قمراحمد
محفلین
پاکستان دوراہے پر،رہنماؤں کا آدھا سچ،عوام تقسیم
اسلام آباد: روزنامہ جنگ(انصار عباسی) ضدی اور ناقابل پیشنگوئی مقامی طالبان اور گومگو کی شکار سیاسی قیادت کے درمیان آج پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اس کے عوام اس سوال پر شدید تقسیم ہیں کہ مادر وطن میں طالبانائزیشن اور انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے کس طرح نمٹا جائے۔ رہنما آدھا سچ بولنے کا رجحان رکھتے ہیں اور سچ بولنے سے خوفزدہ ہیں۔ پس پردہ بریفنگ اور آف دی ریکارڈ گفتگو میں ہر کسی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ خرابی کہاں ہے لیکن اپنی عوامی تقاریر میں وہ اپنے حقیقی خیالات بتاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ اس صورتحال میں کنفیوژن بڑھ جاتی ہے اور طالبانائزیشن کا کینسر بڑھتا جارہا ہے جبکہ حکومت مکمل انارکی اور خانہ جنگی کی سی صورتحال سے گریز کے لئے موثر حکمت عملی بنانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ ہم اقوام عالم میں ایک اتنا بڑا مذاق بن چکے ہیں کہ آج امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن بھی پاکستان کے عوام سے یہ مطالبہ کررہی ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں تاکہ واشنگٹن کی خواہشات کے مطابق معاشرے میں طالبانائزیشن کا انسداد کیا جاسکے۔ واشنگٹن کے کلنٹنز، ہالبروکس، پیٹرسنز اور مولنز پہلے ہی فیصلہ سازی میں اسلام آباد پر اثر انداز ہورہے ہیں لیکن امریکی وزیر خارجہ کا بیان بہت برے مطالبے کی صورت میں سامنے آیا ہے کہ پاکستانی عوام اسلام آباد کے خلاف بغاوت کردیں۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں اس سے زیادہ بری اور کیا بات ہوسکتی ہے؟ مشیر داخلہ رحمن ملک نے بدھ کو پہلی مرتبہ بلوچستان پر گفتگو کرتے ہوئے بھارت اور روس کا نام لیا ہے کہ وہ صوبہ میں آگ کو بھڑکا رہے ہیں تاہم ان کا انکشاف بھی آدھا سچ ہے کیونکہ وہ کہیں زیادہ طاقت ور اقوام امریکہ اور برطانیہ کا نام لے سکے تاکہ اس بات کے اعلان سے گریز کر سکیں کہ بلوچستان لبریشن آرمی ایک دہشت گرد تنظیم ہے بلکہ کچھ انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق کس طرح ایک بین الاقوامی سازش پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے اور اسے اس کے جوہری اثاثوں سے محروم کرنے کے لئے کی جارہی ہے تاہم یہ رحمن ملک کے کابینہ کے ساتھی وفاقی وزیر، اعظم سواتی تھے جنہوں نے حال ہی میں بار بار وہ بات کہی جو پاکستانی حکمرانوں اور سیاسی قیادت کے دل ودماغ میں تھی۔
سواتی نے کہا کہ امریکا پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کررہا ہے اور ملک کے جوہری پروگرام کے پیچھے پڑھا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک بالغ نظر رہنما اور سینئر رکن پارلیمنٹ سینیٹر رضا ربانی نے بھی پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے امریکا پر الزام عائد کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت جب پس پردہ تبادلہ خیال اور بریفنگ کی تفصیلات تھوڑی تھوڑی کر کے باہر آنا شروع ہو گئی ہیں تو پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں نواز شریف تیزی کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے مسئلے پر عملیت پسند ہوتے جارہے ہیں ماضی میں وہ اس حوالے سے بہت دو ٹوک رہے ہیں لیکن حال ہی میں انہوں نے پاکستان کے لئے واشنگٹن کی پالیسیوں پر تنقید کرنا بند کردیا ہے اور اس کے بجائے وہ جو کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ وہ غالباً واشنگٹن کے کانوں کو بہت بھلا لگا ہو گا۔ نواز شریف کو شاید اس بات پر یقین آنے لگا ہے کہ اسلام آباد کا راستہ واشنگٹن سے ہو کر گزرتا ہے۔ کسی کو یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ صدر زرداری اٹھ کھڑے ہوں گے اور واشنگٹن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں گے جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں ان کی واپسی امریکا اور برطانیہ کی جانب سے جنرل مشرف کے ساتھ ڈیل کا نتیجہ تھی اور این آر او جس کا لازمی حصہ تھا۔ تاہم اسلام آباد کے اندرونی معاملات میں واشنگٹن کی بڑھتی ہوئی مداخلت کی وجہ سے یوسف رضا گیلانی کو یہ کہنا پڑا کہ ہالبروک کو سوات امن معاہدہ پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
اندرون ملک کھینچا تانی کا وقت گزر چکا ہے اب یہ موقع پر پاکستان کو بچانا کا ہے خواہ یہ بلوچستان ہو، سوات، بونیر یا قبائلی علاقہ اور طالبانائزیشن کا بڑھتا ہوا چیلنج۔ یہ وقت معاشرے کی دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم سے بالاتر ہونے کا اب وقت عمل کا آگیا ہے اور شاید پارلیمنٹ کو پس پردہ بریفنگ کا وقت بھی ختم ہو چکا ہے۔ اب ذمہ داری اعلیٰ حکمرانوں خاص طور پر صدر اور وزیراعظم، اہم سیاسی رہنماؤں بشمل نواز شریف، سید منور حسن، مولانا فضل الرحمن، اسفندر یار ولی، محمود خان اچکزئی، حاصل بزنجو، الطاف حسین (جنہیں پاکستان آنے کی قربانی دینی ہو گی)، اور دیگر بشمول اہم مذہبی اسکالرز کی ہے کہ وہ مل کر بیٹھیں اور بلوچستان، صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں صورتحال کا کلی طور پر جائزہ لیں تاکہ پاکستان کو عدم استحکام سے بچایا جا سکے۔
ان اہم چیلنجز سے اس وقت تک نہیں نمٹا جا سکتا جب تک کہ کچھ بنیادی حقائق زیر غور نہ لائے جائیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پرویز مشرف کا اس کو اختیار کرنے اور اس کی حمایت کے فیصلے، جو واشنگٹن کی توقعات سے بھی کہیں زیادہ تھا، نے یہ عام تاثر پیدا کیا ہے کہ پاکستان اور اس کی فوج واشنگٹن کی جنگ لڑ رہی ہے یہ تاثر اس وقت مزید گہرا ہوا جب افغانستان میں موجود امریکی فوجوں نے قبائلی علاقوں کو میزائل یا ڈرون حملوں سے حدف بنایا دوسری جانب پاکستان کی سیکورٹی فورسز بشمول فوج نے قبائلی علاقوں میں آپریشن کا آغاز کردیا۔ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور واضح طور پر مسلمانوں کو ہدف بنانے سے وابستہ تمام تنازعات کے باوجود اسلام آباد میں ڈرون حملوں کے تسلسل سمیت کچھ معذرت خواہانہ تحفظات کے ساتھ واشنگٹن کی حمایت جاری رکھی۔ وقتاً فوقتاً پاکستان نے قبائلی علاقوں میں صورتحال کو پرسکون بنانے اور حکومتی رٹ قائم کرنے کے لئے امن معاہدہ کرنے کی کوشش کی لیکن امریکا نے نہ صرف یہ کہ اس طرح کی کوششوں کی مخالفت کی بلکہ انہیں ناکام بھی بنایا نیک محمد کو فوج کے ساتھ ڈیل ہونے کے چند ہفتوں کے اندر امریکی میزائل حملے سے ہلاک کیا گیا بعد میں باجوڑ میں ایک مدرسے پر امریکا نے میزائل سے حملہ کیا جس سے 80 معصوم بچے اور نوجوان شہید ہو گئے اور یہ حملہ مقامی طالبان اور اس وقت کے گورنر صوبہ سرحد جنرل علی جان اورکزئی کے ساتھ امن معاہدہ سے چند گھنٹے قبل کیا گیا جس پر پورے پاکستان چراغ پا ہو گیا، امریکا مخالف جذبات ابھر آئے اور ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو تقویت ملی۔ مشرف نے اعلان کیا تھا کہ باجوڑ کا آپریشن پاکستانی فوج نے کیا ہے چند ہفتوں کے اندر درگئی میں اپنی ہی فوج کے خلاف اپنے ہی علاقے میں ملک کا پہلا خود کش حملہ ہوا۔ بعد میں پرویز مشرف نے ایک اور بے رحمانہ پیش رفت کی اور پاک فوج کے کمانڈوز سے لال مسجد آپریشن کرایا جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد بشمول جامعہ حفصہ کی طالبات شہید ہوئیں۔ اگرچہ اس سب کی اکثریت نے مذمت کی لیکن اس کے نتیجہ میں قبائلی علاقوں مذہبی گروپوں اور مدرسوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد نے پرویز مشرف، ان کی حکومت، پاکستانی فوج اور سیکورٹی ایجنسیز سے بدلہ لیا۔ ان سب کو واشنگٹن اور اس کی فورسز کی توسیع سمجھا جاتا تھا۔ جیسا کہ خدشہ تھا لال مسجد کے آپریشن کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پر ردعمل ہوا اور پاکستانی فوج، سیکورٹی فورسز، غیر ملکی اور امریکی اہداف حتیٰ کہ واشنگٹن کی علامت سمجھی جانے والی چیزوں کے خلاف بڑے پیمانے پر اور نہ ختم ہونے والا خود کش حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ لال مسجد کے قتل عام کی ویڈیو مدرسوں کے نوجوان طلبہ کو دکھائی جاتی ہیں تاکہ انہیں خود کش حملوں کے لئے تیار کیا جا سکے جسے وہ اسلام کے دشمنوں اور کافروں کے ساتھیوں کے خلاف ”جہاد“ سمجھتے ہیں۔
پاکستان طالبانائزیشن اور انتہا پسندی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے دہشتگردی کے خلاف کسی حکمت عملی سے قبل طالبان اور انتہا پسندوں کی نفسیات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اگر کوئی پالیسی تشکیل دی گئی، نئی اینٹی ٹیرر فورس بنائی، آلات حاصل کئے گئے اور بے عیب سیکورٹی کے اقدامات کئے گئے تب بھی اس وقت کچھ نہیں ہو گا جب تک کہ مسئلے کی جڑ کو ختم نہیں کیا جاتا اس کے بغیر وہ مزید پھیلیں گے ان کے لئے خود کش بمباروں کی کوئی کمی نہیں ہے، یہ وہی صورتحال ہے جو اب تک چلی آرہی ہے اور کوئی چیز کام نہیں کررہی۔ پاکستان کے خلاف لڑنے والوں کے حوالے سے مینجمنٹ پالیسی کا اختیار کیا جانا واحد آپشن ہے لیکن یہ اسی وقت کام کرے گا جب واشنگٹن نہیں بلکہ پاکستان کے مفاد میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے گی۔ جو کام سب سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس عام تاثر کو ختم کیا جائے کہ پاکستان واشنگٹن کی جنگ لڑ رہا ہے یہ کام اسی وقت ہو سکتا ہے جب اسلام آباد دہشت گردی کے خلاف واشنگٹن کی جنگ سے فاصلہ پیدا کر لے۔ جس کا مطلب یہ ہو گا کہ ڈرون حملے برداشت کرنے سے انکار کردیا جائے اور جو اگر جاری رہیں تو امریکا اور اتحادی فورسز کی سپلائی لائن کو منقطع کر کے اس کا جواب دیا جانا چاہیے اس کے پاکستان کو امریکا کی اس مشروط امداد کو قبول کرنے سے بھی انکار کردینا چاہیے جو کسی بھی طرح سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مسئلے کے اندرون ملک حل کی تلاش میں اسلام آباد پر کوئی پابندی عائد کرتی ہو۔ اقتدار سے بیدخل کئے جانے والے امر پرویز مشرف کے خلاف لال مسجد کے قتل عام، قبائلی علاقوں میں کئے جانے والے قتل عام، نواب اکبر خان بگٹی کی ہلاکت اور ڈالرز کے عوض پاکستانیوں کو امریکا کے حوالے کرنے پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے ان کے خلاف مقدمہ سے غصہ میں کمی واقع ہو گی اور اگر پرویز مشرف سے مستقل وی وی آئی پی کا برتاؤ جاری رکھا گیا تو طالبان اور بلوچوں کا جذبہ انتقام ختم نہیں ہو گا۔ اب حکومت کو چاہیے کہ وہ امریکیوں سے صاف بات کریں کہ کون کون سی بین الاقوامی ایجنسیز پاکستان میں قبائلی علاقوں میں طالبان کے کچھ دھڑوں کو دہشت گردی کے لئے حمایت فراہم کررہی ہیں، کون بلوچ لبرشن آرمی کی مالی اور عسکری حمایت کرتا ہے، برہمداغ بگٹی کی حوصلہ افزائی کون کرتا ہے کہ وہ بلوچستان میں امن کے قیام کے لئے اسلام آباد سے مذاکرات سے بجائے پاکستان کے خلاف کام کریں، کیوں بھارت نواز اور پاکستان مخالف امریکی کٹ پتلی کابل کی کرزئی حکومت نے بھارت کو پاکستان کی سرحد کے قریب ایک درجن سے زائد قونصلیٹ قائم کرنے کی اجازت دی یہ قونصلیٹ درحقیقت دہشتگردی کو فروغ دینے کے مراکز ہیں اور کیوں امریکی حکام وقتاً فوقتاً پاکستانی جوہری پروگرام، اس کی فوج اور آئی ایس آئی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ یہاں اس وقت تک تبدیلی نہیں آئے گی جب تک کہ اٹھائے گئے ان بنیادی سوالات کو حل نہیں کیا جاتا۔