محسن وقار علی
محفلین
پاکستان میں عام انتخابات کے تناظر میں بی بی سی اردو نے قومی اسمبلی کے 272 انتخابی حلقوں کا مختصراً جائزہ لیا ہے جسے سلسلہ وار پیش کیا جائے گا۔ اس سلسلے کی ساتویں قسط میں این اے 95 سے این اے 114 تک انتخابی حلقوں پر نظر ڈالی گئی ہے ۔
پہلی قسط: حلقہ این اے 1 سے این اے 16 تک
دوسری قسط: حلقہ این اے 17 سے این اے 32 تک
تیسری قسط:این اے 33 سے این اے 47 تک
چوتھی قسط:این اے 48 سے این اے 59 تک
پانچویں قسط:این اے 60 سے این اے 74 تک
چھٹی قسط:این اے 75 سے این اے 94 تک
قومی اسمبلی کے ان حلقوں میں گوجرانوالہ ،حافظ آباد ، گجرات ،منڈی بہاؤالدین اور سیالکوٹ کے اضلاع آتےہیں۔
گوجرانوالہ
این اے 96 سے خرم دستگیر مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں
ضلع گوجرانوالہ کی حدود میں قومی اسمبلی کی سات نشستیں ہیں جن میں سے پانچ 2008 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن نے جیتی تھیں۔
این اے 95 گوجرانوالہ ون کی نشست گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کے عثمان ابراہیم نے جیتی تھی۔ اس مرتبہ بھی مسلم لیگ نواز نے انہیں ہی ٹکٹ دیا ہے تاہم ان کے مقابلے کے لیے پیپلز پارٹی نے 2008 میں یہاں سے ہارنے والے ذیشان الیاس کی جگہ محمد صدیق کا انتخاب کیا ہے۔ مسلم لیگ ق کا کوئی امیدوار یہاں سےمیدان میں نہیں اترا جبکہ اس نشست پر اس مرتبہ کل 22 امیدوار ہیں۔
این اے 96 ایک لحاظ سے مسلم لیگ ن کے خرم دستگیر کی آبائی نشست ہے اور ان سے قبل ان کے والد غلام دستگیر بھی یہیں سے ایم این اے بنے تھے۔ 2008 کے بعد اب 2013 میں خرم دستگیر ہی مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔ پی پی پی نے یہاں خواجہ محمد صالح کی بجائے چوہدری محمد سعید گجر کے ذریعے قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔
گزشتہ بار حلقہ این اے 97 سے واضح اکثریت حاصل کرنے والے مسلم لیگ ن کے چوہدری محمود بشیر ورک کے مدمقابل آئندہ عام انتخابات میں 6 کی بجائے 15 امیدوار ہیں جن میں سب سے اہم نام مسلم لیگ ق کے چوہدری محمد انور بھنڈر کا ہے۔
این اے 98 دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے حصے میں گوجرانوالہ سے آنے والی واحد نشست تھی اور یہاں سے جیتنے والے امتیاز صفدر وڑائچ ہی اس بار اپنی نشست کا دفاع کریں گے۔ مسلم لیگ ن نے اس نشست کے لیے ملک محمد عمران بشیر اعوان کو ٹکٹ دیا ہے تاہم ق لیگ نے پی پی پی کے مدمقابل کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔
مسلم لیگ ق نے گوجرانوالہ میں کئی نشستوں پر امیدوار کھڑے نہیں کیے
این اے 99 سے دوہزار آٹھ کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا نذیر احمد خان کو ہی پارٹی ٹکٹ ملا ہے جن کا مقابلہ کرنے والوں میں اہم نام پیپلز پارٹی کےچوہدری ذوالفقار بھنڈر کا ہے۔ مسلم لیگ ق نے اس حلقے سے بھی کوئی امیدوارنامزد نہیں کیا ہے۔
این اے 100 سے گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے حاجی اظہر قیوم ناہرا نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی جس کے بعد یہ نشست پی پی پی کے چوہدری تصدق مسعود خان نے جیتی ۔ آئندہ الیکشن میں اس نشست کے چودہ امیدواروں کی فہرست میں یہی دونوں مضبوط امیدوار ہیں۔
این اے 101 میں گزشتہ انتخاب جیتنے والے مسلم لیگ نواز کے جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ کا نام آئندہ انتخاب کے لیے بھی اس حلقے کے امیدواروں کی فہرست میں شامل ہے۔ ان کے مقابلے کے لیے مسلم لیگ ق نے چوہدری ساجد حسین چٹھہ کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ اس حلقے میں پی پی پی نے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔
حافظ آباد
ضلع حافظ آباد میں قومی اسمبلی کے دو حلقے ہیں۔
