پاکستان کبھی انٹارکٹیکا اور آسٹریلیا کا پڑوسی تھا، ماہرین ارضیات

کعنان

محفلین
پاکستان کبھی انٹارکٹیکا اور آسٹریلیا کا پڑوسی تھا، ماہرین ارضیات
جمعہ 16 دسمبر 2016

679537-pangaeax-1481780243-219-640x480.jpg

ماہرین کے مطابق 30 کروڑ سال پہلے تمام براعظم ایک جگہ پر تھے جسے ’’پین جیا‘‘ (Pangaea) کہتے ہیں۔

کراچی: یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ سچ ہے کہ کسی زمانے میں پاکستان قطب جنوبی کے قریب ہوتا تھا اور اس کے پڑوس میں آسٹریلیا اور انٹارکٹیکا ہوا کرتے تھے۔

البتہ یہ واقعہ آج سے تقریباً 30 کروڑ سال پہلے کا ہے جس کے بارے میں ماہرینِ ارضیات کا کہنا ہے کہ تب دنیا کے تمام براعظم ایک جگہ پر
(ایک بہت ہی بڑے براعظم کی شکل میں) یکجا تھے جسے وہ ’’پین جیا/ پین گائیا‘‘ (Pangaea) کہتے ہیں۔

pangaea-01-1481780301.jpg

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سطح زمین پر براعظموں کے قریب آکر ملنے اور ٹوٹ کر دور جانے کا سلسلہ اربوں سال سے جاری ہے اور ’’پین جیا‘‘ اس سلسلے کا وہ تازہ ترین واقعہ ہے جب دنیا کے تمام براعظم ایک ہی جگہ پر، ایک ہی براعظم کی شکل میں موجود تھے جب کہ ان کے گرد ایک وسیع سمندر پھیلا ہوا تھا۔

یاد رہے کہ زمین کی سطح ٹھوس ضرور ہے لیکن سینکڑوں چٹانی ٹکڑوں میں ٹوٹی ہوئی بھی ہے جنہیں ’’ٹیکٹونک پلیٹیں‘‘ کہتے ہیں۔ زمین پر موجود تمام براعظم اور تمام سمندر ان ہی ٹیکٹونک پلیٹوں پر مشتمل ہیں۔ ٹیکٹونک پلیٹیں سمندر کے نیچے پتلی اور خشکی والے مقامات پر موٹی ہوتی ہیں۔

pangaea-02-1481780302.jpg

سطح زمین کے یہ ٹکڑے
(یعنی ٹیکٹونک پلیٹیں) مسلسل حرکت میں بھی رہتے ہیں، البتہ ان کی رفتار صرف چند ملی میٹر سالانہ جتنی ہی ہوتی ہے۔

آج سے 30 کروڑ سال پہلے بھی یہ ٹکڑے مسلسل حرکت کر رہے تھے جس کی وجہ سے ’’پین جیا‘‘ بتدریج مختلف براعظموں میں ٹوٹتا چلا گیا اور یہ براعظم آہستہ آہستہ سرکتے ہوئے ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔

جس ٹیکٹونک پلیٹ پر پورا برصغیر
(پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش وغیرہ) واقع ہیں، وہ بھی آج سے 30 کروڑ سال پہلے ’’پین جیا‘‘ ہی کا حصہ تھی اور قطب جنوبی کے پاس واقع تھی جس کے پڑوس میں موجودہ آسٹریلیا اور انٹارکٹیکا بھی موجود تھے۔

دوسری ٹیکٹونک پلیٹوں کی طرح یہ پلیٹ بھی ’’پین جیا‘‘ سے علیحدہ ہوگئی، البتہ اس نے شمال کی سمت میں حرکت کرنا شروع کردی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ برصغیر والی ٹیکٹونک پلیٹ
(جسے انڈین پلیٹ بھی کہا جاتا ہے) موجودہ مڈغاسکر سے جڑی ہوئی تھی۔

pangaea-03-1481780303.jpg

تقریباً 9 کروڑ سال پہلے یہ انڈین ٹیکٹونک پلیٹ، مڈغاسکر سے بھی الگ ہو گئی اور تقریباً 150 ملی میٹر سالانہ کی رفتار سے شمال کی سمت بڑھنے لگی۔ آج سے لگ بھگ 5 کروڑ سال پہلے انڈین پلیٹ نے یورپ اور ایشیا پر مشتمل ٹیکٹونک پلیٹ (یوریشین پلیٹ) سے ٹکرانا شروع کیا جس کی وجہ سے اس کی رفتار کم ہوتے ہوتے موجودہ 65 ملی میٹر سالانہ جتنی رہ گئی لیکن ساتھ ہی ساتھ اس عظیم تصادم کے نتیجے میں ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ بھی وجود میں آیا جہاں آج دنیا کے بلند ترین پہاڑ موجود ہیں۔

pangaea-04-1481780304.jpg

نیپال سے لے کر برصغیر پاک و ہند کے شمال اور پاکستان کے مغرب میں افغانستان اور ایران کی سرحد تک، اس پوری پٹی میں بار بار زلزلے آنے کی وجہ بھی انڈین پلیٹ کا یوریشین پلیٹ کے ساتھ مسلسل جاری تصادم ہے۔

pangaea-05-1481780305.jpg

ہمالیائی پٹی پر بھارتی پلیٹ ہر سال تھوڑی تھوڑی کرکے یوریشین پلیٹ کے نیچے غائب ہوتی جا رہی ہے اور اسی لیے ارضیات میں یہ جملہ بھی مشہور ہو گیا ہے: ہمالیہ، بھارت کو کھا رہا ہے!

ح
 

سید عمران

محفلین
اس زمانے میں انٹارکٹیکا پر برف بھی نہیں ہوتی ہوگی۔۔۔
یوں کنسڑکٹرز کے ہاتھ ایک اچھا موقع آجاتا۔۔۔
کراچی سے آگے تعمیرات کرنے کا!!!
:D:D:D:D:D
 
Top