حیدرآبادی
محفلین
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ ہندوستان سے بہت پرانی ہے۔ جب آٹھویں صدی میں محمد بن قاسم اسلام پھیلانے برصغیر تشریف لائے تو یہ جان کر شرمندہ ہوئے کہ یہاں تو پہلے ہی اسلامی ریاست موجود ہے۔
یہاں کفر کا جنم تو ہوا جلال الدین اکبر کے دور میں ، جو اسلام کو جھٹلا کر اپنا مذہب بنانے کو چل دیا، شاید "اللہ اکبر" کے لغوی معنی لے گیا تھا۔
بہرحال ، ان کافروں نے بت کشی اور مےکشی جیسے غیرمناسب کام شروع کر دئے اور اپنے آپ کو ہندو بلانے لگے۔ شراب کی آمد سے پاکستان کے مسلمانوں کی وہ طاقت نہ رہی جو تاریخ کے تسلسل سے ہونی چاہئے تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مسلمان شراب پینے لگ پڑے تھے ، بلکہ یہ کہ ان کی ساری قوتِ نفس شراب کو نہ پینے میں وقف ہو جاتی تھی ، حکمرانی کے لئے بچتا ہی کیا تھا؟
اس کے باوجود مسلمانوں نے مزید دو سو سال پاکستان پر راج کیا ، پھر کچھ دنوں کے لئے انگریزوں کی حکومت آ گئی (ہماری تفتیش کے مطابق یہی کوئی چالیس ہزار دن ہوں گے)۔
سن 1900 تک پاکستان کے مسلمانوں کی حالت ناساز ہو چکی تھی۔ اس دوران ایک اہم شخصیت ہماری خدمت میں حاضر ہوئی ، جس کا نام علامہ اقبال تھا۔
اقبال نے ہمیں دو قومی نظریہ دیا۔ یہ ان سے پہلے سید احمد خان نے بھی دیا تھا، مگر انہوں نے زیادہ دیا۔ اس نظریے کے مطابق پاکستان میں دو فریق قومیں موجود تھیں، ایک حکمرانی کے لائق مسلمان قوم اور ایک غلامی کے لائق ہندو قوم۔ ان دونوں کا آپس میں سمجھوتا ممکن نہیں تھا۔
سید احمد خان نے بھی مسلمانوں کے لئے ان تھک محنت کی ، مگر بیچ میں انگریز کے سامنے سر جھکا کر "سر" کا خطاب لے لیا۔ انگریزی تعلیم کی واہ واہ کرنے لگے۔
بھلا انگریزی سیکھنے سے کسی کو کیا فائدہ تھا؟ ہر ضروری چیز تو اردو میں تھی۔ غالب کی شاعری اردو میں تھی ، مراۃ العروس اردو میں تھی ، قرآن مجید کا ترجمہ اردو میں تھا۔
انگریزی میں کیا تھا؟ اردو لغت بھی انگریزی سے بڑی تھی۔ پرانی بھی۔ صحابہ کرام اردو بولتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) خود بھی۔ آپ نے اکثر حدیث سنی ہوگئی : "دین میں کوئی جبر نہیں"۔ یہ اردو نہیں تو کیا ہے؟
بہرحال ، اقبال سے متاثر ہو کر ایک گجراتی بیرسٹر نے انگریزوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تحریک شروع کر دی۔ اس تحریک کا قوم نے جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کیا۔
اس بیرسٹر کا نام محمد علی جناح عرف قائد اعظم تھا۔ انہوں نے پاکستان سے عام تعلیم حاصل کرنے کے بعد برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بیرسٹر بن گئے۔
قائد اعظم کو بھی "سر" کا خطاب پیش کیا گیا تھا ، بلکہ ملکہ برطانیہ تو کہنے لگی کہ اب سے آپ ہمارے ملک میں رہیں گے، بلکہ ہمارے محل میں رہیں گے اور ہم کہیں کرائے پر گھر لے لیں گے۔ مگر قائد کی سانسیں تو پاکستان سے وابستہ تھیں، وہ اپنے ملک کو کیسے نظر انداز کر سکتے تھے؟
1934 میں قائد واپس آئے تو پاکستان کا سیاسی ماحول بدل چکا تھا۔ لوگ مایوسی میں مبتلا تھے۔ ادھر دوسری جنگ عظیم شروع ہونے والی تھی اور گاندھی جی نے اپنی فحش ننگ دھڑنگ مہم چلا رکھی تھی، کبھی اِدھر کپڑے اتارے بیٹھ جاتے تھے ، کبھی اُدھر۔
ساتھ ایک نہرو نامی ہندو اقبال کے دو قومی نظریے کا غلط مطلب نکال بیٹھا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ نہرو بچپن سے ہی علیحدگی پسند تھا۔ گھر میں علیحدہ رہتا تھا، کھانا علیحدہ برتن میں کھاتا اور اپنے کھلونے بھی باقی بچوں سے علیحدہ رکھتا تھا۔
نہرو کا قائد اعظم کے ساتھ ویسے بھی مقابلہ تھا۔ پڑھائی لکھائی میں ، سیاست میں ، محلے کی لڑکیاں تاڑنے میں ، ظاہر ہے جیت ہمیشہ قائد کی ہوتی تھی۔ لاء کے پرچوں میں بھی ان کے نہرو سے زیادہ نمبر تھے ، مرنے میں بھی پہل انہوں نے ہی کی۔
آزادی قریب تھی ، مسلمانوں کا خواب سچا ہونے والا تھا، پھر نہرو نے اپنا پتا کھیلا۔ کہنے لگا کہ ہندوؤں کو الگ ملک چاہئے۔ یہ صلہ دیا انہوں نے اُس قوم کا ، جس نے انہیں جنم دیا ، پال پوس کر بڑا کیا ، ہماری بلی ہمیں کو میاؤں؟
