پاکستان میں ایسا کیا ہے؟...ذراہٹ کے…یاسر پیر زادہ
ایک ایسا بچہ جو پڑھائی میں کمزور ہو اور اس کا باپ آتے جاتے جوتوں سے اس کی تواضع کرے ، اس بچے کے منہ پر جوانی کے مہاسے ہوں اور اس کا باپ نفرت سے انہیں چیچک کے داغ کہے ، اس بچے کو اگر بخار ہو جائے تو اس کا باپ کہے کہ اب یہ کوڑھ میں مبتلا ہو کر مر جائے گا ، اس بچے کی اگر محلے سے شکایت آ جائے تو اس کا باپ محلے والوں کے سامنے اسے ننگا کرکے ڈنڈوں سے مارے ، وہ بچہ اگر کھیلوں میں کوئی انعام حاصل کرکے گھر آئے تب بھی اس کا باپ لعن طعن ہی کرے ، اس بچے کی سالگرہ ہو تو اس کا باپ شفقت سے بات کرنے کی بجائے اس کے پورے سال کی نالائقیوں کا کھاتہ کھول کر بیٹھ جائے اور لڑاکا عورتوں کی طرح طعنے دے،تو کیا ایسا بچہ زندگی میں کبھی کامیاب ہو سکتا ہے ؟ کیا بچوں کی تربیت کے حوالے سےآپ نے یہ ’’حکمت عملی “کامیاب ہوتے دیکھی ہے؟ کیا آپ نے کبھی ایسا باپ دیکھا ہے ؟ میں نے دیکھا ہے .......بچے کا نام پاکستان ہے اور اس کے باپ ہیں ہم سب ، نام نہاد دانشور جو رات دن پاکستان میں کیڑے نکالتے ہیں ، اس کی خامیوں کو ٹیگ لائن بنا کر اپنے ٹاک شوز سجاتے ہیں ، اس کی برائیوں کو محدب عدسہ لگا کر دیکھتے ہیں اور اچھائیوں سے یوں منہ چھپا کر گزرتے ہیں جیسے کوئی پردہ دار عورت کسی نا محرم کے پاس سے گزرتی ہے ۔
حماقت ہے یہ کہنا کہ پاکستان میں کوئی خرابی نہیں ، مگر ظلم ہے یہ کہناکہ اس ملک میں سب کچھ ہی خراب ہے ، اس کا نظام گندگی کا گٹر ہے ، اس کی جمہوریت فاحشہ عورت کی طرح بکتی ہے ، اس کے سیاست دان کرپٹ ہیں ، اس کے بیوروکریٹ نالائقوں کا ٹولہ ہیں ، یہاں سفارش یا رشوت کے بغیر جائز کام کی امید رکھنا نری بیوقوفی ہے ، اس ملک نے ہمیں دیا کچھ نہیں الٹا ہم سے چھینا ہے ، یہاں بدمعاشوں کی حکومت ہے ، یہاں موروثی سیاست ہے ، یہ اسمبلیاں نہیں بلکہ طوائف کا کوٹھا ہے جو جتنی زیادہ ’’ویلیں “ دیتا ہے اتنی زیادہ ’’عزت “ ملتی ہے ، اس حمام میں سب ننگے ہیں ، اس فرسودہ نظام کو سائنائڈ کی بھاری ڈوز دے کر مارنا ہوگا اور پھر نئے نظام کو بھی ہائڈرو فلورک ایسڈ سے غسل دے کر آزمانا ہوگا .......وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہے وہ بیانہ جو ہمارے دانشور بیچتے ہیں اور ہم دھڑا دھڑ خریدتے ہیں۔جن دانشوروں کی یہ لائن ہے ان کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے ساری عمر یہی سودا بیچا ہے اور اب وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے ، یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں جو مال بیچتا رہا دراصل اسی میں ملاوٹ تھی ! چونکہ اس بیانئے میں شہرت بہت ملتی ہے ، بیرون ملک پاکستانی بہت گاہک ہیں جنہیں یہ تسلی رہتی ہے کہ پاکستان چھوڑنے کا ان کا فیصلہ درست تھا ، اندرون ملک پاکستانیوں کو اپنے ہر ناجائز کام کا دفاع کرنے کا موقع مل جاتا ہے ، اس بیانئے کی آڑ میں وہ یہ مطلب نکالتے ہیں کہ اس نظام میں قانون پر عمل کرنے والا بیوقوف ہے کیونکہ یہ نظام ہی زہر میں لتھڑا ہوا ہے ، یہاں ہر کوئی کرپٹ ہے لہٰذا اگر ہم کرپٹ ہیں تو یہ ’’عملی “ اور سراسر جائز بات ہے ۔ نتیجہ اس بیانئے کا یہ نکلتا ہے کہ لوگوں کا نظام سے اعتماد اٹھ جاتا ہے ، انہیں لگتا ہے کہ جب تک ملک کے کونے کونے میں پھانسی گھاٹ نہیں کھلے گا اور اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں سے پانچ کروڑ تارا مسیح بھرتی کرکے بقایا تیرہ کروڑ کو پھانسیاں نہیں دی جائیں گی ملک کا نظام ٹھیک نہیں ہوگا ، اور ان تمام کروڑوں لاشوں میں سے یہ سب اپنے آپ کو حیرت انگیز انداز میں مائنس کر لیتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ (خدا نخواستہ ) اگریہ سب کچھ ملک میں ہوا تو ہم چپ کرکے بوریا بستر سمیٹیں گے اور باہر جا بسیں گے اور تب واپس آئیں گے جب پھانسی گھاٹ لاشوں سے اٹے پڑے ہوں گے ۔
لاکھوں لوگ اس ملک میں ایسے ہیں جو یہ ملک چھوڑ کر باہر سیٹل ہونا چاہتے ہیں(واضح رہے کہ چین جیسے ملک میں جس کی ترقی کی مثالیں دیتے ہوئے ہماری ہچکی بندھ جاتی ہے ، کروڑوں لوگ ملک چھوڑ کر مغرب میں بسنا چاہتے ہیں)، لاکھوں ایسے بھی ہیں جو دوسرے ملک کی امیگریشن لے سکتے ہیں مگر انہوں نے پاکستان جیسے ’’سڑے بسے “ ملک میں رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اور لاکھوں ایسے بھی ہیں جو باہر تو جا بسے ہیں مگر ان کا دل پاکستان میں دھڑکتا ہے ، ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان واپس آ جائیں، کیوں؟ پاکستان میں ایسا کیا ہے کہ دنیا میں جنت جیسے ملکوں کو چھوڑ کر بھی لوگ ’’دہشت کی اس نگری “ میں واپس آنے کو تیار ہیں ؟بقول ہمارے دانشوروں کے یہ ملک تو دنیا میں جہنم قرار دیا جا چکا ہے ، اس ملک میں تو کسی کی عزت جان مال محفوظ نہیں ، اس ملک میں تو بچہ پیدائش سے پہلے ہی کرپشن سیکھ لیتا ہے ، مرنے سے پہلے اگر کسی نے دوزخ کی آگ کا ٹریلر دیکھنا ہو تو اسے چاہئے کہ پاکستان آ جائے ، یہ ملک تو اب جانوروں کے رہنے کے قابل نہیں رہا.......یہ سب باتیں اگر درست ہوں تو کوئی کتنا بھی محب وطن ہو ، کتنا بھی نوسٹیلجک ہو ، اسے اپنی پرکھوں کی قبروں سے کتنا ہی پیار ہو ، اسے وہ گلیاں کھیت کھلیان کتنے ہی ہانٹ کیوں نہ کرتے ہوں جہاں وہ پل بڑھ کر جوان ہوا تھا ، اس کی جوانی کی کتنی ہی پر کیف یادیں اس ملک سے کیوں نہ وابستہ ہوں ، ’’جہنم “ میں رہنا کسی کو بھی وارا نہیں کھاتا۔تو پھر پاکستان میں ایسا کیاہے جو ہمیں چین ہی نہیں لینے دیتا ، اگر اس ملک نے ہمیں کچھ نہیں دیا تو پھر یہ پاگل ہیں جو 14اگست کو جشن مناتے پھرتے ہیں ، اس کلئے کی رو سے تو (خاکم بدہن)ہر گھر میں ماتم ہونا چاہئے، اور ایسا بھی نہیں کہ وہ لوگ جشن آزادی منا رہے ہوں جو اس ملک میں ارب پتی بن گئے ، یہ جشن تو زیادہ تر وہ کلاس منا تی ہے جسے ، بقول ہمارے دانشوروں کے ، ملک نے کچھ دیا ہی نہیں !کوئی اگر بالکل ہی لٹ پٹ جائے تو ، بے تکے طریقے سے ہی سہی ، بہرحال وہ جشن نہیں مناتا۔یہ عجیب گھاٹے کا سودا ہے ، ملک ہمیں کچھ دیتا بھی نہیں پھر بھی ہم یہاں آنے کے لئے تڑپتے ہیں ، اوسلو، پیرس، نیویارک میں رہتے ہیں مگر پاکستان ہے کہ دل سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا ، یہ کیسی جہنم ہے جس سے ہمیں عشق ہے ، یہ کیسی آگ ہے جس میں ہم جلنا چاہتے ہیں ، یہ کیا دیوانگی ہے جو ہمیں تڑپاتی ہے،آخر اس ملک میں کچھ تو ایسا ہوگا جس کی وجہ سے ہمیں چین نہیں پڑتا !
