آپ کی تمام باتیں ہی درست ہیں مزمل بھائی۔
لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے اس کے اسباب جاننا بےحد ضروری ہے۔ میڈیکل داخلوں میں شروع ہونے والی کرپشن سے لے کر مفت ہاؤس جاب تک کروائی جاتی ہے۔ میڈیکل سٹوڈنٹ کا باقاعدہ استحصال کیا جاتا ہے۔ قابل میڈیکل سٹوڈنٹس پر اشرافیہ ڈاکٹرز کا پریشر الگ سے ہوتا ہے کہ ہمارے ہسپتال میں ہاؤس جاب کرو۔ اور وہ بھی بغیر تنخواہ کے۔ جو ذرا اڑنے کی کوشش کرے۔ اس کی نائٹ شفٹ الگ۔ ایسے غلاظت سے لتھڑے ماحول سے ایک قصائی نما مشین ہی نکل سکتی ہے۔ انسان تو وہی رہے گا جس کی تربیت کے بنیاد اتنی پختہ رکھی گئی ہو کہ یہ سب باتیں اس کو ہلا نہ سکیں۔ میں اب ایسے قابل لڑکے کو جانتا ہوں۔ جو کہیں پر بھی ہاؤس جاب نہیں کر رہا ہے۔ لیکن ہر کوئی اس قابل نہیں ہوتا کہ پانچ سال کی اتنی فیس بھرنے کے بعد بھی بیروزگاری کا بوجھ سہہ سکے۔ سو نوجوان نسل ڈھل جاتی ہے۔ جینے کی آس لیے مر جاتی ہے۔ پھر ہمارا معاشی نظام۔۔۔ خاندان کی توقعات۔۔۔ ان کا آدھا پورا کرتے کرتے ہی احساس تب ہوتا ہے جب بال سفید اور کمر جھک جاتی ہے۔ اس لتھڑے ماحول میں کوئی ایک آدھا باصفات ڈاکٹر جب آپ کو نظر آجائے تو سب کو کنول کی طرح سراہتے ضرور ہیں۔ لیکن اس کے پاؤں کس دلدل میں دھنسے ہیں۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا۔
اس کے بعد بات آتی ہے تحقیق و بلاگز کی۔ یہ سلجھے معاشرو ں کی باتیں ہیں۔ جہاں لوگ روٹی پانی کی بک بک سے نکل آتے ہیں۔ ایک قابل ڈاکٹر اگر فوت ہوجائے تو اس کی اولاد معاشرے میں کس کس طرح ذلیل و خوار ہوتی ہے۔ اہل دل سب جانتے اور دیکھتے ہیں۔ پھر اگر بلاگ لکھو تو ملے گا کیا۔ کھاؤ گے کیا کماؤ گے کیا۔ وہ لوگ جو عورتوں کی تعلیم کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ وہ ہسپتال میں اس بات پر لڑ رہے ہوتے ہیں کہ ہماری بہن ماں بیٹی بہو کو صرف لیڈی ڈاکٹر ہی دیکھ سکتی ہے۔ کوئی مرد نہیں۔ اگر اتنا ہی شوق ہے تو پھر بیٹیوں کو پڑھاتے کیوں نہیں۔ مرد پر ذمہ داری اور توقعات کا اتنا بوجھ لاد دیتے ہو کہ وہ مشین نہ بنے تو مر جائے۔ یہ صرف ایک شعبے کا المیہ نہیں۔ ہر شعبے میں یہی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ کیا صحافی، کیا مہندس، کیا قلم کار اور کیا اساتذہ۔۔۔۔ سب کے گریبان چاک ہیں۔ ان کے حالات دیکھو تو سہی۔ ان کے رفو کیے دامن نہیں نظر آتے سروے والوں کو۔ پرچی پر لکھی غلطیاں نظر آتی ہیں۔
ایک واقعہ شئیر کر رہا ہوں۔ ملک کے انتہائی سینئر ڈاکٹر کی وال سے لیا ہے۔ ذرا پڑھیے اور سر دھنیے۔
"
فروری 2016 میں لاہور کے مشہور سروسز ہاسپٹل میں 223 آسامیوں کو پر کرنے کیلئے اخبارات میں اشتہار شائع ہوئے۔ ان آسامیوں میں نرسوں سے لے کر لیب ٹیکنیشنز تک اور دھوبی، نائب قاصد سے لے کر جمعدار تک کی پوزیشنیں شامل تھیں۔
ہاسپٹل کے ایم ایس کئی سال تک بیرون ملک خدمات انجام دے کر اپنے آخری چند سال اپنے وطن کی خدمت کرنے کا جزبہ لے کر آئے تھے۔ انہوں نے ان آسامیوں کو پر کرنے کیلئے ہیومن ریسورس، ایڈمن اور ٹیکنکل سٹاف کی ایک کمیٹی بنائی جس کا کام تمام درخواستوں کی چھانٹی کرکے ان میں سے قابل افراد کا انٹرویو کرکے انہیں سیلیکٹ کرنا تھا۔ یہ تمام عمل تقریباً ڈھائی ماہ جاری رہا جس میں ہاسپٹل کی تاریخ میں شاید پہلی بار مکمل میرٹ پر انٹرویو کرنے کے بعد امیدواروں کو فائنل کیا گیا۔
فائنل امیدواروں کی لسٹ بن چکی تھی اور ایم ایس صاحب نے اس پر دستخط کرکے متعلقہ محکمے کو بھجوانے کی تیاری کرلی تھی کہ اچانک لاہور سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے ایک مقامی رہنما کو ان نوکریوں کی خبر مل گئی۔ ن لیگ کا یہ غنڈہ نما رہنما فوراً لاہور کی مقامی قیادت سے ملا اور انہیں کہا کہ ہمیں یہ نوکریاں اپنے خاص بندوں کو دینی چاہیئں یا پھر بیچ کر مال بنانا چاہیئے۔ لاہور کی قیادت جو کہ خواجہ سعد رفیق، ضعیم قادری اور ایسے ہی دوسرے "قابل" افراد پر مشتمل ھے، کو یہ تجویز بہت پسند آئی۔ آناً فاناً اپنے پسندیدہ افراد کے ناموں پر مشتمل ایک لسٹ بنائی گئی جو کہ ن لیگ کا وہ غنڈہ نما مقامی رہنما اپنے ساتھ لے کر سروسز ہاسپٹل کے ایم ایس کے دفتر پہنچ گیا۔