نہرو کی سازش کے باعث جب 14 اگست 1947 کو انگریز یہاں سے لوٹ کر گئے تو پاکستان کے دو حصے کر گئے۔
علیحدگی کے فوراً بعد ہندوستان نے کشمیر پر قبضے کا اعلان کر دیا۔ دونوں ملکوں کے پٹواری فیتے لے کر پہنچ گئے۔ ہمسائے ممالک فطرت سے مجبور تماشا دیکھنے پہنچ گئے۔ خوب تو تو میں میں ہوئی ، گولیاں چلیں ، بہت سارے انسان زخمی ہوئے ، کچھ فوجی بھی۔
پھر ہندوؤں نے ایک اور بڑی سازش یہ کی ، کہ پاکستان سے جاتے ہوئے ہمارے دو تین دریا بھی ساتھ لے گئے۔ یہ پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا کہ بھائی ، چاہئے تو نہیں؟ کپڑے وغیرہ دھو لئے؟ بھینسوں نے نہا لیا؟
یہ معاملات ابھی تک نہیں سلجھے، اس لئے ان پر مزید بات کرنا بیکار ہے۔ تاریخ صرف وہ ہوتی ہے جو سلجھ چکی ہو، یا کم از کم دفن ہو چکی ہو۔ جس طرح کہ قائد اعظم آزادی کے دوسرے سال میں ہو گئے۔
وہ اُس سال ویسے ہی کچھ علیل تھے اور کیونکہ قوم کی بھرپور دعائیں ان کے ساتھ تھیں ، اس لئے جلد ہی وفات پا گئے۔
جناح کی وفات کے بعد بہت سارے لوگوں نے قائد بننے کی کوشش کی۔ ان میں پہلے لیاقت علی خان تھے۔ کیونکہ خان صاحب علیل نہیں ہو رہے تھے (اور ان کو تین سال کا موقع دیا گیا تھا اس آسان مشق کے لئے) لہذا ان کو 1951 میں خود ہی مارنا پڑا۔
پھر آئے خواجہ ناظم الدین۔ اب نام کا ناظم ہو اور عہدے کا وزیر ، یہ بات کس کو لبھاتی ہے؟ اس لئے چند ہی عرصے میں گورنر جنرل غلام محمد نے ان کی چھٹی کرا دی۔
جی ہاں ، پاکستان میں اس وقت صدر کے بجائے "گورنر جنرل" ہوتا تھا۔ آنے والے سالوں میں اختصار کی مناسبت سے یہ صرف "جنرل" رہ گیا، گورنر غائب ہو گیا۔
جنرل کا عہدہ پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی عہدہ ہے۔ اس کے بعد کرنل ، میجر وغیرہ آتے ہیں، آخر میں وزیر مشیر آتی ہیں۔
پاکستان کی آزادی کے کئی سالوں تک کوئی ہمیں آئین نہ دے پایا۔ پھر جب اسکندر مرزا نے آئین نافذ کیا تو اس میں جرنلوں کو اپنا مقام پسند نہیں آیا۔ آئین اور اسکندر مرزا کو ایک ساتھ اٹھا کر پھینک دیا گیا۔
فیلڈ مارشل ایوب خان نے حکومت سنبھال لی۔ لڑکھڑا رہی تھی ، کسی نے تو سنبھالنی تھی۔ اس فیصلے کا قوم نے جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کیا۔
ایوب خان جمہوریت کو بےحال کرنے ، ہمارا مطلب ہے ، بحال کرنے آیا تھا۔ اصل میں جمہوریت قوم کی شرکت سے مضبوط نہیں ہوتی، عمارتوں اور دیواروں کی طرح سمنٹ سے مضبوط ہوتی ہے۔ فوجی سمنٹ سے۔ جی ہاں ، آپ بھی اپنی جمہوریت کے لئے فوجی سمنٹ کا آج ہی اتنخاب کریں۔
اس موقع پر شاعر نے کیا خوب کہا ہے : "فوجی سمنٹ : پائیدار ، لذت دار ، علمدار"۔
ایوب خان نے اپنے دور میں کچھ مخولیہ الیکشن کرائے تاکہ لوگ اچھی طرح ووٹ ڈالنا سیکھ لیں، اور جب اصل الیکشن کی باری آئے تو کوئی غلطی نہ ہو۔ مگر جب 1970 کے الیکشن ہوئے تو لوگوں نے پھر غلطی کر دی ، ایک فتنے کو ووٹ ڈال دئے ، جس پر آگے تفصیل میں بات ہوگی۔
ویسے ایوب خان کا دور ترقی کا دور بھی تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان کو منزل مقصود تک پہنچائیں گے۔ مقصود کون تھا اور کس منزل میں رہتا تھا، یہ ہم نہیں جانتے ، مگر اس اعلان کا قوم نے جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کیا۔
1965 میں ہندوستان نے ہماری ملکیت میں دوبارہ ٹانگ اڑائی۔ جنگ کا بھی اعلان کر دیا۔ لیکن بےایمان ہونے کا پورا ثبوت دیا، ہمیں کشمیر کا کہہ کر خود لاہور پہنچ گئے۔ ہماری فوج وادیوں میں ٹھنڈ سے بےحال ہو گئی اور یہ اِدھر شالیمار باغ کی سیریں کرتے رہے۔
اس دغابازی کے خلاف ایوب خان نے اقوام متحدہ کو شکایت لگائی۔ وہ خفا ہوئے اور ہندوستان کو ایک کونے میں ہاتھ اوپر کر کے کھڑے ہونے کی سزا ملی، جیسا کہ ملنی چاہئے تھی۔ اس فیصلے کا بھی قوم نے جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کیا۔
