طالوت
محفلین
پاکستان نے امریکی گلوبل پوزیشننگ سسٹم یا جی پی ایس کے چینی نعم البدل ’’بے ڈو‘‘کو استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس طرح پاکستان وہ پانچواں ملک بن گیا ہے جس نے “بےڈو” کو استعمال کرنے کی حامی بھری ہے۔ ماہ مئی کی ابتداء میں ایک امریکی ویب سائٹdefencenews.com نے رپورٹ کیا تھا کہ پاکستانی ملٹری آفیشل “بے ڈو” کے استعمال کے حق میں ہیں کیونکہ وہ امریکی جی پی ایس پر بھروسہ نہیں کرتے جو جنگ کے دوران امریکہ کی جانب سے بند بھی کیا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ جدید ہتھیار جن میں کروز میزائلز بھی شامل ہیں، اپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے جی پی ایس کا استعمال کرتے ہیں۔
’’بے ڈو‘‘ چند ماہ پہلے ہی تجارتی استعمال کے لئے پیش کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے یہ نیوی گیشن سسٹم صرف چینی افواج اور حکومت کے لئے دستیاب تھا۔ فی الحال یہ سروس صرف براعظم ایشیاء میں استعمال کی جاسکتی ہے ۔ تاہم اسے دنیا بھر میں قابل استعمال بنانے کی تیاری بھی مکمل ہے۔ چینی سرکاری عہدیدار کے مطابق ’’بے ڈو ‘‘10میٹر تک کسی صارف کی لوکیشن درست بتا سکتا ہے۔یہ جی پی ایس کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔
فی الوقت بے ڈو کے سگنل وصول کرنے ، اسے سگنل بھیجنے کے لئے درکار چپ کی قیمت جی پی ایس کی چپ کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔لیکن اس کی درستگی کو دیکھتے ہوئے مختلف نیوی گیشن آلات بنانے والے ادارے ضرور اس کی سہولت اپنے صارفین تک پہچانے کی کوشش کریں گے لہٰذا اس کی قیمت میں جلد ہی کمی کی امید ہے۔
اس سسٹم کی 16 سٹیلائٹس پہلے ہی مدار میں موجود ہیں جبکہ اگلے دس سال میں مزید سٹیلائٹس بھی اس سسٹم کا حصہ بنائی جائیں گی۔
اس پروجیکٹ کے منتظمین کا خیال ہے کہ 2015ء تک بے ڈو کو استعمال کرتے ہوئے فراہم کی گئی سہولیات کی مالیت 32ارب ڈالر تک ہوسکتی ہے۔ لیکن چین کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پروجیکٹ کا مقصد مالی فوائد سے زیادہ غیر ملکی نظام (جی پی ایس) پر انحصار ختم کرنا ہے جسے جنگی حالات میں بند کرنے کا اختیار امریکی حکومت کے پاس ہے۔
چین نے حال ہی میں مقامی طور پر تیار کردہ ڈرون ’’چائنا انٹرنیشنل ایوی ایشن اینڈ ایرو اسپیس ایگزیبیشن ‘‘ میں پیش کئے ہیں۔ یہ ڈرون کسی جگہ تک پہنچے کے لئے مکمل طور پر گلوبل پوزیشننگ سسٹم پر انحصار کرتے ہیں۔ اسی طرح کروز میزائل ہوں یا جنگی جہاز، سب ہی جگہ معلوم کرنے کے لئے جی پی ایس نیوی گیشن سسٹم کا استعمال کرتے ہیں۔لہٰذا چینی حکومت اپنے جنگی آلات اور ہتھیاروں کو امریکی نظام پر منحصر نہیں کرنا چاہتی۔ اسی لئے ’’بے ڈو ‘‘تیار کیا گیا ہے۔
جی پی ایس کے نعم البدل میں صرف بے ڈو ہی شامل نہیں۔ روس ’’گلوناس‘‘ نامی پوزیشننگ سسٹم تشکیل دے رہا ہے جو سویلین اور ملٹری دونوں مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ اس نظام کے 23 خلائی سیارچے پہلے ہی مدار میں ہیں۔ تاہم ابھی اسے کئی تکنیکی مسائل کا سامنا ہے۔ یورپی یونین بھی ’’گلیلیو‘‘ نامی اپنا نظام بنا رہی ہے اور اس نیٹ ورک کے 3 سیارچے مدار میں بھیجے جاچکے ہیں ۔ اسی طرح برطانیہ میںدفاعی مصنوعات بنانے والی کمپنی BAE سسٹمز بالکل انوکھے نظام پر کام کررہی ہے جس کے تحت عام سگنلز (ٹی وی، وائی فائی، ریڈیو، موبائل فونز وغیرہ) کو استعمال کرتے ہوئے صارف کی لوکیشن معلوم کی جا سکے گی۔
