباہی کے بعد بھی نہ رکی۔لاہور جنرل ہسپتال اس نوعیت سے بہت اہم ہے کہ پنجاب بھر سے نیورو سرجری کے مریضوں کو یہاں منتقل کیا جاتا ہے۔ اور شہر میں کسی انہونی کے ہونے کی صورت میں اس ہسپتال کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔
کیا پاکستانیوں کے نصیب میں ایسے ہی لیڈر لکھے ہیں جو حکومت میں آنے سے پہلے ہی عوام کو تکلیف کی سُولی پر لٹکانے میں کامل مہارت رکھتے ہوں؟ اور جب حکومت میں آ جائیں تو زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے ان کو شرم نہ آئے۔
ہم نہیں تو کون ،،،اب نہیں تو کب۔واقعی اب انہی کی باری ہے کہ اب عوام کی تکلیف میں مزید اضافہ کریں۔اعصاب شکن شور مچا کر ماحولیاتی آلودگی کے ذریعہ یا بیان کردہ ذہنی آلودگی کے ذریعہ سے۔
 

ساجد

محفلین
مجرم کون ۔ عمران خان کی فرانس آمد

تحریر: ثمن شاہ ۔ پیرس
بغاوت ڈاٹ نیٹ : 2012-06-27 10:16:08
پاکستان تحریکِ انصاف فرانس کی جان توڑ کوششوں کے نتیجے میں بلاآخر چئیرمین عمران صاحب نے پیرس آنے کی حامی کیا بھر لی پورے شہر میں عجب ہلچل پھیل گئی لو جی تیاریاں عروج پر تھیں کم وقت مقابلہ سخت تھا کچھ کارکن واقعی محنت سے انتظامات کرنے میں مصروف تھے لیکن کچھ کارکن کام تو برائے نام کر رہے تھے لیکن ڈھنڈورا خوب پیٹ رہے تھے اب ہم کیا کہیں کوئی محبت کر رہا تھا کوئی محبت دکھا رہا تھا پر محبت تو محبت ہے یو ں نہ سہی تو یوں سہی اللہ اللہ کر کہ وہ مبارک دن بھی آن پہنچا جس دن چندے آفتاب چندے ماہتاب کی سواری آنی تھی ہزاروں لوگوں کی طرح ہمیں بھی ان کی دید کی بے قراری نے پریشان کر رکھا تھا سو وقت سے بہت پہلے ہم ھال جا پہنچے ھال کے باہر تمام پارٹی کارکن اپنی اپنی جیبوں میں ٹکٹیں لیے یوں پھر رہے تھے جیسے ٹکٹ نہ ہوں ریوڑیاں ہوں یہ ہم نے اس لیے کہا کہ ٹکٹ کو ٹکٹ سمجھ کر بیچا جائے تو حساب کتاب میں آسانی ہوتی ہے اور ریوڑیوں کا حساب ذرا مشکل ہوتا ہے ویسے یہ میرا ذاتی خیال ہے اور قاری کا میرے خیال سے متفق ہونا ہرگز ضروری نہیں
دل کی دھڑکنیں سنبھالتے جب ہم ھال کے اندر پہنچے تو ہمارے محترم قائد کے استقبال کی تیاریاں زوروں پر تھیں ھال کی سجاوٹ قابلِ دید تھی لوگوں کی چہل پہل نے ماحول میں میلے کا سماں پیدا کیا ہوا تھا پاکستان تحریک انصاف کے ممبران گلے میں لال اور سبز رنگ کے دوپٹے لیے ہوش سے بیگانے کسی سے سلام نہ دعا نہ ویلکم اپنے حال میں مست یہاں سے وہاں بھاگتے پھر رہے تھے ہماری ہی طرح اور بھی دوست اس بے وقت اور بے وجہہ کی بے رخی کا مطلب سمجھنے سے قاصر تھے
خیر آجکل موسم بھی اتنی جلدی نہیں بدلتے جتنی جلدی انسانوں کے رویے بدلتے ہیں اور اس پر موسم بھی حیران دکھتے ہیں
وقت کی گھڑیاں اس پل جیسے تھم سی گئیں جب چئیر مین عمران خان کے آنے کی منادی کی گئی ھال زور دار نعروں سے گونج اٹھا
عمران خان اک فوجِ بدتمیزی کے گھیرے میں اسٹیج پر پہنچے اور انکے فورا بعد جاوید ہاشمی صاحب کو بھی اسی جوش وخروش سے اسٹیج تک لایا گیا اب ایک اور منظر آنکھوں کو حیران کر گیا اسٹیج پر عجیب افراتفری پھیل گئی میری کرسی تیری کرسی دھکم پیل زور آزمائی
