حسیب نذیر گِل
محفلین
پاکستان میں معاشی ترقی اور فکری پسماندگی کا تضاد...ڈاکٹر منظوراعجاز
برسوں پہلے چندی گڑھ میں ایک فلسفے کے بزرگ سکھ پروفیسر سے ملاقات ہوئی۔ فرمانے لگے ”بھائیا میں کمالیے دا جانگلی ہاں“ ۔ وہ تقسیم سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کر چکے تھے۔ کہنے لگے میں ایک دفعہ پاکستان گیا تھا، مجھے لاہور کے یادگار مقامات دیکھنے کا تو کوئی شوق نہیں تھا کیونکہ میں نے اس شہر میں بہت وقت گزارا تھا لیکن میں دیکھنا چاہتا تھا کہ مسلمان کاروبار کیسے کرتے ہیں کیونکہ میں نے انہیں کاروبار کرتے کبھی نہیں دیکھا۔ بقول ان کے جب وہ انارکلی سے گزرے تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا”اوہ مسلیو (مسلمانوں) تسیں تے لالیاں نوں وی پچھے چھڈگئے ہو“ (اومسلمانوں تم تو ہندو بنیوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہو)۔اسی طرح کا ایک منظر یش پال نے اپنے ناول ’جھوٹا سچ ‘ میں بیان کیا ہے۔ منظر میں پرانے لاہور شہر کی ایک گلی میں دو ہندو خواتین ایک دوسرے سے باتیں کر رہی ہیں ۔ ایک مسلمان سبزی فروش کو دیکھ کر دونوں اس موضوع پر بات کرنے لگتی ہیں کہ اگر پاکستان بن گیا تو کیا یہ سبزی فروش حکومت چلائیں گے۔ یہ تھا تقسیم سے پہلے آج کے پاکستان کے مسلمانوں کا تصور۔ اگر انیس سو چالیس کی مردم شماری کے اعداد و شمار دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کسانوں، دستکاروں اور مزدوروں پر مشتمل تھی۔ مسلمان جاگیردار ضرور تھے لیکن شہروں میں مسلمانوں کا درمیانہ طبقہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ صنعت و تجارت، سرکاری و غیر سرکاری شعبے ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھ میں تھے۔ اس لئے باوجود اس کے کہ تقسیم ایک بہت بڑاالمیہ تھی جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہوئے لیکن مسلمانوں کو کئی سو سالوں کے بعد واقعی آزادی مل گئی۔
آج کے پاکستان کو سمجھنے کے لئے تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ بظاہر آج کے پاکستان پر سات آٹھ سو سال مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن عام مسلمانوں کی معاشی بدحالی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اوپر شمال سے آنے والے حملہ آوروں کی حکومت ہوتی تھی تو نیچے تمام تجارت و کاروبار سلطنت ہندوؤں کے ہی ہاتھوں میں تھا چونکہ وہی پڑھے لکھے تھے۔ یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ شہروں کی ہندو ایلیٹ اور درمیانے طبقے نے مذہب تبدیل نہیں کیا تھا۔ شہروں کے دستکاروں، مزدوروں اور دیہاتوں میں غریب کسانوں کی اکثریت نے اسلام قبول کیا تھا۔ ان کی مسلمان بادشاہوں کے دور میں وہی حالت تھی جو انگریز کے دور میں غریب عیسائیوں کی تھی۔ اس لئے تقسیم کے بعد پہلی مرتبہ مسلمانوں کو پورا نظام اپنے ہاتھوں میں لینے کا موقع ملا۔اس پس منظر میں دیکھیں تو پاکستان نے چھیاسٹھ سالوں میں بے پناہ ترقی کی ہے۔ بنیادی طور پر کسانوں، دستکاروں اور مزدوروں کی قوم نے صنعت، تجارت، اوردیگر امور سلطنت کو بڑی تیزی سے سیکھ کر کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ آج پاکستان کا المیہ بھی یہی ہے کہ معاشی میدان میں تو اس نے مقدور بھر ترقی کی لیکن ملک میں سماجی اور سیاسی فکر پسماندہ رہی۔ چونکہ مسلمانوں میں جدید پیشوں کے طبقات کی کمی تھی اس لئے ان کی سماجی اور سیاسی تنظیمیں بھی پسماندہ تھیں۔ حکمران مسلم لیگ میں قائد اعظم محمد علی جناح جدید طرز کے مفکرتھے لیکن باقیماندہ پارٹی جاگیرداروں کے زیر اثر زمانہ کہنہ کی قدامت پرست تھی۔ مسلم لیگ کے مقابلے میں آل انڈیا کانگریس ابھرتے ہوئے سرمایہ دار اور تاجر طبقے کی نمائندہ تھی۔ اس لئے اس نے ہندوستان کے سماجی اور سیاسی نظام کو مستحکم بنیادوں پر چلایا۔