مگر ہندو وہ جو باز نہ آئے۔ 1971 میں جب ہم سب کو علم ہوا کہ بنگالی بھی دراصل پاکستان کا حصہ ہیں ، تو ہندو اُدھر بھی حملہ آور ہو گئے۔
اب آپ خود بتائیں ، اتنی دور جا کر جنگ لڑنا کس کو بھاتا ہے؟ ہم نے چند ہزار فوجی بھیج دئے، اتنا کہہ کر کہ اگر دل کرے تو لڑ لینا ، ویسے مجبوری کوئی نہیں ہے۔
مگر ہندوؤں کو خلوص کون سکھائے؟ انہوں نے نہ صرف ہمارے فوجیوں کے ساتھ بدتمیزی کی بلکہ انہیں کئی سال تک واپس بھی نہیں آنے دیا۔ بنگال بھی ہم سے جدا کر دیا اور تشدد کے سچے الزامات بھی لگائے۔ آخر سچا الزام جھوٹے الزام سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے ، کیونکہ وہ ثابت بھی ہو سکتا ہے۔
اس کے بعد دنیا میں ہماری کافی بدنامی ہوئی۔ لوگ یہاں آنا پسند نہیں کرتے تھے۔ بلکہ ہمارے ہمسایا ممالک بھی کسی دوسرے براعظم میں جگہ تلاش کرنے لگے کہ ان کے پاس تو رہنا ہی فضول ہے۔
ایسے موقع پر ہمیں ایک مستقل مزاج اور دانشور لیڈر کی ضرورت تھی ، مگر ہمارے نصیب میں ذوالفقار علی بھٹو تھا، جی ہاں وہی فتنہ جس کا کچھ دیر پہلے ذکر ہوا تھا۔
بھٹو ایک چھوٹی سوچ کا چھوٹا آدمی تھا۔ اس کے خیال میں مسلمانوں کی تقدیر روٹی ، کپڑے اور مکان تک محدود تھی۔ اس کے پاکستان میں محلوں اور تختوں اور شہنشاہی کی جگہ نہیں تھی، ہماری اپنی تاریخ سے محروم کر دینا چاہتا تھا ہمیں۔
بھٹو سے پہلے ہم روس سے استعمال شدہ ہتھیار منگاتے ہوتے تھے۔ بھٹو نے روس سے استعمال شدہ نظریہ بھی مانگ لیا۔ لیکن استعمال شدہ چیزیں کم ہی چلتی ہیں ، نہ کبھی ہو ہتھیار چلے نہ نظریہ۔
تمام صنعتیں ضبط کر کے سرکاری کھاتے میں ڈال دی گئیں۔ سرمایہ کاری کی خوب آتما رولی گئی، اس کو مجازی طور پر دفنا کر اس کی مجازی قبر پر مجازی مجرے کئے گئے۔
لوگوں سے ان کی زمینیں چھین لی گئیں، وہ زمینیں بھی جو انہوں نے کسی اور کے نام لکھوائی ہوئی تھیں۔ یہ ظلمت نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے تشویش ناک مرحلہ تھا۔ ایسے میں قومی سلامتی کے لئے آگے بڑھے حضرت جنرل ضیاءالحق (رحمۃ اللہ علیہ)۔
انہوں نے بھٹو سے حکومت چھین لی اور اس پر قاتل اور ملک دشمن ہونے کے الزامات لگا دئے۔ ضیاءالحق نے قانون کا احترام کرتے ہوئے بھٹو کو عدالت کا وقت ضائع نہیں کرنے دیا۔ بس الزام کی بنا پر ہی فیصلہ لے لیا اور بھٹو کو پھانسی دلوا دی۔ اس حرکت کا قوم نے جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کیا۔
حضرت ضیاءالحق پاکستانیوں کے لئے ایک نمونہ تھے، ہمارا مطلب ہے مثالی نمونہ۔ انہوں نے یہاں شریعت کا تعارف کرایا۔ حد کے قانون لگائے ، نشہ بندی کرائی۔ اس اقدام کا قوم نے جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کیا۔
ان کے دور میں ہماری فوج العظیم نے روس پر جنگی فتح حاصل کی۔ روس افغانستان میں جنگ لڑنے آیا تھا ، اس نے سوچا ہوگا کہ یہاں افغانیوں سے لڑائی ہوگی۔ یہ اس کی خام خیالی تھی۔
اس موقع پر شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔۔۔ "تیرا جوتا ہے جاپانی ، یہ بندوق انگلستانی ، سر پہ لال ٹوپی روسی ، پھر بھی جیت گئے پاکستانی"۔
آخر افسوس کہ اسلام کے اس مجاہد کے خلاف باہری طاقتیں سازش کر رہی تھیں۔ 1987 میں یہود و نصاریٰ نے ان کے جہاز میں سے انجن نکال کر پانی کا نلکا لگا دیا۔ اسلئے پرواز کے دوران آسمان سے گر پڑا اور ٹوٹ کے چور ہو گیا۔ ضیاءالحق بھی ٹوٹ کے چور ہو گئے اور پاکستان ٹوٹے بغیر چور ہو گیا کیونکہ حکومت میں واپس آ گیا بھٹو خاندان۔
جیسا باپ ، ویسی بیٹی۔ اختیار میں آتے ہی بےنظیر نے اس ملک کو وہ لوٹا ، وہ کھایا کہ جو لوگ ضیاءالحق کے دور میں بنگلوں میں رہائس پذیر تھے ، اب سڑکوں پر رلنے لگے۔
جلد ہی بےنظیر کو حکومت سے دھکیل دیا گیا اور اس کی جگہ بٹھا دیا گیا میاں محمد نواز شریف کو۔ لیکن میاں صاحب زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکے، انہوں نے آگے کہیں جانا تھا شاید۔ اور کچھ عرصے بعد بےنظیر واپس آ گئی۔ بےنظیر کا دوسرا دورِ حکومت ملک کے لئے اور برا ثابت ہوا۔ لیکن یہ ابھی ثابت ہو ہی رہا تھا کہ ان کی حکومت کو پھر سے ختم کر دیا گیا۔ ایک مرتبہ دوبارہ نواز شریف کو لے آیا گیا۔ اس کٹ کھنے کا قوم نے جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کیا۔