عمران خان یہ انمول نظارے دیکھ کر پریشان تھے یہ انکے چہرے سے صاف دکھائی دے رہا تھا یقیناًسوچ رہے ہونگے کہ اسٹیج کی کرسیوں کے لیے ان کا یہ حال ہے اگر ان کو سچ مچ والی کرسی مل گئی تو یہ کیا حشر کریں گے اسی ھنگامہ آرائی کے دوران عمران خان کی مداح کچھ خواتین ممبران کے ساتھ نازیبا سلوک کیا گیا جو ہمین بے حد ناگوار گزرا چونکہ وہ بھی کرسی کے خریداروں میں شامل تھیں تو انکو برابر کا حق ملنا چاہیے تھا مگر اس مردوں کی دنیا میں وہی ہوا جو صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے ان خواتین کو کونے لگا دیا گیا ان خواتین کی آنکھوں میں ان کے ساتھ ہونے والی اس بے انصافی کا گلہ صاف نظر آ رہا تھا اور مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے وہ تحریک انصاف کے ان چیلوں سے پوچھ رہی ہوں ارے او بے مروت
ارے او بے وفا
بتا دے کیا یہی ہے وفاؤں کا صلہ
لیکن کوئی کچھ بھی کہے ہمیں یہ بے انصافی بالکل اچھی نہیں لگی اگر ان کو عزت دی جاتی تو انہیں عزت یوں لڑ لڑ کر اور چھین چھین کر تو نہ مانگنی پڑتی آگے چلتے ہیں اسٹیج پر لوگوں کا ہجوم ہر کوئی اپنی جگہہ پتھر مجال ہے کوئی ادھر سے اُ دھر ہو جائے اور ہو بھی کیوں
پیسے دیے ہوئے تھے کوئی مزاق تو نہیں تھا نا ہمیں یاد آ رہا ہے کچھ روز پہلے ایک ٹی وی چینل پر عمران خان کا ایک بیان آ رہا تھا کہ ان کی قیمت کوئی نہیں لگا سکتا میں ان کے اس بیان پر صدقے واری ہو گئی تھی اور دل سے دعا نکلی تھی کہ خدا کرئے آپ سدا بے مول رہیں لیکن صد افسوس بات تو چئیرٹی ڈنر ود عمران خان کی تھی لیکن قیمت بہرحال لگی کہ جو جتنا زیادہ پیسے دے گا اسے عمران خان کی قربت زیادہ نصیب ہو گی عمران خان ایک عوامی لیڈر ہیں لیکن ہماری بد نصیبی کہ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بھی لوگوں کو حسب توفیق قیمت ادا کرنا پڑی اور ہم کیا کہیں ہم سے ہمارے قائد کے ساتھ بس ایک تصویر کے عوض ایک ہزار یورو مانگے گئے انصاف کی یہ کون سی شکل ہے تحریک انصاف فرانس کے نام نہاد جیالے کچھ ہم کو بھی سمجھا دیں تو ہماری مشکل آسان ہو پھر پارٹی ممبران کی تقاریر کا نا قابل برداشت مر حلہ شروع ہوا وہی گھسے پٹے جملے وہی بے عمل کی بیکار باتیں اب ان شعلہ بیاں مقررین کو کیسے سمجھائیں کہ تقریروں سے اگر ملک کی تقدیر بدل سکتی تو ہم آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتے ملک نے تو کیا ترقی کرنی ہے البتہ ہمارے کان ان بے اثر الفاظ کی نحوست سے بیمار ہونے لگے ہیں
خدا خدا کر کہ یہ اذیت ناک گھڑیاں بیتیں اور معروف لیڈر جناب جاوید ہاشمی مائیک پر تشریف لائے دھیمے دھیمے لہجے میں کچھ جانے پہچانے الفاظ سماعتوں کو چھوتے رہے مگر سچی بات تو یہ ہے ہمیں ان کی باتیں کچھ خاص سمجھ نہیں آئیں پھر بھی یقین ہے انہوں نے کچھ اچھا ہی کہا ہوگا جاوید ہاشمی کی تقریر کے دوران ہم اپنے ہر دلعزیز قائد کو سلام کرنے پہنچے اور جو بات ہمارے دل میں تھی ہم نے چپکے سے جو کہی تو ان کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکان پھیل گئی مگر اس سے پہلے کہ وہ ہمیں اس دلکش سرگوشی کا جواب دیتے
