پاکستان میں واقعی اچھی چیزوں کے ساتھ بُری چیزیں زیادہ ہیں اور اس لئے ہم اچھی چیزوں کو نظرانداز کرکے ہمیشہ بُری چیزوں یعنی بُرائیوں کو بہت اُچھالتے ہیں اور بدقسمتی سے یہ وسائل کی کمی کی وجہ سے کم ہے اور نااہل اور ناتجربہ کار اور کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے زیادہ ہے۔ وہ جو کہاوت ہے کہ بادلوں میں نقرئی دھاری نظر آرہی ہے یا ایک سُرنگ کے خاتمہ پر روشنی کی کرنیں نظر آرہی ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں موجود بُرائیوں کے بارے میں روز ہی مضامین، کالم، تقاریر سامنے آتی رہتی ہیں اور صفحات کیا، کتابیں لکھی جاسکتی ہیں لیکن آج میں بُری چیزوں کے بارے میں نہیں بلکہ اچھی چیزوں کے بارے میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ تمام خرابیوں کے باوجودہمارے صنعت کار تن، من ،دھن سے ملک کی خدمت کررہے ہیں اور نہایت قیمتی زرمبادلہ کما کر دے رہے ہیں، ان میں کراچی، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، لاہور وغیرہ کے صنعت کار سرِفہرست ہیں۔ یہ محب وطن ، محنتی پاکستانی اربوں ڈالر کما کر ملک کے خزانے میں ڈال رہے ہیں۔
دوسری روشنی کی کرن ہمارے چند تعلیمی ادارے ہیں جو اچھی تعلیم فراہم کرکے اچھے سائنسدان، ڈاکٹر اور انجینئر پیدا کررہے ہیں اور چند میڈیکل سینٹر ہیں جو نہایت اعلیٰ علاج اور تعلیمی سرگرمیاں فراہم کررہے ہیں۔ ان میں چند نام جو فوراً خیال میں آتے ہیں وہ لاہور کے PU, FCCU, LCWU, GCU, LUMS ، اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی،Comsats ، کراچی کی کراچی یونیورسٹی، ایچ ای جے انسٹیٹیوٹ، آغا خان یونیورسٹی و اسپتال، این ای ڈی یونیورسٹی، ڈائؤ یونیورسٹی، کے پی کے کا GIK انسٹیٹیوٹ، اسلامیہ کالج یونیورسٹی، راولپنڈی کے AFIC اورRIC وغیرہ قابل ذکر ہیں جو اپنی کارکردگی کی وجہ سے ملک میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔
(1) پہلے ایک نہایت ہی اعلیٰ تعلیمی ادارہ کے بارے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ یہ ادارہ میں نے اپنے چند مخلص ساتھیوں (میاں محمد فاروق مرحوم، سعید احمد کشتی والا مرحوم، سید حلیل نقوی مرحوم) کیساتھ ملکر دس سال پہلے کراچی یونیورسٹی کے کیمپس پر قائم کیا تھا۔ اس کا نام ہے۔"Dr. A. Q. Khan Institute of Biotechnology & Genetic Engineering" ۔ اس کی تعمیر کیلئے میں نے اپنے دوستوں، مخیر حضرات سے مدد حاصل کی تھی۔ اس کا نقشہ اور تعمیر کی نگرانی نقوی صدیقی آرکیٹکٹس کے نہایت قابل انجینئروں جناب قمر علوی اور خضر حیات صاحبان نے کی تھی۔ اس میں نہایت جدید آلات لگائے تھے ۔ اس ادارہ کی تعمیر کا خیال گورنر سندھ جنرل معین الدین حیدر، میاں فاروق اور سعید بھائی اور حلیل نقوی سے کئی ملاقاتوں میں آیا۔ سب مجھ سے مطالبہ کرتے تھے کہ میں کراچی کے عوام کو بھی کوئی تحفہ دوں۔ اپنی تعلیم اور تجربہ کی بنیاد پر میں نے 21ویں صدی کی اس جدید ٹیکنالوجی کے لئے چنائو کیا۔ اس کے سب سے پہلے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر مجتبیٰ نقوی تھے۔ یہ پہلے پاکستان اِٹامک انرجی کے فصلوں کی تحقیق NIAB کے ڈی جی تھے، نہ صرف ملک میں بلکہ بَین الاقوامی سطح پر بھی ایک اعلیٰ ماہر تصور کئے جاتے تھے۔ میری درخواست پر انہوں نے اس ادارہ کی سربراہی قبول کر لی اور اس پورے ادارے کی نہایت اعلیٰ طریقہ اور محنت سے باریابی کرکے ٹھوس بنیادوں پر کھڑا کردیا۔ انہوں نے 5 سال اس ادارے کی سربراہی کی اور سائنس دانوں کی اعلیٰ ٹیم تیار کرکے کئی اہم منصوبوں کی تکمیل کی۔
قبل اس کے کہ میں مزید تفصیلات بتائوں یہ عرض کرتا چلوں کہ مرحوم حکیم سعید کی بہت خواہش تھی کہ میں یہ ادارہ ہمدرد یونیورسٹی کے کیمپس میں قائم کروں مگر وہاں کی دوری، مواصلات کی مشکلات اور دوسری اچھی تعلیمی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے میں نے اپنے پرانے ادارے کراچی یونیورسٹی کو ترجیح دی۔ گورنر جناب معین الدین حیدر اور وائس چانسلر جناب پروفیسر ڈاکٹر سیفی کی مدد سے ہمیں بہت ہی اچھی جگہ الاٹ کردی گئی تھی۔
پروفیسر مجتبیٰ نقوی کے 5 سالہ دور کے بعد کے آر ایل کے انسٹیٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی و جینیٹک انجینئرنگ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر قاسم مہدی نے مارچ2007ء میں اس ادارہ کی سربراہی قبول کی مگر ایک سال بعد ہی بغیر بتائے چپ چاپ ڈاکٹر ادیب رضوی کے پاس چلے گئے حالانکہ میں نے KRL میں ان پر بہت مہربانی کی تھی۔ بدقسمتی سے ان میں انسانی تعلقات بنانے یا نبھانے کا فقدان تھا۔ انسٹیٹیوٹ کو اچھے طریقہ سے چلانے اور مستقل حیثیت دینے کے لئے ہم نے اس کو کراچی یونیورسٹی کے حوالے کردیا اور ڈاکٹر قاسم مہدی کی روانگی کے بعد وائس چانسلر جناب پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم (جو عزیز دوست ہیں) نے یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور میرے پیارے دوست پروفیسر ڈاکٹر ارتفاق علی کو ڈی جی لگا دیا جنہوں نے اپریل 2008ء سے ستمبر 2011ء تک نہایت اعلیٰ طریقہ سے خدمات انجام دیں اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد وائس چانسلر نے پروفیسر ڈاکٹر عابد اظہر کو ڈی جی مقرر کردیا اور انہوں نے نہایت اعلیٰ صلاحیتوں سے اس کی کارکردگی کو چارچاند لگا دیئے۔ پروفیسر عابد اظہر کو ایچ ای سی کی جانب سے ممتاز پروفیسر کا درجہ دیا گیا ہے۔ انہوں نے آسٹریلیا کی مشہور نیشنل یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ہے۔ ادارہ کو کراچی یونیورسٹی کے حوالے کرنے کا مقصد نہایت خوشگوار نتائج کا حامل ہوا۔یہاں سے بہت سے لڑکے اور لڑکیوں نے M.Phil کی ڈگریاں حاصل کی ہیں اور 35 لڑکے اور لڑکیوں نے Ph.D کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ یہ ادارہ اس وقت بین الاقوامی سطح پر نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ میرے نہایت عزیز دوست اور بین الاقوامی شہرت کے مالک اور پاکستان اکیڈمی آف سائنسیز کے سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر انور نسیم وزیٹنگ پروفیسر ہیں۔
