سید عاطف علی
لائبریرین
آئی کیوب قمر: چاند تک سیٹلائٹ بھجوانے کا پاکستانی مشن کیسے ممکن ہوا؟
،تصویر کا ذریعہIST/GETTY IMAGES
مضمون کی تفصیل
- مصنف,عبید ملک، محمد صہیب
- عہدہ,بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
- 2 مئ 2024، 12:58 PKT
اب اس تجویز کا نتیجہ اس شکل میں نکلا ہے کہ پاکستان چین کی مدد سے اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے جو چاند کے مدار تک اپنے سیٹلائٹ بھجوا چکے ہیں۔
مگر ایک پروپوزل بھجوانے کے خیال سے یہ منصوبہ کیسے شروع ہوا؟ اس کی تکمیل کے لیے پاکستانی سائنسدانوں نے نہایت کم مدت میں سیٹلائٹ کیسے تیار کیا اور اس کے فوائد کیا ہوں گے؟
اس کہانی کی ابتدا سنہ 2022 میں اس وقت ہوئی جب چینی نیشنل سپیس ایجنسی (سی این ایس اے) نے ایشیا پیسیفک سپیس کارپوریشن آرگنائزیشن کے ذریعے اپنے رکن ممالک کو چاند کے مدار تک مفت پہنچنے کا ایک منفرد موقع فراہم کیا۔
ایشیا پیسیفک سپیس کارپوریشن آرگنائزیشن (ایپسکو) سنہ 2008 میں قائم کی گئی تھی جس کا مقصد اس خطے میں خلائی تحقیق کو فروغ دینا تھا۔ ایپسکو کے رکن ممالک میں پاکستان، بنگلہ دیش، چین، ایران، پیرو، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور ترکی شامل ہیں۔
اسلام آباد کے انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی (آئی ایس ٹی) کی جانب سے ایک پروپوزل (تجویز) تیار کر کے ایپسکو کو بھجوایا گیا جو منظور کر لیا گیا اور پھر پاکستان میں خلائی تحقیق کے ادارے سپارکو کی معاونت کے ساتھ آئی ایس ٹی کی ایک ٹیم نے اس سیٹلائٹ پر کام شروع کیا جس میں مختلف شعبوں کے طلبا بھی شامل تھے۔
یوں لگ بھگ دو سال کی محنت کے بعد سیٹلائٹ ’آئی کیوب قمر‘ کو مکمل کیا جا سکا۔ پاکستان تین مئی (جمعہ) کو اپنا سیٹلائٹ مشن ’آئی کیوب کیو‘ چین کے ہینان سپیس لانچ سائٹ سے چاند کے سفر کے لیے خلا میں روانہ کرے گا۔
سٹیٹسٹا کے لیے کام کرنے والی صحافی کیتھرینا بیوکولز کی تحقیق کے مطابق دنیا کے چھ ممالک کی خلائی ایجنسیاں جن میں امریکہ، سابقہ سوویت یونین (موجودہ روس)، چین، جاپان، انڈیا اور یورپی یونین شامل ہیں نے چاند کے مدار میں اور چاند پر یا اس کے قریب اپنے مشن بھیجے ہیں۔
ان کے علاوہ جنوبی کوریا، لگزم برگ اور اٹلی امریکی اور چینی راکٹوں کے سہارے چاند کے مدار تک جا چکے ہیں اور اب پاکستان بھی اس فہرست میں شامل ہو سکتا ہے۔
آئیے جانتے ہیں کہ اس مشن میں پاکستان کی جانب سے بھیجے جانے والی سیٹلائٹ کیسے کام کرے گی، اس میں کیا کچھ نصب ہے اور اسے بنانے والی ٹیم کو اس کی تیاری میں کن چیلنجز کا سامنا رہا؟
،تصویر کا ذریعہCOURTESY IST
سیٹلائٹ کا نام آئی کیوب قمر کیوں رکھا گیا؟