سماعتوں کو چیرنے والی آواز نے ان کو دعوت کلام دی عمران خان کو عجلت میں جاتے دیکھ کر شدید حیرت ہوئی شائد ہمارے قائد عمران خان یہ بات بھول گئے ہیں کہ خواتین سے بات کرنے کے کچھ آداب ہوا کرتے ہیں اب اگر یہ ان کی بھول تھی تو ہم انہیں صدق دل سے معاف کرتے ہیں اور اگر یہ ان کی عادت ہے تو ہم ان سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنی عادت ضرور بدل لیں میرا دعوی ہے وہ پہلے سے بہت زیادہ خوبصورت ہو جائیں گے
انکے مائیک پر آ تے ہی حاظرین محفل نے ان کا والہانہ استقبال کیا عمران تیرے جانثار بے شمار بے شمار کے فلک شگاف نعروں سے ھال کے در و دیوار لرز اٹھے یہ اور بات ہے کہ انتظامیہ سے نا خوش کسی کونے میں کچھ لوگ یہ آواز بھی لگا رہے تھے عمران تیرے جانثار سب بیکار سب بیکار سراپا منتظر سراپا شوق تمام مہمانان گرامی ان کہ سننے کو بے تاب مگر عمران خان نے حسب معمول جب وہی باتیں دہرانی شروع کیں جنہیں سن سن کر ہم نے زبانی یاد کر لیا ہے تو ماحول میں بے چینی ہونی شروع ہو گئی ملک ریاض کے قصے مٹی ڈالیں اس کلموہے پر
مشرف کے فسانے اب ہوئے پرانے ان باسی باتوں میں اب کیا رکھا ہے کاش کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
بیتابی حد سے بڑھی تو اک منچلے نے اٹھ کر سوال کرنے کی کوشش کی خان صاحب نے اسے بیٹھے کا اشارہ کرتے ہوئے تسلی دی کہ بعد میں سوال و جواب ہونگے انکی تقریر کے دوران اسٹیج پر تشریف فرما حضرات کا شور شرابہ خان صاحب کو بہت ناگوار گزرا جس پر انہوں نے ایک دو بار ٹوکا بھی مگر ہم پاکستانی ہیں ہمیں اخلاقیات سے بھلا کیا لینا دینا اور یوں بھی ہمیں اس سے بھی کیا غرض تھی کہ آپ کیا فرما رہے ہیں ہمیں تو بس کچھ تصاویر کچھ خبریں چاہیں تھیں باقی باتوں کا کیا وہ ٹی وی پر بھی سنی جا سکتی ہیں دورانِ گفتگو ہمارے موسیقی کے شوقین ممبر بے ہنگم طریقے سے میوزک بجانے کی کوشش میں تقریر کا سارا مزہ کرکرا کرتے رہے جسکا احساس عمران خان بخوبی کر رہے تھے اور بھلا کوئی اس معصوم ممبر سے پوچھے اسٹیج پر طرح طرح کی بولیوں کہیں چوں چوں کہیں میں میں کا سرگم بج رہا تھا ھال میں بے چین کبوتروں کی طرح غر غر کی آ وازیں آ رہی تھیں اب اس جنگل سی حسیں فضا میں مزید موسیقی کی کیا ضرورت تھی ھال میں کھانے کی سروس نے جلتی پر تیل کا کام کیا
اب یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں نا کہ جب کھانا سرو ہونے لگے تو ہم ادب و آداب رسم و روایات تہذیب و تمدن سب کچھ بلائے طاق رکھ کر کھانے میں یوں مشغول ہو جاتے ہیں جیسے کبھی کھانا کھایا نہ ہو
عمران خان کے چہرے پر وہ سارا ماجرا نقش تھا جو ان کی توقعات کے بالکل بر عکس پیش آیا اور ان کا ضبط آخری حدوں کو چھوتا دکھائی دے رہا تھا اس پر انتظامیہ کی حماقتیں یہ تھکی تھکی نگاہیں یہ اڑی اڑی سی رنگت تیرا حال کہہ رہا ہے تیرے ضبط کا فسانہ
