محمد خرم یاسین
محفلین
چند دن قبل ایک انٹرویو کے لیے جانا ہوا۔ تعلیمی ریکارڈ اور کاغذات کی تصدیق کے بعد انٹرویو کا مرحلہ در پیش ہوا۔
انٹرویو پینل میں سے کچھ صاحبان نے دوبارہ سے کاغذات کی تصدیقی چاہی اور اس کے بعد سوالات کے سلسلے کا
آغاز کیا۔سوالات کا احوال کچھ یوں تھا
انٹرویو پینل: اپنا تعارف کروائیے۔
بندہ نا چیز نے اپنا تعارف پیش کیا۔
انٹرویو پینل:اپنی تعلیم کے بارے میں بتائیے۔
بندہ ناچیز نے ترتیبِ صعودی میں ساری ڈگریاں ، سرٹیفیکیٹس گنوا دیے۔
انٹرویو پینل:اردو کو ہی اعلیٰ تعلیم کے لیے کیوں منتخب کیا؟
اس سوال کا پہلے بھی کئی بار سامنا ہو چکا تھا۔ ایک بارپہلے بھی ایک انٹرویو میں(جس میں میری دلچسپی تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے نا ہونے کے برابر ہوکر رہ گئی تھی) یہ سوال کیا گیا تھا تو میں نے جواباً الٹا یہ سوال پوچھ لیا تھا ’’اردو کو اعلیٰ تعلیم کے لیے کیوں نہ منتخب کیا جائے؟‘‘اس پر ایک انٹرویور نے پھر سے سوال کیا تھا کہ انگلش کو کیوں نہ منتخب کیا جائے؟ میں نے اکٹر کر کہا تھا ’’اردومیں ایسا کیا ہے جو انگلش میں نہیں؟‘‘۔ اس کے بعد انٹرویور نے وہی کیاتھا جس کی عین توقع تھی ’’ آپ جا سکتے ہیں‘‘ اور میں خوش خوش واپس لوٹ آیا تھا۔ خیر۔ میں نے اس انٹرویو پینل کو جس میں بڑی کلغیوں والے کئی چہرے میرا منہ تک رہے تھے اس سوال کا حتمی الامکان بہتر جواب دینے کی کوشش کی۔
انٹرویو پینل:شکوہ کس کی نظم ہے؟
اس سوال پر مجھے ہنسی آگئی لیکن میں دبا گیا ۔میری دانست میں پینل ہر مضمون کے حوالے سے ماہرین پر مشتمل ہونا چاہیے تھا لیکن چونکہ پینل کسی خاص مضمون کے بجائے تمام مضامین کے حوالے سے انٹرویو لے رہا تھا اس لیے ایسے سوالات کی جگہ بنتی تھی۔ خیر۔ میں نے اس آسان سوال کا جواب دیا۔
انٹرویو پینل:قومی ترانہ کس نے لکھا۔
حفیظ جالندھری نے۔ میں فوراً بولا۔
انٹرویو پینل:کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا قومی ترانہ سارا کا سارا فارسی میں ہے۔ ایک صاحب نے دوسرے کی جانب دیکھتے ہوئے مجھ سے تصدیق چاہی۔
قومی ترانے کی بحث چونکہ نئی نہیں تھی بلکہ اس پر کئی بار بہت سے لوگ پوائنٹ سکورنگ کرچکے تھے اس لیے اس حوالے سے مجھے تھوڑا بہت تو علم تھا۔ اس لیے گویا ہوا
’’جی نہیں سر یہ فارسی میں نہیں ہے‘‘۔
انٹرویو پینل: ہیں؟ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟ اس میں سنا ہے صرف ایک لفظ اردو کا ہے باقی سارا فارسی میں ہے۔
بندہ ناچیز: سر کہنے والوں میں تو وہ سیاست دان بھی شامل ہیں جواردو کو سرکاری زبان قرار دینے پر سر تا پا احتجاج بنے ہو ئے ہیں اور بھونڈے پن کی انتہا یہ کہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کی اولین شرط یہ پیش کرتے ہیں کہ پہلے قومی ترانے کو اردو میں پیش کرو اس کے بعد اردو کو سرکاری زبان قرار دیا جائے۔
نٹرویو پینل:آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ فارسی میں نہیں ہے؟
بندہ ناچیز: سروہ اس طرح کہ قومی ترانے کے الفاظ سارے کے سارے اردو میں مستعمل ہیں۔ کوئی بھی لفظ ہمارے لیے غیر مانوس یا اجنبی نہیں ہے۔ اگر اردو میں فارسی شامل نہ ہوتی تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ اسے بھی اردو میں ہونا چاہیے لیکن اب چونکہ اردو فارسی اور عربی کے کثیر الفاظ سے بھری پڑی ہے تو اس قسم کے اعتراضات کوئی معنی نہیں رکھتے۔
انٹرویو پینل: اس کا مطلب ہے کہ آپ یہ مانتے ہیں کہ یہ فارسی قومی ترانہ ہے؟
