پاکستان کا سب سے بڑا شمسی پلانٹ

الف نظامی

لائبریرین
جرمن شہر میونخ میں 13 تا 15 جون منعقدہ شمسی توانائی سے متعلق دنیا کے سب سے بڑا تجارتی میلے انٹر سولر یورپ میں جرمن کمپنی کونرجی بھی شریک تھی، جو عنقریب پاکستان میں ملک کا سب سے بڑا شمسی پلانٹ تعمیر کرنے والی ہے۔

اس پلانٹ کی تعمیر کا کام جرمن شہر ہیمبرگ میں قائم ادارے کونرجی کے سپرد کیا گیا ہے۔ اس ادارے نے حال ہی میں جرمن شہر میونخ میں منعقدہ دنیا کے شمسی توانائی سے متعلق سب سے بڑے تجارتی میلے انٹر سولر میں اپنا سٹال لگا رکھا تھا۔

ادارے کی ترجمان آنچے سٹیفن نے پاکستان میں منصوبے کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا:
’’کونرجی (Conergy) اپنی پارٹنر کمپنی اَین سَنٹ (Ensunt) کے ساتھ مل کر پاکستان کا سب سے بڑا شمسی پلانٹ تعمیر کرے گی۔ یہ پلانٹ توانائی سے متعلق ادارے DPGCL اور حکومت پاکستان کے ایماء پر تعمیر ہو گا۔ پچاس میگا واٹ گنجائش کے حامل اس پلانٹ کے لیے دو لاکھ دَس ہزار شمسی پینلز نصب کیے جائیں گے۔‘‘

یہ پلانٹ جنوبی پنجاب کے علاقے چولستان میں بہاولپور کے قریب تعمیر کیا جائے گا اور اس پر 170 تا 190 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔


اس شمسی پلانٹ کی مدد سے سالانہ 78 گیگا واٹ گھنٹے سے زیادہ توانائی پیدا کی جا سکے گی، جس سے تیس ہزار پانچ سو گھروں کی بجلی کی ضروریات پوری ہو سکیں گی۔ کونرجی کی ترجمان سے یہ پوچھا گیا کہ اس پلانٹ کی تعمیر میں کتنا عرصہ لگے گا اور یہ کب تک مکمل ہو جائے گا۔ جواب میں اُنہوں نے بتایا:
’’اِس پلانٹ کی تعمیر کا آغاز غالباً اِس سال کی تیسری سہ ماہی کے اواخر اور چوتھی سہ ماہی کے اوائل میں ہو گا۔ پاکستان کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کام کم و بیش اٹھارہ ماہ میں مکمل ہو گا۔‘‘

نبیل
 
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں سولر پینلز کی مینوفیکچرنگ کے پلانٹ قائم کئیے جائیں، جب مقامی طور پر تیارشدہ سولر پینل ملک میں سستے داموں دستیاب ہونکے تو عوام اپنی اپنی ضورورت کے مطابق خود ہ سسٹم ڈیزان کرکے بجلی میں خود کفیل ہوجائے گی۔
 