ہاں نواز شریف نے اس دوران ایک اچھا کام ضرور کیا۔ وہ ہمیں ایٹمی ہتھیار دے گیا۔ اس کے ہوتے ہوئے ہمیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ اس کے بل بوتے پر ہم دلی سے لے کر دلی کے ارد گرد کچھ بستیوں تک ، کہیں بھی حملہ کر سکتے تھے۔ اگر آپ کو بھی لوگ باتیں بناتے ہیں ، تنگ کرتے ہیں ، گھر پر ، کام پر ۔۔ تو ایٹمی ہتھیار بنا لیجئے۔ خود ہی باز آ جائیں گے۔
مگر یہ بات امریکہ کو پسند نہیں آئی اور نواز شریف ان کے ساتھ وہ تعلقات نہ رکھ پایا جو کہ ایک اسلامی ریاست کے ہونے چاہئے (مثلاً سعودیہ وغیرہ)۔ اوپر سے میاں صاحب نے کارگل آپریشن کی بھی مخالفت کی، حالانکہ ہم سے قسم اٹھوا لیں جو میاں صاحب کو پتا ہو کہ کارگل ہے کہاں؟
اس بزدلی کا سامنا کرنے اور پاکستان کو راہ راست پر لانے کا بوجھ اب ایک اور جنرل پرویز مشرف کے گلے پڑا۔ اور وہ اس آزمائش پر پورا اترے۔ انہوں نے آتے ساتھ ہی قوم کا دل اور خزانہ لوٹ لیا۔
پرویز مشرف کا دور بھی ترقی کا دور تھا۔ ملک میں باہر سے بہت سارا پیسہ آیا ، خاص کر امریکہ سے۔
امریکہ کو کسی اسامہ نامی آدمی کی تلاش تھی۔ ہم نے فوراً انہیں دعوت دی کہ پاکستان آ کر ڈھونڈ لیں ، یہاں ہر دوسرے آدمی کا نام اسامہ ہے۔ مشرف صاحب کا اپنا نام اسامہ پڑتے پڑتے رہ گیا تھا۔ مشرف صاحب کا دور انصاف کا دور تھا۔ کوئی نہیں کہتا تھا کہ انصاف نہیں مل رہا ، بلکہ کہتے تھے کہ اتنا انصاف مل رہا ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ اس کے ساتھ کریں کیا؟
مگر ان کے خلاف بھی سازشی کاروائی شروع تھی۔ ایک بھینگے جج نے شور ڈال دیا کہ انہوں نے قوم کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ قوم بھی ان کی باتوں میں آ کر سمجھنے لگی کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔
لوگ مشرف کو کہنے لگے کہ وردی اتار دو۔ اب بھلا یہ کیسی نازیبا درخواست ہے؟ ویسے بھی وردی تو وہ روز اتارتے تھے ، آخر ورد ی میں سوتے تک نہیں تھے۔ مگر لوگ مطمئن نہیں ہوئے ، وردی اتارنی پڑی۔ طاقت چھوڑنی پڑی۔ عام انتخابات کا اعلان کرنا پڑا۔
بےنظیر بھٹو صاحبہ ملک واپس آئیں لیکن صحت ٹھیک نہ ہونے کے باعث وہ اپنے اوپر جان لیوا حملہ برداشت نہ کر پائیں۔ سیاست میں جان لیوا حملے تو ہوتے رہتے ہیں ، مشرف صاحب نے خود بہت جھیلے ، ابھی تک زندہ ہیں ، یہی ان کی لیڈری کا ثبوت ہے۔
پھر بھی ان انتخابات میں جیت پیپلز پارٹی کی ہوئی۔ بےنظیر کی بیوہ آصف علی زرداری کو صدر منتخب کر دیا گیا۔ اس سے پارٹی میں بدلا کچھ نہیں ، فرق اتنا پڑا کہ بےنظیر صرف باپ کی تصویر لگا کر تقریب کرتی تھیں ، زرداری کو دو تصویریں لگانی پڑتی ہیں۔
اب پاکستان کے حالات پھر بگڑتے جا رہے ہیں۔ بجلی نہیں ہے ، گیس نہیں ہے ، امن و امان نہیں ہے، اقتدار میں لٹیرے بیٹھے ہوئے ہیں ، فوج پھر سے منتظر ہے کہ کب عوام پکارتے اور کب وہ آ کر معاشرے کی اصلاح کریں۔
اچھے خاصے لگے ہوئے مارشل لاء کے درمیان جب جمہوریت نافذ ہو جاتی ہے تو تمام نظام الٹا سیدھا ہو جاتا ہے۔ پچھلی اصلاح کا کوئی فائدہ نہیں رہتا، نئے سرے سے اصلاح کرنی پڑتی ہے۔
ابھی کچھ ہ روز پہلے ہی صدر زرداری دل کے دورے پر ملک سے باہر گئے تھے۔ پیچھے سے سابق کرکٹر عمران خان جلسے پہ جلسہ کر رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں عمران خان فوج کے ساتھ مل کر حکومت کو ہٹانا چاہتا ہے۔ لوگوں کے منہ میں گھی شکر۔
شاعر نے بھی عمران خان کے بارے میں کیا خوب کہا ہے ۔۔ "جب بھی کوئی وردی دیکھوں ، میرا دل دیوانہ بولے ، اولے اولے اولے"۔
امید رکھیں جیسا لوگ کہتے ہیں ویسا ہی ہو۔
اور اس کے ساتھ ہمارے مضمون کا وقت ختم ہوا چاہتا ہے۔ ہمیں یقین ہے اس بات کا قوم جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کرے گی۔
