پاکستان قدرت کا کرشمہ

یہ بھی قدرت کا کرشمہ ہے کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ایٹمی ملک ہے جو اٹھارہ کڑوڑ عوام کو سستی بجلی مہیا نہیں کرسکتا بلکہ سستی کیا کرنی ہے پوری بجلی مہیا نہیں کرسکتا، جہاں کا سب سے منافع بخش بزنس ، جرنیٹر اور یو پی ایس ہیں ، جہاں ایک ماہ تک صنعتیں ، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بند کردی جاتی ہیں، جہاں سب سے مہنگی بجلی ہے، جہاں کے ہنر مند صرف مہنگی بجلی کی وجہ سے دوسرے ممالک سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔
جہاں کے سیاستدانوں کا سب سے مقبول نعرہ عوام کو سستی بجلی دیں گے، اور یہ نعرہ کئ سالوں سے لگ رہا ہے۔
جہاں عوام سردی میں ہیٹر کے آگے بیٹھ کر سردی انجوائے نہیں کرسکتی ، کیونکہ ہیٹر میں سے ٹھنڈی ہوا نکلتی ہے۔ جہاں کی عوام کا دل، جدید میزائل اور ایٹمی اسلحہ دیکھا کر، بہلایا جاتا ہے۔ جہاں کے حکمران ، اپنے دریا بیچ دیتے ہیں، اور جہاں سے دریا بہتے ہیں، ان پر دشمن کو ڈیم بنانے کی اجازت دے دیتے ہیں، مگر اپنے ملک میں ڈیم بننے کے نام سے ہنگامے کھڑے ہوجاتے ہیں،پٹھان، سندھی ، پنجابی ، بلوچ کی لڑائ شروع ہوجاتی ہے۔
جہاں قائد کی تصویر صرف نوٹوں پہ نظر آتی ہے، جہاں روزانہ دو قومی نظرئیے کو پامال کیا جاتا ہے، جہاں عوام کے لیے خوبصورت سڑکیں تو بنائ جاتی ہیں، مگر عوام کو اس قابل بھی نہیں چھوڑا جاتا کہ وہ پیدل بھی چل سکیں۔
۔از: عبدالباسط احسان
 

سید زبیر

محفلین
عبدالباسط احسان
ا للہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں ۔
[RIGHT][COLOR=#0000ff]یہ بھی قدرت کا کرشمہ ہے کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ایٹمی ملک ہے جو اٹھارہ کڑوڑ عوام کو سستی بجلی مہیا نہیں کرسکتا[/COLOR] لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب یہ آزاد ہوا تھا نہ یہاں دفاتر تھے نہ یہاں کارخانے اور فیکٹریاں ۔ دفاعی اداوں کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ تھی ۔لارڈ ماوئنٹ بیٹن نے جواب دے دیا تھا کہ ہمارے پاس پاکستان کو دینے کے لیے ٹین کی چھتیں بھی نہیں ۔ انفرا سٹرکچر کا نام و نشان بھی نہ تھا ۔[/RIGHT]
[RIGHT]آج وطن عزیز کو بجلی ہی نہیں ہر قسم کی توانائی کی شدید قلت کا سامنا ہے مگر کارخانوں کی بنیاد رکھی جا چکی ، ہنر مند افراد دنیا بھر میں اپنا مقام بنا چکے ہیں ، ہماری دفاعی صنعت بیرون ملک اپنا مقام پیدا کرچکی ہے طیارہ سازی میں داخل ہو چکے ہیں چھوٹے مشاک طیارے برآمد کیے جاتے ہیں[/RIGHT]
صرف اٹھارہ سال کی عمر میں ہماری افواج اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کو ناکوں چنے چباچکی ہے غداران وطن کی انتہائی کاوشوں کے باوجود عالمی برادری میں مقام ہے ۔
اب اگر میں کہوں کہ غربت بھی کم ہوئی ہے تو +پ یقینا اسے میری جہالت کہیں گے لیکن میں آپ کو 1970 کے نرخ یاد دلاوں تو شاید آپ یقین کرلیں ۔1970میں ایک کلرک کی تنخواہ 110 روپے تھی ۔ آٹا 27 روے کا 40 کلو (اس کی تنخواہ کا تقریبا چوتھائی )، مرغی 25 روپے (اس کی تنخواہ کا پانچواں حصہ) آج جیسی تنخوہ ہے اس حساب سے تو یہ مہنگائی نہیں ہاں اس وقت سونا 90 اور 95 روپے فی تولہ کے حساب سے تھا اس حساب سے تنخواہ نہیں بڑھی ۔اس دور میں ہوٹل میں کھانا صرف مسافر یا بے گھر افراد کھایا کرتے تھے آج پاکستان کے پندرہ شہروں کی فوڈ سٹریٹس اور ہوٹل رات گئے تک کھلے رہتے ہیں جن مں مسافروں اور بے گھر افراد سے کہیں زیادہ کھانے کے شوقین افراد کی ہوتی ہے ۔
میری رب سے التجا ہے کہ عالم اسلام اور خصوصا پاکستان پر رحم فرمائےاور غداروں سے نجات دلائے (آمین) انشا اللہ بہت جلد اپنا مقام حا صل کر لیں گے
 

تلمیذ

لائبریرین
دلوں کے یہ پھپھولے آج کہاں سے یاد آ گئے، صاحب؟ ہم تو ، جب سے ہوش سنبھالا ہے، یہی کچھ دیکھ رہے ہیں اور حسرت ہی ہے کہ اپنی باقی ماندہ زندگی میں ہم بھی ملک میں کوئی بہتری ہوتی دیکھ لیںؕ ۔
 

سید زبیر

محفلین
دلوں کے یہ پھپھولے آج کہاں سے یاد آ گئے، صاحب؟ ہم تو ، جب سے ہوش سنبھالا ہے، یہی کچھ دیکھ رہے ہیں اور حسرت ہی ہے کہ اپنی باقی ماندہ زندگی میں ہم بھی ملک میں کوئی بہتری ہوتی دیکھ لیںؕ ۔
سر! نا امیدی سے بچانے کے لیے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالنی تھی ۔ ۔ ۔ امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئیے ۔بے شک مشکل کے بعد آسانی آتی ہی ہے
 
Top