نایاب

لائبریرین
اگر یہی منصوبہ انڈیا یا چائنہ کے ذریعے مکمل کیا جائے تو اس کی لاگت بہت کم ہو جاتی ہے ۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ ان ممالک سے " کک بیکس " نہیں ملتے ۔
جرمنی ساختہ سولر سیلز کی پلیٹ پاکستانی اک لاکھ روپے کے قریب اور جاپان ساختہ اک لاکھ 20 ہزار روپے کی ہے ۔
انڈین ساختہ سولر سیلز کی پلیٹ قریب چالیس ہزار پاکستانی اور چائنہ کی قریب 55 ہزار روپے کی ہے ۔
12 وولٹ سے 220 وولٹ کنوٹر 1000 واٹ کیپسٹی کا
جاپانی 20 ہزار روپے کے قریب
جرمن 15 ہزار روپے کے قریب
انڈین 10 ہزار روپےکے قریب
چائنہ 8 ہزار روپے کے قریب
سولر سسٹم میں ذخیرہ کرنے والی بیٹریز جو کہ ایسڈ کی محتاج ہوتی ہیں ۔
قریب سب ہی یکساں قیمت کی ہیں ۔ کچھ زیادہ فرق نہیں ہے ۔
جرمنی اور جاپان ساختہ بیٹریز 12 وولٹ 100 امپیئر کی قیمت 22 سے 28 ہزار روپے کے درمیان ہے ۔
ڈرائی یا خشک بیٹریز جو کہ ایسڈ سے بے نیاز ہوتی ہیں ۔ وہ 55 سے 70 ہزار روپے تک کی ہوتی ہیں ۔
12 وولٹ اور 220 وولٹ انرجی سیور چائنہ ساختہ 200 روپے 6 ہزار گھنٹے چلنے کی استعداد
جاپانی اور جرمن 400 روپے کے قریب ان ہی خصوصیات کے ساتھ
سٹیبلائزر یا "منظم کہرباء " 2 ہزار واٹ کیپسٹی کا حامل
جرمنی ساختہ 40 ہزار روپے کے قریب
جاپانی 28 ہزار روپے کے قریب
انڈین اور چائنہ ساختہ 12 ہزار روپے کے قریب
جرمن ساختہ سسٹم شارٹ سرکٹ برداشت نہیں کر پاتا ۔ چاہے وہ بیٹریز سے ہو یا کنورٹر سے ۔
یہ میرا ذاتی تجربہ ہے ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
نایاب
شمسی پینلز: یورپی اور چینی کمپنیوں کے تنازعے میں شدت
جرمنی، اٹلی، اسپین اور یورپی یونین کے دیگر رکن ملکوں کے شمسی پینلز تیار کرنے والے کوئی 20 اداروں نے ایک درخواست دائر کرتے ہوئے یورپی کمیشن سے حریف چینی کمپنیوں کے غیر منصفانہ طریقوں کے آگے بند باندھنے کی استدعا کی ہے۔
ای یُو پرو سَن (EU ProSun)نامی تحریک کی نمائندگی کرتے ہوئے ممتاز ادارے سولر ورلڈ سے وابستہ میلان نیشکے(Milan Nitzschke) بتاتے ہیں:
’’معاملہ شمسی سیلز سے بجلی بنانے کے شعبے میں چینی اداروں کے لاگت سے بھی کم قیمت پر مصنوعات کی فروخت کا ہے۔ چینی ادارے یہ شمسی پینلز اِن کی تیاری پر آنے والی لاگت سے تقریباً آدھی قیمت پر فروخت کر رہے ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی ادارہ اُن کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل ہی نہیں سکتا۔‘‘


واضح رہے کہ گزشتہ مہینوں کے دوران صرف جرمنی میں شمسی سیلز تیار کرنے والے بہت سے ادارے دیوالیہ ہو چکے ہیں، جن میں کیو سیلز(Q-Cells)، سووَیلو (Sovello)، سولون (Solon) اور فرسٹ سولر (First Solar)بھی شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں فروخت ہونے والے 80 فیصد شمسی سیلز چین سے درآمد شُدہ ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی شمسی پینلز کی تیاری میں استعمال ہونے والا 60 فیصد میٹیریل، خواہ وہ پولی سلیکون کی شکل میں ہو، خصوصی شیشے کی شکل میں ہو یا مشینوں کی شکل میں، یہاں جرمنی سے جاتا ہے۔