حلقہ این اے 102 میں اس مرتبہ دو خواتین کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ ن نے اس نشست کے لیے 2008 میں یہیں سے جیتنے والی سائرہ افضل تارڑ کو ٹکٹ دیا ہے تو ان کے مقابلے کے لیے پیپلز پارٹی نے حاجن اللہ رکھی کو نامزد کیا ہے۔
حلقہ این اے 103 سے گزشتہ بار کامیاب ہونے والے چوہدری لیاقت عباس بھٹی اس مرتبہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ ان کی جماعت نے اس حلقے سے کوئی امیدوار کھڑا نھیں کیا اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت یہ نشست پیپلز پارٹی کو دی گئی ہے جس کا ٹکٹ مشتاق احمد موہل کو ملا ہے۔ ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن نے میاں شاہد حسین بھٹی سے ہوگا۔
گجرات
چوہدری احمد مختار کا مقابلہ چوہدری شجاعت کی جگہ چوہدری پرویز الٰہی سے ہوگا
مسلم لیگ ق کے اہنم رہنماؤں چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الہیٰ کے آبائی ضلع گجرات میں قومی اسمبلی کی چار نشستیں ہیں۔
حلقہ این اے 104 گجرات 1 سے 2008 میں چوہدری شجاعت کے بھائی چوہدری وجاہت حسین کامیاب ہوئے تھے۔ اس مرتبہ پہلے الیکشن ٹربیونل کی جانب سے نااہلی اور پھر لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے الیکشن لڑنے کی اجازت کے باوجود ان کا نامی اس حلقے سے امیدواروں کی حتمی فہرست میں شامل نہیں۔
الیکشن کمیشن کی فہرست کے مطابق مسلم لیگ ق کے امیدوار علی ساجد چٹھہ ہیں جبکہ چوہدری خاندان کے شفاعت حسین آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے نوابزادہ مظہر علی گِل کو ٹکٹ دیا ہے اور پی پی پی کا اس حلقے سے کوئی امیدوار ہیں لیکن پارٹی کے سابق رہنما نوابزادہ غضنفر علی گِل آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں ہیں۔
این اے 105 میں گزشتہ انتخابات میں پی پی پی کے سابق وفاقی وزیر چوہدری احمد مختار نے مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین شکست دی تھی۔ یہ وہ حلقہ ہے جسے اس مرتبہ مسلم لیگ ق اور پی پی پی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔ تاہم اب یہاں چوہدری احمد مختار کا مقابلہ چوہدری شجاعت کی جگہ چوہدری پرویز الٰہی سے ہوگا۔
قمر زمان کائرہ این اے 106 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں
این اے 106 گجرات 3 بھی قومی اسمبلی کا اہم حلقہ ہے جہاں گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر اطلات قمر زمان کائرہ کامیاب ہوئے تھے اور اس بار بھی وہ یہاں سے مضبوط امیدوار ہیں۔ مسلم لیگ ن نے چوہدری ظفر اقبال کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ مسلم لیگ ق نے کسی امیدوار کو میدان میں نہیں اتارا تاہم گزشتہ الیکشن میں اس حلقے سے ق لیگ کے رنر اپ نور الحسن شاہ اب آزاد امیدوار کی حیثیت سے اسی حلقے سے الیکشن لڑیں گے۔
این اے 107 ضلع گجرات سے قومی اسمبلی کا آخری حلقہ ہے جہاں گزشتہ بار آزاد امیدوار حنیف ملک جیتنے کے بعد مسلم لیگ ن کا حصہ بنے تھے۔ آئندہ انتخابات کے لیے مسلم لیگ ن کا ٹکٹ چوہدری عابد رضا کو ملا ہے جن کے مدمقابل افراد میں اہم نام مسلم لیگ ق کے امیدوار رحمان نصیر چیمہ کا ہے۔
منڈی بہاؤالدین
ضلع منڈی بہاؤالدین سے قومی اسمبلی کی دو نشستیں ہیں جوگزشتہ انتخابات میں یہ دونوں نشستیں پاکستان پیپلز پارٹی نے حاصل کیں تھیں ۔ این اے 108 میں محمد طارق تارڑ کامیاب ہوئے تھے۔ اس مرتبہ ان کا مقابلہ کل 16 امیدوار کر رہے ہیں جن میں مسلم لیگ ن نے اعجاز چوہدری کے بجائے اس بار ٹکٹ ممتاز احمد تارڑ کو دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر نذر محمد گوندل گزشتہ انتخابات میں این اے 109 سے کامیاب قرار پائے تھے۔ وہ اس بار بھی پی پی پی پی کے امیدوار ہیں۔ اس حلقے سے دوسرا بڑا نام ناصر اقبال بوسال کا ہے جو مسلم لیگ ق کو خیرباد کہہ کر اب مسلم لیگ ن کے ٹکٹ سے اس نشست کے لیے میدان میں ہیں ۔