پاکستان میں معاشی ترقی اور سماجی وسیاسی پسماندگی کے درمیان تفاوت کی وجہ سے پاکستان مختلف بحرانوں کا شکار ہوتا رہا ہے۔ پروفیسر سیموئیل ہنٹگٹن کی تصنیف ’پولیٹیکل آرڈر ان چینجنگ سوسائٹیز‘ (Political Order in Changing Socities) کا موضوع یہی ہے کہ اگر سماج میں معاشی اور مادی ترقی کی رفتار تیز ہو لیکن سیاسی اورسماجی تنظیمیں پختہ کار، لچکدار اور غیر شخصی نہ ہوں تو معاشرہ بکھرنا شروع ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی تخلیق کے وقت مسلمانوں کی سوائے فوج کے کوئی تنظیم پختہ بنیادوں پر قائم نہیں تھی۔ مسلم لیگ کے جاگیرداروں نے زرعی اصلاحات کا راستہ روک کر درمیانے طبقوں کو آگے آکر مناسب تنظیم کاری کا موقع فراہم نہیں کیا۔ اس کے برعکس کانگریس نے ابتدائی سالوں میں ہی زرعی اصلاحات کے نفاذ سے درمیانے طبقوں کو سیاست کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے وزرائے اعظم درمیانے طبقوں کی نمائندگی کرتے رہے ہیں جبکہ پاکستان میں فوجیوں نے حکمرانی کی اور یا پھر جاگیرداروں نے۔
پاکستان کی پوری تاریخ میں معاشی ترقی کے ریلے آتے رہے ہیں لیکن سیاسی نظام بے ہنگم رہا۔ دنیا کے اکثر معاشی ماہرین پاکستان کو ایک نادر کیس سمجھتے ہیں ۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک ملک ایک مرتبہ درمیانی آمدنی کی سطح عبور کر لیتا ہے تو وہ پھر نچلی سطح پر نہیں جاتا۔ پاکستان اس معاملے میں بے مثال ہے کہ وہ کئی مرتبہ درمیانے درجے کی آمدنی کے ملکوں میں شامل ہو کر پھر سے نیچے پھسل جاتا ہے۔ اس کی وجہ سیاسی اور سماجی فکر کی پسماندگی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے کی سماجی اور سیاسی فکر بہت سست رفتاری سے آگے بڑھتی ہے۔ صدیوں سے حاوی فکری نظام بہت مشکل سے بدلتا ہے۔ دوسری طرف معاشی نظام تیزی سے تبدیل ہوجاتا ہے۔
پچھلے تیس سالوں کے تجربے کو ہی دیکھیں کہ پاکستان میں صدیوں سے رائج ہل اور بیلوں پر چلنے والا زرعی نظام پوری طرح تبدیل ہو چکا ہے۔ نہ صرف زراعت میں بلکہ دوسرے شعبوں میں بھی نظام پیداوار مشینی ہو چکا ہے بلکہ یہ معاشی تبدیلیوں کی برق رفتاری ہے کہ زرعی شعبہ نوّے فیصد سے پچیس فیصد پر آگیا ہے لیکن اگر سیاسی فکر کودیکھیں تو چھ سات سال پہلے تک فوجی حکومت قائم تھی۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی کا دور بھی پسماندہ جاگیرداری فکر کی عکاسی کرتا تھا۔ گویا معاشی ترقی اور سیاسی پسماندگی میں گہرا تضاد ہے۔ اسی تضاد سے ایک طرف بنیاد پرستی، جہادی کلچر اور طالبان پیدا ہو رہے ہیں تو دوسری طرف کچی یا ناقص شراب پی کر مرنے والوں کی خبریں اکثر اخباروں کی سرخیاں بنتی رہتی ہیں۔ ونی اور کاروکاری کے قصے بھی عام ہیں۔ اس طرح کے متضاد دھاروں سے نپٹنے کیلئے ایک جدید ریاست کی ضرورت ہے جس کے امکانات بہت زیادہ روشن نہیں ہیں۔
ہم پاکستان کا یوم آزادی مناتے ہوئے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ناتجربہ کاری کے باوجود معاشی نظام کو بااحسن و خوبی چلایا۔ ہم کسانوں ، دست کاروں اور مزدوروں کی قوم نے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کیں لیکن ہم نئے نظام کے تقاضوں کے مطابق سماجی اور سیاسی پہلوؤں سے ترقی نہیں کر سکے ۔ اسی لئے ہمارا ملک طوائف الملوکی اور گونا گوں مسائل کی زد میں ہے
