از:جو ایونز
پچھلی بار پاکستان میں جو تجربات پیش آئے، ان میں شامل تھا پشاور کے زیریں حصے اور خیبر پاس سے افغانستان کو دیکھنا، جب کہ اسد آباد کی طرف سے شمالی سرحد پر آنے والے راکٹوں کا سامنا۔
اس کے علاوہ، میں یہ بات بھی بخوبی جانتا تھا کہ عالمی ذرائع ابلاغ نے پاکستان کی جو تصویر کشی کی ہے، وہ مکمل طور پر درست نہیں۔ میں کوئٹہ کے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج میں اپنے قیام پر نظریں گڑائے بیٹھا تھا۔​
مزیدِ برآں، میں بالکل بھی یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ وہاں میرا قیام کیسا رہے گا۔ امریکی فوج کے ساتھ میرے کریئر میں جنوبی ایشیا میں کام کا تجربہ شامل ہونے والا تھا۔ یہ میرے لیے انتباہ کی مانند تھا۔​
کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج میں قیام کے دوران، پاکستان کے مختلف حصوں کا ایک سال تک دورہ کرنا بھی میرے پیشہ ورانہ کریئر کا ایک حصہ تھا۔​
اس سفر کا مقصد سیاسی، اقتصادی، سیکورٹی اور ثقافتی نقطہ نظر سے، پاکستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں، جتنا میں جان سکتا تھا، جاننے کے لیے تھا۔​
اس سفر کے دوران میں نے اس عظیم ملک کے بارے میں بہت سی اہم چیزیں دریافت کیں۔ ابتدائی طور پر یہ کہ عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ پاکستان کی جو تصویر پیش کرتا ہے، وہ درست نہیں۔​
میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں جو مجھے اس قابلِ فخر قوم کی مہمان نوازی اور یہاں کی خوبصورتی سے لُطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔​
مجھے اس سفر کے دوران کراچی، لاہور، پشاور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں جانے کا تجربہ ہوا۔​
میں نے پہاڑی مقام مری اور ایبٹ آباد بھی دیکھا۔ ٹیکسلا کے تاریخی مقام کی سیر کی اور زیارت بھی گیا۔ ساتھ ہی روح کو شاداب کردینے والے گلگت ۔ بلتستان کا بھی رخ کیا۔​
میں نے متاثر کُن موٹر وے پرڈرائیونگ کی اور کچے راستوں پر بھی گاڑی دوڑائی۔ میں نے لاہور کے انار کلی بازار اور کراچی کے پارک ٹاور میں خریداری بھی کی۔​
میں کچھ نہایت شان دار ہوٹلوں میں ٹھہرا اور بعض ایسے مقامات پر بھی شب بسری کی جو بہت اچھے نہیں تھے۔​
میں اس سفر کے دوران بہت سارے لوگوں سے ملا۔ ان میں سیاستدان بھی تھے، فنکار بھی، دکان دار بھی تھے اور طالب علم بھی۔ پادری تھے تو زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی۔​
قطع نظر اس کے کہ ان کا تعلق کہاں سے ہے، ہر شخص مانوسیت اور محبت سے ملا۔ اس محبت اور مانوسیت نے گھر سے دوری اور تنہائی کا احساس کم کرنے میں بہت مدد کی۔​
ایک سفید فام عیسائی اور مغربی ہونے کے باوجود مجھے پاکستان میں احساسِ گرم جوشی اور سکون ملا۔ اس پر مجھے خود بھی حیرانی تھی کہ میں یہ سب کچھ کیسے حاصل کرسکا، یہاں یہ بہت آسان ہے۔​
مجھے پاکستان میں بہت سی ثقافتوں اور اقدار سے روشناس ہونے کا موقع ملا کچھ سے میں واقف بھی تھا۔ مجھے علم نہیں کہ وہ کیسے میرے اندر بھی پروان چڑھیں۔​
مری اور ایبٹ آباد کے جنگلوں کو دیکھ کر مجھے اپنی آبائی ریاستوں پنسلوانیا اور ورجینیا کی بہت یاد آئی۔​
میں پاکستان میں قیام کے دوران مختلف سرگرمیوں میں گھرا رہا، جیسا کہ کوئٹہ چھاؤنی میں اسپورٹس، راول لیک میں فشنگ، کراچی کے پُرتکلف ریستوران میں ڈنر یا لاہور کے پارک میں کھیلتے بچوں کو دیکھنا۔۔۔ یہ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا کہ میرے گھر ورجینیا میں ہوتا ہے۔​
ان تمام مماثلت کے باوجود، مجھے جو سب سے اہم مماثلت محسوس ہوئی، وہ فوجی زندگی کا پہلو تھی۔​