بندہ ناچیز:یہ بات کسی حد تک درست ہوسکتی ہے سرمکمل طور پر نہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ قومی ترانے کا کوئی بھی فارسی لفظ اردو میں بعینہ مستعمل نہ ہو۔جب سب الفاظ ہمارے ہاں مستعمل ہیں تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہماری زبان کا حصہ نہیں ؟
انٹرویو پینل: ’’ٹھیک ہے ۔ آپ جا سکتے ہیں‘‘۔ انٹرویو پینل نے میرے کاغذات میرے حوالے کردیے۔
نٹرویو کے بعد میں ایک عزیز دوست کے ساتھ بیٹھا دیر تک اس موضوع پر گفتگو کرتا رہا۔ ہم دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کا دامن بہت وسیع ہے۔ اس میں بہت ساری زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ اب اگر ہم ان سب زبانوں کے الفاظ نکال کر اردو کا چہرہ دکھانے کی کوشش کریں تو یقیناًیہ ایک مسخ شدہ چہرہ ہوگاجس میں شاید ایک آنکھ نہ ہو، ایک کان کٹا ہو،دانت نہ ہوں یا باہر کی جانب پھیل کر بدنما دکھتے ہوں وغیرہ وغیرہ ۔ اردو کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ یہ اپنے دامن میں بہت سے الفاظ کو سمیٹے ہوئے ہے اسی وجہ سے کبھی محققین کہتے ہیں کہ یہ سندھ سے شروع ہوئی، کبھی پنجاب سے اورکبھی دکن سے۔ہر خطے کی روایات، الفاظ اور کلچر اس میں شامل ہیں۔ قومی ترانے کی بحث سے بہت سے لوگ مسائل کو طول دینا چاہتے ہیں، سستی شہرت چاہتے ہیں یاپھر اردو کے چہرے کو مسخ کرنے کی مذموم سازش کرتے رہتے ہیں ۔ قومی ترانے کو مکمل فارسی ترانہ تسلیم بھی کرلیا جائے تو یہ مباحث باقی رہیں گے کہ کیا اردو سے باقی تمام زبانوں کے تمام الفاظ کو بے دخل کر دیا جائے ؟ کیا اردو گرائمر کے لیے عربی اور فارسی زبان سے بالکل رجوع نہ کیا جائے ؟ کیا اس ایسی نئی اردو کو (جس سے عربی فارسی کے تمام الفاظ نکال دیے گئے ہوں)اردو کہا جائے ؟ کیا یہ سب کرنے سے اردو کی شان بلند ہوگی ، اس کے دامن میں مزید وسعت پیدا ہوگی ، یہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے گی ؟؟؟
http://sheheryar.es/?p=6560
انٹرویو پینل میں سے کچھ صاحبان نے دوبارہ سے کاغذات کی تصدیقی چاہی اور اس کے بعد سوالات کے سلسلے کا
آغاز کیا۔سوالات کا احوال کچھ یوں تھا
انٹرویو پینل: اپنا تعارف کروائیے۔
بندہ نا چیز نے اپنا تعارف پیش کیا۔
انٹرویو پینل:اپنی تعلیم کے بارے میں بتائیے۔
بندہ ناچیز نے ترتیبِ صعودی میں ساری ڈگریاں ، سرٹیفیکیٹس گنوا دیے۔
انٹرویو پینل:اردو کو ہی اعلیٰ تعلیم کے لیے کیوں منتخب کیا؟
اس سوال کا پہلے بھی کئی بار سامنا ہو چکا تھا۔ ایک بارپہلے بھی ایک انٹرویو میں(جس میں میری دلچسپی تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے نا ہونے کے برابر ہوکر رہ گئی تھی) یہ سوال کیا گیا تھا تو میں نے جواباً الٹا یہ سوال پوچھ لیا تھا ’’اردو کو اعلیٰ تعلیم کے لیے کیوں نہ منتخب کیا جائے؟‘‘اس پر ایک انٹرویور نے پھر سے سوال کیا تھا کہ انگلش کو کیوں نہ منتخب کیا جائے؟ میں نے اکٹر کر کہا تھا ’’اردومیں ایسا کیا ہے جو انگلش میں نہیں؟‘‘۔ اس کے بعد انٹرویور نے وہی کیاتھا جس کی عین توقع تھی ’’ آپ جا سکتے ہیں‘‘ اور میں خوش خوش واپس لوٹ آیا تھا۔ خیر۔ میں نے اس انٹرویو پینل کو جس میں بڑی کلغیوں والے کئی چہرے میرا منہ تک رہے تھے اس سوال کا حتمی الامکان بہتر جواب دینے کی کوشش کی۔
انٹرویو پینل:شکوہ کس کی نظم ہے؟
اس سوال پر مجھے ہنسی آگئی لیکن میں دبا گیا ۔میری دانست میں پینل ہر مضمون کے حوالے سے ماہرین پر مشتمل ہونا چاہیے تھا لیکن چونکہ پینل کسی خاص مضمون کے بجائے تمام مضامین کے حوالے سے انٹرویو لے رہا تھا اس لیے ایسے سوالات کی جگہ بنتی تھی۔ خیر۔ میں نے اس آسان سوال کا جواب دیا۔
انٹرویو پینل:قومی ترانہ کس نے لکھا۔
حفیظ جالندھری نے۔ میں فوراً بولا۔
