پاکستان میں زرعی شعبے کا زوال

محمداحمد

لائبریرین
اس ویڈیو میں 12:03 پر جنرلائزیشن کی ایک مثال ملاحظہ ہو:
" پاکستان چوروں کا ملک ہے ، ہم سب چور ہیں۔"

:):):)

موصوف کی تعلیم کے لیے:

What is The Hasty Generalization Fallacy?

Universal and Existential Quantifiers, ∀ "For All" and ∃ "There Exists"

جملۂ معترضہ کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے مذکورہ ویڈیو میں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جملۂ معترضہ کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے مذکورہ ویڈیو میں۔
دیکھیے مسئلہ تو ہر کسی کو معلوم ہوتا ہے ، حل تجویر کرنا ہوتا ہے۔ اور پھر صرف اچھی باتیں کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اُن پر عمل کرنے سے کام بنتا ہے۔ یعنی:

نہ کہہ ، کر کے دکھا۔

-
پچاس ہزار افراد اس ویڈیو کو دیکھیں تو اُن کے اذہان کو ہمت و امید کے بجائے مایوسی کے تاثر سے پروگرام کرنے کا وطن عزیز کو کیا فائدہ ہوا؟
 

محمداحمد

لائبریرین
دیکھیے مسئلہ تو ہر کسی کو معلوم ہوتا ہے
ہر کسی کو اتنی تفصیل نہیں معلوم ہوتی۔
چونکہ میرا زراعت سے کوئی تعلق نہیں ہے سو میرے لئے بہت سی باتیں اس میں نئی ہیں۔

پچاس ہزار افراد اس ویڈیو کو دیکھیں تو اُن کے اذہان کو ہمت و امید کے بجائے مایوسی کے تاثر سے پروگرام کرنے سے ملک کو کیا فائدہ ہوا؟
اور یہ کہ مسئلے کے مکمل ادراک کے بعد ہی مناسب حل کی طرف آیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں بھی اور دیگر معاملات میں بھی نتائج کا دارومدار سرکار کی پالیسی پر ہے۔ سرکار اگر پالیسی سازی کے وقت ان بہت سی باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھے تو معاملات میں بہتری کی اُمید کیوں نہیں ہو سکتی۔

ہاں اگر سرکار کی ترجیحات کچھ اور ہیں تو فریقین میں سے کسی کو بھی فائدہ نہیں ہوگا اور آخر کار غلط پالیسیوں کے نتائج عوام کو بھگتنے ہوں گے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سرکار اگر پالیسی سازی کے وقت ان بہت سی باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھے تو معاملات میں بہتری کی اُمید کیوں نہیں ہو سکتی۔
بہتر پالیسی سازی کے لیے آپ کو بہترین اذہان درکار ہیں جو ایک خاص طریقہ کار سے فیصلہ سازی کی سطح پر لائے جا سکتے ہیں۔
یعنی وزیر زراعت پی ایچ ڈی ایگری کلچر ، وزیر تعلیم ماہر تعلیم اور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سائنس دان ہو۔
 

محمداحمد

لائبریرین
یعنی وزیر زراعت پی ایچ ڈی ایگری کلچر ، وزیر تعلیم ماہر تعلیم اور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سائنس دان ہو۔

مشرف دور میں پارلیمینٹیرین کے لئے گریجویشن (14 کلاس والی) کی شرط لگا دی گئی تھی۔ پھر عوام نے دیکھا کہ سیاست دانوں نے کیسی کیسی جعلی ڈگریاں جمع کروائیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
عوام نے دیکھا کہ سیاست دانوں نے کیسی کیسی جعلی ڈگریاں جمع کروائیں۔
ایسے سیاست دانوں کے نام
ان 35 میں سے قومی اسمبلی کے اراکین کی تعداد 12 ہے
قصور سے مظہرحیات
سرگودھا سے سید جاوید حسنین شاہ
پاک پتن سے محمد سلمان محسن گیلانی
گوجرانوالہ سے مدثر قیوم نہرا
بہاولپور سے عامر یار وارن
لودھراں سے حیات اللہ خان ترین
مظفر گڑھ جمشید دستی
بلوچستان کے علاقہ کچی سے ہمایون عزیز کرد
کوئٹہ سے ناصرعلی شاہ
ڈیرہ بگٹی سے میر احمدان خان
پشین سے مولوی حاجی روز الدین
سانگھڑ سے غلام دستگیر راجڑ

ایسے اراکین جن پر جعل سازی ثابت ہوئی تو کیا وہ آئندہ انتخابات میں حصہ لے سکیں گے؟
اس سوال کے جواب میں الیکشن کمیشن کے ترجمان محمد افضل خان نے بی بی سی کوبتایا ’جن لوگوں کے خلاف ثابت ہوگیا کہ ان کی ڈگریاں جعلی ہیں توان کے لیے اب الیکشن لڑنا ناممکن ہوگا۔ اس لیے کہ انھوں نے ریٹرننگ افسروں کو مطمئن کرنا ہوگا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور63 پر پورا اترتے ہیں اورانھوں نے کبھی دھوکا دیا ہے اورنہ ہی وہ غلط بیانی کی مرتکب ہوئے ہیں۔ بصورت دیگر وہ انتخابات لڑنے کے لیے اہل نہیں ہوں گے۔‘