***
پاکستانی مضمون نگار حسیب آصف کا یہ مضمون قافلہ ڈاٹ آرگ پر رومن اردو میں شائع ہوا تھا۔ نہایت دلچسپ ہونے کے سبب اس کو راقم نے اردو رسم الخط میں منتقل کیا ہے۔
یہاں کفر کا جنم تو ہوا جلال الدین اکبر کے دور میں ، جو اسلام کو جھٹلا کر اپنا مذہب بنانے کو چل دیا، شاید "اللہ اکبر" کے لغوی معنی لے گیا تھا۔
بہرحال ، ان کافروں نے بت کشی اور مےکشی جیسے غیرمناسب کام شروع کر دئے اور اپنے آپ کو ہندو بلانے لگے۔ شراب کی آمد سے پاکستان کے مسلمانوں کی وہ طاقت نہ رہی جو تاریخ کے تسلسل سے ہونی چاہئے تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مسلمان شراب پینے لگ پڑے تھے ، بلکہ یہ کہ ان کی ساری قوتِ نفس شراب کو نہ پینے میں وقف ہو جاتی تھی ، حکمرانی کے لئے بچتا ہی کیا تھا؟
اس کے باوجود مسلمانوں نے مزید دو سو سال پاکستان پر راج کیا ، پھر کچھ دنوں کے لئے انگریزوں کی حکومت آ گئی (ہماری تفتیش کے مطابق یہی کوئی چالیس ہزار دن ہوں گے)۔
سن 1900 تک پاکستان کے مسلمانوں کی حالت ناساز ہو چکی تھی۔ اس دوران ایک اہم شخصیت ہماری خدمت میں حاضر ہوئی ، جس کا نام علامہ اقبال تھا۔
اقبال نے ہمیں دو قومی نظریہ دیا۔ یہ ان سے پہلے سید احمد خان نے بھی دیا تھا، مگر انہوں نے زیادہ دیا۔ اس نظریے کے مطابق پاکستان میں دو فریق قومیں موجود تھیں، ایک حکمرانی کے لائق مسلمان قوم اور ایک غلامی کے لائق ہندو قوم۔ ان دونوں کا آپس میں سمجھوتا ممکن نہیں تھا۔
سید احمد خان نے بھی مسلمانوں کے لئے ان تھک محنت کی ، مگر بیچ میں انگریز کے سامنے سر جھکا کر "سر" کا خطاب لے لیا۔ انگریزی تعلیم کی واہ واہ کرنے لگے۔
بھلا انگریزی سیکھنے سے کسی کو کیا فائدہ تھا؟ ہر ضروری چیز تو اردو میں تھی۔ غالب کی شاعری اردو میں تھی ، مراۃ العروس اردو میں تھی ، قرآن مجید کا ترجمہ اردو میں تھا۔
انگریزی میں کیا تھا؟ اردو لغت بھی انگریزی سے بڑی تھی۔ پرانی بھی۔ صحابہ کرام اردو بولتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) خود بھی۔ آپ نے اکثر حدیث سنی ہوگئی : "دین میں کوئی جبر نہیں"۔ یہ اردو نہیں تو کیا ہے؟
بہرحال ، اقبال سے متاثر ہو کر ایک گجراتی بیرسٹر نے انگریزوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تحریک شروع کر دی۔ اس تحریک کا قوم نے جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کیا۔
اس بیرسٹر کا نام محمد علی جناح عرف قائد اعظم تھا۔ انہوں نے پاکستان سے عام تعلیم حاصل کرنے کے بعد برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بیرسٹر بن گئے۔
قائد اعظم کو بھی "سر" کا خطاب پیش کیا گیا تھا ، بلکہ ملکہ برطانیہ تو کہنے لگی کہ اب سے آپ ہمارے ملک میں رہیں گے، بلکہ ہمارے محل میں رہیں گے اور ہم کہیں کرائے پر گھر لے لیں گے۔ مگر قائد کی سانسیں تو پاکستان سے وابستہ تھیں، وہ اپنے ملک کو کیسے نظر انداز کر سکتے تھے؟
1934 میں قائد واپس آئے تو پاکستان کا سیاسی ماحول بدل چکا تھا۔ لوگ مایوسی میں مبتلا تھے۔ ادھر دوسری جنگ عظیم شروع ہونے والی تھی اور گاندھی جی نے اپنی فحش ننگ دھڑنگ مہم چلا رکھی تھی، کبھی اِدھر کپڑے اتارے بیٹھ جاتے تھے ، کبھی اُدھر۔
ساتھ ایک نہرو نامی ہندو اقبال کے دو قومی نظریے کا غلط مطلب نکال بیٹھا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ نہرو بچپن سے ہی علیحدگی پسند تھا۔ گھر میں علیحدہ رہتا تھا، کھانا علیحدہ برتن میں کھاتا اور اپنے کھلونے بھی باقی بچوں سے علیحدہ رکھتا تھا۔
نہرو کا قائد اعظم کے ساتھ ویسے بھی مقابلہ تھا۔ پڑھائی لکھائی میں ، سیاست میں ، محلے کی لڑکیاں تاڑنے میں ، ظاہر ہے جیت ہمیشہ قائد کی ہوتی تھی۔ لاء کے پرچوں میں بھی ان کے نہرو سے زیادہ نمبر تھے ، مرنے میں بھی پہل انہوں نے ہی کی۔
آزادی قریب تھی ، مسلمانوں کا خواب سچا ہونے والا تھا، پھر نہرو نے اپنا پتا کھیلا۔ کہنے لگا کہ ہندوؤں کو الگ ملک چاہئے۔ یہ صلہ دیا انہوں نے اُس قوم کا ، جس نے انہیں جنم دیا ، پال پوس کر بڑا کیا ، ہماری بلی ہمیں کو میاؤں؟