یقیناً اس ملک میں بے شمار خرابیاں ہیں ،
میں خود سارا سال ان خرابیوں پر ماتم کرتا ہوں ، کڑھتا ہوں ، دوسرے ممالک کی مثالیں دیتا ہوں ، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس ملک کو اس بچے کی طرح ٹریٹ کرنا شروع کر دیں جو پڑھائی میں کمزور ہو اور اس کا باپ ہر وقت طمانچوں سے اس کا منہ لال کئے رکھے!دو دن پہلے پاکستان کا یوم آزادی تھا، سارا سال باقی ہے پاکستان کو لتاڑنے کے لئے ، کم از کم یہ دو چار دن تو اس ملک کو بخش دیں ، ہمارے چھابے کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ، ہماری تحریروں کے گاہک یہی رہیں گے کیونکہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ ’’بد صورت “ ہیں اس لئے ہم پاکستان کی خوبصورتی کو برداشت نہیں کر سکتے ، ہم لوگوں کو پاکستان میں جہاں خوبصورتی نظر آتی ہے ہم اسے سیاہی سے مل کر بدنما دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ، کیونکہ پاکستان کو ’’ٹھڈے “ مارنے سے ہی ہماراسودا بکتا ہے !
کالم کی دُم:اس دفعہ جشن آزادی پر دو مشہور کولا کمپنیوں نے اپنے اپنے انداز میں ملی نغمے بنائے ، ایک شعیب منصور کی تخلیقی صلاحیتوں کا شاہکار ہے جس کا ٹائٹل ’’چاند ستارہ “ ہے اور دوسرا ’’ سوہنی دھرتی اللہ رکھے “ کا ری مکس ہے جس میں پاکستان کے مایہ ناز گلوکاروں نے حصہ لیا ہے ، یہ دونوں نغمے سننے اور دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ، یہ کالم لکھنے کے دوران میں دس مرتبہ سن چکا ہوں ، نہ جانے اس ’’جہنم “ میں ایسے تخلیق کار کیسے جنم لیتے ہیں !
ایک ایسا بچہ جو پڑھائی میں کمزور ہو اور اس کا باپ آتے جاتے جوتوں سے اس کی تواضع کرے ، اس بچے کے منہ پر جوانی کے مہاسے ہوں اور اس کا باپ نفرت سے انہیں چیچک کے داغ کہے ، اس بچے کو اگر بخار ہو جائے تو اس کا باپ کہے کہ اب یہ کوڑھ میں مبتلا ہو کر مر جائے گا ، اس بچے کی اگر محلے سے شکایت آ جائے تو اس کا باپ محلے والوں کے سامنے اسے ننگا کرکے ڈنڈوں سے مارے ، وہ بچہ اگر کھیلوں میں کوئی انعام حاصل کرکے گھر آئے تب بھی اس کا باپ لعن طعن ہی کرے ، اس بچے کی سالگرہ ہو تو اس کا باپ شفقت سے بات کرنے کی بجائے اس کے پورے سال کی نالائقیوں کا کھاتہ کھول کر بیٹھ جائے اور لڑاکا عورتوں کی طرح طعنے دے،تو کیا ایسا بچہ زندگی میں کبھی کامیاب ہو سکتا ہے ؟ کیا بچوں کی تربیت کے حوالے سےآپ نے یہ ’’حکمت عملی “کامیاب ہوتے دیکھی ہے؟ کیا آپ نے کبھی ایسا باپ دیکھا ہے ؟ میں نے دیکھا ہے .......بچے کا نام پاکستان ہے اور اس کے باپ ہیں ہم سب ، نام نہاد دانشور جو رات دن پاکستان میں کیڑے نکالتے ہیں ، اس کی خامیوں کو ٹیگ لائن بنا کر اپنے ٹاک شوز سجاتے ہیں ، اس کی برائیوں کو محدب عدسہ لگا کر دیکھتے ہیں اور اچھائیوں سے یوں منہ چھپا کر گزرتے ہیں جیسے کوئی پردہ دار عورت کسی نا محرم کے پاس سے گزرتی ہے ۔