یہ نام ڈاکٹر خرم کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا۔ کیونکہ یہ مشن چاند کی جانب جا رہا ہے اس لیے اس میں ’قمر‘ یعنی چاند موجود ہے۔ آئی کیوب اس لیے کیونکہ آئی ایس ٹی میں موجود سمال سیٹلائٹ پروگرام کا نام ’آئی کیوب‘ ہے اور اس کے تحت انسٹیٹیوٹ کی جانب سے سنہ 2013 میں پہلی سیٹلائٹ ’آئی کیوب ون‘ کے نام سے لانچ کی گئی تھی۔انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی میں آئی کیوب کیو پر کام کرنے والی ٹیم کے رُکن پروفیسر ڈاکٹر خُرم خورشید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’چین کی شنگھائی یونیورسٹی اور پاکستان نیشنل سپسیس ایجنسی سپارکو کے تعاون کے ساتھ اس سیٹلائٹ کا حتمی ڈھانچہ بنایا گیا ہے۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’آئی کیوب کیو‘ دو آپٹیکل کیمروں سے لیس ہے جو چاند کی سطح کی تصاویر لینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔‘
ٹیسٹنگ اور قابلیت کے مرحلے سے کامیابی سے گزرنے کے بعد ’آئی کیوب کیو‘ کو چین کے ’چینگ 6‘ مشن کے ساتھ منسلک کر دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ ’چینگ 6‘ چین کی جانب سے چاند کے مشن کے سلسلے کا چھٹا مشن ہے۔
چین کے ’چینگ 6‘ کے مشن کا مقصد چاند کی سطح سے نمونے اکھٹا کرنا ہے اور ان نمونوں کو پھر زمین پر واپس لانا ہے، جہاں سائنسدان چاند کی ساخت، تاریخ اور تشکیل کے بارے میں مزید جاننے کے لیے تحقیق کریں گے۔
آئی ایس ٹی کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق اس پراجیکٹ کے تین اہم حصے ہیں۔ ایک تو کیوب سیٹ جس کے بارے میں آپ کو ہم آگے چل کر بتائیں گے، سیپریشن میکنزم یعنی چینگ 6 سے آئی کیوب قمر کے علیحدہ ہونے کا میکنزم، اور ماؤنٹنگ بریکٹ۔ اس میں موجود دو آپٹیکل کیمروں کے علاوہ 12 وولٹ کی بیٹری اور دو سولر پینلز بھی نصب کیے گئے ہیں اور اس کی ّڈیزائن لائف تین ماہ ہے۔
اس کی حرکت کو تین ایکسز کے ذریعے کنٹرول کیا جائے گا۔ ری ایکشن وہیل، سٹار سینسر اور سن سینسر کے ذریعے۔ کمیونیکیشن کے لیے بھی اس میں نظام نصب کیا گیا ہے اور اس کا ڈیٹا ٹرانسفر ریٹ 1 کلو بائٹ فی سیکنڈ ہو گا۔
،تصویر کا ذریعہCOURTESY IST
’آئی کیوب کیو‘ پاکستان کے لیے اہم کیوں؟
ڈاکٹر خرم کی ٹیم کے پاس اس سیٹلائٹ کو بنانے کے لیے وقت کم تھا اور انھیں اس میں استعمال ہونے والے پرزے باہر سے منگوانے تھے جن کی پاکستان آمد میں انھیں کچھ تاخیر کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ڈاکٹر خرم کہتے ہیں کہ ’کیونکہ وقت کم تھا اس لیے ہمیں ہر چیز ایک ساتھ اور بہت محنت کے ساتھ کرنی پڑ رہی تھی۔‘
اس کے علاوہ آئی ایس ٹی کے مختلف انجینیئرنگ کے شعبوں جیسے الیکٹریکل، میٹیریئل سائنس، ایوی آنکس، ایرو سپیس، میکینکل انجینیئرنگ اور کمپیوٹر سائنسز کے طلبا بھی اس پراجیکٹ میں شریک تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر خُرم خورشید نے بتایا کہ ’یہ مشن پاکستان اور پاکستانی طلبا کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ جو اس فیلڈ میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔‘
ڈاکٹر خرم کہتے ہیں کہ پاکستان میں یوں تو سپارکو اپنی کاوشوں کو جاری رکھے ہوئے ہے مگر اس کے باوجود اس فیلڈ میں آنے والے طلبا کو خاص پذیرائی نہیں ملتی اور پاکستان میں اُن کے لیے مواقع بہت محدود ہیں۔‘