دوسری جانب چینی ادارے اپنی بیجنگ حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اُنہیں اِن ممکنہ محصولات سے بچائے۔ یہ مطالبہ چینی حکومت کے ایوانوں تک پہنچ گیا ہے اور چینی وزارتِ تجارت نے یورپی صنعت کے تمام تر اعتراضات مسترد کر دیے ہیں۔
چینی وزارت کا کہنا ہے کہ چینی سولر مصنوعات کی قیمتوں میں کمی دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ شمسی سیلز کی تیاری میں استعمال ہونے والے مادے سلیکون کی قیمتیں گر جانے کی وجہ سے بھی ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کا موقف ہے کہ جہاں 2008ء میں سلیکون کی قیمت تین سو ڈالر فی کلوگرام تھی، وہاں اب یہ صرف تیس ڈالر فی کلوگرام رہ گئی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں سولر پینلز کی مینوفیکچرنگ کے پلانٹ قائم کئیے جائیں، جب مقامی طور پر تیارشدہ سولر پینل ملک میں سستے داموں دستیاب ہونکے تو عوام اپنی اپنی ضورورت کے مطابق خود ہ سسٹم ڈیزان کرکے بجلی میں خود کفیل ہوجائے گی۔
1998ء میں تو ایک ادارہ انسٹیٹیوٹ آف سیلیکان ٹیکنالوجی اسلام آباد میں موجود تھا جو یہی کام کرتا تھا اور اس کی نمائندے مختلف تعلیمی اداروں میں سولر پینل تیار کرنے کی ٹیکنالوجی کے بارے میں طلبہ کو آگاہی فراہم کرنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ بعد میں سنا ہے کہ کسی کے ایماٰء پر یہ ادارہ ختم کر دیا گیا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ادارے کی ترجمان آنچے سٹیفن نے پاکستان میں منصوبے کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا:
’’کونرجی (Conergy) اپنی پارٹنر کمپنی اَین سَنٹ (Ensunt) کے ساتھ مل کر پاکستان کا سب سے بڑا شمسی پلانٹ تعمیر کرے گی۔ یہ پلانٹ توانائی سے متعلق ادارے DPGCL اور حکومت پاکستان کے ایماء پر تعمیر ہو گا۔ پچاس میگا واٹ گنجائش کے حامل اس پلانٹ کے لیے دو لاکھ دَس ہزار شمسی پینلز نصب کیے جائیں گے۔‘‘
یہ پلانٹ جنوبی پنجاب کے علاقے چولستان میں بہاولپور کے قریب تعمیر کیا جائے گا اور اس پر 170 تا 190 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔
اگر یہی منصوبہ انڈیا یا چائنہ کے ذریعے مکمل کیا جائے تو اس کی لاگت بہت کم ہو جاتی ہے ۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ ان ممالک سے " کک بیکس " نہیں ملتے ۔

نایاب
اب ذرا موازنہ کر لیں:

پاکستان:
گنجائش : 50 میگا واٹ
لاگت : 170 - 190 ملین


انڈیا:
انڈیا میں پاکستانی شمسی پاور پلانٹ سے دس گنا زیادہ گنجائش کا پاور پلانٹ لگایا گیا ہے ، جس کی لاگت بھی دس گنا زیادہ ہے
گنجائش : 500 میگا واٹ ، دس گنا زیادہ گنجائش
لاگت: 2.3 بلین ، دس گنا زیادہ لاگت

