کاشفی
محفلین
پاکستان کرکٹ میں صوبائیت پرستی بہت زیادہ ہے، واٹمور
گرین شرٹس کی کوچنگ انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کے لیے قبول کی،دولت کا کوئی عمل دخل نہیں، کوچ کا انٹرویو۔ فوٹو: فائل
کراچی: کوچ ڈیو واٹمور نے دعویٰ کیاکہ پاکستان کرکٹ میں صوبائیت پرستی بہت زیادہ ہے، کھلاڑی ایک شہر میں مقبول تو دوسرے میں کوئی اسے نہیں پوچھتا، دوسرے ممالک کے کھیل میں قوم پرستی مقدم ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان ٹیم کی کوچنگ انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کیلیے قبول کی، دولت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کیا۔ ڈیو واٹمور نے کہاکہ میں نے یہ ذمہ داری صرف دولت کیلیے حاصل نہیں کی، میں معاوضے کی تفصیل میں تو نہیں جانا چاہتا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ میں جو کما رہا تھا اس سے کم پر یہاں آیا، میں نے یہ جاب اس لیے قبول کی کیونکہ میں واپس انٹرنیشنل میں آنا اور ایک ایسی ٹیم کے ساتھ کام کرنا چاہتا تھا جو میرے خیال میں بہت کچھ حاصل کرسکتی ہے،انھوں نے کہا کہ پاکستانی ٹیم میں کافی صلاحیتیں ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ آئندہ برس ورلڈ ٹوئنٹی 20 جیت سکتی جبکہ میں اسے ورلڈ کپ بھی جیتتا ہوا دیکھنا پسند کروں گا۔ واٹمور اس سے قبل سری لنکا اور بنگلہ دیش کی کوچنگ کرچکے۔
اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ مذکورہ دونوں ممالک کی بانسبت میرا پاکستان کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ یکسر مختلف رہا، مگر میں نے ایک چیز محسوس کی کہ پاکستان کرکٹ میں صوبائیت پرستی بہت زیادہ ہے، میں نے ایک کھلاڑی کو ایک شہر میں بے پناہ مقبول جبکہ دوسری جگہ غیرمقبول دیکھا، یہی چیز پاکستان کرکٹ میں چھائی ہوئی ہے، دوسرے ممالک کی کرکٹ میں ہمیشہ قوم پرستی کو ہی مقدم رکھا جاتا ہے۔ واٹمور نے واضح کیا کہ مجھے خود پر ہونے والی تنقید کی کوئی پروا نہیں،لوگوں کو اپنی رائے ظاہر کرنے کی آزادی حاصل ہے، میں صرف یہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ یہ تنقید کس جانب سے ہو رہی ہے۔ غیرملکی اور مقامی کوچ کے حوالے سے ہونے والی بحث پر واٹمور نے کہا کہ میرے نزدیک زیادہ اہمیت ذمہ داری کیلیے بہترین شخص کے انتخاب کی ہے، میں نے یہ جاب اس لیے حاصل کی کیونکہ میں جانتا تھا کہ میں پاکستان کرکٹ کو کچھ دے سکتا ہوں۔
گرین شرٹس کی کوچنگ انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کے لیے قبول کی،دولت کا کوئی عمل دخل نہیں، کوچ کا انٹرویو۔ فوٹو: فائل
کراچی: کوچ ڈیو واٹمور نے دعویٰ کیاکہ پاکستان کرکٹ میں صوبائیت پرستی بہت زیادہ ہے، کھلاڑی ایک شہر میں مقبول تو دوسرے میں کوئی اسے نہیں پوچھتا، دوسرے ممالک کے کھیل میں قوم پرستی مقدم ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان ٹیم کی کوچنگ انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی کیلیے قبول کی، دولت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کیا۔ ڈیو واٹمور نے کہاکہ میں نے یہ ذمہ داری صرف دولت کیلیے حاصل نہیں کی، میں معاوضے کی تفصیل میں تو نہیں جانا چاہتا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ میں جو کما رہا تھا اس سے کم پر یہاں آیا، میں نے یہ جاب اس لیے قبول کی کیونکہ میں واپس انٹرنیشنل میں آنا اور ایک ایسی ٹیم کے ساتھ کام کرنا چاہتا تھا جو میرے خیال میں بہت کچھ حاصل کرسکتی ہے،انھوں نے کہا کہ پاکستانی ٹیم میں کافی صلاحیتیں ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ آئندہ برس ورلڈ ٹوئنٹی 20 جیت سکتی جبکہ میں اسے ورلڈ کپ بھی جیتتا ہوا دیکھنا پسند کروں گا۔ واٹمور اس سے قبل سری لنکا اور بنگلہ دیش کی کوچنگ کرچکے۔
اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ مذکورہ دونوں ممالک کی بانسبت میرا پاکستان کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ یکسر مختلف رہا، مگر میں نے ایک چیز محسوس کی کہ پاکستان کرکٹ میں صوبائیت پرستی بہت زیادہ ہے، میں نے ایک کھلاڑی کو ایک شہر میں بے پناہ مقبول جبکہ دوسری جگہ غیرمقبول دیکھا، یہی چیز پاکستان کرکٹ میں چھائی ہوئی ہے، دوسرے ممالک کی کرکٹ میں ہمیشہ قوم پرستی کو ہی مقدم رکھا جاتا ہے۔ واٹمور نے واضح کیا کہ مجھے خود پر ہونے والی تنقید کی کوئی پروا نہیں،لوگوں کو اپنی رائے ظاہر کرنے کی آزادی حاصل ہے، میں صرف یہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ یہ تنقید کس جانب سے ہو رہی ہے۔ غیرملکی اور مقامی کوچ کے حوالے سے ہونے والی بحث پر واٹمور نے کہا کہ میرے نزدیک زیادہ اہمیت ذمہ داری کیلیے بہترین شخص کے انتخاب کی ہے، میں نے یہ جاب اس لیے حاصل کی کیونکہ میں جانتا تھا کہ میں پاکستان کرکٹ کو کچھ دے سکتا ہوں۔