عثمان غازی
محفلین
ایسا ہمیشہ کیوں ہوتاہے کہ جب پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کامیابی کے جھنڈے گاڑرہی ہوتی ہے تو سب اسے پاکستان کی کامیابی قراردیتے ہیں اور جب یہ ٹیم ہار جاتی ہے تو پنجاب الیون کاطعنہ دیاجاتاہے ،کرکٹ چیمپئنز ٹرافی کے مقابلوں میں قومی ٹیم ہارگئی ، ایسا کیوں ہوا کہ اس ہار کو پاکستان کی شکست کہنے کے بجائے نفرت کے بیوپاریوں نے ساراملبہ پنجاب پہ ڈال دیا، ایساکیوں کہاگیاکہ پنجاب کے کھلاڑیوں کو قومی ٹیم میں لیاجاتاہے ، دیگرشہروں کے کھلاڑیوں کو نظراندازکیاجاتاہے، ایساہمیشہ کیوں ہوتاہے کہ ہماری ہر محرومی اورمایوسی کانشانہ پنجاب بنتاہے
اور یہ کوئی آج کا قصہ تو نہیں ہے، ڈھاکا میں جب دوقومی نظریئے کے مقابلے میں رنگ ، نسل اور زبان کا نعرہ بلندکیاگیاتو بہاریوں کوپنجابی کہہ کرچن چن کرماراگیا، ایساہمیشہ کیوں ہوتاہے کہ پنجابی استعمار کی آوازبلندہوتی ہے اور پھر کبھی پاکستان کو دولخت کیاجاتاہے تو کبھی پاکستان کو دولخت کرنے کی باتیں ہوتی ہیں، بلوچستان میں ہر غیربلوچ قوم پرستوں کے نزدیک پنجابی ہے ، وہ پنجابی کا نعرہ بلندکرکے ہزارہ وال کو بھی مارتے ہیں ، پنجابی کا نعرہ بلندکرکے پاکستان کے اثاثے گیس پائپ لائنوں کوبھی دھماکے سے اڑادیا جاتا ہے، کیاپاکستان کا نقصان ہی پنجاب سے انتقام ہے
کالاباغ ڈیم نہیں بنے گاکیوں کہ یہ پنجاب کی سازش ہے ، پاکستان کی فوج ایک پنجابی فوج ہے ، پنجابی سندھ کی زمینوں پر قبضہ کررہے ہیں ، پنجاب کی پورے پاکستان پر بالادستی ہے ، اسٹیبلشمنٹ پنجابیوں کوسپورٹ کرتی ہے ، بیوروکریسی پر پنجابیوں کا راج ہے ، ایسا ہمیشہ کیوں ہوتاہے کہ پنجاب کے نام پر ملکی منصوبوں اوراداروں کو نشانہ بنایاجاتاہے
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پنجاب پاکستان کی آبادی کے ساٹھ فیصدکی نمائندگی کرتاہے، اگریہ ساٹھ فیصدنوکری کریں گے تو ظاہر ہے کہ پاکستان کے ہرادارے میں ان کی اکثریت ہوگی ، اس سادہ سے نکتے کو دیگر قومیتوں والے کیوں نہیں سوچتے ، اگرپنجابی فوج میں بھرتی ہونا بندکردیں تو کیااس بات کی ضمانت ہے کہ پاکستان کی دیگرقومیتوں کے لوگ اسی خشوع وخضوع سے فوج میں جائیں گے ، جس جوش سے پنجابی نوجوان جاتے ہیں، کیایہ حقیقت نہیں ہے کہ ملک بھر میں فوج کی اسامیوں کا اعلان ہوتاہے تو دیگر قومیتوں کے اکثریتی افراداپنے رجحان کے باعث فوج میں شمولیت سے گریز کرتے ہیں اور کوئی وائٹ کالرجاب کو ترجیح دیتاہے تو کوئی کاروبارکرناچاہتاہے، کسی کے نزدیک فوج میں شمولیت سے کھیتی باڑی زیادہ اہم ہے تو کوئی فوج میں بھرتی کے بجائے بیرون ملک کے خواب دیکھتاہے، ملک کی دیگرقومیتوں کے برعکس فوج میں شمولیت کارجحان پنجاب اورپھر خیبرپختونخواکے نوجوانوں میں ہے ، اکثرفوج کی اسامیاں دیگرصوبوں کے لیے جاری ہوتی ہیں توان میں بھی ان صوبوں کے رہنے والے پنجابی اور پختون اپنی فطری دلچسپی کے باعث بھرتی ہوجاتے ہیں ،اگرپاکستان کی فوج صرف پنجاب کی نمائندہ ہے تو کیوں اس کے 14 جرنیلوں میں سے سات کا تعلق پنجاب کے علاوہ دیگرقومیتوں سے تھا مگر ایسا ہمیشہ کیوں ہوتاہے کہ فوج کو پنجابی ہونے کا طعنہ دیاجاتاہے
