محسن وقار علی
محفلین
پاکستان میں عام انتخابات کے تناظر میں بی بی سی اردو نے قومی اسمبلی کے 272 انتخابی حلقوں کا مختصراً جائزہ لیا ہے جسے سلسلہ وار پیش کیا جائے گا۔اس سلسلے کی چھٹی قسط میں این اے 75 سے این اے 94 تک انتخابی حلقوں پر نظر ڈالی گئی ہے جو فیصل آباد، جھنگ، چنیوٹ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع میں ہیں۔
پہلی قسط: حلقہ این اے 1 سے این اے 16 تک
دوسری قسط: حلقہ این اے 17 سے این اے 32 تک
تیسری قسط:این اے 33 سے این اے 47 تک
چوتھی قسط:این اے 48 سے این اے 59 تک
پانچویں قسط:این اے 60 سے این اے 74 تک
فیصل آباد
مسلم لیگ نواز اس مرتبہ فیصل آباد سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے پرامید ہے
ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے مشہور پاکستان کا تیسرا بڑا شہر فیصل آباد قومی اسمبلی کےگیارہ حلقوں پر مشتمل ہے۔
اس ضلع کو عموماً مسلم لیگ نواز کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے لیکن گزشتہ الیکشن میں یہاں سے پیپلز پارٹی نے پانچ نشستیں جیتی تھیں۔ مسلم لیگ ن کے حصے میں تین اور مسلم لیگ ق کے حصے میں دو نشستیں آئی تھیں جبکہ ایک نشست پر آزاد امیدوار کامیاب ہوا تھا۔
ضلع فیصل آباد میں قومی اسمبلی کا پہلا حلقہ این اے 75 ہے جو فیصل آباد شہر کے نواحی دیہاتی علاقے پر مشتمل ہے۔ یہاں سے 2008 میں پی پی پی کے طارق محمود باجوہ نے کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ اس مرتبہ بھی میدان میں ہیں اور ان کے مسلم لیگ ن کے غلام رسول ساہی سے سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس حلقے سے کل 20 امیدوار میدان میں ہیں۔
این اے 76 کی حدود میں تحصیل جڑانوالہ اور اس کے نواحی علاقے آتے ہیں۔گزشتہ الیکشن میں یہ سیٹ پی پی پی کے ملک نواب شیر وسیر نے جیتی تھی اور اس مرتبہ انہیں مسلم لیگ ن نے محمد طلال چوہدری سمیت 27 امیدواروں سے مقابلے کا سامنا ہے۔
2008 کے عام انتخابات میں فیصل آباد کا حلقہ این کے 77 مسلم لیگ ق نے اپنے نام کیا۔ یہاں سے کامیاب ہونے والے محمد عاصم نذیر آئندہ انتخابات کے لیے امیدوار تو ہیں لیکن اب ان کی وفاداریاں مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں۔ مسلم لیگ ق نے اب یہاں سے اپنے سینیئر رہنما چوہدری ظہیر الدین کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے اس حلقے سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔
محمد عاصم نذیر آئندہ انتخابات کے لیے امیدوار تو ہیں لیکن اب ان کی وفاداریاں مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں
این اے 78 میں دو ہزار آٹھ کا انتخاب پی پی پی کی راحیلہ پروین نے مسلم لیگ ق کے رجب علی خان بلوچ کو شکست دے کر جیتا تھا۔ اس مرتبہ راحیلہ تو پی پی پی کی امیدوار نہیں تاہم رجب علی خان مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر میدان میں اترے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے اپنا انتخابی ٹکٹ سینیئر سیاستدان شہادت علی خان بلوچ کو دیا ہے تو پی ٹی آئی نے سعد اللہ محمود عرف محمد یاسر بلوچ کو اس حلقے سے امیدوار نامزد کیا ہے۔ اس حلقے سے مقامی سیاست میں اہم مقام رکھنے والے صفدر شاکر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
گزشتہ الیکشن میں این اے 79 فیصل آباد کا وہ واحد حلقہ تھا جہاں سے آزاد امیدوار رانا فاروق سعید خان کامیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے بعدازاں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اس مرتبہ نہ صرف وہ الیکشن نہیں لڑ رہے بلکہ اس نشست سے پی پی پی کا کوئی امیدوار میدان میں نہیں۔ مسلم لیگ نواز نے اس سیٹ پر چوہدری شہباز بابر کو ٹکٹ دیا ہے جن کا مقابلہ پی ٹی آئی کے خالد عبداللہ غازی سمیت 20 امیدواروں سے ہوگا جن میں پاکستانی بحریہ کے ریٹائرڈ ایڈمرل جاوید اقبال بھی شامل ہیں۔
