پاکستان میں بدھسٹ سیاحت کے فروغ کا ارادہ


بدھ مذہب سے متعلق آثار قدیمہ کے یہ قیمتی اور اہم مقامات جن کے ذریعے سیاحت کے شعبے میں کم از کم ایک ارب ڈالر سالانہ کی آمدنی ہوسکتی ہے، مذہبی مدرسوں کے طالبعلموں کے وقت پاس کرنے کے کام آرہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

آج جبکہ مذہبی تشدد مسلسل بڑھتا جارہا ہے اور طالبان مستقل ایک خطرہ بنے ہوئے ہیں، لیکن پاکستان یہ توقع کر رہا ہے کہ بدھ مذہب کے آثار سے مالامال شورش زدہ شمال مغربی علاقوں میں بین الاقوامی سیاحت کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔

خیبر پختونخوا اپنے ٹھنڈے موسم، پہاڑوں میں اور اس کی افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ اس کی دولت مندی کی تاریخ کو دیکھا جائے تو واضح ہوگا کہ یہ علاقہ جو کبھی نوآبادیاتی مہم جوؤں کے لیے گویا کھیل کا میدان بنا ہواتھااور آج اشرافیہ طبقے کے پاکستانیوں کے لیے چھٹیاں گزارنے کا سب سے پسندیدہ مقام ہے۔

لیکن نائین الیون کے حملوں کے بعد افغانستان میں جنگ کا آغاز ہوگیا اور پاکستان میں حکومت کے خلاف بغاوت کی صورتحال پیدا ہوگئی ، جو پاکستانی طالبان اور دیگر اسلامی عسکریت پسندوں کے ہم خیال گروہوں نے شروع کی، اور یہ گزشتہ چند سالوں کے دوران ہزاروں افرادکو ہلاک کرچکے ہیں۔


بدھ خانقاہ کا ایک مینار۔ —۔ فوٹو اے ایف پی

دولت پاکستانیوں اور مغربی سیاحوں نے پاکستان آنا بند کردیا ہے، وہ حملوں اور اغوا کی وارداتوں کے خطرات سے ڈر کر دور ہوگئے ہیں، لیکن صوبائی حکومت اب متمول ایشائی ممالک مثلاً جاپان اور ساؤتھ کوریا کے ہزاروں سیاحوں کواس جانب متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

گزشتہ سال کوریا کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) ہی ڈو کی قیادت میں کوریا کے بدھ زائرین کے وفد نے صوبہ خیبر پختونخوا کے دوران مختلف علاقوں کاتین روزہ دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے گندھارا تہذیب کے آثار دیکھنے کے بعد سوات جاتے ہوئے راستہ میں شنگردار سٹوپا پر رُک کر اپنی مذہبی رسومات ادا کی تھیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق اس موقع پر کورین وفد کے ارکان نے کوریا اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں امن وآشتی کے لیے اپنے مخصوص طریقے سے رقت آمیز دعائیں مانگیں۔

سوات کے تاریخی مقام بت کڑا پر بھی بدھ مذہب کے ان پیروکاروں نے اپنی مذہبی رسومات ادا کیں۔

ساؤتھ کوریا سے تعلق رکھنے والے ان بیس بدھ راہبوں کے گروپ نے اسلام آباد سے ایک سو ستر کلو میٹر کے فاصلے پر واقع “تخت بھائی”کی خانقاہ کی سیر کی تھی۔

بدھ آثار قدیمہ ان علاقوں میں موجود ہیں جو یا تو قبائلی علاقوں سےخاصے نزدیک ہیں یا پھر ان علاقوں میں واقع ہیں جو طالبان اور القائدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کے لیے جنت بنے ہوئے ہیں۔


بدھ مذہب کی ایک قدیم خانقاہ کے آثار، جو فی الحال قریبی شہروں کی فیملیز کے لیے پکنک پوائنٹ کی حثیت اختیار کیے ہوئے ہے۔ —. فوٹو اے ایف پی

واضح رہے کہ “تخت بھائی” پر آکر بدھ مذہب کی قدیم تہذیب و تمدن، طرزِ رہائش کے بارے میں نہایت مفصل معلومات حاصل ہو سکتی ہے۔ بدھ مذہب کے آثار سیاحوں کے لیے علم و آگاہی کی فراہمی کا ذریعہ ہیں۔ یہاں تعمیر کی گئی عمارتیں راہبوں کے لیے تعمیر کی گئی تھیں، ہر لحاظ سے تمام تر ضروریات ِ زندگی سے آراستہ تھیں۔

پہاڑ کی بلندی پر موجود آثار کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس قدر بلندی پر بھی پانی کی فراہمی کا انتظام تھا۔ عمارتوں کی دیواروں میں ہوا کی آمد و رفت کے لیے روشندان اور رات میں تیل کے چراغ روشن کرنے کے لیے طاقیں بھی بنائی گئیں تھیں۔