دفتر پہنچ کر اس نے ایم ایس صاحب سے نوکریوں کے بارے میں پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ وہ یہ نوکریاں پہلے ہی میرٹ پر دے چکے ہیں اور متعلقہ محکمہ کامیاب امیدواروں کو نوٹس بھی بھیجنے جارہا ھے۔ ن لیگ کے اس غنڈے نے ایم ایس صاحب کے ہاتھ سے وہ لسٹ پکڑ کر پھاڑدی اور اپنی لسٹ دے کر کہا کہ یہ لسٹ وزیراعلی ہاؤس سے فائنل ہوئی ھے، آپ نے انہی امیدواروں کو نوکریوں پر رکھنا ھے۔
ساری عمر باہر کے ممالک میں پروفیشنل طریقے سے نوکری کرنے والے اس ایم ایس کو یہ بات سن کر سخت غصہ آیا اور انہوں نے ن لیگ کی اس لسٹ کو پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا کہ نوکریاں صرف اہل امیدواروں کو ہی ملیں گی۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے سٹاف سے کہہ کر ن لیگ کے اس غنڈے کو دروازے تک چھوڑنے کا کہہ دیا۔
اس دن شام تک یہ خبر خواجہ سعد رفیق سے ہوتی ہوئی حمزہ شہباز اور پھر خادم اعلی تک پہنچ چکی تھی۔ اگلے دن صبح 8 بجے جب ایم ایس صاحب اپنے دفتر پہنچے تو ان کی نوکری سے برخواستگی کا نوٹس ان کا انتظار کررہا تھا۔
وہ الٹے پاؤں گھر واپس چلے گئے۔ گھر پہنچے تو شام تک خبر ملی کہ ان پر تین، چار مقدمات بن چکے ہیں اور متعلقہ محکے کے لوگ باری باری ان کے گھر آکر ان کے بیوی بچوں کو ہراساں کررہے تھے، محلے میں شور کرکے انہیں بدنام کررہے تھے۔
ایم ایس صاحب کو سمجھ لگ گئی کہ ان کا پاکستان کی خدمت کرنے کے جزبے پر اب ٹھنڈا پانی ڈالنے کا وقت آگیا ھے۔ انہوں نے سوچا کہ اپنی فیملی سمیت واپس بیرون ملک شفٹ ہوا جائے۔
اگلے دن انہیں پتہ چلا کہ حکومت نے ان کا پاسپورٹ ضبط کرلیا ھے اور اگلے احکامات تک ان پر بیرون ملک سفر پر پابندی لگ چکی ھے۔
یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ انہوں نے ن لیگ کی بنائی ہوئی نوکریوں کی لسٹ پھاڑ دی تھی اور ان پر کیسز حفظ ماتقدم کے طور پر بنائے گئے تاکہ وہ ٹی وی یا سوشل میڈیا پر یہ خبر نہ پھیلا دیں۔
جن 223 اہل افراد کو نوکریاں ملنی تھیں وہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔ ان میں سے کئی ایسے بھی ہونگے جو ' شیر، اک واری فیر ' کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے ہونگے۔ ان کیلئے اطلاع ھے کہ ابھی وہ یہ نعرے مزید کئی سال تک ایسے ہی لگاتے رہیں اور نوکری ملنے کا انتظار کرتے رہیں۔
جس میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے پاکستان کی خدمت کرنے کا سوچا تھا، وہ اب اپنے گھر بیٹھا اپنے فیصلے پر پچھتا رہا ھے۔
اور ن لیگ کی لاہور کی قیادت یہ سوچ کر خوش ہورہی ھے کہ انہوں نے ووٹ کمانے کے ایک اور موقع سے فائدہ اٹھالیا۔
عوام اور اس کے منتخب کردہ یہ رہنما، یہ پوسٹ پڑھیں اور اپنی جہالت پر خوشیاں منائیں!!!
"
یہ ملک کے سب سے بڑے صوبے اور بزعم خود ترقی یافتہ شہر کا قصہ ہے۔ اب مجھے یہ بتائیں کہ اس ماحول سے آپ پاؤلو اور گبریل گارشیا پیدا کریں گے۔ وہ فیض اور اقبال بھی اپنے زور پر پیدا ہوگئے۔ ایں سعادت بزور بازو نیست والے چکر میں۔ ورنہ اس معاشرے کے اندر ایسی کوئی صلاحیت نہیں ہے کہ یہ ایسے لوگ پروان چڑھیں جن کا آپ اپنی تحریر میں تقاضا کر رہے ہیں۔
میں خود ڈاکٹرز کے کاموں سے بہت تنگ ہوں۔ اور میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ کسی پر انگلی اٹھانا سب سے آسان کام ہے۔ جب ہم اس معاشرے سے اتنے تنگ ہیں۔ تو اب اس کو بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے۔ کیوں انہی کرپٹ راہوں کے راہی بنے ہیں جن کو ہم صبح و شام کوستے ہیں۔