صاحبزداہ فضل کریم کے انتقال کے بعد ان کے فرزند آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں
پیپلز پارٹی نے این اے 80 سے بھی کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتارا ہے اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت یہ نشست مسلم لیگ ق کو دی گئی ہے جس کے امیدوار رانا آصف توصیف ہیں جو 2008 میں بھی یہیں سے جیتے تھے۔ ان کا مقابلہ مسلم لیگ نواز کے میاں محمد فاروق سے ہے۔
این اے 81 میں گزشتہ عام انتخابات میں پی پی پی کے سعید اقبال کامیاب ہوئے تھے اور اس بار بھی وہی پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔ ان کے مدمقابل امیدواروں میں اہم نام گزشتہ بار کے رنر اپ نثار احمد کا ہی ہے تاہم اب وہ مسلم لیگ ق کی بجائے مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔ اس بار مسلم لیگ ق کا کوئی امیدوار اس حلقے میں موجود نہیں۔
این اے 82 فیصل آباد 8 میں گزشتہ انتخاب میں کامیاب ہونے والے مسلم لیگ ن کے صاحبزادہ فضل کریم تو اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کے بیٹے صاحبزادہ محمد حامد رضا آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور انہیں پیپلز پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ مسلم لیگ نواز نے یہاں سے رانا محمد افضل خان کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے سابق رہنما نثار اکبر خان اس مرتبہ پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں اترے ہیں۔
این اے 83 میں گزشتہ بار کامیاب ہونے والے پیپلز پارٹی کے محمد اعجاز ورک ایڈووکیٹ تو اب مسلم لیگ ن میں شامل ہو چکے ہیں اس لیے پیپلز پارٹی نے ٹکٹ ق لیگ سے پیپلز پارٹی میں آنے والے ممتاز علی چیمہ کو دیا ہے۔ ان کا مقابلہ گزشتہ بار رنر اپ رہنے والے مسلم لیگ نواز کے میاں عبدالمنان سے ہے جبکہ دیگر اہم امیدواروں میں فیض اللہ کموکا ہیں جو پیپلزپارٹی چھوڑنے کے بعد اب پی ٹی آئی کے امیدوار بنے ہیں۔
عابد شیر علی فیصل آباد کے سابق میئر شیر علی کے بیٹے ہیں
این اے 84 کو مسلم لیگ نواز کا مضبوط حلقہ مانا جاتا ہے اور یہاں سے 2008 میں جیتنے والے عابد شیر علی ہی دوبارہ ن لیگ کے امیدوار ہیں۔ انہیں پیپلز پارٹی کے ملک اصغر علی قیصر سمیت 17 امیدواروں کا سامنا ہے تاہم مسلم لیگ ق نے اس نشست کے لیے کسی کو میدان میں نہیں اتارا۔
این اے 85 ضلع فیصل آباد سے قومی اسمبلی کا آخری حلقہ ہے۔گزشتہ انتخابات میں اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے حاجی محمد اکرم انصاری جیتے تھے اور وہی اس بار بھی اپنی جماعت کے امیدوار ہیں۔ پی پی پی نے اس مرتبہ گزشتہ سال کے رنر اپ شکیل احمد کی جگہ ملک سردار محمد کو ٹکٹ دیا ہے۔
چنیوٹ
شاہ جیونہ کے گدی نشین اور سابق وفاقی وزیر مخدوم فیصل صالح حیات آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں
دریائے چناب کے کنارے واقع چنیوٹ ضلع جھنگ کی تحصیل تھی اور اسے گزشتہ دورِ حکومت میں ہی ضلع کا درجہ دیا گیا ہے۔
یوں اب این اے 86 جو پہلے جھنگ ون تھا اب چنیوٹ ون بن گیا ہے۔اس حلقے سے 2008 میں پیپلز پارٹی کے سید عنایت شاہ کامیاب ہوئے تھے جو اب تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں آئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے یہاں سے ذوالفقار علی شاہ کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ قیصر احمد شیخ مسلم لیگ نواز کے امیدوار ہیں۔