اس موازنے سے کم از کم یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے اس شمسی پلانٹ کی لاگت بالکل موزوں ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
نایاب
اب ذرا موازنہ کر لیں:
پاکستان:
گنجائش : 50 میگا واٹ
لاگت : 170 - 190 ملین
انڈیا:
انڈیا میں پاکستانی شمسی پاور پلانٹ سے دس گنا زیادہ گنجائش کا پاور پلانٹ لگایا گیا ہے ، جس کی لاگت بھی دس گنا زیادہ ہے
گنجائش : 500 میگا واٹ ، دس گنا زیادہ گنجائش
لاگت: 2.3 بلین ، دس گنا زیادہ لاگت
اس موازنے سے کم از کم یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے اس شمسی پلانٹ کی لاگت بالکل موزوں ہے۔
میرے محترم بھائی
مجھے آپ کے موازنے سے بالکل بھی اختلاف نہیں ہے ۔
سعودی عرب میں اس فیلڈ سے وابستہ رہتے 5 سال ہو گئے ہیں ۔
اور میرا تبصرہ اپنی ذاتی معلومات اور ذاتی تجربے پر مشتمل ہے ۔
دو پنکھے چھت والے 80 واٹ ہر ایک ۔۔ 160واٹ
آٹھ انرجی سیور 30 واٹ (175)واٹ۔۔۔ 240 واٹ
ایک روم کولر 300 واٹ موٹر بنا بیلٹ ۔۔۔ 300 واٹ
کل 700 واٹ خرچ پر مشتمل سسٹم
سولر پلیٹ ۔ کنورٹر ۔ سٹیبلائزر ۔ بیٹری کے ساتھ
چائنہ پلس انڈین ساختہ ۔۔4800ریال ۔۔ 120000 روپے
جرمنی پلس جاپان ساختہ ۔۔ 8400ریال ۔ 210000 روپے
شاید آپ تسلیم نہ کریں گے کہ
میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ
جرمن اور جاپان ساختہ سسٹمز کے نسبت چائنہ اور انڈین ساختہ سسٹمز میں نقائص کا تناسب بہت کم ہے ۔
چائنہ اور انڈین ساختہ سسٹمز میں کسی شارٹ سرکٹ کے باعث صرف " سٹیبلائزر " جلتا ہے ۔ اور باقی چیزیں بچ جاتی ہیں ۔
جبکہ جرمن و جاپان سسٹمز میں شارٹ سرکٹ کے باعث سٹیبلائزر الیکٹرک کی ترسیل بند نہیں کرتا
اور اس باعث نہ صرف بیٹریز اوور چارج کا شکار ہوتے مردہ ہو جاتی ہیں ۔ بلکہ دیگر اپلائنسز بھی جل جاتی ہیں ۔
 
علی بابا ڈاٹ کام پر چائنہ کی تما م سولر پراڈکٹس کی تما م تفصیلات بیحد صراحت کے ساتھ موجود ہیں۔ سولر پینلز دو قسم کے ہوتے ہیں مونو کرسٹلین اور پولی کرسٹالین۔۔۔مونو والا بہتر ہوتا ہے ایفیشنسی کے اعتبار سے اور انکی قیمت بھی مناسب ہے یعنی 80 سینٹ فی واٹ۔۔۔یعنی اگر آپکو ہزار واٹ کے پینل چاہئیں تو 800 ڈالر میں مل جائیں گے۔ باقی تمام اشیاء پاکستان میں دستیاب ہیں
 

عسکری

معطل
اچھا مثال کے طور پر میں ڈھائی لاکھ میں سعودی سے خرید کر پاکستان میں اپنے گھر میں لگوا دوں تو کتنا مینٹینس کا خرچ ہو گا ماہانہ اور کب یہ سسٹم مکمل آؤٹ ڈیٹڈ ہو جائے گا اور اسے تبدیل کرنا پڑے گا ؟
 

bilal260

محفلین
آصف زرداری کے ہوتے ہوئے کسی غریب کا بھلا نہیں ہو سکتا ۔
پلانٹ لانے سے پہلے فکس کریں کے زرداری ٹیکس کتنا ہو گا ۔
زرداری کو کتنا فائدہ ہو گا۔
زرداری حکومت جائے گی تو کسی کا بھلا ہو گا ۔اس طرح نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
میرے محترم بھائی
مجھے آپ کے موازنے سے بالکل بھی اختلاف نہیں ہے ۔
سعودی عرب میں اس فیلڈ سے وابستہ رہتے 5 سال ہو گئے ہیں ۔
اور میرا تبصرہ اپنی ذاتی معلومات اور ذاتی تجربے پر مشتمل ہے ۔
دو پنکھے چھت والے 80 واٹ ہر ایک ۔۔ 160واٹ
آٹھ انرجی سیور 30 واٹ (175)واٹ۔۔۔ 240 واٹ
ایک روم کولر 300 واٹ موٹر بنا بیلٹ ۔۔۔ 300 واٹ
کل 700 واٹ خرچ پر مشتمل سسٹم
سولر پلیٹ ۔ کنورٹر ۔ سٹیبلائزر ۔ بیٹری کے ساتھ
چائنہ پلس انڈین ساختہ ۔۔4800ریال ۔۔ 120000 روپے
جرمنی پلس جاپان ساختہ ۔۔ 8400ریال ۔ 210000 روپے
شاید آپ تسلیم نہ کریں گے کہ
میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ
جرمن اور جاپان ساختہ سسٹمز کے نسبت چائنہ اور انڈین ساختہ سسٹمز میں نقائص کا تناسب بہت کم ہے ۔
چائنہ اور انڈین ساختہ سسٹمز میں کسی شارٹ سرکٹ کے باعث صرف " سٹیبلائزر " جلتا ہے ۔ اور باقی چیزیں بچ جاتی ہیں ۔
جبکہ جرمن و جاپان سسٹمز میں شارٹ سرکٹ کے باعث سٹیبلائزر الیکٹرک کی ترسیل بند نہیں کرتا
اور اس باعث نہ صرف بیٹریز اوور چارج کا شکار ہوتے مردہ ہو جاتی ہیں ۔ بلکہ دیگر اپلائنسز بھی جل جاتی ہیں ۔
نایاب بھائی بہت شکریہ کہ آپ نے مختلف ممالک کے شمسی توانائی کے نظاموں کے بارے میں آگاہی دی۔آپ نے جن نقائص کا تذکرہ کیا ہے وہ شمسی توانائی کے گھریلو نظام کی ہیں جبکہ دو لاکھ دَس ہزار شمسی پینلز پر مشتمل پچاس میگا واٹ گنجائش کے حامل اس پلانٹ سے حاصل شدہ توانائی گرڈ کے ذریعے گھروں تک منتقل کی جاتی ہے۔
 