سیالکوٹ
ضلع سیالکوٹ میں قومی اسمبلی کے کل 5 حلقے ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں این اے 110 سیالکوٹ 1 سے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے پیپلز پارٹی کے زاہد پرویز کو شکست دی تھی تاہم اس بار ان کے مدمقابل پیپلز پارٹی کی سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ہیں۔
فردوس عاشق اعوان اس مرتبہ سیالکوٹ کے دو حلقوں سے الیکشن لڑ رہی ہیں
فردوس عاشق اعوان نےگزشتہ انتخابات میں حلقہ این اے 111 سے کامیابی حاصل کی تھی اور اس بار بھی وہ اس نشست سے امیدوار ہیں۔یہاں ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے چوہدری ارمغان بخاری سمیت 11 امیدوار کریں گے۔
این اے 112 میں گزشتہ الیکشن میں کامیاب ہونے والے امیدوار رانا عبدالستار کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے جنھوں نے پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو بھاری اکثریت سے شکست دی تھی۔ آئندہ انتخابات میں رانا عبدالستار کا سامنا کرنے والوں میں ق لیگ کا کوئی امیدوار میدان میں نہیں جبکہ پی پی پی کی جانب سے چوہدری اعجاز احمد چیمہ ٹکٹ دیا گیا ہے ۔
این اے 113 میں دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے صاحبزادہ سید مرتضی امین نے کامیابی حاصل کی تھی۔ آئندہ انتخابات کے لیے اس ن لیگ کا ٹکٹ سید افتخار الحسن کو دیا گیا ہے جبکہ ان کے مدمقابل امیدواروں میں اہم نام مسلم لیگ ق کے علی مسجد ملہی کا ہے ۔
سیالکوٹ سے قومی اسمبلی کا آخری حلقہ این اے 114 سیالکوٹ 5 ہے جہاں سے مسلم لیگ کے امیدوار زاہد حامد نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس مرتبہ اس نشست کے لیے زاہد حامد کا مقابلہ کرنے والوں میں اہم نام غلام عباس کا ہے جو پی پی پی کو چھوڑ کر آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
تحریر و تحقیق: حمیرا کنول
بہ شکریہ بی بی سی اردو
پہلی قسط: حلقہ این اے 1 سے این اے 16 تک
دوسری قسط: حلقہ این اے 17 سے این اے 32 تک
تیسری قسط:این اے 33 سے این اے 47 تک
چوتھی قسط:این اے 48 سے این اے 59 تک
پانچویں قسط:این اے 60 سے این اے 74 تک
چھٹی قسط:این اے 75 سے این اے 94 تک
قومی اسمبلی کے ان حلقوں میں گوجرانوالہ ،حافظ آباد ، گجرات ،منڈی بہاؤالدین اور سیالکوٹ کے اضلاع آتےہیں۔
گوجرانوالہ
این اے 96 سے خرم دستگیر مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں
ضلع گوجرانوالہ کی حدود میں قومی اسمبلی کی سات نشستیں ہیں جن میں سے پانچ 2008 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن نے جیتی تھیں۔
این اے 95 گوجرانوالہ ون کی نشست گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کے عثمان ابراہیم نے جیتی تھی۔ اس مرتبہ بھی مسلم لیگ نواز نے انہیں ہی ٹکٹ دیا ہے تاہم ان کے مقابلے کے لیے پیپلز پارٹی نے 2008 میں یہاں سے ہارنے والے ذیشان الیاس کی جگہ محمد صدیق کا انتخاب کیا ہے۔ مسلم لیگ ق کا کوئی امیدوار یہاں سےمیدان میں نہیں اترا جبکہ اس نشست پر اس مرتبہ کل 22 امیدوار ہیں۔
این اے 96 ایک لحاظ سے مسلم لیگ ن کے خرم دستگیر کی آبائی نشست ہے اور ان سے قبل ان کے والد غلام دستگیر بھی یہیں سے ایم این اے بنے تھے۔ 2008 کے بعد اب 2013 میں خرم دستگیر ہی مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔ پی پی پی نے یہاں خواجہ محمد صالح کی بجائے چوہدری محمد سعید گجر کے ذریعے قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔
گزشتہ بار حلقہ این اے 97 سے واضح اکثریت حاصل کرنے والے مسلم لیگ ن کے چوہدری محمود بشیر ورک کے مدمقابل آئندہ عام انتخابات میں 6 کی بجائے 15 امیدوار ہیں جن میں سب سے اہم نام مسلم لیگ ق کے چوہدری محمد انور بھنڈر کا ہے۔