انٹرویو پینل:کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا قومی ترانہ سارا کا سارا فارسی میں ہے۔ ایک صاحب نے دوسرے کی جانب دیکھتے ہوئے مجھ سے تصدیق چاہی۔
قومی ترانے کی بحث چونکہ نئی نہیں تھی بلکہ اس پر کئی بار بہت سے لوگ پوائنٹ سکورنگ کرچکے تھے اس لیے اس حوالے سے مجھے تھوڑا بہت تو علم تھا۔ اس لیے گویا ہوا
’’جی نہیں سر یہ فارسی میں نہیں ہے‘‘۔
انٹرویو پینل: ہیں؟ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟ اس میں سنا ہے صرف ایک لفظ اردو کا ہے باقی سارا فارسی میں ہے۔
بندہ ناچیز: سر کہنے والوں میں تو وہ سیاست دان بھی شامل ہیں جواردو کو سرکاری زبان قرار دینے پر سر تا پا احتجاج بنے ہو ئے ہیں اور بھونڈے پن کی انتہا یہ کہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کی اولین شرط یہ پیش کرتے ہیں کہ پہلے قومی ترانے کو اردو میں پیش کرو اس کے بعد اردو کو سرکاری زبان قرار دیا جائے۔
نٹرویو پینل:آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ فارسی میں نہیں ہے؟
بندہ ناچیز: سروہ اس طرح کہ قومی ترانے کے الفاظ سارے کے سارے اردو میں مستعمل ہیں۔ کوئی بھی لفظ ہمارے لیے غیر مانوس یا اجنبی نہیں ہے۔ اگر اردو میں فارسی شامل نہ ہوتی تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ اسے بھی اردو میں ہونا چاہیے لیکن اب چونکہ اردو فارسی اور عربی کے کثیر الفاظ سے بھری پڑی ہے تو اس قسم کے اعتراضات کوئی معنی نہیں رکھتے۔
انٹرویو پینل: اس کا مطلب ہے کہ آپ یہ مانتے ہیں کہ یہ فارسی قومی ترانہ ہے؟
بندہ ناچیز:یہ بات کسی حد تک درست ہوسکتی ہے سرمکمل طور پر نہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ قومی ترانے کا کوئی بھی فارسی لفظ اردو میں بعینہ مستعمل نہ ہو۔جب سب الفاظ ہمارے ہاں مستعمل ہیں تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہماری زبان کا حصہ نہیں ؟
انٹرویو پینل: ’’ٹھیک ہے ۔ آپ جا سکتے ہیں‘‘۔ انٹرویو پینل نے میرے کاغذات میرے حوالے کردیے۔
نٹرویو کے بعد میں ایک عزیز دوست کے ساتھ بیٹھا دیر تک اس موضوع پر گفتگو کرتا رہا۔ ہم دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کا دامن بہت وسیع ہے۔ اس میں بہت ساری زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ اب اگر ہم ان سب زبانوں کے الفاظ نکال کر اردو کا چہرہ دکھانے کی کوشش کریں تو یقیناًیہ ایک مسخ شدہ چہرہ ہوگاجس میں شاید ایک آنکھ نہ ہو، ایک کان کٹا ہو،دانت نہ ہوں یا باہر کی جانب پھیل کر بدنما دکھتے ہوں وغیرہ وغیرہ ۔ اردو کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ یہ اپنے دامن میں بہت سے الفاظ کو سمیٹے ہوئے ہے اسی وجہ سے کبھی محققین کہتے ہیں کہ یہ سندھ سے شروع ہوئی، کبھی پنجاب سے اورکبھی دکن سے۔ہر خطے کی روایات، الفاظ اور کلچر اس میں شامل ہیں۔ قومی ترانے کی بحث سے بہت سے لوگ مسائل کو طول دینا چاہتے ہیں، سستی شہرت چاہتے ہیں یاپھر اردو کے چہرے کو مسخ کرنے کی مذموم سازش کرتے رہتے ہیں ۔ قومی ترانے کو مکمل فارسی ترانہ تسلیم بھی کرلیا جائے تو یہ مباحث باقی رہیں گے کہ کیا اردو سے باقی تمام زبانوں کے تمام الفاظ کو بے دخل کر دیا جائے ؟ کیا اردو گرائمر کے لیے عربی اور فارسی زبان سے بالکل رجوع نہ کیا جائے ؟ کیا اس ایسی نئی اردو کو (جس سے عربی فارسی کے تمام الفاظ نکال دیے گئے ہوں)اردو کہا جائے ؟ کیا یہ سب کرنے سے اردو کی شان بلند ہوگی ، اس کے دامن میں مزید وسعت پیدا ہوگی ، یہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے گی ؟؟؟
http://sheheryar.es/?p=6560