بشکریہ:روزنامہ جنگ
برسوں پہلے چندی گڑھ میں ایک فلسفے کے بزرگ سکھ پروفیسر سے ملاقات ہوئی۔ فرمانے لگے ”بھائیا میں کمالیے دا جانگلی ہاں“ ۔ وہ تقسیم سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کر چکے تھے۔ کہنے لگے میں ایک دفعہ پاکستان گیا تھا، مجھے لاہور کے یادگار مقامات دیکھنے کا تو کوئی شوق نہیں تھا کیونکہ میں نے اس شہر میں بہت وقت گزارا تھا لیکن میں دیکھنا چاہتا تھا کہ مسلمان کاروبار کیسے کرتے ہیں کیونکہ میں نے انہیں کاروبار کرتے کبھی نہیں دیکھا۔ بقول ان کے جب وہ انارکلی سے گزرے تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا”اوہ مسلیو (مسلمانوں) تسیں تے لالیاں نوں وی پچھے چھڈگئے ہو“ (اومسلمانوں تم تو ہندو بنیوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہو)۔اسی طرح کا ایک منظر یش پال نے اپنے ناول ’جھوٹا سچ ‘ میں بیان کیا ہے۔ منظر میں پرانے لاہور شہر کی ایک گلی میں دو ہندو خواتین ایک دوسرے سے باتیں کر رہی ہیں ۔ ایک مسلمان سبزی فروش کو دیکھ کر دونوں اس موضوع پر بات کرنے لگتی ہیں کہ اگر پاکستان بن گیا تو کیا یہ سبزی فروش حکومت چلائیں گے۔ یہ تھا تقسیم سے پہلے آج کے پاکستان کے مسلمانوں کا تصور۔ اگر انیس سو چالیس کی مردم شماری کے اعداد و شمار دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کسانوں، دستکاروں اور مزدوروں پر مشتمل تھی۔ مسلمان جاگیردار ضرور تھے لیکن شہروں میں مسلمانوں کا درمیانہ طبقہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ صنعت و تجارت، سرکاری و غیر سرکاری شعبے ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھ میں تھے۔ اس لئے باوجود اس کے کہ تقسیم ایک بہت بڑاالمیہ تھی جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہوئے لیکن مسلمانوں کو کئی سو سالوں کے بعد واقعی آزادی مل گئی۔
آج کے پاکستان کو سمجھنے کے لئے تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ بظاہر آج کے پاکستان پر سات آٹھ سو سال مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن عام مسلمانوں کی معاشی بدحالی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اوپر شمال سے آنے والے حملہ آوروں کی حکومت ہوتی تھی تو نیچے تمام تجارت و کاروبار سلطنت ہندوؤں کے ہی ہاتھوں میں تھا چونکہ وہی پڑھے لکھے تھے۔ یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ شہروں کی ہندو ایلیٹ اور درمیانے طبقے نے مذہب تبدیل نہیں کیا تھا۔ شہروں کے دستکاروں، مزدوروں اور دیہاتوں میں غریب کسانوں کی اکثریت نے اسلام قبول کیا تھا۔ ان کی مسلمان بادشاہوں کے دور میں وہی حالت تھی جو انگریز کے دور میں غریب عیسائیوں کی تھی۔ اس لئے تقسیم کے بعد پہلی مرتبہ مسلمانوں کو پورا نظام اپنے ہاتھوں میں لینے کا موقع ملا۔اس پس منظر میں دیکھیں تو پاکستان نے چھیاسٹھ سالوں میں بے پناہ ترقی کی ہے۔ بنیادی طور پر کسانوں، دستکاروں اور مزدوروں کی قوم نے صنعت، تجارت، اوردیگر امور سلطنت کو بڑی تیزی سے سیکھ کر کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ آج پاکستان کا المیہ بھی یہی ہے کہ معاشی میدان میں تو اس نے مقدور بھر ترقی کی لیکن ملک میں سماجی اور سیاسی فکر پسماندہ رہی۔ چونکہ مسلمانوں میں جدید پیشوں کے طبقات کی کمی تھی اس لئے ان کی سماجی اور سیاسی تنظیمیں بھی پسماندہ تھیں۔ حکمران مسلم لیگ میں قائد اعظم محمد علی جناح جدید طرز کے مفکرتھے لیکن باقیماندہ پارٹی جاگیرداروں کے زیر اثر زمانہ کہنہ کی قدامت پرست تھی۔ مسلم لیگ کے مقابلے میں آل انڈیا کانگریس ابھرتے ہوئے سرمایہ دار اور تاجر طبقے کی نمائندہ تھی۔ اس لئے اس نے ہندوستان کے سماجی اور سیاسی نظام کو مستحکم بنیادوں پر چلایا۔