بیوروکریسی میں اگرپنجاب کے رہنے والے زیادہ ہیں تو وہ اس ملک کا ساٹھ فیصد بھی تو ہیں، کیاساٹھ فیصدکایہ حق نہیں بنتاکہ ان کو اسی تناسب سے نوکریاں ملیں، ان کے حقوق ان کی آبادی کے تناسب سے ان کو مہیاہوں،گریڈ ایک سے بائیس میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے ملازمین لگ بھگ 47فیصد ہیں،کیا یہ تناسب آبادی کے حساب سے نہیں ہے،ایسا ہمیشہ کیوں ہوتاہے کہ حقائق کوجانے بغیر تمام الزامات پنجاب پر لگادیئے جاتے ہیں ، کیاپنجاب کا کوئی حق نہیں ہے
اگرپنجاب اتنا براہے ، جتنابیان کیاجاتاہے تو پھر اس جنگ میں پنجاب کے بجائے توپوں کا رخ پاکستان کی جانب کیوں موڑدیاجاتاہے ، پنجاب اوردیگرقومیتوں کی جنگ میں پاکستان نے کیابگاڑاہے، ہر پنجاب مخالف لیڈرنے کسی نہ کسی مرحلے پرکیوں علیحدگی کا نعرہ بلندکیاہے، پنجاب اگردیگرصوبوں کی بنسبت ترقی یافتہ ہے تووہاں کا ٹیکس کلچربھی تودوسرے صوبوں سے اچھاہے، اندرون سندھ ، بلوچستان اور خیبرپختونخواکے اکثریتی علاقوں کی طرح پنجاب کے دوردرازعلاقوں میں مفت بجلی کا رواج نہیں ہے، بہرحال وہاں دیگرصوبوں کے مقابلے میں بہتر نظم ونسق رہاہے ، ایسے وسائل ملیں تو آج موہن جوڈرواورہڑپہ بھی ترقی کےراستے پر گامزن ہوجائیں تو پھر کیوں ہمیشہ ان باتوں پر پنجاب پر لعن طعن کی جاتی ہے ، پنجاب سے انتقام میں دیگرقومیتوں کے افرادپاکستان سے نفرت کی کیوں بات کرنے لگتے ہیں، ایسا کیوں نہیں ہوتاکہ وہ پنجاب کو شکست دینے کے لیے خود ترقی کے راستوں کی جانب سفرکریں
ایک کثیرالقومی ریاست میں قومیتوں کے درمیان اختلافات فطری ہیں، پوری دنیامیں یہ اختلافات ہوتے ہیں مگر ان اختلافات کو قومیتوں تک محدودرکھاجاتاہے، ملک پر بات نہیں آنے دی جاتی مگر پاکستان کا یہ المیہ رہاہے کہ جہاں کہیں کسی کی کوئی حق تلفی ہوئی اور پاکستان پر ہی انگلیاں اٹھنی شروع ہوگئیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت سی قومیتوں کے بہت سے مواقعوں پر حقوق غصب ہوئے ہیں، آپادھاپی تو اس خطے کی روایت ہے، اپنے فائدے کی خاطردوسرے کو دبانے کی کوشش توہرمعاشرے کاایک فطری جزوہے مگر اس کایہ مطلب کیوں اخذکیاجاتاہے کہ یہ سب پاکستان کا قصورہے ، اگرکسی کے حقوق غصب ہوئے ہیں تو وہ ان کے حصول کی جنگ لڑے ، پاکستان ہماراگھرہے، ہم آپس میں لڑیں ، ایک دوسرے کے حقوق چھینیں یا فراہم کریں ، یہ سب ملک کی بقاپر سمجھوتہ کیے بغیر ممکن ہے اوریہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں کوئی قومیت ایسی نہیں ہے جو مکمل طور پر مظلوم ہو، ہر کوئی کہیں غاصب تو کہیں مظلوم ہے ، اس جنگ میں جس کے جو ہاتھ آتاہے ، وہ حاصل کرلیتاہے، جو جس کو دبانا چاہتاہے ، دبالیتاہے اوریہ کوئی انوکھی بات بھی نہیں ہے، ہم انسان ہیں، ایساکرناہماری فطرت ہے، دنیاکی تمام کثیرالقومی ریاستوں میں ایساہی ہوتاآیاہے مگر جن کثیرالقومی ریاستوں میں ملک کی بقاپر ہی سوال اٹھے ہیں تو پھر ان کا نام تاریخ میں تو لکھاہے ، وہ حال میں کہیں نظرنہیں آتیں