نہرو کی سازش کے باعث جب 14 اگست 1947 کو انگریز یہاں سے لوٹ کر گئے تو پاکستان کے دو حصے کر گئے۔
علیحدگی کے فوراً بعد ہندوستان نے کشمیر پر قبضے کا اعلان کر دیا۔ دونوں ملکوں کے پٹواری فیتے لے کر پہنچ گئے۔ ہمسائے ممالک فطرت سے مجبور تماشا دیکھنے پہنچ گئے۔ خوب تو تو میں میں ہوئی ، گولیاں چلیں ، بہت سارے انسان زخمی ہوئے ، کچھ فوجی بھی۔
پھر ہندوؤں نے ایک اور بڑی سازش یہ کی ، کہ پاکستان سے جاتے ہوئے ہمارے دو تین دریا بھی ساتھ لے گئے۔ یہ پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا کہ بھائی ، چاہئے تو نہیں؟ کپڑے وغیرہ دھو لئے؟ بھینسوں نے نہا لیا؟
یہ معاملات ابھی تک نہیں سلجھے، اس لئے ان پر مزید بات کرنا بیکار ہے۔ تاریخ صرف وہ ہوتی ہے جو سلجھ چکی ہو، یا کم از کم دفن ہو چکی ہو۔ جس طرح کہ قائد اعظم آزادی کے دوسرے سال میں ہو گئے۔
وہ اُس سال ویسے ہی کچھ علیل تھے اور کیونکہ قوم کی بھرپور دعائیں ان کے ساتھ تھیں ، اس لئے جلد ہی وفات پا گئے۔
جناح کی وفات کے بعد بہت سارے لوگوں نے قائد بننے کی کوشش کی۔ ان میں پہلے لیاقت علی خان تھے۔ کیونکہ خان صاحب علیل نہیں ہو رہے تھے (اور ان کو تین سال کا موقع دیا گیا تھا اس آسان مشق کے لئے) لہذا ان کو 1951 میں خود ہی مارنا پڑا۔
پھر آئے خواجہ ناظم الدین۔ اب نام کا ناظم ہو اور عہدے کا وزیر ، یہ بات کس کو لبھاتی ہے؟ اس لئے چند ہی عرصے میں گورنر جنرل غلام محمد نے ان کی چھٹی کرا دی۔
جی ہاں ، پاکستان میں اس وقت صدر کے بجائے "گورنر جنرل" ہوتا تھا۔ آنے والے سالوں میں اختصار کی مناسبت سے یہ صرف "جنرل" رہ گیا، گورنر غائب ہو گیا۔
جنرل کا عہدہ پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی عہدہ ہے۔ اس کے بعد کرنل ، میجر وغیرہ آتے ہیں، آخر میں وزیر مشیر آتی ہیں۔
پاکستان کی آزادی کے کئی سالوں تک کوئی ہمیں آئین نہ دے پایا۔ پھر جب اسکندر مرزا نے آئین نافذ کیا تو اس میں جرنلوں کو اپنا مقام پسند نہیں آیا۔ آئین اور اسکندر مرزا کو ایک ساتھ اٹھا کر پھینک دیا گیا۔
فیلڈ مارشل ایوب خان نے حکومت سنبھال لی۔ لڑکھڑا رہی تھی ، کسی نے تو سنبھالنی تھی۔ اس فیصلے کا قوم نے جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کیا۔
ایوب خان جمہوریت کو بےحال کرنے ، ہمارا مطلب ہے ، بحال کرنے آیا تھا۔ اصل میں جمہوریت قوم کی شرکت سے مضبوط نہیں ہوتی، عمارتوں اور دیواروں کی طرح سمنٹ سے مضبوط ہوتی ہے۔ فوجی سمنٹ سے۔ جی ہاں ، آپ بھی اپنی جمہوریت کے لئے فوجی سمنٹ کا آج ہی اتنخاب کریں۔
اس موقع پر شاعر نے کیا خوب کہا ہے : "فوجی سمنٹ : پائیدار ، لذت دار ، علمدار"۔
ایوب خان نے اپنے دور میں کچھ مخولیہ الیکشن کرائے تاکہ لوگ اچھی طرح ووٹ ڈالنا سیکھ لیں، اور جب اصل الیکشن کی باری آئے تو کوئی غلطی نہ ہو۔ مگر جب 1970 کے الیکشن ہوئے تو لوگوں نے پھر غلطی کر دی ، ایک فتنے کو ووٹ ڈال دئے ، جس پر آگے تفصیل میں بات ہوگی۔
ویسے ایوب خان کا دور ترقی کا دور بھی تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان کو منزل مقصود تک پہنچائیں گے۔ مقصود کون تھا اور کس منزل میں رہتا تھا، یہ ہم نہیں جانتے ، مگر اس اعلان کا قوم نے جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کیا۔
1965 میں ہندوستان نے ہماری ملکیت میں دوبارہ ٹانگ اڑائی۔ جنگ کا بھی اعلان کر دیا۔ لیکن بےایمان ہونے کا پورا ثبوت دیا، ہمیں کشمیر کا کہہ کر خود لاہور پہنچ گئے۔ ہماری فوج وادیوں میں ٹھنڈ سے بےحال ہو گئی اور یہ اِدھر شالیمار باغ کی سیریں کرتے رہے۔
اس دغابازی کے خلاف ایوب خان نے اقوام متحدہ کو شکایت لگائی۔ وہ خفا ہوئے اور ہندوستان کو ایک کونے میں ہاتھ اوپر کر کے کھڑے ہونے کی سزا ملی، جیسا کہ ملنی چاہئے تھی۔ اس فیصلے کا بھی قوم نے جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کیا۔
مگر ہندو وہ جو باز نہ آئے۔ 1971 میں جب ہم سب کو علم ہوا کہ بنگالی بھی دراصل پاکستان کا حصہ ہیں ، تو ہندو اُدھر بھی حملہ آور ہو گئے۔