پاکستان میں معاشی ترقی اور سماجی وسیاسی پسماندگی کے درمیان تفاوت کی وجہ سے پاکستان مختلف بحرانوں کا شکار ہوتا رہا ہے۔ پروفیسر سیموئیل ہنٹگٹن کی تصنیف ’پولیٹیکل آرڈر ان چینجنگ سوسائٹیز‘ (Political Order in Changing Socities) کا موضوع یہی ہے کہ اگر سماج میں معاشی اور مادی ترقی کی رفتار تیز ہو لیکن سیاسی اورسماجی تنظیمیں پختہ کار، لچکدار اور غیر شخصی نہ ہوں تو معاشرہ بکھرنا شروع ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی تخلیق کے وقت مسلمانوں کی سوائے فوج کے کوئی تنظیم پختہ بنیادوں پر قائم نہیں تھی۔ مسلم لیگ کے جاگیرداروں نے زرعی اصلاحات کا راستہ روک کر درمیانے طبقوں کو آگے آکر مناسب تنظیم کاری کا موقع فراہم نہیں کیا۔ اس کے برعکس کانگریس نے ابتدائی سالوں میں ہی زرعی اصلاحات کے نفاذ سے درمیانے طبقوں کو سیاست کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے وزرائے اعظم درمیانے طبقوں کی نمائندگی کرتے رہے ہیں جبکہ پاکستان میں فوجیوں نے حکمرانی کی اور یا پھر جاگیرداروں نے۔
پاکستان کی پوری تاریخ میں معاشی ترقی کے ریلے آتے رہے ہیں لیکن سیاسی نظام بے ہنگم رہا۔ دنیا کے اکثر معاشی ماہرین پاکستان کو ایک نادر کیس سمجھتے ہیں ۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک ملک ایک مرتبہ درمیانی آمدنی کی سطح عبور کر لیتا ہے تو وہ پھر نچلی سطح پر نہیں جاتا۔ پاکستان اس معاملے میں بے مثال ہے کہ وہ کئی مرتبہ درمیانے درجے کی آمدنی کے ملکوں میں شامل ہو کر پھر سے نیچے پھسل جاتا ہے۔ اس کی وجہ سیاسی اور سماجی فکر کی پسماندگی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے کی سماجی اور سیاسی فکر بہت سست رفتاری سے آگے بڑھتی ہے۔ صدیوں سے حاوی فکری نظام بہت مشکل سے بدلتا ہے۔ دوسری طرف معاشی نظام تیزی سے تبدیل ہوجاتا ہے۔
پچھلے تیس سالوں کے تجربے کو ہی دیکھیں کہ پاکستان میں صدیوں سے رائج ہل اور بیلوں پر چلنے والا زرعی نظام پوری طرح تبدیل ہو چکا ہے۔ نہ صرف زراعت میں بلکہ دوسرے شعبوں میں بھی نظام پیداوار مشینی ہو چکا ہے بلکہ یہ معاشی تبدیلیوں کی برق رفتاری ہے کہ زرعی شعبہ نوّے فیصد سے پچیس فیصد پر آگیا ہے لیکن اگر سیاسی فکر کودیکھیں تو چھ سات سال پہلے تک فوجی حکومت قائم تھی۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی کا دور بھی پسماندہ جاگیرداری فکر کی عکاسی کرتا تھا۔ گویا معاشی ترقی اور سیاسی پسماندگی میں گہرا تضاد ہے۔ اسی تضاد سے ایک طرف بنیاد پرستی، جہادی کلچر اور طالبان پیدا ہو رہے ہیں تو دوسری طرف کچی یا ناقص شراب پی کر مرنے والوں کی خبریں اکثر اخباروں کی سرخیاں بنتی رہتی ہیں۔ ونی اور کاروکاری کے قصے بھی عام ہیں۔ اس طرح کے متضاد دھاروں سے نپٹنے کیلئے ایک جدید ریاست کی ضرورت ہے جس کے امکانات بہت زیادہ روشن نہیں ہیں۔
ہم پاکستان کا یوم آزادی مناتے ہوئے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ناتجربہ کاری کے باوجود معاشی نظام کو بااحسن و خوبی چلایا۔ ہم کسانوں ، دست کاروں اور مزدوروں کی قوم نے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کیں لیکن ہم نئے نظام کے تقاضوں کے مطابق سماجی اور سیاسی پہلوؤں سے ترقی نہیں کر سکے ۔ اسی لئے ہمارا ملک طوائف الملوکی اور گونا گوں مسائل کی زد میں ہے
بشکریہ:روزنامہ جنگ