ڈاکٹر خرم کے مطابق ’آئی ایس ٹی کی طرف سے تیار کردہ کیوب سیٹس کیوبک شکل میں بنائے گئے ہیں اور ان پر ان کی چھوٹی جسامت کی وجہ کم لاگت آتی ہے جو پاکستان جیسے ترقی پذیر مُمالک کے لیے بوجھ نہیں۔‘
ان کا مزید کہنا ہے ’ان سیٹلائٹس کا وزن اکثر چند کلو گرام سے زیادہ نہیں ہوتا جیسا کہ ’آئی کیوب کیو‘ کا وزن بھی چھ کلو گرام کے قریب ہے۔‘
’آئی کیوب کیو‘ کو خلا میں بھیجنے کے مقصد سے متعلق بات کرتے ہوئے ڈاکٹر خرم کا کہنا تھا کہ ’اس کی مدد سے ہم سائنسی تحقیق، تکنیکی ترقی اور خلائی تحقیق سے متعلق تعلیمی منصوبوں میں آگے بڑھ سکیں گے اور نہ صرف یہ بلکہ پاکستان کے پاس تحقیق کے لیے اپنی سیٹلائٹ سے لی جانے والی چاند کی تصاویر ہوں گیں۔‘
،تصویر کا ذریعہCOURTESY IST
’کیوب سیٹ‘ کیا ہے اور چین کی معاونت سے پاکستان کے اس مشن کا مقصد کیا ہو گا؟
مشیگن سٹیٹ یونیورسٹی میں شعبہ فزکس اور فلکیات سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر مہر النسا نے بی بی سی کے عمیر سلیمی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کیوب سیٹ‘ دراصل چھوٹی سیٹلائٹ ہوتی ہے جس کا وزن چند کلو گرام کے قریب ہوتا ہے۔ اس میں مختلف سینسر اور کیمرے نصب ہوتے ہیں اور یہ خلا میں جا کر ڈیٹا جمع کرتی ہے۔انھوں نے بتایا کہ چاند کے مدار میں چکر لگانے والے کیوب سیٹ ’تصاویر لے سکتے ہیں یا دیگر سگنل ریکارڈ کر کے زمین پر واپس بھیج سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی قدرے سستی ہے۔
پروفیسر مہر النسا کے مطابق اس سے پاکستانی محققین اور طلبہ سپیس سائنس میں چینی ماہرین کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ خلائی تحقیق میں دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ایک ’بیبی سٹیپ‘ (ابتدائی قدم) ضرور ہے تاہم ’اپنے اداروں میں منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کا طویل مدتی متبادل نہیں۔‘
’لوگوں کو یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری ضروری ہے، اور یہ کہ محدود وسائل کے باوجود ہم خلائی تحقیق کر سکتے ہیں۔‘
ادھر سپارکو سے منسلک ایک ماہر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی کیوب کیو کے مشن کا دورانیہ تین ماہ کا ہے اور اس دوران یہ خلا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ چاند کی تصاویر مرکز یعنی انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی کو بھیجتا رہے گا۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا ’پاکستان میں اس شعبے میں آنے والے نوجوانوں کے لیے اس طرح کے منصوبوں کی بہت اہمیت ہے۔
’ہمارے یہی چھوٹے چھوٹے قدم ہمیں کل (خلائی تحقیق میں) ایک بڑی کامیابی تک لے جائیں گے۔‘
،تصویر کا ذریعہIST
’آئی کیوب کیو‘ پاکستان اور چین کے درمیان شراکت