حماقت ہے یہ کہنا کہ پاکستان میں کوئی خرابی نہیں ، مگر ظلم ہے یہ کہناکہ اس ملک میں سب کچھ ہی خراب ہے ، اس کا نظام گندگی کا گٹر ہے ، اس کی جمہوریت فاحشہ عورت کی طرح بکتی ہے ، اس کے سیاست دان کرپٹ ہیں ، اس کے بیوروکریٹ نالائقوں کا ٹولہ ہیں ، یہاں سفارش یا رشوت کے بغیر جائز کام کی امید رکھنا نری بیوقوفی ہے ، اس ملک نے ہمیں دیا کچھ نہیں الٹا ہم سے چھینا ہے ، یہاں بدمعاشوں کی حکومت ہے ، یہاں موروثی سیاست ہے ، یہ اسمبلیاں نہیں بلکہ طوائف کا کوٹھا ہے جو جتنی زیادہ ’’ویلیں “ دیتا ہے اتنی زیادہ ’’عزت “ ملتی ہے ، اس حمام میں سب ننگے ہیں ، اس فرسودہ نظام کو سائنائڈ کی بھاری ڈوز دے کر مارنا ہوگا اور پھر نئے نظام کو بھی ہائڈرو فلورک ایسڈ سے غسل دے کر آزمانا ہوگا .......وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہے وہ بیانہ جو ہمارے دانشور بیچتے ہیں اور ہم دھڑا دھڑ خریدتے ہیں۔جن دانشوروں کی یہ لائن ہے ان کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے ساری عمر یہی سودا بیچا ہے اور اب وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے ، یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں جو مال بیچتا رہا دراصل اسی میں ملاوٹ تھی ! چونکہ اس بیانئے میں شہرت بہت ملتی ہے ، بیرون ملک پاکستانی بہت گاہک ہیں جنہیں یہ تسلی رہتی ہے کہ پاکستان چھوڑنے کا ان کا فیصلہ درست تھا ، اندرون ملک پاکستانیوں کو اپنے ہر ناجائز کام کا دفاع کرنے کا موقع مل جاتا ہے ، اس بیانئے کی آڑ میں وہ یہ مطلب نکالتے ہیں کہ اس نظام میں قانون پر عمل کرنے والا بیوقوف ہے کیونکہ یہ نظام ہی زہر میں لتھڑا ہوا ہے ، یہاں ہر کوئی کرپٹ ہے لہٰذا اگر ہم کرپٹ ہیں تو یہ ’’عملی “ اور سراسر جائز بات ہے ۔ نتیجہ اس بیانئے کا یہ نکلتا ہے کہ لوگوں کا نظام سے اعتماد اٹھ جاتا ہے ، انہیں لگتا ہے کہ جب تک ملک کے کونے کونے میں پھانسی گھاٹ نہیں کھلے گا اور اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں سے پانچ کروڑ تارا مسیح بھرتی کرکے بقایا تیرہ کروڑ کو پھانسیاں نہیں دی جائیں گی ملک کا نظام ٹھیک نہیں ہوگا ، اور ان تمام کروڑوں لاشوں میں سے یہ سب اپنے آپ کو حیرت انگیز انداز میں مائنس کر لیتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ (خدا نخواستہ ) اگریہ سب کچھ ملک میں ہوا تو ہم چپ کرکے بوریا بستر سمیٹیں گے اور باہر جا بسیں گے اور تب واپس آئیں گے جب پھانسی گھاٹ لاشوں سے اٹے پڑے ہوں گے ۔
لاکھوں لوگ اس ملک میں ایسے ہیں جو یہ ملک چھوڑ کر باہر سیٹل ہونا چاہتے ہیں(واضح رہے کہ چین جیسے ملک میں جس کی ترقی کی مثالیں دیتے ہوئے ہماری ہچکی بندھ جاتی ہے ، کروڑوں لوگ ملک چھوڑ کر مغرب میں بسنا چاہتے ہیں)، لاکھوں ایسے بھی ہیں جو دوسرے ملک کی امیگریشن لے سکتے ہیں مگر انہوں نے پاکستان جیسے ’’سڑے بسے “ ملک میں رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اور لاکھوں ایسے بھی ہیں جو باہر تو جا بسے ہیں مگر ان کا دل پاکستان میں دھڑکتا ہے ، ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان واپس آ جائیں، کیوں؟ پاکستان میں ایسا کیا ہے کہ دنیا میں جنت جیسے ملکوں کو چھوڑ کر بھی لوگ ’’دہشت کی اس نگری “ میں واپس آنے کو تیار ہیں ؟بقول ہمارے دانشوروں کے یہ ملک تو دنیا میں جہنم قرار دیا جا چکا ہے ، اس ملک میں تو کسی کی عزت جان مال محفوظ نہیں ، اس ملک میں تو بچہ پیدائش سے پہلے ہی کرپشن سیکھ لیتا ہے ، مرنے سے پہلے اگر کسی نے دوزخ کی آگ کا ٹریلر دیکھنا ہو تو اسے چاہئے کہ پاکستان آ جائے ، یہ ملک تو اب جانوروں کے رہنے کے قابل نہیں رہا.......