انسٹیٹیوٹ کی اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے 2002ء سے 2005ء تک تقریباً 20 کروڑ روپے امداد ملی اور پھر 2006ء سے 2014ء تک تقریباً 33 کروڑ روپے کی امداد ملی ہے۔ اس وقت تقریباً 45 افراد درس و تدریس سے منسلک ہیں اور 34 طلباء و طالبات Ph.D, M.Phil, MS کی ڈگریوں کے لئے سرگرم عمل ہیں۔
اس مختصر سے کالم میں تمام آلات و ریسرچ سرگرمیوں کی تفصیل بیان کرنا ناممکن ہے صرف یہ عرض کروں گا کہ انسٹیٹیوٹ میں دنیا کے جدید ترین آلات موجود ہیں اور یہ ادارہ کسی بھی بیرونی ادارے سے کم نہیں ہے۔ ریسرچ کے تحت ایگریکلچرل بیوٹیکنالوجی، انڈسٹریل بیو ٹیکنالوجی اور میڈیکل بیو ٹیکنالوجی کے میدانوں میں اہم کام ہورہا ہے۔ ادارے کے بارے میں مزید مکمل معلومات کیلئے آپ اس کا ویب سائٹ وزٹ کریں۔www.kibge.edu.pk۔ ای میل یہ ہے۔ ibge@kibge.edu.pk
ادارے کے سائنسدانوں نے اب تک تقریباً 500 مقالے مقامی، بین الاقوامی رسالوں میں شائع کئے ہیں اور کانفرنسوں میں پیش کئے ہیں۔ ادارے نے بین الاقوامی سطح پر آسٹریلیا، جاپان، جرمنی، امریکہ، ترکی، ایران، آئرلینڈ، ملائیشیا، اٹلی، ہانگ کانگ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے مشترکہ پروگرام جاری رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے ممتاز اداروں سے بھی نہایت قریبی تعلقات قائم کئے ہیں۔ لاتعداد غیرملکی ماہرین انسٹیٹیوٹ آتے رہے ہیں اور ہمارے ادارے کے ماہرین بھی غیر ملکی اداروں کے دوروں پر جاتے رہتے ہیں۔ میں نے اس ادارے کی تعمیر، آلات کی فراہمی وغیرہ میں بذات خود بے حد دلچسپی لی ہے۔ یہاں تک کہ اس کا تمام اعلیٰ فرنیچر گجرات کے نظام اینڈ سنز کے محمد اسلم سے 85 لاکھ روپیہ کی لاگت سے بنوایا تھا۔ آج بھی تمام لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اس ادارہ اور دماغی امراض کے علاج کے ادارہ کی تعمیر کرکے میں نے کراچی کے شہری ہونے کا قرض ادا کردیا۔
(2) دوسرا نہایت اعلیٰ ادارہ شفا اِنٹرنیشنل اسپتال، اسلام آباد ہے۔ یہ ملک کے اعلیٰ ترین اسپتالوں میں شمار ہوتا ہے اور میرا اس سے بہت ہی قریبی تعلق رہا ہے۔ چند دن پیشتر انہوں نے اپنی 20 سالہ سالگرہ منائی اور مجھے چیف گیسٹ بنانے کی عزت بخشی۔ اس کے روح رواں اور بانی مرحوم ڈاکٹر ظہیر احمد میرے پیارے دوست تھے اور جس وقت یعنی نوّے کے اوائل میں جب وہ اس اسپتال کی تعمیر کی جدوجہد میں مصروف تھے میں بھی اس وقت غلام خان انسٹیٹیوٹ صوابی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر اور روح رواں کی حیثیت سے مصروف تھا ہماری اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ وہ اپنے خوابوں کی تعمیر کو حقیقت میں بدلنے میں دل و جان سے منہمک تھے ۔ بعد میں میانوالی میں جہاں میں ایک انسٹیٹیوٹ وہاں کے بچوں کی تعلیم کے لئے تعمیر کررہا تھا ان سے ملاقاتیں ہوئیں کہ وہ وہاں تعمیر ملّت فائونڈیشن کے تحت بچیوں کا اعلیٰ اسکول قائم کررہے تھے، اس میں ہمارے باہمی دوست مرحوم ڈاکٹر ظفر خان نیازی ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ڈاکٹر ظہیر ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے انہوں نے امریکہ میں مقیم محب وطن پاکستانیوں کو اسلام آباد میں ایک اعلیٰ اسپتال بنانے کی ضرورت پر قائل کر لیا اور ان سب کی مالی اعانت سے یہ اعلیٰ ادارہ تعمیر ہوا۔ میں نے خود اس کی پروموشن کے لئے ایک فلم میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی تھی۔ اس وقت یہاں 25 لاکھ سے زیادہ مریض علاج کو آتے ہیں، 150 غیرملکی نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ماہرین امراض آتے رہتے ہیں، تقریباً 3500 ملازمین ہیں جن میں بین الاقوامی شہرت کے ماہرین شامل ہیں۔ وسیع رقبہ پر نہایت کشادہ عمارتیں دنیا کے بہترین آلات سے مرصع ہیں۔ میں نے خود لاتعداد مرتبہ یہاں اہم ٹیسٹ کرائے ہیں۔ اسپتال کے چیئرمین بین الاقوامی شہرت کے ماہرین قلب ڈاکٹر حبیب الرحمن ہیں اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر مشہور ماہر ڈاکٹر منظور ایچ قاضی ہیں۔ اسپتالوں کی انتظامیہ ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز کے تحت ہے جس میں اسپتال کے اہم ڈاکٹر شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس اسپتال کے ہوتے ہوئے کسی بھی مریض کا بیرون ملک جانے کا خیال خام ہے۔ یہاں اپنے ملک میں بہترین سہولتوں اور بہترین تجربہ کار اعلیٰ ماہرین کی موجودگی میں کسی کو باہر جانے کا سوچنا بھی نہیں چاہئے۔
شفا اِنٹرنیشنل اسپتال میں کام کرنے والے کئی ماہرین میرے اچھے دوست ہیں۔ ڈاکٹر حبیب الرحمن (جنہوں نے میرا معائنہ کیا تھا)، ڈاکٹر منظور قاضی، ڈاکٹر سعید اختر(جو آغا خان اسپتال میں میرے آپریشن کے دوران ڈاکٹر فرحت کے ساتھ مع ڈاکٹر کامران مجید موجود تھے) ڈاکٹر کامران مجید (ہمارے کے آر ایل کی میڈیکل سروسز کے ڈی جی) اور کرنل ڈاکٹر محمد نعیم (کے آر ایل کے سابقہ ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن) پر خلوص دوست ہیں۔شفا انٹرنیشنل اسپتال کی ویب سائٹ اور ای میل یہ ہیں۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=165002
سب سے پہلے تو یہ کہ تمام خرابیوں کے باوجودہمارے صنعت کار تن، من ،دھن سے ملک کی خدمت کررہے ہیں اور نہایت قیمتی زرمبادلہ کما کر دے رہے ہیں، ان میں کراچی، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، لاہور وغیرہ کے صنعت کار سرِفہرست ہیں۔ یہ محب وطن ، محنتی پاکستانی اربوں ڈالر کما کر ملک کے خزانے میں ڈال رہے ہیں۔
دوسری روشنی کی کرن ہمارے چند تعلیمی ادارے ہیں جو اچھی تعلیم فراہم کرکے اچھے سائنسدان، ڈاکٹر اور انجینئر پیدا کررہے ہیں اور چند میڈیکل سینٹر ہیں جو نہایت اعلیٰ علاج اور تعلیمی سرگرمیاں فراہم کررہے ہیں۔ ان میں چند نام جو فوراً خیال میں آتے ہیں وہ لاہور کے PU, FCCU, LCWU, GCU, LUMS ، اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی،Comsats ، کراچی کی کراچی یونیورسٹی، ایچ ای جے انسٹیٹیوٹ، آغا خان یونیورسٹی و اسپتال، این ای ڈی یونیورسٹی، ڈائؤ یونیورسٹی، کے پی کے کا GIK انسٹیٹیوٹ، اسلامیہ کالج یونیورسٹی، راولپنڈی کے AFIC اورRIC وغیرہ قابل ذکر ہیں جو اپنی کارکردگی کی وجہ سے ملک میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔
(1) پہلے ایک نہایت ہی اعلیٰ تعلیمی ادارہ کے بارے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ یہ ادارہ میں نے اپنے چند مخلص ساتھیوں (میاں محمد فاروق مرحوم، سعید احمد کشتی والا مرحوم، سید حلیل نقوی مرحوم) کیساتھ ملکر دس سال پہلے کراچی یونیورسٹی کے کیمپس پر قائم کیا تھا۔ اس کا نام ہے۔"Dr. A. Q. Khan Institute of Biotechnology & Genetic Engineering" ۔ اس کی تعمیر کیلئے میں نے اپنے دوستوں، مخیر حضرات سے مدد حاصل کی تھی۔ اس کا نقشہ اور تعمیر کی نگرانی نقوی صدیقی آرکیٹکٹس کے نہایت قابل انجینئروں جناب قمر علوی اور خضر حیات صاحبان نے کی تھی۔ اس میں نہایت جدید آلات لگائے تھے ۔ اس ادارہ کی تعمیر کا خیال گورنر سندھ جنرل معین الدین حیدر، میاں فاروق اور سعید بھائی اور حلیل نقوی سے کئی ملاقاتوں میں آیا۔ سب مجھ سے مطالبہ کرتے تھے کہ میں کراچی کے عوام کو بھی کوئی تحفہ دوں۔ اپنی تعلیم اور تجربہ کی بنیاد پر میں نے 21ویں صدی کی اس جدید ٹیکنالوجی کے لئے چنائو کیا۔ اس کے سب سے پہلے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر مجتبیٰ نقوی تھے۔ یہ پہلے پاکستان اِٹامک انرجی کے فصلوں کی تحقیق NIAB کے ڈی جی تھے، نہ صرف ملک میں بلکہ بَین الاقوامی سطح پر بھی ایک اعلیٰ ماہر تصور کئے جاتے تھے۔ میری درخواست پر انہوں نے اس ادارہ کی سربراہی قبول کر لی اور اس پورے ادارے کی نہایت اعلیٰ طریقہ اور محنت سے باریابی کرکے ٹھوس بنیادوں پر کھڑا کردیا۔ انہوں نے 5 سال اس ادارے کی سربراہی کی اور سائنس دانوں کی اعلیٰ ٹیم تیار کرکے کئی اہم منصوبوں کی تکمیل کی۔
قبل اس کے کہ میں مزید تفصیلات بتائوں یہ عرض کرتا چلوں کہ مرحوم حکیم سعید کی بہت خواہش تھی کہ میں یہ ادارہ ہمدرد یونیورسٹی کے کیمپس میں قائم کروں مگر وہاں کی دوری، مواصلات کی مشکلات اور دوسری اچھی تعلیمی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے میں نے اپنے پرانے ادارے کراچی یونیورسٹی کو ترجیح دی۔ گورنر جناب معین الدین حیدر اور وائس چانسلر جناب پروفیسر ڈاکٹر سیفی کی مدد سے ہمیں بہت ہی اچھی جگہ الاٹ کردی گئی تھی۔
پروفیسر مجتبیٰ نقوی کے 5 سالہ دور کے بعد کے آر ایل کے انسٹیٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی و جینیٹک انجینئرنگ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر قاسم مہدی نے مارچ2007ء میں اس ادارہ کی سربراہی قبول کی مگر ایک سال بعد ہی بغیر بتائے چپ چاپ ڈاکٹر ادیب رضوی کے پاس چلے گئے حالانکہ میں نے KRL میں ان پر بہت مہربانی کی تھی۔ بدقسمتی سے ان میں انسانی تعلقات بنانے یا نبھانے کا فقدان تھا۔ انسٹیٹیوٹ کو اچھے طریقہ سے چلانے اور مستقل حیثیت دینے کے لئے ہم نے اس کو کراچی یونیورسٹی کے حوالے کردیا اور ڈاکٹر قاسم مہدی کی روانگی کے بعد وائس چانسلر جناب پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم (جو عزیز دوست ہیں) نے یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور میرے پیارے دوست پروفیسر ڈاکٹر ارتفاق علی کو ڈی جی لگا دیا جنہوں نے اپریل 2008ء سے ستمبر 2011ء تک نہایت اعلیٰ طریقہ سے خدمات انجام دیں اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد وائس چانسلر نے پروفیسر ڈاکٹر عابد اظہر کو ڈی جی مقرر کردیا اور انہوں نے نہایت اعلیٰ صلاحیتوں سے اس کی کارکردگی کو چارچاند لگا دیئے۔ پروفیسر عابد اظہر کو ایچ ای سی کی جانب سے ممتاز پروفیسر کا درجہ دیا گیا ہے۔ انہوں نے آسٹریلیا کی مشہور نیشنل یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ہے۔ ادارہ کو کراچی یونیورسٹی کے حوالے کرنے کا مقصد نہایت خوشگوار نتائج کا حامل ہوا۔یہاں سے بہت سے لڑکے اور لڑکیوں نے M.Phil کی ڈگریاں حاصل کی ہیں اور 35 لڑکے اور لڑکیوں نے Ph.D کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ یہ ادارہ اس وقت بین الاقوامی سطح پر نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ میرے نہایت عزیز دوست اور بین الاقوامی شہرت کے مالک اور پاکستان اکیڈمی آف سائنسیز کے سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر انور نسیم وزیٹنگ پروفیسر ہیں۔
انسٹیٹیوٹ کی اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے 2002ء سے 2005ء تک تقریباً 20 کروڑ روپے امداد ملی اور پھر 2006ء سے 2014ء تک تقریباً 33 کروڑ روپے کی امداد ملی ہے۔ اس وقت تقریباً 45 افراد درس و تدریس سے منسلک ہیں اور 34 طلباء و طالبات Ph.D, M.Phil, MS کی ڈگریوں کے لئے سرگرم عمل ہیں۔
اس مختصر سے کالم میں تمام آلات و ریسرچ سرگرمیوں کی تفصیل بیان کرنا ناممکن ہے صرف یہ عرض کروں گا کہ انسٹیٹیوٹ میں دنیا کے جدید ترین آلات موجود ہیں اور یہ ادارہ کسی بھی بیرونی ادارے سے کم نہیں ہے۔ ریسرچ کے تحت ایگریکلچرل بیوٹیکنالوجی، انڈسٹریل بیو ٹیکنالوجی اور میڈیکل بیو ٹیکنالوجی کے میدانوں میں اہم کام ہورہا ہے۔ ادارے کے بارے میں مزید مکمل معلومات کیلئے آپ اس کا ویب سائٹ وزٹ کریں۔www.kibge.edu.pk۔ ای میل یہ ہے۔ ibge@kibge.edu.pk
ادارے کے سائنسدانوں نے اب تک تقریباً 500 مقالے مقامی، بین الاقوامی رسالوں میں شائع کئے ہیں اور کانفرنسوں میں پیش کئے ہیں۔ ادارے نے بین الاقوامی سطح پر آسٹریلیا، جاپان، جرمنی، امریکہ، ترکی، ایران، آئرلینڈ، ملائیشیا، اٹلی، ہانگ کانگ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے مشترکہ پروگرام جاری رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے ممتاز اداروں سے بھی نہایت قریبی تعلقات قائم کئے ہیں۔ لاتعداد غیرملکی ماہرین انسٹیٹیوٹ آتے رہے ہیں اور ہمارے ادارے کے ماہرین بھی غیر ملکی اداروں کے دوروں پر جاتے رہتے ہیں۔ میں نے اس ادارے کی تعمیر، آلات کی فراہمی وغیرہ میں بذات خود بے حد دلچسپی لی ہے۔ یہاں تک کہ اس کا تمام اعلیٰ فرنیچر گجرات کے نظام اینڈ سنز کے محمد اسلم سے 85 لاکھ روپیہ کی لاگت سے بنوایا تھا۔ آج بھی تمام لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اس ادارہ اور دماغی امراض کے علاج کے ادارہ کی تعمیر کرکے میں نے کراچی کے شہری ہونے کا قرض ادا کردیا۔