این اے 87 میں اب چنیوٹ اور جھنگ دونوں کے علاقے شامل ہیں اور یہاں سے شاہ جیونہ کے گدی نشین اور سابق وفاقی وزیر مخدوم فیصل صالح حیات آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ سیاستدان والدین فخر امام اور عابدہ حسین کے فرزند سید عابد امام سے ہے جو پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں جبکہ مسلم لیگ ن نے غلام لالی کو ٹکٹ دیا ہے۔
جھنگ
صوبہ پنجاب کے ضلع جھنگ ملک کے ان علاقوں میں سے ایک ہے جو فرقہ وارانہ کشیدگی کی وجہ سے اکثر خبروں میں رہتے ہیں۔ چنیوٹ کے ضلع بننے کے بعد اب جھنگ کے حصے میں قومی اسمبلی کی چار نشستیں باقی رہ گئی ہیں۔
ان میں سے پہلی نشست این اے 88 ہے اور اس کی حدود میں جھنگ اور چنیوٹ دونوں کا علاقہ آتا ہے۔ اس حلقے سے مضبوط امیدوار مسلم لیگ ق کی غلام بی بی بھروانہ ہیں جو 2008 میں این اے 87 سے رکنِ اسمبلی بنی تھیں۔ پیپلز پارٹی نے یہاں خواجہ عطا اللہ خان کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ شاہ جیونہ خاندان کے مخدوم زادہ سید اسد حیات آزاد حیثیت میں اس حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
مولانا احمد لدھیانوی این اے 89 سے امیدوار ہیں
این اے 89 جھنگ کا دوسرا حلقہ ہے اور اس الیکشن میں ایک مرتبہ پھر اس کا شمار حساس حلقوں میں کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں یہاں سے کالعدم سپاہِ صحابہ کے اہم رہنما الیکشن لڑتے رہے ہیں۔
2008 میں یہاں سے مسلم لیگ ق کے شیخ وقاص اکرم کامیاب ہوئے تھے جو اب مسلم لیگ ن کا حصہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے تنظیم اہلِ سنت والجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی کو ہرایا تھا جو اس بار بھی انتخابی میدان میں ہیں۔ احمد لدھیانوی کا مقابلہ اب وقاص اکرم کے والد شیخ محمد اکرم سے ہے۔
این اے 90 سے 2008 میں آزاد امیدوار صائمہ اختر بھروانہ کامیاب ہو کر مسلم لیگ ن کا حصہ بن گئی تھیں۔ اس مرتبہ ن لیگ نے انہیں ہی ٹکٹ دیا ہے اور ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے عبدالقدوس اعوان سے ہے جبکہ اس حلقے کی اہم سیاسی شخصیت صاحبزادہ نذیر سلطان آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے ہیں۔
این اے 91 جھنگ کا آخری حلقہ ہے اور یہاں مقابلہ مسلم لیگ ن کے صاحبزادہ محبوب سلطان اور پی پی پی پی کے اظہر علی میکن کے درمیان ہوگا۔ ان کے علاوہ سیال برادری سے تعلق رکھنے والے نجف عباس سیال بھی اسی حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ
اس بار ریاض فتیانہ آزاد حیثیت سے میدان میں ہیں
2008 کے الیکشن میں ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تین نشستوں میں سے دو پر مسلم لیگ ق اور ایک پر مسلم لیگ ن کو کامیابی ملی تھی۔
حلقہ این اے 92 سے کامیاب ہونے والی امیدوار فرخندہ امجد وڑائچ تھیں جنہوں نے ن لیگ کے بزرگ سیاستدان محمد حمزہ کو ہرایا تھا۔ اس بار محمد حمزہ کے بیٹے اسامہ حمزہ آزاد امیدوار ہیں جبکہ مسلم لیگ ن نے ٹکٹ وڑائچ خاندان کے خالد جاوید وڑائچ کو دیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے محمد اسحاق کو نامزد کیا ہے۔
این اے 93 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار 2008 کے فاتح جنید انور چوہدری ہی ہیں جن کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے محمد عباس سمیت 13 امیدواروں سے ہے جبکہ مسلم لیگ ق نے یہاں سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔
این اے 94 میں گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ ق کے ریاض فتیانہ کامیاب ہوئے تھے تاہم بعدازاں انہوں نے پارٹی چھوڑ دی تھی۔ اس بار وہ آزاد حیثیت سے میدان میں ہیں اور ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے چوہدری اسدالرحمان سے ہے۔
بہ شکریہ بی بی سی اردو
پہلی قسط: حلقہ این اے 1 سے این اے 16 تک
دوسری قسط: حلقہ این اے 17 سے این اے 32 تک
تیسری قسط:این اے 33 سے این اے 47 تک
چوتھی قسط:این اے 48 سے این اے 59 تک
پانچویں قسط:این اے 60 سے این اے 74 تک
فیصل آباد

مسلم لیگ نواز اس مرتبہ فیصل آباد سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے پرامید ہے
ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے مشہور پاکستان کا تیسرا بڑا شہر فیصل آباد قومی اسمبلی کےگیارہ حلقوں پر مشتمل ہے۔
اس ضلع کو عموماً مسلم لیگ نواز کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے لیکن گزشتہ الیکشن میں یہاں سے پیپلز پارٹی نے پانچ نشستیں جیتی تھیں۔ مسلم لیگ ن کے حصے میں تین اور مسلم لیگ ق کے حصے میں دو نشستیں آئی تھیں جبکہ ایک نشست پر آزاد امیدوار کامیاب ہوا تھا۔
ضلع فیصل آباد میں قومی اسمبلی کا پہلا حلقہ این اے 75 ہے جو فیصل آباد شہر کے نواحی دیہاتی علاقے پر مشتمل ہے۔ یہاں سے 2008 میں پی پی پی کے طارق محمود باجوہ نے کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ اس مرتبہ بھی میدان میں ہیں اور ان کے مسلم لیگ ن کے غلام رسول ساہی سے سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس حلقے سے کل 20 امیدوار میدان میں ہیں۔
این اے 76 کی حدود میں تحصیل جڑانوالہ اور اس کے نواحی علاقے آتے ہیں۔گزشتہ الیکشن میں یہ سیٹ پی پی پی کے ملک نواب شیر وسیر نے جیتی تھی اور اس مرتبہ انہیں مسلم لیگ ن نے محمد طلال چوہدری سمیت 27 امیدواروں سے مقابلے کا سامنا ہے۔
2008 کے عام انتخابات میں فیصل آباد کا حلقہ این کے 77 مسلم لیگ ق نے اپنے نام کیا۔ یہاں سے کامیاب ہونے والے محمد عاصم نذیر آئندہ انتخابات کے لیے امیدوار تو ہیں لیکن اب ان کی وفاداریاں مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں۔ مسلم لیگ ق نے اب یہاں سے اپنے سینیئر رہنما چوہدری ظہیر الدین کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے اس حلقے سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔

محمد عاصم نذیر آئندہ انتخابات کے لیے امیدوار تو ہیں لیکن اب ان کی وفاداریاں مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں
این اے 78 میں دو ہزار آٹھ کا انتخاب پی پی پی کی راحیلہ پروین نے مسلم لیگ ق کے رجب علی خان بلوچ کو شکست دے کر جیتا تھا۔ اس مرتبہ راحیلہ تو پی پی پی کی امیدوار نہیں تاہم رجب علی خان مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر میدان میں اترے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے اپنا انتخابی ٹکٹ سینیئر سیاستدان شہادت علی خان بلوچ کو دیا ہے تو پی ٹی آئی نے سعد اللہ محمود عرف محمد یاسر بلوچ کو اس حلقے سے امیدوار نامزد کیا ہے۔ اس حلقے سے مقامی سیاست میں اہم مقام رکھنے والے صفدر شاکر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
گزشتہ الیکشن میں این اے 79 فیصل آباد کا وہ واحد حلقہ تھا جہاں سے آزاد امیدوار رانا فاروق سعید خان کامیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے بعدازاں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اس مرتبہ نہ صرف وہ الیکشن نہیں لڑ رہے بلکہ اس نشست سے پی پی پی کا کوئی امیدوار میدان میں نہیں۔ مسلم لیگ نواز نے اس سیٹ پر چوہدری شہباز بابر کو ٹکٹ دیا ہے جن کا مقابلہ پی ٹی آئی کے خالد عبداللہ غازی سمیت 20 امیدواروں سے ہوگا جن میں پاکستانی بحریہ کے ریٹائرڈ ایڈمرل جاوید اقبال بھی شامل ہیں۔