بظاہر یہ ممالک کی آپسی جنگ معلوم ہوتی ہے لیکن اس میں سب سے زیادہ فائدہ عام صارفین کا ہے جنھیں ایک سے زیادہ نیوی گیشن سسٹمز میسر آجائیں گے۔
بشکریہ "ماہنامہ اردو کمپیوٹنگ"
’’بے ڈو‘‘ چند ماہ پہلے ہی تجارتی استعمال کے لئے پیش کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے یہ نیوی گیشن سسٹم صرف چینی افواج اور حکومت کے لئے دستیاب تھا۔ فی الحال یہ سروس صرف براعظم ایشیاء میں استعمال کی جاسکتی ہے ۔ تاہم اسے دنیا بھر میں قابل استعمال بنانے کی تیاری بھی مکمل ہے۔ چینی سرکاری عہدیدار کے مطابق ’’بے ڈو ‘‘10میٹر تک کسی صارف کی لوکیشن درست بتا سکتا ہے۔یہ جی پی ایس کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔
فی الوقت بے ڈو کے سگنل وصول کرنے ، اسے سگنل بھیجنے کے لئے درکار چپ کی قیمت جی پی ایس کی چپ کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔لیکن اس کی درستگی کو دیکھتے ہوئے مختلف نیوی گیشن آلات بنانے والے ادارے ضرور اس کی سہولت اپنے صارفین تک پہچانے کی کوشش کریں گے لہٰذا اس کی قیمت میں جلد ہی کمی کی امید ہے۔
اس سسٹم کی 16 سٹیلائٹس پہلے ہی مدار میں موجود ہیں جبکہ اگلے دس سال میں مزید سٹیلائٹس بھی اس سسٹم کا حصہ بنائی جائیں گی۔
اس پروجیکٹ کے منتظمین کا خیال ہے کہ 2015ء تک بے ڈو کو استعمال کرتے ہوئے فراہم کی گئی سہولیات کی مالیت 32ارب ڈالر تک ہوسکتی ہے۔ لیکن چین کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پروجیکٹ کا مقصد مالی فوائد سے زیادہ غیر ملکی نظام (جی پی ایس) پر انحصار ختم کرنا ہے جسے جنگی حالات میں بند کرنے کا اختیار امریکی حکومت کے پاس ہے۔
چین نے حال ہی میں مقامی طور پر تیار کردہ ڈرون ’’چائنا انٹرنیشنل ایوی ایشن اینڈ ایرو اسپیس ایگزیبیشن ‘‘ میں پیش کئے ہیں۔ یہ ڈرون کسی جگہ تک پہنچے کے لئے مکمل طور پر گلوبل پوزیشننگ سسٹم پر انحصار کرتے ہیں۔ اسی طرح کروز میزائل ہوں یا جنگی جہاز، سب ہی جگہ معلوم کرنے کے لئے جی پی ایس نیوی گیشن سسٹم کا استعمال کرتے ہیں۔لہٰذا چینی حکومت اپنے جنگی آلات اور ہتھیاروں کو امریکی نظام پر منحصر نہیں کرنا چاہتی۔ اسی لئے ’’بے ڈو ‘‘تیار کیا گیا ہے۔
جی پی ایس کے نعم البدل میں صرف بے ڈو ہی شامل نہیں۔ روس ’’گلوناس‘‘ نامی پوزیشننگ سسٹم تشکیل دے رہا ہے جو سویلین اور ملٹری دونوں مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ اس نظام کے 23 خلائی سیارچے پہلے ہی مدار میں ہیں۔ تاہم ابھی اسے کئی تکنیکی مسائل کا سامنا ہے۔ یورپی یونین بھی ’’گلیلیو‘‘ نامی اپنا نظام بنا رہی ہے اور اس نیٹ ورک کے 3 سیارچے مدار میں بھیجے جاچکے ہیں ۔ اسی طرح برطانیہ میںدفاعی مصنوعات بنانے والی کمپنی BAE سسٹمز بالکل انوکھے نظام پر کام کررہی ہے جس کے تحت عام سگنلز (ٹی وی، وائی فائی، ریڈیو، موبائل فونز وغیرہ) کو استعمال کرتے ہوئے صارف کی لوکیشن معلوم کی جا سکے گی۔
بظاہر یہ ممالک کی آپسی جنگ معلوم ہوتی ہے لیکن اس میں سب سے زیادہ فائدہ عام صارفین کا ہے جنھیں ایک سے زیادہ نیوی گیشن سسٹمز میسر آجائیں گے۔
بشکریہ "ماہنامہ اردو کمپیوٹنگ"