اب آپ خود بتائیں ، اتنی دور جا کر جنگ لڑنا کس کو بھاتا ہے؟ ہم نے چند ہزار فوجی بھیج دئے، اتنا کہہ کر کہ اگر دل کرے تو لڑ لینا ، ویسے مجبوری کوئی نہیں ہے۔
مگر ہندوؤں کو خلوص کون سکھائے؟ انہوں نے نہ صرف ہمارے فوجیوں کے ساتھ بدتمیزی کی بلکہ انہیں کئی سال تک واپس بھی نہیں آنے دیا۔ بنگال بھی ہم سے جدا کر دیا اور تشدد کے سچے الزامات بھی لگائے۔ آخر سچا الزام جھوٹے الزام سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے ، کیونکہ وہ ثابت بھی ہو سکتا ہے۔
اس کے بعد دنیا میں ہماری کافی بدنامی ہوئی۔ لوگ یہاں آنا پسند نہیں کرتے تھے۔ بلکہ ہمارے ہمسایا ممالک بھی کسی دوسرے براعظم میں جگہ تلاش کرنے لگے کہ ان کے پاس تو رہنا ہی فضول ہے۔
ایسے موقع پر ہمیں ایک مستقل مزاج اور دانشور لیڈر کی ضرورت تھی ، مگر ہمارے نصیب میں ذوالفقار علی بھٹو تھا، جی ہاں وہی فتنہ جس کا کچھ دیر پہلے ذکر ہوا تھا۔
بھٹو ایک چھوٹی سوچ کا چھوٹا آدمی تھا۔ اس کے خیال میں مسلمانوں کی تقدیر روٹی ، کپڑے اور مکان تک محدود تھی۔ اس کے پاکستان میں محلوں اور تختوں اور شہنشاہی کی جگہ نہیں تھی، ہماری اپنی تاریخ سے محروم کر دینا چاہتا تھا ہمیں۔
بھٹو سے پہلے ہم روس سے استعمال شدہ ہتھیار منگاتے ہوتے تھے۔ بھٹو نے روس سے استعمال شدہ نظریہ بھی مانگ لیا۔ لیکن استعمال شدہ چیزیں کم ہی چلتی ہیں ، نہ کبھی ہو ہتھیار چلے نہ نظریہ۔
تمام صنعتیں ضبط کر کے سرکاری کھاتے میں ڈال دی گئیں۔ سرمایہ کاری کی خوب آتما رولی گئی، اس کو مجازی طور پر دفنا کر اس کی مجازی قبر پر مجازی مجرے کئے گئے۔
لوگوں سے ان کی زمینیں چھین لی گئیں، وہ زمینیں بھی جو انہوں نے کسی اور کے نام لکھوائی ہوئی تھیں۔ یہ ظلمت نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے تشویش ناک مرحلہ تھا۔ ایسے میں قومی سلامتی کے لئے آگے بڑھے حضرت جنرل ضیاءالحق (رحمۃ اللہ علیہ)۔
انہوں نے بھٹو سے حکومت چھین لی اور اس پر قاتل اور ملک دشمن ہونے کے الزامات لگا دئے۔ ضیاءالحق نے قانون کا احترام کرتے ہوئے بھٹو کو عدالت کا وقت ضائع نہیں کرنے دیا۔ بس الزام کی بنا پر ہی فیصلہ لے لیا اور بھٹو کو پھانسی دلوا دی۔ اس حرکت کا قوم نے جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کیا۔
حضرت ضیاءالحق پاکستانیوں کے لئے ایک نمونہ تھے، ہمارا مطلب ہے مثالی نمونہ۔ انہوں نے یہاں شریعت کا تعارف کرایا۔ حد کے قانون لگائے ، نشہ بندی کرائی۔ اس اقدام کا قوم نے جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کیا۔
ان کے دور میں ہماری فوج العظیم نے روس پر جنگی فتح حاصل کی۔ روس افغانستان میں جنگ لڑنے آیا تھا ، اس نے سوچا ہوگا کہ یہاں افغانیوں سے لڑائی ہوگی۔ یہ اس کی خام خیالی تھی۔
اس موقع پر شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔۔۔ "تیرا جوتا ہے جاپانی ، یہ بندوق انگلستانی ، سر پہ لال ٹوپی روسی ، پھر بھی جیت گئے پاکستانی"۔
آخر افسوس کہ اسلام کے اس مجاہد کے خلاف باہری طاقتیں سازش کر رہی تھیں۔ 1987 میں یہود و نصاریٰ نے ان کے جہاز میں سے انجن نکال کر پانی کا نلکا لگا دیا۔ اسلئے پرواز کے دوران آسمان سے گر پڑا اور ٹوٹ کے چور ہو گیا۔ ضیاءالحق بھی ٹوٹ کے چور ہو گئے اور پاکستان ٹوٹے بغیر چور ہو گیا کیونکہ حکومت میں واپس آ گیا بھٹو خاندان۔
جیسا باپ ، ویسی بیٹی۔ اختیار میں آتے ہی بےنظیر نے اس ملک کو وہ لوٹا ، وہ کھایا کہ جو لوگ ضیاءالحق کے دور میں بنگلوں میں رہائس پذیر تھے ، اب سڑکوں پر رلنے لگے۔
جلد ہی بےنظیر کو حکومت سے دھکیل دیا گیا اور اس کی جگہ بٹھا دیا گیا میاں محمد نواز شریف کو۔ لیکن میاں صاحب زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکے، انہوں نے آگے کہیں جانا تھا شاید۔ اور کچھ عرصے بعد بےنظیر واپس آ گئی۔ بےنظیر کا دوسرا دورِ حکومت ملک کے لئے اور برا ثابت ہوا۔ لیکن یہ ابھی ثابت ہو ہی رہا تھا کہ ان کی حکومت کو پھر سے ختم کر دیا گیا۔ ایک مرتبہ دوبارہ نواز شریف کو لے آیا گیا۔ اس کٹ کھنے کا قوم نے جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کیا۔