این اے 98 دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے حصے میں گوجرانوالہ سے آنے والی واحد نشست تھی اور یہاں سے جیتنے والے امتیاز صفدر وڑائچ ہی اس بار اپنی نشست کا دفاع کریں گے۔ مسلم لیگ ن نے اس نشست کے لیے ملک محمد عمران بشیر اعوان کو ٹکٹ دیا ہے تاہم ق لیگ نے پی پی پی کے مدمقابل کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔
مسلم لیگ ق نے گوجرانوالہ میں کئی نشستوں پر امیدوار کھڑے نہیں کیے
این اے 99 سے دوہزار آٹھ کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا نذیر احمد خان کو ہی پارٹی ٹکٹ ملا ہے جن کا مقابلہ کرنے والوں میں اہم نام پیپلز پارٹی کےچوہدری ذوالفقار بھنڈر کا ہے۔ مسلم لیگ ق نے اس حلقے سے بھی کوئی امیدوارنامزد نہیں کیا ہے۔
این اے 100 سے گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے حاجی اظہر قیوم ناہرا نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی جس کے بعد یہ نشست پی پی پی کے چوہدری تصدق مسعود خان نے جیتی ۔ آئندہ الیکشن میں اس نشست کے چودہ امیدواروں کی فہرست میں یہی دونوں مضبوط امیدوار ہیں۔
این اے 101 میں گزشتہ انتخاب جیتنے والے مسلم لیگ نواز کے جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ کا نام آئندہ انتخاب کے لیے بھی اس حلقے کے امیدواروں کی فہرست میں شامل ہے۔ ان کے مقابلے کے لیے مسلم لیگ ق نے چوہدری ساجد حسین چٹھہ کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ اس حلقے میں پی پی پی نے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔
حافظ آباد
ضلع حافظ آباد میں قومی اسمبلی کے دو حلقے ہیں۔
حلقہ این اے 102 میں اس مرتبہ دو خواتین کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ ن نے اس نشست کے لیے 2008 میں یہیں سے جیتنے والی سائرہ افضل تارڑ کو ٹکٹ دیا ہے تو ان کے مقابلے کے لیے پیپلز پارٹی نے حاجن اللہ رکھی کو نامزد کیا ہے۔
حلقہ این اے 103 سے گزشتہ بار کامیاب ہونے والے چوہدری لیاقت عباس بھٹی اس مرتبہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ ان کی جماعت نے اس حلقے سے کوئی امیدوار کھڑا نھیں کیا اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت یہ نشست پیپلز پارٹی کو دی گئی ہے جس کا ٹکٹ مشتاق احمد موہل کو ملا ہے۔ ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن نے میاں شاہد حسین بھٹی سے ہوگا۔
گجرات
چوہدری احمد مختار کا مقابلہ چوہدری شجاعت کی جگہ چوہدری پرویز الٰہی سے ہوگا
مسلم لیگ ق کے اہنم رہنماؤں چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الہیٰ کے آبائی ضلع گجرات میں قومی اسمبلی کی چار نشستیں ہیں۔
حلقہ این اے 104 گجرات 1 سے 2008 میں چوہدری شجاعت کے بھائی چوہدری وجاہت حسین کامیاب ہوئے تھے۔ اس مرتبہ پہلے الیکشن ٹربیونل کی جانب سے نااہلی اور پھر لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے الیکشن لڑنے کی اجازت کے باوجود ان کا نامی اس حلقے سے امیدواروں کی حتمی فہرست میں شامل نہیں۔
الیکشن کمیشن کی فہرست کے مطابق مسلم لیگ ق کے امیدوار علی ساجد چٹھہ ہیں جبکہ چوہدری خاندان کے شفاعت حسین آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے نوابزادہ مظہر علی گِل کو ٹکٹ دیا ہے اور پی پی پی کا اس حلقے سے کوئی امیدوار ہیں لیکن پارٹی کے سابق رہنما نوابزادہ غضنفر علی گِل آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں ہیں۔
این اے 105 میں گزشتہ انتخابات میں پی پی پی کے سابق وفاقی وزیر چوہدری احمد مختار نے مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین شکست دی تھی۔ یہ وہ حلقہ ہے جسے اس مرتبہ مسلم لیگ ق اور پی پی پی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔ تاہم اب یہاں چوہدری احمد مختار کا مقابلہ چوہدری شجاعت کی جگہ چوہدری پرویز الٰہی سے ہوگا۔