اس سے پہلے کہ لوگوں کی توجہ ان سے ہٹ کر کھانے کی جانب مبذول ہوتی انہوں نے کمالِ ظرف سے کہہ دیا کہ وہ اُنکے اور کھانے کے درمیان حائل نہیں ہو سکتے اور میں یہاں کچھ اور ان کی اس سمجھداری کی قائل ہو گئی لیکن یہ کیا
ہماری توقع کے بر خلاف اسٹیج کے ٹھیکے داروں نے اچانک اُن کو اپنے نرغے میں لے لیا اور پل بھر میں ہی اُن کو ھال کے پچھلے دروازے سے جانے کہاں لے جایا گیا یہ معاملہ تا حال صیغۂ راز میں ہے بہت دیر تک یہ مضحکہ خیز صورت حال سمجھ نہیں آئی لوگ اس ناگہانی سچویشن کے لیے بالکل تیار نہیں تھے چےئرٹی ڈنر ود عمران خان کا خواب یوں چکنا چور ہوگا کسی کے گمان میں بھی نا تھاعمران خان منظر سے کیا ہٹے جیسے چراغوں میں روشنی نہ رہی
ان کے چاہنے والے ان سے سوال جواب کے منتظر مگر انہوں نے اس محبت کو محسوس تک نہیں کیا نہ ان کے جذبات کی قدر کی یورپ بھر سے آئے مہمان بھی سخت مایوسی کا شکار ہو گئے ایک عوامی لیڈر کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کے حکومت تک سب رستے عوام کے دلوں سے ہو کر جاتے ہیں اور میں اس کو عظیم لیڈر مانتی ہوں جو ملک پر نہیں دلوں پر حکومت کرنا جانتا ہو
چئیرٹی ڈنر ود عمران خان کا مطلب تو یہی بنتا تھا کہ کہ وہ ھال میں ہمارے ساتھ بیٹھ کر وہی کھانا کھاتے جس میں سے جلنے کی شدید بدبو آ رہی تھی تانکہ ان کہ پتہ چلتا کہ ان کی چاہ میں ہم پر کیا کیا گزر رہی ہے اور انکے ساتھ بیٹھ کر ایسا بد مزہ اور سڑا ہوا کھانا کھانے میں بھی بہت خوشی محسوس کرتے
مگر عمران خان صاحب کے اس ناقابل فہم رویے کے پیچھے کیا وجوہات تھیں یہ ابھی تک ہم سمجھنے سے قاصر ہیں عمران خان کے ساتھ ہی کچھ ممبران اُڑن چھو ہو گئے اور جو رہ گئے وہ بھی بغلیں جھانکتے پھر رہے تھے لوگوں کی مایوسی انتہا پر تھی کوئی نالاں کوئی خفا دکھ رہا تھا عمران خان کی صورت امید کا جو ستارا ابھرتا دکھائی دے رہا تھا اس صورت حال کے بعد ڈوبتا نظر آنے لگا ہر کوئی اس عجیب و غریب گتھی کو سلجھانے کی کوشش میں گم نظر آ رہا تھاہم یہ سوچ رہے تھے کہ تحریک انصاف کی ساکھ کو اتنا عظیم نقصان پہچانے کے ذمہ دار ہم کس کو ٹھہرائیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پروگرام کے بعد تمام ممبران کی طرف سے ایک معذرت کا بیان دیا جاتا جس میں آئے ہوئے تمام مہمانوں سے ان کے ساتھ ہونے والی اس نا انصافی کی معافی مانگی جاتی مگر افسوس اس بات کا ہے کہ یہاں یہ بیانات دئے جا رہے ہیں کہ پروگرام بہت شاندار ہوا ھال میں آنے والا ہر شخص یہ جانتا ہے کہ یہ بات سراسر غلط ہے یہاں یہ ضرور کہوں گی غلطیاں ہوتی ہیں لیکن ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے نہ کہ ان پر پردہ ڈال کر چھپانے کی کوشش کرنی چاہیے ہال میں ہر کوئی پوچھتا پھر
رہا تھا یہ کیا ہوا
ہم نے جواب دیا
یہ کیا ہوا
کیسے ہوا
کیوں ہوا
کب ہوا
جب ہوا
چھوڑو یہ نہ پوچھو
مگر ایک سوال جو ہر شخص کے تاثرات لیے اتنا منہ زور تھا کہ ہمیں پوچھنا ہی پڑے گا لوگوں کے جذبات مجروح کرنے کے مجرم کون ہوئے
پاکستان تحریک انصاف فرانس کی انتظا میہ یا عمران خان
ماخذ
 