کھدائی کے دوران یہاں جو چیزیں دریافت کی گئی ہیں، اُن میں بدھ مت کی عبادت گاہیں، خانقاہیں، عبادتگاہوں کے کھلے صحن، جلسہ گاہیں، قدآور ایستادہ مجسمے اورتصویری نقش و نگار سے مزیّن بلند و بالا دیواریں شامل ہیں۔ یہ خانقاہ جو گیروے رنگ کے پتھر سے تعمیر کی گئی تھی، پہاڑ کے آخری کنارے پر آج بھی اس کے آثار موجود ہیں۔

تخت بھائی کی تاریخی حیثیت کو 1836ء میں ایک فرانسیسی جنرل کورٹ نے کیا تھا، جبکہ یہاں پر تحقیق اور کھدائی کے کام کا آغاز 1852ء میں شروع ہوا۔

کورین وفد کے ساتھ آنے والے ایک سینئر راہب جیون وون ڈیوک نے اے ایف پی کو ایک ای میل کے ذریعے اپنے وزٹ کے بارے بتایا کہ “ہمیں حقیقی طور پر ایسا محسوس ہوا کہ ہم اپنے گھر میں آگئے ہیں، وہ بہت عظیم احساس تھا، جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔”

“ہمیں صرف اس بات کا افسوس تھا کہ ہم بہت عرصے سے یہاں آنے کے منتظر تھے۔”


کوریا سے آنے والے بدھ راہب اپنے مقدس مقامات کی زیارت کر رہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

ان راہبوں نے اپنی اپیل کا دفاع کیا کہ ان کا یہ سفر عدم تحفظ کی وجوہات کی وجہ سے ملتوی نہ کیا جائے، اور پھر ان کے خانقاہ کی زیارت کے سفر کے دوران پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے ذریعے انہیں تحفظ فراہم کیا گیا۔

لگ بھگ ایک ہزار سال قبل مسیح سے لے کر ساتویں صدی بعد از مسیح کے دوران شمالی پاکستان کا یہ علاقہ اور افغانستان کا کچھ خطہ “سلطنت گندھارا” کہلاتا تھا، جہاں یونانیوں اور بدھ مذہب کے پیروکاروں کے باہمی میل جول کے باعث بدھ مذہب کے معروف فرقے “مہایان” کی ابتداء ہوئی۔

چوتھی صدی عیسوی کے دوران بدھ راہب مرانانتا نے بدھ مذہب کی تعلیمات کو موجودہ شمال مشرقی پاکستان اور چین کے علاقوں سے کوریا کے جزیروں تک پھیلا دیا۔

تخت بھائی کے باغات میں آج کل فیملیز پکنک منانے کے لیے آتی ہیں اور دن میں خواب دیکھنے والے نوجوان یہاں نظرآتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہاں قرب و جوار میں قائم مذہبی مدرسوں کے طالبعلم بھی دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن کسی غیر ملکی سیاح کی یہاں جھلک بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔

وہاں پر موجود ایک مقامی گائیڈ افتخار علی نے اے ایف پی کے نمائندے کو بتایا “ماضی میں یہاں غیر ملکی سیاحوں آتے تھے، لیکن جب سے یہاں حملے شروع ہوئے ہیں مشکل ہی سے کوئی آتا ہو۔ ”

مشرقی ایشیا سے مہم جو سیاحوں کی آمد کا سلسلہ اس وقت بند ہے۔ افتخار علی نے کہا کہ انہوں نے ایک ماہ کے دوران ایک یا دو سیاح ہی یہاں دیکھے ہیں۔

گندھارا آرٹ اینڈ کلچرایسوسی ایشن کے صدر ذوالفقار رحیم، جو پاکستان میں بدھ مذہب کے آثار قدیمہ کو فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں، نے کہا کہ“بدھ مذہب کے پیروکاروں کے لیے یہ جگہ اتنی ہی مقدس ہے، جس قدر کہ مسلمانوں کے لیے مکہ کا شہر۔”

گزشتہ سال بھوٹان سے کچھ راہبوں نے یہاں کا وزٹ کیا تھا، لیکن حکومت چاہتی ہے کہ ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو۔


بدھ مذہب کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کے حامل یہ آثار قدیمہ بدھ پیروکاروں کے لیے اتنے ہی مقدس ہیں، جس قدر تقدس مسلمانوں میں مکہ شہر کو حاصل ہے۔ قریبی شہر میں قائم مذہبی مدرسے کے طالبعلم یہاں وقت گزاری کے لیے آتے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

خیبر پختونخوا کے سیاحت کے ڈپٹی وزیر سید جمال الدین شاہ کا کہنا تھا کہ“ہم اس وقت بدھ مذہب کے پیروکاروں کو اس خطے کی سیاحت کی جانب متوجہ کرنے کے لیے یہاں کی مذہبی اور آثارقدیمہ کے لحاظ سے تاریخی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ”

