عبدالرزاق قادری
معطل
پاکستان کا ’’سیکولرآئین‘‘؟ کالم نگار | اثر چوہان
09 اکتوبر 2013
کالعدم تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اپنے تازہ ترین ویڈیو انٹرویو میں حکومت پاکستان سے مذاکرات کے لئے ایک اور نکتہ اٹھایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’ہم مذاکرات کے خواہشمند ہیں لیکن ہم سیکولر پاکستانی آئین کے تحت مذاکرات کبھی بھی نہیں کریں گے۔ ہم سیکولر نظام کے باغی ہیں، جبکہ پاکستان کا آئین سیکولر اقوام کا ایجنڈا ہے‘‘۔ ترجمان نے کہا ’’مذاکرات سے ہمارا مقصد ملک میں شریعت نافذ کرنا ہے۔ طالبان قبائلی علاقوں سے نکل کر پاکستان کے شہروں تک پہنچ گئے ہیں اب ہمارا ہدف اسلام آباد ہے، ہم اسلام آباد کو بھی ’’حقیقی اسلام آباد‘‘ بنائیں گے اور وہاں تمام فیصلے شریعت کے مطابق ہوں گے۔‘‘ شاہد اللہ شاہد نے مذاکرات سے پہلے طالبان کے مطالبات پھر دہرائے اور کہا کہ ’’حکومت پاکستان جنگ بندی میں پہل کرے، تمام طالبان قیدیوں کو جیلوں سے رہا کرے، قبائلی علاقوںاور صوبہ خیبر پختوانخوا سے فوج واپس بلائے اور ڈرون حملے بھی بند کرائے۔‘‘
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا تھا کہ ’’مذاکرات سے پہلے طالبان اور دوسرے عسکریت پسند گروہ ہتھیار پھینک دیں اور پاکستان کے آئین کو تسلیم کرلیں۔‘‘ طالبان کے ترجمان نے کہا کہ ’’وزیراعظم نے یہ کیا کہہ دیا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے!‘‘ اس لحاظ سے تو طالبان کے ترجمان کا بیان درست ہے۔ اس لئے کہ 9 ستمبر کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں مذاکرات کے لئے طالبان پر یہ شرط عائد نہیں کی گئی تھی اور انہیں ’’دہشت گرد‘‘ قرار دینے کے بجائے ’’ہمارے اپنے لوگ‘‘ اور ’’سٹیک ہولڈرز‘‘ کہا گیا تھا۔اس کے باوجود ’’ہمارے اپنے لوگوں‘‘ نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ پاک فوج کے میجر جنرل اور ان کے ساتھیوں کو شہید کرکے ان کی شہادت کی ذمہ داری قبول کی اور پشاور کے گرجا گھر میں عبادت میں مصروف مسیحی برادری کے لوگوں کی جان بھی لے لی، جن میں بزرگ، عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ تین چار روز پہلے بی۔بی۔سی کو انٹرویو دیتے ہوئے شاہد اللہ شاہد نے کہا تھا کہ ’’اگرچہ پشاور کے چرچ پر حملہ ہم نے نہیں کیا، لیکن یہ حملہ شریعت کے عین مطابق تھا۔‘‘
یہ کہاں کی شریعت ہے؟ پیغمبر اسلامؐ نے تو اقلیتوں کو جان اور مال کے تحفظ کی ضمانت دی تھی۔ آپؐ نے لشکر اسلام کو غیر مسلم بزرگوں، عورتوں اور بچوں کے قتل کی ممانعت کی تھی اور پھر پشاور کے گرجا گھر میں تو عبادت گزار لوگ جمع تھے۔ خدانخواستہ اگر طالبان نے اسلام آباد کو ’’حقیقی اسلام آباد‘‘ بنا دیاتو کیا ہوگا؟ شاہد اللہ شاہد نے اپنے ویڈیو انٹرویو میں عمران خان پر بھی تنقید کی اور کہا ’’عمران خان سیکولر نظام کا حصہ ہیں۔ اگر وہ مذاکرات کے اتنے ہی شوقین ہیں تو اس ’’کفر کے نظام‘‘ سے باہر آ کر مذاکرات کی بات کریں!‘‘ حیرت ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق کی قیادت میں جمعیت علماء اسلام کے دونوں گروپ اور جماعت اسلامی، قیام پاکستان کے بعد سے ہی ’’پارلیمانی جمہوریت‘‘ (بقول شاہد اللہ شاہد) ’’کفر کے نظام‘‘ کا حصہ چلے آرہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن‘ مولانا سمیع الحق اور سیدمنور حسن کو کیوں رعایت دی جا رہی ہے؟۔