شمشاد

لائبریرین
محمد وارث بھائی سے متفق ہوں۔ عمران خان کے لئے دل میں ایک گوشہ موجود تھا لیکن جب یہ دیکھا کہ تمام لوٹے ، لٹیرے اور غنڈے بد معاش اس پارٹی کا دھڑا دھڑ حصہ بن رہے ہیں تب سے سوچ 90 درجے کے زاوئیے پر یُو ٹرن لے چکی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔

ساجد بھائی یُو ٹرن لینے کے لیے آپ کو 180 درجے پر مُڑنا پڑے گا۔ 90 درجے پر تو مُڑ ہی چکے ہیں، مزید 90 درجے پر مُڑ جائیں، لیکن اُسی رُخ پر مڑیئے گا جس پر پہلے مُڑے تھے۔
 

ساجد

محفلین
ساجد بھائی یُو ٹرن لینے کے لیے آپ کو 180 درجے پر مُڑنا پڑے گا۔ 90 درجے پر تو مُڑ ہی چکے ہیں، مزید 90 درجے پر مُڑ جائیں، لیکن اُسی رُخ پر مڑیئے گا جس پر پہلے مُڑے تھے۔
جی شمشاد بھائی ، اپنی اس حسابی غلطی کو کتابی انداز میں درست کرنے کے لئے ابھی پر تول ہی رہا تھا کہ بجلی داغِ مفارقت دے گئی اور اب واپس آیا تو آپ پہلے ہی سے نشان دہی کر چکے تھے۔:grin:
 

سبط الحسین

لائبریرین
تبدیلی کیسے لائیں ؟
آپ تمام احباب کے جوابات پڑھنے کے بعد جس سوال کے متعلق میں مستقل سوچتا رہا ہوں کہ آخر ہم حالات میں کیسے بہتری لاسکتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں اگر آپ کسی ذی شعور سے پوچھیں کہ کیا آپ موجودہ حال قومی و ملکی صورتحال پر خوش ہیں تو یہی جواب ملے گا کہ نہیں۔ تو پھر کروڑ روپے کا سوال جو آج ہر ذی شعور نوجوان پوچھتا ہوا نظر آئے گا کہ آخر تبدیلی کیسے لائیں

