محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
یوں تو کائنات ارضی کا ہر رنگ، ہر نعمت انمول او رقدرت کا بیش بہا خزانہ ہے لیکن قدرت نے سرزمین پاکستان کو جو حسن وجمال عطا کیا ہے، و ہ کم ہی ملکوں کے حصے میں آیا ہے۔ وطن عزیز پر قدرت کی بیش بہا مہربانیاں ہیں، یہاں عظیم ترین چوٹیاں، دیو قامت گلیشیئرز، بہتے قدرتی چشمے، خوبصورت جھیلیں، بل کھاتے دریا اور سمندر، جھرنے، صحرا، ریگستان اور برف پوش چوٹیاں ہیں۔ اس کے علاوہ سوات، کالام اور ہنزہ جیسی پرکیف وادیاں ہیں اور سیف الملوک جیسی دل موہ لینے والی جھیلیں ہیں۔ وہیں اس خطہ زمین کوتاریخی لحاظ سے بھی بیش قیمت دولت ہاتھ آئی ہے۔
پاکستان میں موہنجودڑو اور ہڑپہ جیسی تاریخ بکھری پڑی ہے، تو ٹیکسلا جیسے قدیم شہر بھی آباد ہیں۔ تاریخ کے انہی اوراق میں چند ایسے مناظر بھی ہیں،جو آج بھی دیکھنے والے کو مبہوت کر دیتے ہیں۔ ہم بات کررہے ہیں پاکستان میں موجود تاریخی قلعوں کی، جو مختلف بادشاہوں نے مختلف ادوار میں تعمیر کیے۔ یہ مقامات اپنی خوبصورتی اور کشش کی وجہ سے نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ آپ کی دلچسپی کے لیے پاکستان کے چند مشہور قلعوں کا تعارف پیشِ خدمت ہے۔
لنک
پاکستان میں موہنجودڑو اور ہڑپہ جیسی تاریخ بکھری پڑی ہے، تو ٹیکسلا جیسے قدیم شہر بھی آباد ہیں۔ تاریخ کے انہی اوراق میں چند ایسے مناظر بھی ہیں،جو آج بھی دیکھنے والے کو مبہوت کر دیتے ہیں۔ ہم بات کررہے ہیں پاکستان میں موجود تاریخی قلعوں کی، جو مختلف بادشاہوں نے مختلف ادوار میں تعمیر کیے۔ یہ مقامات اپنی خوبصورتی اور کشش کی وجہ سے نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ آپ کی دلچسپی کے لیے پاکستان کے چند مشہور قلعوں کا تعارف پیشِ خدمت ہے۔
شاہی قلعہ
لاہور میں واقع شاہی قلعے کا موجودہ ڈھانچہ مغل شہنشاہ اکبر نے تعمیر کروایا۔ مغل، سکھ اور برطانوی راج میں اس قلعے کی باقاعدگی سے دیکھ بھال کی گئی۔20 ہیکٹر سے زائد رقبے پر پھیلے اس قلعے کے 2دروازے ہیں۔ عالمگیری دروازہ شہنشاہ اورنگزیب نے تعمیر کروایا جو کہ بادشاہی مسجد کی طرف کھلتا ہے، جبکہ مسجدی دروازہ شہنشاہ اکبر نے تعمیر کروایا۔ یہ قلعہ یونیسکو کی جانب سے مرتب کی جانے والی عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔
رام کوٹ قلعہ
یہ قدیم قلعہ آزاد کشمیر میں منگلا ڈیم کے نزدیک واقع ہے۔ آزاد کشمیر کے علاقے دینا سے13کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس قلعے تک رسائی صرف کشتی کے ذریعے ہی ممکن ہے جبکہ آزاد کشمیر کے علاقے میر پور سےسڑک کے ذریعے یہاں تک رسائی ممکن ہے اور یہ فاصلہ 79 کلومیٹر بنتا ہے۔ 16ویں اور 17ویں صدی کے درمیان کشمیر کے حکمرانوں نے کئی مضبوط قلعے تعمیر کروائے، یہ قلعہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔
روہتاس قلعہ
جہلم کے قریب واقع اس قلعے کی بنیاد افغان بادشاہ فرید خان نے، جو شیر شاہ سوری کے نام سے مشہور ہوا، تقریباً پونے پانچ سو سال قبل 1542ء میں رکھی تھی۔ پتھر اور چونے سے بنائے گئے اس قلعے کی تعمیر قریب پانچ سال میں مکمل ہوئی۔ بعد میں اس قلعے میں شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ کے دور میں توسیع بھی کی گئی۔ شیر شاہ سوری نے روہتاس قلعہ گکھڑوں کے حملوں سے بچنے کے لیے فوجی حکمت عملی کے تحت تعمیر کرایا تھا۔ یہ قلعہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت(یونیسکو) کے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیے گئے مقامات کی فہرست میں شامل ہے۔
تھروچی قلعہ
یہ قلعہ آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کے قصبے گل پور میں واقع ہے۔ یہ مقبول ترین قلعہ1460ء میں تعمیر کروایا گیا تھا۔ 1947ء میں کرنل محمود کی سربراہی میں ایک مقامی دستے نے ڈوگرہ فوج کا پیچھا کیا اور انہیں شکست دی۔ ڈوگرہ فوج کو اس قلعے میں اس وقت تک محصور رہنا پڑا جب تک کہ انہوں نے جموں کشمیر دوڑ جانے کا فیصلہ نہیں کرلیا۔
اسکردو قلعہ
گلگت بلتستان کے علاقے اسکردو میں واقع اس قلعے کو قلعوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے- یہ قلعہ اسکردو کی مرکزی مارکیٹ یادگار چوک سے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہے- یہ قلعہ قدیم فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے- اس قلعے میں ایک قدیم مسجد بھی موجود ہے-
التت قلعہ
یہ قلعہ گلگت بلتستان کی ایک قدیم ترین یادگار ہے اور اس کی تاریخ تقریباً 1100 سال پرانی ہے- یہ قلعہ خوبصورت ہنزہ وادی کے التت نامی قصبے میں واقع ہے- اس قلعے کے اردگرد بروشو قوم آباد ہوا کرتی تھی جو بروشکی زبان بولتی تھی-
شگر قلعہ
شگر کے معنی چٹان کے ہیں یعنی یہ ایک چٹانی قلعہ ہے۔ یہ قلعہ بلتستان کے علاقے شگر میں واقع ہے۔ یہ قلعہ 17ویں صدی میں شگر کے راجہ نے تعمیر کروایا تھا، تاہم 1999 اور 2004 میں اسے دوبارہ بحال کیا گیا۔ اس وقت یہ قلعہ ایک میوزیم اور پرتعیش ہوٹل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
بالاحصار قلعہ
بالا حصار قلعہ، خیبرپختونخواہ کے شہر پشاور میں واقع ہے۔ یہ ایک بہت بڑا قلعہ ہے، جو پاکستان کے سب سے پرانے تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔ 1834ء کے آغاز میں سکھوں نے اس قلعے کا نام تبدیل کر کے سمیر گڑھ رکھ دیا تھا لیکن یہ اس کا آخری نام نہیں تھا۔ تاہم1949ء سے یہ قلعہ فرنٹئیر کور کے ہیڈکوارٹر کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔
لنک