ہاں نواز شریف نے اس دوران ایک اچھا کام ضرور کیا۔ وہ ہمیں ایٹمی ہتھیار دے گیا۔ اس کے ہوتے ہوئے ہمیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ اس کے بل بوتے پر ہم دلی سے لے کر دلی کے ارد گرد کچھ بستیوں تک ، کہیں بھی حملہ کر سکتے تھے۔ اگر آپ کو بھی لوگ باتیں بناتے ہیں ، تنگ کرتے ہیں ، گھر پر ، کام پر ۔۔ تو ایٹمی ہتھیار بنا لیجئے۔ خود ہی باز آ جائیں گے۔
مگر یہ بات امریکہ کو پسند نہیں آئی اور نواز شریف ان کے ساتھ وہ تعلقات نہ رکھ پایا جو کہ ایک اسلامی ریاست کے ہونے چاہئے (مثلاً سعودیہ وغیرہ)۔ اوپر سے میاں صاحب نے کارگل آپریشن کی بھی مخالفت کی، حالانکہ ہم سے قسم اٹھوا لیں جو میاں صاحب کو پتا ہو کہ کارگل ہے کہاں؟
اس بزدلی کا سامنا کرنے اور پاکستان کو راہ راست پر لانے کا بوجھ اب ایک اور جنرل پرویز مشرف کے گلے پڑا۔ اور وہ اس آزمائش پر پورا اترے۔ انہوں نے آتے ساتھ ہی قوم کا دل اور خزانہ لوٹ لیا۔
پرویز مشرف کا دور بھی ترقی کا دور تھا۔ ملک میں باہر سے بہت سارا پیسہ آیا ، خاص کر امریکہ سے۔
امریکہ کو کسی اسامہ نامی آدمی کی تلاش تھی۔ ہم نے فوراً انہیں دعوت دی کہ پاکستان آ کر ڈھونڈ لیں ، یہاں ہر دوسرے آدمی کا نام اسامہ ہے۔ مشرف صاحب کا اپنا نام اسامہ پڑتے پڑتے رہ گیا تھا۔ مشرف صاحب کا دور انصاف کا دور تھا۔ کوئی نہیں کہتا تھا کہ انصاف نہیں مل رہا ، بلکہ کہتے تھے کہ اتنا انصاف مل رہا ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ اس کے ساتھ کریں کیا؟
مگر ان کے خلاف بھی سازشی کاروائی شروع تھی۔ ایک بھینگے جج نے شور ڈال دیا کہ انہوں نے قوم کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ قوم بھی ان کی باتوں میں آ کر سمجھنے لگی کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔
لوگ مشرف کو کہنے لگے کہ وردی اتار دو۔ اب بھلا یہ کیسی نازیبا درخواست ہے؟ ویسے بھی وردی تو وہ روز اتارتے تھے ، آخر ورد ی میں سوتے تک نہیں تھے۔ مگر لوگ مطمئن نہیں ہوئے ، وردی اتارنی پڑی۔ طاقت چھوڑنی پڑی۔ عام انتخابات کا اعلان کرنا پڑا۔
بےنظیر بھٹو صاحبہ ملک واپس آئیں لیکن صحت ٹھیک نہ ہونے کے باعث وہ اپنے اوپر جان لیوا حملہ برداشت نہ کر پائیں۔ سیاست میں جان لیوا حملے تو ہوتے رہتے ہیں ، مشرف صاحب نے خود بہت جھیلے ، ابھی تک زندہ ہیں ، یہی ان کی لیڈری کا ثبوت ہے۔
پھر بھی ان انتخابات میں جیت پیپلز پارٹی کی ہوئی۔ بےنظیر کی بیوہ آصف علی زرداری کو صدر منتخب کر دیا گیا۔ اس سے پارٹی میں بدلا کچھ نہیں ، فرق اتنا پڑا کہ بےنظیر صرف باپ کی تصویر لگا کر تقریب کرتی تھیں ، زرداری کو دو تصویریں لگانی پڑتی ہیں۔
اب پاکستان کے حالات پھر بگڑتے جا رہے ہیں۔ بجلی نہیں ہے ، گیس نہیں ہے ، امن و امان نہیں ہے، اقتدار میں لٹیرے بیٹھے ہوئے ہیں ، فوج پھر سے منتظر ہے کہ کب عوام پکارتے اور کب وہ آ کر معاشرے کی اصلاح کریں۔
اچھے خاصے لگے ہوئے مارشل لاء کے درمیان جب جمہوریت نافذ ہو جاتی ہے تو تمام نظام الٹا سیدھا ہو جاتا ہے۔ پچھلی اصلاح کا کوئی فائدہ نہیں رہتا، نئے سرے سے اصلاح کرنی پڑتی ہے۔
ابھی کچھ ہ روز پہلے ہی صدر زرداری دل کے دورے پر ملک سے باہر گئے تھے۔ پیچھے سے سابق کرکٹر عمران خان جلسے پہ جلسہ کر رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں عمران خان فوج کے ساتھ مل کر حکومت کو ہٹانا چاہتا ہے۔ لوگوں کے منہ میں گھی شکر۔
شاعر نے بھی عمران خان کے بارے میں کیا خوب کہا ہے ۔۔ "جب بھی کوئی وردی دیکھوں ، میرا دل دیوانہ بولے ، اولے اولے اولے"۔
امید رکھیں جیسا لوگ کہتے ہیں ویسا ہی ہو۔
اور اس کے ساتھ ہمارے مضمون کا وقت ختم ہوا چاہتا ہے۔ ہمیں یقین ہے اس بات کا قوم جوش اور ولولے کے ساتھ استقبال کرے گی۔
***
پاکستانی مضمون نگار حسیب آصف کا یہ مضمون قافلہ ڈاٹ آرگ پر رومن اردو میں شائع ہوا تھا۔ نہایت دلچسپ ہونے کے سبب اس کو راقم نے اردو رسم الخط میں منتقل کیا ہے۔