پاکستان: علماء خاندانی منصوبہ بندی کے حق میں

پاکستان: علماء خاندانی منصوبہ بندی کے حق میں
فلاح سے منسلک مذہبی شخصیات ہی نہیں بلکہ دیگر جید علماء کا بھی یہی کہنا کہ کہ خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ ابہام پایا جاتا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی غیر اسلامی یا غیر شرعی عمل ہے۔
پاکستان کے مفتی اعظم، دارالعلوم نعیمیہ اور تنظیم المدارس اہل سنت کے صدر، مفتی منیب الرحمان کہتے ہیں، ’’خاندانی منصوبہ بندی کو اگر حکومت اپنی پالیسی میں شامل کرے تو یہ درست نہیں ہے لیکن اگر کوئی فرد اپنے معاشی حالات یا کسی بیماری کی وجہ سےامتنائے حمل یعنی حمل ٹہرنے سے روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرے تو یہ منع نہیں ہے۔ ہاں اگر حمل ٹہر جائے تو اس کو ساقط کرنا منع ہے۔‘‘
اسی خیال کی توثیق فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے معروف عالم دین اور ذاکر علامہ زہیر عابدی نے بھی کی، ’’مذہبی نقطہ نظر سے دیکھیں تو حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ ، نکاح کرو اور زیادہ سے زیادہ اولاد پیدا کرو، لیکن یہ ایک اجتماعی حکم ہے اور انفرادی طور پرکوئی شخص اگر سمجھتا ہے کہ اس کے حالات ایسے ہیں کہ وہ زیادہ بچے نہیں پال سکتا تو وہ احتیاط کر سکتا ہے۔ اس کی اجازت اسلام نے دی ہے۔‘‘
پاپولیشن کونسل کے مطابق پاکستان میں ہر برس ہونے والی 90 لاکھ پریگنینسیز یا حمل میں سے قریب 40 لاکھ والدین کی خواہش کے بغیر ہوتی ہیں۔ اگر مذہبی رہنماؤں کی شمولیت سے فلاح جیسے پروگرام کو ملک بھر میں چلایا جاتا ہے تو بناء خواہش کے ہونے والی پریگنینسیز پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
 

دوست

محفلین
ایران کی مذہبی قیادت اس سلسلے میں شاباشی وصول کرنے کی حقدار ہے۔ انہوں نے اسی کے عشرے میں دیکھا کہ آبادی تو قابو سے باہر ہو رہی ہے تو منصوبہ بندی کو فروغ دیا۔ اور اس سلسلے میں کوئی ابہام نہیں تھا، سرکاری پالیسی تھی اور مکمل مذہبی بیک اپ فراہم کی گئی۔ مسلمانوں کے پاس اور کام ہی کیا ہے بچے بنانے کے علاوہ، اور مولوی کو بھی یہی نظر آتا ہے کہ بناتے جاؤ اور پھینکتے جاؤ۔
 
Top