ساجد

محفلین
اچھا مثال کے طور پر میں ڈھائی لاکھ میں سعودی سے خرید کر پاکستان میں اپنے گھر میں لگوا دوں تو کتنا مینٹینس کا خرچ ہو گا ماہانہ اور کب یہ سسٹم مکمل آؤٹ ڈیٹڈ ہو جائے گا اور اسے تبدیل کرنا پڑے گا ؟
بیک اپ کے لئے لگائی گئی بیٹریاں اپنی استعداد کے مطابق ایک سے 3 سال کے دوران تبدیل کرنا پڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر ماہانہ اضافی خرچ نہیں ہے۔ انورٹر اور پینل بھی ایک بار ہی خریدنا پڑتا ہے اور کئی سال تک کار آمد رہتا ہے۔
ہاں چھت پر نصب پینل کی حفاظت کا معقول انتظام ہونا چاہئیے ، یہ نہ ہو ہمسایوں کے بچے پتھر مار کر توڑ دیں یا کسی پتنگ باز کی "گاٹی" اس کا "گاٹا" توڑ دے۔:)
 

عسکری

معطل
بیک اپ کے لئے لگائی گئی بیٹریاں اپنی استعداد کے مطابق ایک سے 3 سال کے دوران تبدیل کرنا پڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر ماہانہ اضافی خرچ نہیں ہے۔ انورٹر اور پینل بھی ایک بار ہی خریدنا پڑتا ہے اور کئی سال تک کار آمد رہتا ہے۔
ہاں چھت پر نصب پینل کی حفاظت کا معقول انتظام ہونا چاہئیے ، یہ نہ ہو ہمسایوں کے بچے پتھر مار کر توڑ دیں یا کسی پتنگ باز کی "گاٹی" اس کا "گاٹا" توڑ دے۔:)
کتنی بیٹریاں ہوتی ہیں اور ایک کتنے کی آتی ہے بھائی جی
 
علی بابا ڈاٹ کام پر چائنہ کی تما م سولر پراڈکٹس کی تما م تفصیلات بیحد صراحت کے ساتھ موجود ہیں۔ سولر پینلز دو قسم کے ہوتے ہیں مونو کرسٹلین اور پولی کرسٹالین۔۔۔ مونو والا بہتر ہوتا ہے ایفیشنسی کے اعتبار سے اور انکی قیمت بھی مناسب ہے یعنی 80 سینٹ فی واٹ۔۔۔ یعنی اگر آپکو ہزار واٹ کے پینل چاہئیں تو 800 ڈالر میں مل جائیں گے۔ باقی تمام اشیاء پاکستان میں دستیاب ہیں
باقی تمام اشیا سے مرادکنورٹر، چارجر اور بیٹری ہے ؟؟؟؟
 