(2) دوسرا نہایت اعلیٰ ادارہ شفا اِنٹرنیشنل اسپتال، اسلام آباد ہے۔ یہ ملک کے اعلیٰ ترین اسپتالوں میں شمار ہوتا ہے اور میرا اس سے بہت ہی قریبی تعلق رہا ہے۔ چند دن پیشتر انہوں نے اپنی 20 سالہ سالگرہ منائی اور مجھے چیف گیسٹ بنانے کی عزت بخشی۔ اس کے روح رواں اور بانی مرحوم ڈاکٹر ظہیر احمد میرے پیارے دوست تھے اور جس وقت یعنی نوّے کے اوائل میں جب وہ اس اسپتال کی تعمیر کی جدوجہد میں مصروف تھے میں بھی اس وقت غلام خان انسٹیٹیوٹ صوابی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر اور روح رواں کی حیثیت سے مصروف تھا ہماری اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ وہ اپنے خوابوں کی تعمیر کو حقیقت میں بدلنے میں دل و جان سے منہمک تھے ۔ بعد میں میانوالی میں جہاں میں ایک انسٹیٹیوٹ وہاں کے بچوں کی تعلیم کے لئے تعمیر کررہا تھا ان سے ملاقاتیں ہوئیں کہ وہ وہاں تعمیر ملّت فائونڈیشن کے تحت بچیوں کا اعلیٰ اسکول قائم کررہے تھے، اس میں ہمارے باہمی دوست مرحوم ڈاکٹر ظفر خان نیازی ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ڈاکٹر ظہیر ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے انہوں نے امریکہ میں مقیم محب وطن پاکستانیوں کو اسلام آباد میں ایک اعلیٰ اسپتال بنانے کی ضرورت پر قائل کر لیا اور ان سب کی مالی اعانت سے یہ اعلیٰ ادارہ تعمیر ہوا۔ میں نے خود اس کی پروموشن کے لئے ایک فلم میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی تھی۔ اس وقت یہاں 25 لاکھ سے زیادہ مریض علاج کو آتے ہیں، 150 غیرملکی نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ماہرین امراض آتے رہتے ہیں، تقریباً 3500 ملازمین ہیں جن میں بین الاقوامی شہرت کے ماہرین شامل ہیں۔ وسیع رقبہ پر نہایت کشادہ عمارتیں دنیا کے بہترین آلات سے مرصع ہیں۔ میں نے خود لاتعداد مرتبہ یہاں اہم ٹیسٹ کرائے ہیں۔ اسپتال کے چیئرمین بین الاقوامی شہرت کے ماہرین قلب ڈاکٹر حبیب الرحمن ہیں اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر مشہور ماہر ڈاکٹر منظور ایچ قاضی ہیں۔ اسپتالوں کی انتظامیہ ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز کے تحت ہے جس میں اسپتال کے اہم ڈاکٹر شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس اسپتال کے ہوتے ہوئے کسی بھی مریض کا بیرون ملک جانے کا خیال خام ہے۔ یہاں اپنے ملک میں بہترین سہولتوں اور بہترین تجربہ کار اعلیٰ ماہرین کی موجودگی میں کسی کو باہر جانے کا سوچنا بھی نہیں چاہئے۔
شفا اِنٹرنیشنل اسپتال میں کام کرنے والے کئی ماہرین میرے اچھے دوست ہیں۔ ڈاکٹر حبیب الرحمن (جنہوں نے میرا معائنہ کیا تھا)، ڈاکٹر منظور قاضی، ڈاکٹر سعید اختر(جو آغا خان اسپتال میں میرے آپریشن کے دوران ڈاکٹر فرحت کے ساتھ مع ڈاکٹر کامران مجید موجود تھے) ڈاکٹر کامران مجید (ہمارے کے آر ایل کی میڈیکل سروسز کے ڈی جی) اور کرنل ڈاکٹر محمد نعیم (کے آر ایل کے سابقہ ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن) پر خلوص دوست ہیں۔شفا انٹرنیشنل اسپتال کی ویب سائٹ اور ای میل یہ ہیں۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=165002