ڈاکٹر خرم کہ کہنا ہے کہ چاند پر کوئی بھی مشن یا سیٹلائٹ بھیجنا بہت ہی زیادہ مہنگا کام ہے، حتیٰ کے زمین کے گرد یا مدار میں بھی اگر کوئی سیارہ بھیجا جائے تو اُس کے لیے کثیر سرمایہ درکار ہوتا ہے۔‘اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے بہت بڑی بات ہے کہ چین کی جانب سے اُسے ’آئی کیوب کیو‘ کے لانچ کے لیے معاونت فراہم کی جا رہی ہے، ورنہ ایک خلائی مشن کو روانہ کرنے کے لیے کثیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جس کا متحمل پاکستان نہیں ہو سکتا۔‘
اس سیٹلائٹ کو بنانے کے لیے آنے والی لاگت کے بارے میں سرکاری سطح پر نہیں بتایا گیا تاہم ڈاکٹر خرم کا کہنا ہے کہ کُل لاگت کا تخمینہ لگانا مشکل ہے کیونکہ کسی سیٹلائٹ کو لانچ کرنے میں زیادہ خرچ آتا ہے اور پاکستان کے لیے چین کے باعث یہ عمل مفت ہو گیا۔
انھوں نے کہا کہ ’زمین کے مدار میں بھی اگر سیٹلائٹ کو لانچ کیا جائے تو اس میں بھی بہت زیادہ لاگت آتی ہے اور ڈیپ سپیس مشن پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے۔ ہمیں صرف سیٹلائٹ بنانے کی لاگت اٹھانا پڑی۔‘
،تصویر کا ذریعہSERENDIP PRODUCTIONS
،تصویر کا کیپشنبائیں سے دائیں: ڈاکٹر طارق مصطفیٰ، ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی (چیئرمین پاکستان اٹامک انرجی کمیشن)، ڈاکٹر عبدالسلام، انیس احمد خان شیروانی (سیکریٹری، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن)، ایس این نقوی (ڈائریکٹر، محکمہ موسمیات)، محمد رحمت اللہ
پاکستان خلائی دوڑ میں اتنا پیچھے کیوں؟
یاد رہے کہ سنہ 1962پاکستانی سائنسدانوں نے پہلا موسمیاتی راکٹ رہبر اول خلا میں روانہ کیا تھا۔ اس مشن کی سربراہی پاکستان کے پہلے نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام نے کی تھی۔ تاہم اس ٹیم اور پراجیکٹ کے سربراہ ڈاکٹر طارق مصطفیٰ نے سنہ 2021 میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے اس خلائی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی وجہ بیان کی تھی۔پاکستان نے چین کی مدد سے کئی سیٹلائٹس لانچ کیں۔ تو ایک ایسا ملک جو 1962 میں خود اپنا راکٹ لانچ کر رہا تھا، اب سیٹلائٹس لانچ کرنے کے لیے چین پر منحصر کیوں ہے جبکہ پڑوسی ملک انڈیا چاند اور مریخ تک اپنے خلائی مشنز بھیج رہا ہے۔
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر طارق مصطفیٰ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’سپارکو کو اتنے وسائل نہیں دیے گئے اور پاکستان کی توجہ مختلف وجوہات کی بنا پر دفاعی جانب زیادہ رہی۔‘
خود ڈاکٹر طارق مصطفیٰ بھی سیکریٹری دفاعی پیداوار ڈویژن رہ چکے ہیں اور 1994 میں حکومتِ پاکستان سے ریٹائر ہوئے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان اس خلائی دوڑ میں ایسے ہی موقع کا فائدہ اٹھا کر شامل ہو گیا تھا لیکن ملک کے پاس اس حوالے سے ویژن نہیں تھا کہ پاکستان نے بالائی فضا کے بعد باقاعدہ خلا میں بھی قدم رکھنے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا کے پاس اس حوالے سے کہیں زیادہ مالی وسائل اور سائنسی دماغ اور سہولیات موجود تھیں جس کی بنا پر وہ آج اس جگہ تک جا پہنچے ہیں۔‘