فرحت کیانی

لائبریرین
جرمن شہر میونخ میں 13 تا 15 جون منعقدہ شمسی توانائی سے متعلق دنیا کے سب سے بڑا تجارتی میلے انٹر سولر یورپ میں جرمن کمپنی کونرجی بھی شریک تھی، جو عنقریب پاکستان میں ملک کا سب سے بڑا شمسی پلانٹ تعمیر کرنے والی ہے۔

یہ پلانٹ جنوبی پنجاب کے علاقے چولستان میں بہاولپور کے قریب تعمیر کیا جائے گا اور اس پر 170 تا 190 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔

اس شمسی پلانٹ کی مدد سے سالانہ 78 گیگا واٹ گھنٹے سے زیادہ توانائی پیدا کی جا سکے گی، جس سے تیس ہزار پانچ سو گھروں کی بجلی کی ضروریات پوری ہو سکیں گی۔ کونرجی کی ترجمان سے یہ پوچھا گیا کہ اس پلانٹ کی تعمیر میں کتنا عرصہ لگے گا اور یہ کب تک مکمل ہو جائے گا۔ جواب میں اُنہوں نے بتایا:
’’اِس پلانٹ کی تعمیر کا آغاز غالباً اِس سال کی تیسری سہ ماہی کے اواخر اور چوتھی سہ ماہی کے اوائل میں ہو گا۔ پاکستان کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کام کم و بیش اٹھارہ ماہ میں مکمل ہو گا۔‘‘
اگرچہ موجودہ حالات کافی مایوس کن ہیں لیکن ایسے منصوبوں کی خبر نہایت خوش آئند ہے۔ ایک اور اچھی خبر کل کے اخبار میں تھی جس میں سندھ کے علاقے جھم پیر میں ونڈ انرجی پراجیکٹس کے بارے میں پڑھ کر مزید خوشی ہوئی۔ اس پراجیکٹ پر کام گزشتہ چند سالوں سے شروع تھا اور اب انشاءاللہ دسمبر میں باقاعدہ آغاز ہو جائے گا کہ ابتدائی آزمائشی کاروائیاں مکمل ہو چکی ہیں۔

بعض اوقات حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ انسان بہت مایوس ہو جاتا ہے۔ مجھے 2010ء میں کسی نے ان پراجیکٹس کا بتایا تھا لیکن وہی بات کہ میرا خیال تھا کہ ہونا کچھ بھی نہیں ہے۔ اب اچانک اس کی تفصیلات پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ اب دعا یہ کرنی چاہئیے کہ یہ منصوبے اپنی تکمیل کو پہنچیں اور پاکستانی عوام کو بھی کچھ ریلیف مل جائے۔
 

ساجد

محفلین
کتنی بیٹریاں ہوتی ہیں اور ایک کتنے کی آتی ہے بھائی جی
یہ کوئی خاص بیٹریاں نہیں ۔گاڑی میں استعمال ہونے والی بیٹری کی قسم ہیں۔ کچھ ایسڈ والی ہوتی ہیں لیکن اب زیادہ رواج ڈرائی بیٹری کا ہے جو مہنگی ہے لیکن کارکردگی میں بہت بہتر ہے اور اس کی دیکھ بھال نہیں کرنا پڑتی۔
آپ جہاں سے دیگر اشیاء خریدیں گے وہی لوگ آپ کو پینل کی صلاحیت کے مطابق بیٹری کے سائز کا صحیح مشورہ دیں گے۔ پاکستان میں اس کی قیمت دس ہزار سے 28 ہزار کے درمیان ہے۔اور اگر آپ بیٹری کا استعمال ہی نہیں کرنا چاہتے تو آپ دن میں سورج سے پیدا کردہ بجلی سے مستفید ہو سکیں گے۔ رات کے لئے بیک اپ نہیں ہو گا۔ ڈوئل پاور کیلکیو لیٹر اسی اصول کے مطابق کام کرتا ہے۔
 
Top