صاحبزداہ فضل کریم کے انتقال کے بعد ان کے فرزند آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں
پیپلز پارٹی نے این اے 80 سے بھی کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتارا ہے اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت یہ نشست مسلم لیگ ق کو دی گئی ہے جس کے امیدوار رانا آصف توصیف ہیں جو 2008 میں بھی یہیں سے جیتے تھے۔ ان کا مقابلہ مسلم لیگ نواز کے میاں محمد فاروق سے ہے۔
این اے 81 میں گزشتہ عام انتخابات میں پی پی پی کے سعید اقبال کامیاب ہوئے تھے اور اس بار بھی وہی پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔ ان کے مدمقابل امیدواروں میں اہم نام گزشتہ بار کے رنر اپ نثار احمد کا ہی ہے تاہم اب وہ مسلم لیگ ق کی بجائے مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔ اس بار مسلم لیگ ق کا کوئی امیدوار اس حلقے میں موجود نہیں۔
این اے 82 فیصل آباد 8 میں گزشتہ انتخاب میں کامیاب ہونے والے مسلم لیگ ن کے صاحبزادہ فضل کریم تو اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کے بیٹے صاحبزادہ محمد حامد رضا آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور انہیں پیپلز پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ مسلم لیگ نواز نے یہاں سے رانا محمد افضل خان کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے سابق رہنما نثار اکبر خان اس مرتبہ پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں اترے ہیں۔
این اے 83 میں گزشتہ بار کامیاب ہونے والے پیپلز پارٹی کے محمد اعجاز ورک ایڈووکیٹ تو اب مسلم لیگ ن میں شامل ہو چکے ہیں اس لیے پیپلز پارٹی نے ٹکٹ ق لیگ سے پیپلز پارٹی میں آنے والے ممتاز علی چیمہ کو دیا ہے۔ ان کا مقابلہ گزشتہ بار رنر اپ رہنے والے مسلم لیگ نواز کے میاں عبدالمنان سے ہے جبکہ دیگر اہم امیدواروں میں فیض اللہ کموکا ہیں جو پیپلزپارٹی چھوڑنے کے بعد اب پی ٹی آئی کے امیدوار بنے ہیں۔

عابد شیر علی فیصل آباد کے سابق میئر شیر علی کے بیٹے ہیں
این اے 84 کو مسلم لیگ نواز کا مضبوط حلقہ مانا جاتا ہے اور یہاں سے 2008 میں جیتنے والے عابد شیر علی ہی دوبارہ ن لیگ کے امیدوار ہیں۔ انہیں پیپلز پارٹی کے ملک اصغر علی قیصر سمیت 17 امیدواروں کا سامنا ہے تاہم مسلم لیگ ق نے اس نشست کے لیے کسی کو میدان میں نہیں اتارا۔
این اے 85 ضلع فیصل آباد سے قومی اسمبلی کا آخری حلقہ ہے۔گزشتہ انتخابات میں اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے حاجی محمد اکرم انصاری جیتے تھے اور وہی اس بار بھی اپنی جماعت کے امیدوار ہیں۔ پی پی پی نے اس مرتبہ گزشتہ سال کے رنر اپ شکیل احمد کی جگہ ملک سردار محمد کو ٹکٹ دیا ہے۔
چنیوٹ

شاہ جیونہ کے گدی نشین اور سابق وفاقی وزیر مخدوم فیصل صالح حیات آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں
دریائے چناب کے کنارے واقع چنیوٹ ضلع جھنگ کی تحصیل تھی اور اسے گزشتہ دورِ حکومت میں ہی ضلع کا درجہ دیا گیا ہے۔
یوں اب این اے 86 جو پہلے جھنگ ون تھا اب چنیوٹ ون بن گیا ہے۔اس حلقے سے 2008 میں پیپلز پارٹی کے سید عنایت شاہ کامیاب ہوئے تھے جو اب تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں آئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے یہاں سے ذوالفقار علی شاہ کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ قیصر احمد شیخ مسلم لیگ نواز کے امیدوار ہیں۔