قوم پرستی کے نعرے میں بڑی طاقت ہوتی ہے، یہ انسان کی عقل کوسلب کرلیتاہے، یہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کرکے مایوسی کی نمو کاسبب بنتاہے، کسی سے محبت کی بات کرنادنیامیں سب سے مشکل ہے ، اس کو کوئی سنتابھی نہیں مگر کسی کے خلاف نفرت کانعرہ بلندکرکے بڑے سے بڑامجمع اکٹھاکیاجاسکتاہے، کسی انسان کو یہ ثابت کرناکہ وہ مظلوم ہے، کوئی مشکل کام نہیں ہے اورپاکستان میں نفرت پھیلانے والے عناصرنے اسی بشری کمزوری کااستعمال کیاہے، قوم پرست پنجاب سمیت تمام قومیتوں میں موجود ہیں، ان لوگوں نے اپنی قومیت کے معصوم لوگوں کو گمراہ کن مغالطوں کے جالے میں پھنسایاہواہے، یہ جالااگرچہ مکڑی کے جالے سے بھی کمزورہے مگر اس جالے کا ایک نشہ ہے، مظلوم ہونے کی ایک لذت ہے، نفرت اورانتقام کا اپنا ایک مزہ ہے، کوئی اس سے نکلنانہیں چاہتا
پنجاب کے خلاف نفرت کو استعمال کرکے پاکستان کو نشانہ بنانے کی روایت ہر دورمیں دہرانے کی کوشش کی گئی ہے، اسی روایت کا ایک نتیجہ تھاکہ ڈھاکامیں دوقومی نظریئے کونشانہ بنایاگیا ، اگرکسی کو پنجاب سے اس لیے نفرت ہے کہ اس نے کوئی حق غصب کیاہے اوروہ اس حق کو واپس لیناچاہتاہے تو بلاشبہ یہ کوئی قابل اعتراض عمل نہیں ہے مگر پنجاب کی آڑمیں پاکستان پر ہی لعن طعن کہاں کا انصاف ہے
یہ 1971نہیں ہے، یہ 2013ہے ، ملک کی ساٹھ فیصدآبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اوراب یہ نوجوان نہ پنجابی ہیں اورنہ پختون ، نوجوانوں کی فکر نہ مہاجرہے اورنہ بلوچ ، نوجوان وادی مہران کی ثقافت کے امین ضرورہیں مگر ان کے دل پاکستانی ہیں ، یہ نوجوان پاکستان کی اساس ہیں اور کوئی قوم پرست اب ان نوجوانوں کو کسی محرومی کا بہکاوادے کر کسی بھی قومیت سے نفرت کی جانب مائل نہیں کرسکتا، اب کوئی نہیں کہہ سکتاکہ قومی کرکٹ ٹیم پنجاب الیون ہے، وہ جیت کرآئیں یاہارکر، وہ ہمارے ہیں ،اگرقوم پرستی کے نعرے میں اتنی ہی جان ہے تو مستقبل کا مؤرخ لکھ لے کہ پاکستان میں ایک اورقوم پرست طبقہ بیدارہورہاہے، ساٹھ فیصدنوجوانوں پر مشتمل یہ قوم پرست پاکستان سوچتے ہیں، پاکستان بولتے ہیں، پاکستان سنتے ہیں، پاکستان کرتے ہیں اورپاکستان کرکے دکھاتے ہیں، یہ پاکستانی قوم پرست ہیں، یہ کسی بھی رنگ ، نسل اورزبان کا ہوکر کسی دوسرے رنگ ، نسل اورزبان والی اپنی پاکستانی قومیت کی وکالت کرسکتے ہیں جیسے راقم نے پاکستان کے لیے پنجاب کی وکالت کی ۔۔۔ایک اردواسپیکنگ مہاجرہوکر۔۔ایک کراچی والاہوکر۔۔!