متعلقہ:
ارکان قومی اسمبلی کی تعلیمی قابلیت
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
ایسے سیاست دانوں کے نام
ان 35 میں سے قومی اسمبلی کے اراکین کی تعداد 12 ہے
قصور سے مظہرحیات
سرگودھا سے سید جاوید حسنین شاہ
پاک پتن سے محمد سلمان محسن گیلانی
گوجرانوالہ سے مدثر قیوم نہرا
بہاولپور سے عامر یار وارن
لودھراں سے حیات اللہ خان ترین
مظفر گڑھ جمشید دستی
بلوچستان کے علاقہ کچی سے ہمایون عزیز کرد
کوئٹہ سے ناصرعلی شاہ
ڈیرہ بگٹی سے میر احمدان خان
پشین سے مولوی حاجی روز الدین
سانگھڑ سے غلام دستگیر راجڑ
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فہرست میں موجود سیاست دانوں میں سے کتنے ایسے ہیں جن کو الیکشن کمیشن نے دوبارہ الیکشن لڑنے کی اجازت دی ہے؟
جمشید دستی کی مثال:
04 اپريل 2013

جعلی ڈگری کیس: جمشید دستی کو تین سال کی قید

Feb 10, 2024
مظفر گڑھ:جمشید خان دستی نے حماد نواز ٹیپو کو شکست دیدی
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
محمداحمد
قومی اسمبلی کے 12 افراد کے عمل سے کیا ہم یہ (جنرلائزیشن) کہہ سکتے ہیں کہ:
سارے سیاست دان جعلی ڈگری والے ہیں یا جعلی ڈگری حاصل کرتے ہیں؟

اور کیا اس وجہ سے مندرجہ ذیل بات پر عمل نہ کیا جائے؟
یعنی سیاسی امیدوار کی تعلیمی قابلیت کا تعین نہ کیا جائے؟
بہتر پالیسی سازی کے لیے آپ کو بہترین اذہان درکار ہیں جو ایک خاص طریقہ کار سے فیصلہ سازی کی سطح پر لائے جا سکتے ہیں۔
یعنی وزیر زراعت پی ایچ ڈی ایگری کلچر ، وزیر تعلیم ماہر تعلیم اور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سائنس دان ہو۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فہرست میں موجود سیاست دانوں میں سے کتنے ایسے ہیں جن کو الیکشن کمیشن نے دوبارہ الیکشن لڑنے کی اجازت دی ہے؟
جمشید دستی کی مثال:
04 اپريل 2013

جعلی ڈگری کیس: جمشید دستی کو تین سال کی قید

Feb 10, 2024
مظفر گڑھ:جمشید خان دستی نے حماد نواز ٹیپو کو شکست دیدی

اول تو یہ ہوا کہ گریجویشن کی شرط ہی ختم کر دی گئی۔ باقی رہا الیکشن کمیشن تو باقی اداروں کی طرح وہ بھی کسی نہ کسی ایجنڈے پر چل رہا ہوتا ہے، اس کے فیصلوں کی کوئی ساکھ نظر نہیں آتی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
باقی رہا الیکشن کمیشن تو باقی اداروں کی طرح وہ بھی کسی نہ کسی ایجنڈے پر چل رہا ہوتا ہے، اس کے فیصلوں کی کوئی ساکھ نظر نہیں آتی۔
یہ ایک جنرلائزیشن ہے اور دعوی بلا دلیل۔ آپ کو الیکشن کمیشن اور باقی اداروں کے لیے ایسی دلیل دینا ہوگی جو آپ کے دعوی کو ثابت کر سکے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
قومی اسمبلی کے 12 افراد کے عمل سے کیا ہم یہ (جنرلائزیشن) کہہ سکتے ہیں کہ:

یہ 69 افراد کی فہرست تھی، جو بعد میں 34 تک آ گئی۔

گریجویشن کی ڈگری فراہم کرنا سیاست دانوں کے لئے ایک بارِ گراں تھا کہ ایک وقت پھر سے وہ آیا کہ یہ شرط ختم کر دی گئی۔ اگر سیاست دانوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تو یہ شرط کیوں ختم کی جاتی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ 69 افراد کی فہرست تھی، جو بعد میں 34 تک آ گئی۔
قومی اسمبلی کے 12 افراد ہیں بقیہ صوبائی اسمبلی کے ہوں گے۔

گریجویشن کی ڈگری فراہم کرنا سیاست دانوں کے لئے ایک بارِ گراں تھا کہ ایک وقت پھر سے وہ آیا کہ یہ شرط ختم کر دی گئی۔ اگر سیاست دانوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تو یہ شرط کیوں ختم کی جاتی۔
مندرجہ ذیل مطالبہ عوام کی طرف سے ہے آپ اس کی تائید نہیں کرتے؟
بہتر پالیسی سازی کے لیے آپ کو بہترین اذہان درکار ہیں جو ایک خاص طریقہ کار سے فیصلہ سازی کی سطح پر لائے جا سکتے ہیں۔
یعنی وزیر زراعت پی ایچ ڈی ایگری کلچر ، وزیر تعلیم ماہر تعلیم اور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سائنس دان ہو۔
 

محمداحمد

لائبریرین
مندرجہ ذیل مطالبہ عوام کی طرف سے ہے آپ اس کی تائید نہیں کرتے؟
مجھے اس سے بالکل اختلاف نہیں ہے۔

ہر شخص جو اتنے اہم عہدے پر فائز ہو اُسے اپنے شعبے کے علوم پر دسترس ہونی چاہیے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا ہوتا نہیں ہے۔ یہاں کے معیار ہی کچھ اور ہیں۔
 
Top