اس سے پہلے کہ میں اپنی ناقص رائے کا اظہار کروں یہی سوال آپ احباب کہ سامنے رکھتا ہوں اور آپ کے جوابات کا منتظر ہوں


میر ے نظریے کے مطابق موجودہ حالات میں بہتری دو طریقے سے لائی جاسکتی ہے .1 انقلاب سے یا پھر .2 ووٹ سے

انقلاب قوموں کی تقدیریں بدلنے کی صلاحتیں رکھتے ہیں مگر بد قسمتی سے یہ قوموں کی زندگی میں بہت کم وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ان کے وقوع پزیر ہونے کے لیے قوموں کا ایک خاص شعوری سطح پر ہونا اور اک قابل قدر راہنما کا ہونا ضروری ہوتا ہے
اگر انقلاب نہیں تو پھر تبدیلی کا دوسرا ذریعہ جمہوری ہے جو کہ ایک سست اور ارتقائی عمل ہونے کہ ساتھ ساتھ صبراورحوصلے کا بھی تقاضاکرتا ہے ۔اس حل میں اگر اجتماعی مفادات کو سا منے رکھ کر اپنی انتخابی صلاحیت کا ایماندارانہ استعمال کریں تو پھر آپ وقت کے ساتھ ساتھ بہتری کی جانب گامزن رہتے ہیں (مثال کے طور پر بھارت کی صورتحال کا مشاہدہ کر سکتے ہیں) ۔

اب بدقسمتی سے ہمارے بزرگوں نے ہمیشہ انفرادی مفادا ت کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دی اوراسی سبق کا پرچار بھی کیا اور آج کی موجودہ صورتحال کے کلی طور پر ذمہ دار ہیں ۔ مثال کےطور پر انہوں نے یا تو ”مقدس گائے'' کی خاموشی سے پوجا کی یا پھر اپنے حق کو برادری کے شملہ پر قربان کر دیا یا پھر گلی کی نا لی پر یا پھر یہ کہہ کر جان چھوڑالی کہ ہم نے تو کبھی ووٹ ہی نہیں دیا ( کیا وہ نہیں جانتے کہ خاموش رہنے کا مطلب برائی کا ساتھ دینے کے مترادف ہے) ۔
تو پھر اب ! اب ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو ہم اپنے بزرگوں کی ہی روش کو اپنائیں یا پھر وہ فیصلہ کریں جو ہمارے اور ہماری آنے والی نسلوں کے
مستقبل کو بہتری سے ہمکنار کرسکے ۔ اور میرے نزدیک سب سے بہتریں راستہ اپنی رائے دہی کا منصفانہ استعمال ہے نہ کہ اس احتراز ہے ۔ یاد رہے کہ نہ ہمیں ایک ہی رات میں مسیحا مل جائے گا اورنہ ہی کوئی جادو کی چھڑی جو ایک پل میں ہمارے مسائل کو حل کردے گی ۔بلکہ یہ ایک ارتقائی عمل ہےجس کے ہر چکر پر ہمیں بہتری کی طر ف بڑھنا نہ کہ تنزلی کی طرف اور نظام کو غلظا توں سے پاک کرنا ہے ۔ تو پھر ! فیصلہ آپ کا کہ آپ آزمائے ہوں کو آزماتے ہیں یا ارتقائی عمل کو آگے بڑھاتے ہو ئے بہتری کی شروعات کرتے ہیں

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

آپ کے جوابات کا منتظر ہوں ۔
میں نے اپنے سوال کہ "تبدیلی کیسے لائیں" کہ موضوع سے ایک نئے دھاگے کا آغاز کیا ہے
 
Top