این اے 87 میں اب چنیوٹ اور جھنگ دونوں کے علاقے شامل ہیں اور یہاں سے شاہ جیونہ کے گدی نشین اور سابق وفاقی وزیر مخدوم فیصل صالح حیات آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ سیاستدان والدین فخر امام اور عابدہ حسین کے فرزند سید عابد امام سے ہے جو پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں جبکہ مسلم لیگ ن نے غلام لالی کو ٹکٹ دیا ہے۔
جھنگ
صوبہ پنجاب کے ضلع جھنگ ملک کے ان علاقوں میں سے ایک ہے جو فرقہ وارانہ کشیدگی کی وجہ سے اکثر خبروں میں رہتے ہیں۔ چنیوٹ کے ضلع بننے کے بعد اب جھنگ کے حصے میں قومی اسمبلی کی چار نشستیں باقی رہ گئی ہیں۔
ان میں سے پہلی نشست این اے 88 ہے اور اس کی حدود میں جھنگ اور چنیوٹ دونوں کا علاقہ آتا ہے۔ اس حلقے سے مضبوط امیدوار مسلم لیگ ق کی غلام بی بی بھروانہ ہیں جو 2008 میں این اے 87 سے رکنِ اسمبلی بنی تھیں۔ پیپلز پارٹی نے یہاں خواجہ عطا اللہ خان کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ شاہ جیونہ خاندان کے مخدوم زادہ سید اسد حیات آزاد حیثیت میں اس حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

مولانا احمد لدھیانوی این اے 89 سے امیدوار ہیں
این اے 89 جھنگ کا دوسرا حلقہ ہے اور اس الیکشن میں ایک مرتبہ پھر اس کا شمار حساس حلقوں میں کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں یہاں سے کالعدم سپاہِ صحابہ کے اہم رہنما الیکشن لڑتے رہے ہیں۔
2008 میں یہاں سے مسلم لیگ ق کے شیخ وقاص اکرم کامیاب ہوئے تھے جو اب مسلم لیگ ن کا حصہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے تنظیم اہلِ سنت والجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی کو ہرایا تھا جو اس بار بھی انتخابی میدان میں ہیں۔ احمد لدھیانوی کا مقابلہ اب وقاص اکرم کے والد شیخ محمد اکرم سے ہے۔
این اے 90 سے 2008 میں آزاد امیدوار صائمہ اختر بھروانہ کامیاب ہو کر مسلم لیگ ن کا حصہ بن گئی تھیں۔ اس مرتبہ ن لیگ نے انہیں ہی ٹکٹ دیا ہے اور ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے عبدالقدوس اعوان سے ہے جبکہ اس حلقے کی اہم سیاسی شخصیت صاحبزادہ نذیر سلطان آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے ہیں۔
این اے 91 جھنگ کا آخری حلقہ ہے اور یہاں مقابلہ مسلم لیگ ن کے صاحبزادہ محبوب سلطان اور پی پی پی پی کے اظہر علی میکن کے درمیان ہوگا۔ ان کے علاوہ سیال برادری سے تعلق رکھنے والے نجف عباس سیال بھی اسی حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ

اس بار ریاض فتیانہ آزاد حیثیت سے میدان میں ہیں
2008 کے الیکشن میں ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تین نشستوں میں سے دو پر مسلم لیگ ق اور ایک پر مسلم لیگ ن کو کامیابی ملی تھی۔
حلقہ این اے 92 سے کامیاب ہونے والی امیدوار فرخندہ امجد وڑائچ تھیں جنہوں نے ن لیگ کے بزرگ سیاستدان محمد حمزہ کو ہرایا تھا۔ اس بار محمد حمزہ کے بیٹے اسامہ حمزہ آزاد امیدوار ہیں جبکہ مسلم لیگ ن نے ٹکٹ وڑائچ خاندان کے خالد جاوید وڑائچ کو دیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے محمد اسحاق کو نامزد کیا ہے۔
این اے 93 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار 2008 کے فاتح جنید انور چوہدری ہی ہیں جن کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے محمد عباس سمیت 13 امیدواروں سے ہے جبکہ مسلم لیگ ق نے یہاں سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔
این اے 94 میں گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ ق کے ریاض فتیانہ کامیاب ہوئے تھے تاہم بعدازاں انہوں نے پارٹی چھوڑ دی تھی۔ اس بار وہ آزاد حیثیت سے میدان میں ہیں اور ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے چوہدری اسدالرحمان سے ہے۔
بہ شکریہ بی بی سی اردو