اعلیٰ حکام بھی چین، جاپان، سنگاپور اور کوریا کے سیاحوں کو کے لیے مختلف پیکیج کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، تاکہ جو تخت بھائی، سوات، پشاور اور اسلام آباد سے نزدیک ٹیکسلا میں بدھ آثار قدیمہ کی جانب انہیں متوجہ کیا جاسکے۔

ذوالفقار رحیم نے بتایا“اس طرز کی سیاحت کو فروغ دینے میں ترقی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ بالفرض ایک شخص یہاں آکر ہوٹل اور دیگر تمام اخراجات کی مد میں بارہ سو ڈالر کی رقم خرچ کرتے ہیں، اور اندازاً دس لاکھ افراد ایک سال میں یہاں کا وزٹ کرتے ہیں تو پھر اس سیاحت سے ایک ارب ڈالر کی آمدنی ہوسکے گی۔”

انہوں نے مزید کہا کہ “ہم صرف دس لاکھ افراد کے ہی بارے میں بات نہیں کررہے ہیں، بدھ مہایان فرقے کے پانچ کروڑ ماننے والے کوریا، چین اور جاپان میں موجود ہیں۔”

لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے، اس کے لیے ایک طویل راستہ طے کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ مشکلات تو سیکیورٹی کی ابتر صورتحال کی وجہ سے درپیش ہوں گی، اس کے علاوہ سیاحت کے شعبے کا نہایت کمزور انفرانسٹرکچر اور ایسے علاقے جو قدم قدم پر خطرات سے پُر ہیں، کے لیے ویزا اور سفری اجازت کا حصول ایک بہت بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔

یاد رہے کہ 2010ء میں ایک بہت بڑے سیلاب نے سیاحتی مقامات کو بھی خاصا نقصان پہنچایا تھا، اگرچہ امریکا نے چوّن لاکھ ڈالرز فراہم کیے تھے کہ مقامی معیشت کو ازسرنو بحال کیا جاسکے اور سوات میں سیاحتی مقامات کی تعمیر نو اور مرمت کے کاموں میں مدد مل سکے، لیکن تاحال تعمیر و ترقی کے ضمن میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔

تاحال یہاں زیادہ تر مقامی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے جو بدھ مذہب کے آثار کو دیکھنے کے لیے مختلف شہروں سے سفر کرکے یہاں آتے ہیں۔

بدھ مذہب کےغیر ملکی پیروکاروں کی بڑی تعداد جو یہاں آنا چاہتی ہے، ان کے لیے ضروری سہولیات کی عدم موجودگی کے علاوہ جان و مال کے عدم تحفظ کی صورتحال نے انہیں روک رکھا ہے اور یہ بلاشبہ ہمارے ملک کے لیے بدقسمتی کی علامت ہے۔

ایک ٹیچر جو اپنے طالبعلموں کے ہمراہ یہاں آئے تھے، انہوں نے مہاتما بدھ کے مجسمے کو دیکھ کر ایک آہ بھری اور بولے“ہمیں ایسے سکون کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔”


بدھ مذہب کے مقدس مقامات کے ان کھنڈرات پر کچھ نوجوان پکنک منانے آرہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
 

شمشاد

لائبریرین
زبردست شراکت ہے شہزاد بھائی۔

لیکن پاکستان میں رہنے والے وہاں جانے سے ڈرتے ہیں، غیر ملکیوں کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔
 
بہت اچھی معلومات ہیں ۔ شئیرنگ کے لیئے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

اجی شکریہ گیا چولھے میں آ فوراََ سے پیشتر شمشاد بھائی کو گرفتاری پیش کریں یہ نہ ہو کہ آپ کے نام پر انعام کا اعلان ہو جائے بہت غیر حاضریاں ہو گئیں آپ کی
 

ظفری

لائبریرین
مگر دیکھ لیں ۔ اتنے شواہد کے بعد بھی " بھائی " کا بال بیکا بھی نہیں ہوا ۔ :thinking:
ابھی تو تفتیش ہو رہی ہے اور یہ ایجنسی جس کے پیچھے پڑ جائے اس کو چھوڑتی نہیں اور نہ ہی اس کی تفتیش ختم ہوتی ہے مسلسل انڈے بچے دیتی رہتی ہے
 

ظفری

لائبریرین
ابھی تو تفتیش ہو رہی ہے اور یہ ایجنسی جس کے پیچھے پڑ جائے اس کو چھوڑتی نہیں اور نہ ہی اس کی تفتیش ختم ہوتی ہے مسلسل انڈے بچے دیتی رہتی ہے
مگر ایسی لمبی تفتیش کا کیا فائدہ کہ ملزم اپنی طبعی زندگی مزے سے گذار کر دارِ فانی سے کوچ کرجائے ۔ :)
 
Top