یہ سب باتیں اگر درست ہوں تو کوئی کتنا بھی محب وطن ہو ، کتنا بھی نوسٹیلجک ہو ، اسے اپنی پرکھوں کی قبروں سے کتنا ہی پیار ہو ، اسے وہ گلیاں کھیت کھلیان کتنے ہی ہانٹ کیوں نہ کرتے ہوں جہاں وہ پل بڑھ کر جوان ہوا تھا ، اس کی جوانی کی کتنی ہی پر کیف یادیں اس ملک سے کیوں نہ وابستہ ہوں ، ’’جہنم “ میں رہنا کسی کو بھی وارا نہیں کھاتا۔تو پھر پاکستان میں ایسا کیاہے جو ہمیں چین ہی نہیں لینے دیتا ، اگر اس ملک نے ہمیں کچھ نہیں دیا تو پھر یہ پاگل ہیں جو 14اگست کو جشن مناتے پھرتے ہیں ، اس کلئے کی رو سے تو (خاکم بدہن)ہر گھر میں ماتم ہونا چاہئے، اور ایسا بھی نہیں کہ وہ لوگ جشن آزادی منا رہے ہوں جو اس ملک میں ارب پتی بن گئے ، یہ جشن تو زیادہ تر وہ کلاس منا تی ہے جسے ، بقول ہمارے دانشوروں کے ، ملک نے کچھ دیا ہی نہیں !کوئی اگر بالکل ہی لٹ پٹ جائے تو ، بے تکے طریقے سے ہی سہی ، بہرحال وہ جشن نہیں مناتا۔یہ عجیب گھاٹے کا سودا ہے ، ملک ہمیں کچھ دیتا بھی نہیں پھر بھی ہم یہاں آنے کے لئے تڑپتے ہیں ، اوسلو، پیرس، نیویارک میں رہتے ہیں مگر پاکستان ہے کہ دل سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا ، یہ کیسی جہنم ہے جس سے ہمیں عشق ہے ، یہ کیسی آگ ہے جس میں ہم جلنا چاہتے ہیں ، یہ کیا دیوانگی ہے جو ہمیں تڑپاتی ہے،آخر اس ملک میں کچھ تو ایسا ہوگا جس کی وجہ سے ہمیں چین نہیں پڑتا !
یقیناً اس ملک میں بے شمار خرابیاں ہیں ،
میں خود سارا سال ان خرابیوں پر ماتم کرتا ہوں ، کڑھتا ہوں ، دوسرے ممالک کی مثالیں دیتا ہوں ، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس ملک کو اس بچے کی طرح ٹریٹ کرنا شروع کر دیں جو پڑھائی میں کمزور ہو اور اس کا باپ ہر وقت طمانچوں سے اس کا منہ لال کئے رکھے!دو دن پہلے پاکستان کا یوم آزادی تھا، سارا سال باقی ہے پاکستان کو لتاڑنے کے لئے ، کم از کم یہ دو چار دن تو اس ملک کو بخش دیں ، ہمارے چھابے کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ، ہماری تحریروں کے گاہک یہی رہیں گے کیونکہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ ’’بد صورت “ ہیں اس لئے ہم پاکستان کی خوبصورتی کو برداشت نہیں کر سکتے ، ہم لوگوں کو پاکستان میں جہاں خوبصورتی نظر آتی ہے ہم اسے سیاہی سے مل کر بدنما دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ، کیونکہ پاکستان کو ’’ٹھڈے “ مارنے سے ہی ہماراسودا بکتا ہے !
کالم کی دُم:اس دفعہ جشن آزادی پر دو مشہور کولا کمپنیوں نے اپنے اپنے انداز میں ملی نغمے بنائے ، ایک شعیب منصور کی تخلیقی صلاحیتوں کا شاہکار ہے جس کا ٹائٹل ’’چاند ستارہ “ ہے اور دوسرا ’’ سوہنی دھرتی اللہ رکھے “ کا ری مکس ہے جس میں پاکستان کے مایہ ناز گلوکاروں نے حصہ لیا ہے ، یہ دونوں نغمے سننے اور دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ، یہ کالم لکھنے کے دوران میں دس مرتبہ سن چکا ہوں ، نہ جانے اس ’’جہنم “ میں ایسے تخلیق کار کیسے جنم لیتے ہیں !