دنیا بھر کے فوجیوں کی زندگیوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ کس ملک، مذہب، قوم، رنگ یا نسل سے تعلق رکھتے ہیں، سب فوجیوں کی کہانیاں، تجربات اور جدوجہد کم و بیش ایک جیسی ہی ہوتے ہیں۔ یہی بات انہیں ایک دوسرے سے مضبوط تعلق میں بھی جوڑتی ہے۔​
تمام فوجی موسموں کے سرد و گرم، خوف، تنہائی، اداسی اور بوریت کے مشترکہ تجربات رکھتے ہیں۔ سب ہی جذبہ حُب الوطنی سے سرشار ہوتے ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں کہ جن سے گزرے بغیر، انہیں کوئی دوسرا سمجھ نہیں سکتا۔​
یہی وہ احساسات، جذبات اور تجربات کی قدرِ مشترک تھی کہ جس کی بدولت پاکستان میں وقت گذارنا زیادہ سہل اور خوش گوار ثابت ہوا۔​
پاکستان میں بیتے سال کا جو ایک اور اہم پہلو ہے وہ یہاں کی عیسائی برادری سے ملاقات کا موقع ملنا تھا۔ میں یہاں ان کی اتنی بڑی آبادی اور سرگرمیاں دیکھ کر حیران ہوئے بنا نہ رہ سکا تھا۔​
ایک کیتھولک عیسائی کے طور پر، کوئٹہ میں میری ابتدائی ضروریات میں ایک چرچ کی تلاش تھی، جہاں روحانی سکون کے لیے عبادت کرسکوں۔​
میں خوش قسمت تھا کہ وہاں ہولی روزری چرچ مل گیا جہاں نہ صرف ہر اتوار عبادت کرسکتا بلکہ متعدد لوگوں سے بھی مل سکتا تھا۔ اس دوران میں کئی خاندانوں سے ملا اور کئی مقامی کیتھولک پادریوں سے ملاقاتیں کیں۔​
لوگوں سے آزادانہ میل جول کے باعث مجھے ان کمیونٹیز کے اور قریب ہونے کا موقع ملا، جس نے مجھے زندگی کے ایک اور پہلو سے متعارف کرایا۔​
اس ماحول نے میری چھٹیوں کو بھی یادگار بنادیا تھا۔ موقع ملا کہ اُن خاندانوں کی سماجی زندگی میں بھی شرکت کرسکوں، جو مجھے اپنا چکے تھے۔​
ان رابطوں اور سماجی تعلقات کے ذریعے پاکستانی سماج کے اُن گوشوں سے بھی روشناس ہوا، جن سے شاید میں ان تعلقات کے بغیر واقف نہیں ہوسکتا تھا۔​
ان میں فوجی، ڈاکٹرز، نرسیں، مقامی اسکولوں کے اساتذہ اور مزدور سمیت تقریباً ہر اس شعبے کے لوگ شامل تھے، جن کے بارے میں آپ تصور سکتے ہیں۔​
ان رابطوں نے نہ صرف میرے قیام کو خوش گوار بنایا بلکہ میں جان گیا کہ براعظموں، رنگ و نسل اور زبانوں کا فرق دنیا میں انسانوں کی فطرت کو نہیں بدل سکا ہے۔​
جنوبی ایشیا اور پاکستان کے مختلف حصوں میں گھومتے رہنے کے باوجود اُن دنوں میرا گھر کوئٹہ تھا۔​
اسٹاف کالج میں پاکستانی فوج کے ساتھ بیتے شب و روز اور وہاں ہونے والے تجربات اب بھی میری زندگی کا بیش قیمت خزانہ ہیں۔ پاکستانی فوج کی مہارتوں اور اور اُن کے جذبوں نے مجھے بے حد متاثر کیا۔​
ان کا تربیتی نصاب اعلیٰ درجے کا ہے، وہ جدید صلاحیتوں کے حامل ہیں اور اداروں میں، جیسا کہ انفینٹری یا توپ خانہ اسکول اور تربیتی مراکز، آگے بڑھنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ یہ مراکز فیلڈ فارمیشن میں کامیابی کی بنیاد ہیں۔​
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ معاصر دنیا کی افواج میں پاکستانی فوج بہترین میں سے ایک ہے۔​
مجھے اعتراف ہے کہ وہاں مجھے جو تجربات حاصل ہوئے، وہ دُہرائے نہیں جاسکتے۔ اگرچہ مجھے وہاں ہر روز اپنے گھر والوں کی یاد آتی تھی تاہم یہ میری فوجی زندگی میں تعلیم، تفریح اور دلچسپ تجربات سے بھرپور سب سے بہترین ایک سال تھا۔​
اسٹاف کالج، کوئٹہ کمیونٹی اور پاکستان کے دوسرے حصوں میں مجھے بہترین دوست میسر ہوئے۔ خدا سے دعا ہے کہ ہم دوبارہ ملیں۔ میں پُریقین ہوں کہ مجھے پاکستان جیسے شان دار ملک میں دوبارہ وقت گزارنے کا موقع ملے۔​
مضمون نگار امریکی فوج میں میجر ہیں​
بشکریہ:ڈان اردو
 
Top