قمر زمان کائرہ این اے 106 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں
این اے 106 گجرات 3 بھی قومی اسمبلی کا اہم حلقہ ہے جہاں گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر اطلات قمر زمان کائرہ کامیاب ہوئے تھے اور اس بار بھی وہ یہاں سے مضبوط امیدوار ہیں۔ مسلم لیگ ن نے چوہدری ظفر اقبال کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ مسلم لیگ ق نے کسی امیدوار کو میدان میں نہیں اتارا تاہم گزشتہ الیکشن میں اس حلقے سے ق لیگ کے رنر اپ نور الحسن شاہ اب آزاد امیدوار کی حیثیت سے اسی حلقے سے الیکشن لڑیں گے۔
این اے 107 ضلع گجرات سے قومی اسمبلی کا آخری حلقہ ہے جہاں گزشتہ بار آزاد امیدوار حنیف ملک جیتنے کے بعد مسلم لیگ ن کا حصہ بنے تھے۔ آئندہ انتخابات کے لیے مسلم لیگ ن کا ٹکٹ چوہدری عابد رضا کو ملا ہے جن کے مدمقابل افراد میں اہم نام مسلم لیگ ق کے امیدوار رحمان نصیر چیمہ کا ہے۔
منڈی بہاؤالدین
ضلع منڈی بہاؤالدین سے قومی اسمبلی کی دو نشستیں ہیں جوگزشتہ انتخابات میں یہ دونوں نشستیں پاکستان پیپلز پارٹی نے حاصل کیں تھیں ۔ این اے 108 میں محمد طارق تارڑ کامیاب ہوئے تھے۔ اس مرتبہ ان کا مقابلہ کل 16 امیدوار کر رہے ہیں جن میں مسلم لیگ ن نے اعجاز چوہدری کے بجائے اس بار ٹکٹ ممتاز احمد تارڑ کو دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر نذر محمد گوندل گزشتہ انتخابات میں این اے 109 سے کامیاب قرار پائے تھے۔ وہ اس بار بھی پی پی پی پی کے امیدوار ہیں۔ اس حلقے سے دوسرا بڑا نام ناصر اقبال بوسال کا ہے جو مسلم لیگ ق کو خیرباد کہہ کر اب مسلم لیگ ن کے ٹکٹ سے اس نشست کے لیے میدان میں ہیں ۔
سیالکوٹ
ضلع سیالکوٹ میں قومی اسمبلی کے کل 5 حلقے ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں این اے 110 سیالکوٹ 1 سے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے پیپلز پارٹی کے زاہد پرویز کو شکست دی تھی تاہم اس بار ان کے مدمقابل پیپلز پارٹی کی سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ہیں۔
فردوس عاشق اعوان اس مرتبہ سیالکوٹ کے دو حلقوں سے الیکشن لڑ رہی ہیں
فردوس عاشق اعوان نےگزشتہ انتخابات میں حلقہ این اے 111 سے کامیابی حاصل کی تھی اور اس بار بھی وہ اس نشست سے امیدوار ہیں۔یہاں ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے چوہدری ارمغان بخاری سمیت 11 امیدوار کریں گے۔
این اے 112 میں گزشتہ الیکشن میں کامیاب ہونے والے امیدوار رانا عبدالستار کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے جنھوں نے پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو بھاری اکثریت سے شکست دی تھی۔ آئندہ انتخابات میں رانا عبدالستار کا سامنا کرنے والوں میں ق لیگ کا کوئی امیدوار میدان میں نہیں جبکہ پی پی پی کی جانب سے چوہدری اعجاز احمد چیمہ ٹکٹ دیا گیا ہے ۔
این اے 113 میں دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے صاحبزادہ سید مرتضی امین نے کامیابی حاصل کی تھی۔ آئندہ انتخابات کے لیے اس ن لیگ کا ٹکٹ سید افتخار الحسن کو دیا گیا ہے جبکہ ان کے مدمقابل امیدواروں میں اہم نام مسلم لیگ ق کے علی مسجد ملہی کا ہے ۔
سیالکوٹ سے قومی اسمبلی کا آخری حلقہ این اے 114 سیالکوٹ 5 ہے جہاں سے مسلم لیگ کے امیدوار زاہد حامد نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس مرتبہ اس نشست کے لیے زاہد حامد کا مقابلہ کرنے والوں میں اہم نام غلام عباس کا ہے جو پی پی پی کو چھوڑ کر آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
تحریر و تحقیق: حمیرا کنول
بہ شکریہ بی بی سی اردو