1973ء کے متفقہ آئین پر‘ قومی اسمبلی میں موجود علما اور مختلف مذہبی جماعتوں کے قائدین اور ارکان نے بھی دستخط کئے تھے۔ وہی آئین مختلف ترامیم کے بعد ملک میں نافذ ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں، حکومت اور طالبان میں مذاکرات کی بات ہوئی تو طالبان نے مذاکرات کی کامیابی کے لئے، میاں نواز شریف‘ عمران خان، مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن کی ضمانت طلب کی تھی۔ میاں نوازشریف وزیراعظم منتخب ہوئے تو ان کا نام ’’ضامنوں‘‘ کی فہرست میں سے نکال دیا گیا اور اب بدنامی کی حد تک طالبان سے ہمدردی رکھنے والے عمران خان (طالبان خان) سے بھی اعلان لاتعلقی کر دیا گیا۔ طالبان کے ’’باپ‘‘ کہلانے والے مولانا سمیع الحق کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ’’حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہونا چاہئے کہ ’’پاکستان، امریکہ کی جنگ سے کیسے نکلے؟ اور مولانا نے یہ ’’نسخہ کیمیا‘‘ نہیںبتایا کہ پاکستان ان کے بیٹوں کی طرف سے پاکستان کے معصوم اور بے گناہ لوگوں پر مسلط کی گئی جنگ سے کیسے باہر نکلے؟۔
دراصل حکومت پاکستان اور طالبان کی جنگ کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ انگریزی حکومت کے خلاف تحریک آزادی میں، سبھی قومیں اکٹھی تھیں لیکن مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے قیام کی علمبردار آل انڈیا مسلم لیگ تھی۔ کانگریسی علما اور وہ علماء بھی جو قیام پاکستان کے مخالف تھے، اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے تھے کہ دنیا بھر میں جمہوری حکومتیں قائم ہو رہی تھیں اور "ONE PERSON ONE VOTE" کا نظریہ تسلیم کر لیا گیاتھا۔ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ نے عالمی جمہوری تحریکوں کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا تھا۔ سر سید احمد خان پہلے ہی دو قومی نظریہ کی تبلیغ کا آغاز کر چکے تھے۔ قیام پاکستان کی تحریک میں کئی مذہبی قائدین، علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے خلاف کفر کے فتوے داغ چکے تھے۔ پاکستان کو ’’احمقوں کی جنت‘‘ قرار دیا گیا اور قائداعظمؒ کو ’’کافراعظم‘‘۔
قیام پاکستان کے بعد مذہبی قائدین نے انتخابات کو ’’حرام‘‘ قرار دیا۔ پھر مجبوراً حصہ لیا اور جب کامیابی نہ ملی تو ہر کسی نے یہ اعلان کیا کہ ’’پاکستان میں انتخابات کے ذریعے اسلام نافذ نہیں ہوسکتا۔‘‘
متحدہ مجلس عمل(ایم ایم اے) مختلف المسالک مذہبی جماعتوں پر مشتمل تھی، جس کے اکابرین کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے اب بھی ریکارڈ پر موجود ہیں، لیکن جب تک ایم ایم اے فعال رہی۔ چشم فلک نے اس کے قائدین کو ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز پڑھتے دیکھا۔ طالبان ایم ایم اے میں شامل مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن کی زیر قیادت، جمعیت علما اسلام کے دونوں گروپوں کی سرپرستوں میں چل رہے مذہبی مدرسوں کی پیداوار ہیں۔ ان مدرسوں میں ’’مطالعہ پاکستان‘‘ کا مضمون نہیں پڑھایا جاتا۔ بھلا کانگرسی علماء کی معنوی اولاد کو دو قومی نظریہ کے علمبرداروں سر سید احمد خان، علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی قومی خدمات سے کیوں آگاہ کیا جائے۔ یہ بات ’’جمہوریت کے نام پر‘‘ قائم ہونے والی کسی بھی حکومت کو سمجھ میں نہیں آئی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر ہونے کی حیثیت سے وزیراعظم نوازشریف اس وقت ’’قائداعظمؒ کی کرسی‘‘ پر بیٹھے ہیں لہٰذا قائداعظمؒ کی وراثت مسلم لیگ کے افکار و نظریات کے مطابق پاکستان کو مثالی‘ اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی مملکت بنایا جائے یا اس کے آئین کو تسلیم نہ کرنے والے، جمہوریت کو کافرانہ نظام قرار دینے والے ہتھیار بند گروہوں کے دبائو میں آ کر انہیں اپنی مرضی کی طالبان شریعت نافذ کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے؟۔ اور ہاں! مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن بھی بتائیں کہ کیا پاکستان کا آئین واقعی سیکولر ہے؟۔
بشکریہ: نوائے وقت