18 مئی 1974 کی صبح بھارتی وقت کے مطابق 08بج کر 05 منٹ پر
بُدھا مسکرایا تھا۔
اس کے بعد 11 مئی 1988 کو بُدھا کی مسکراہٹ دو چند ہو گئی اور لالہ جی کی مونچھوں کو بھی تاؤ آ گیا لیکن 28 مئی 1988 کو بُدھا کھلکھلا کر ہنس پڑا ، لالہ جی کی حالت دیکھ کر۔
اب لالہ جی کا میڈیا بھی چہرے پہ مسکراہٹ بکھیرنے کے لئیے یہی کام سرانجام دے رہا ہے لیکن اس بار چہرہ بُدھا جی کا نہیں ۔ کہ بُدھا تو اہنسا کا مبلغ تھا ۔ اب جب کہ 1974 میں ہی "
اہنسا" کا الف اس سے الگ کر کے "
ایٹم بم" کے ہجوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا تو 2011 میں لالہ جی کو چیخ چیخ کر پاکستانی ایٹمی پروگرام کو ناپاک کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے کون سا گائے کی چربی والا ایٹم بم بنایا ہے، جناب؟۔ جو اجزائے ترکیبی آپ کے بم کے ہیں وہی ہمارے بم کے بھی ہیں۔ آپ لا لو پرساد یادو کے بھینس باڑے میں ایٹم بم تیار نہیں کرتے ہماری لیبارٹریوں سے زیادہ ترقی یافتہ اور جدید لیبارٹریوں میں اسے سپر کمپیوٹرز پر تجربات کے بعد بناتے ہو۔
بھارت کا یہ ایک ہی چینل نہیں بلکہ سرکاری میڈیا بھی مکمل تنظیم کے ساتھ روز اول سے پاکستان کے بارے میں در فنطنیاں چھوڑتا رہا ہے ۔ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس ہو یا بھارتی وکیاون پسارن سیوا کے کیندریا پھر دور درشن سبھی پاکستان پر الزام تراشی پر ایمان کی حد تک کاربند ہیں۔
ہم تو یہی صلاح دیں گے کہ دیکھو بھئی مورکھ مت بنو ۔ سمسیائیں بہت سی ہیں ان کا سمادھان کھوجنے کی جرورت ہے۔ یہ نشچٹ ہے کہ جب ہم پڑوسی آپس میں بھڑیں گے تو ایشیا کے پورے کے پورے دکھشنی کھشیتر کے بھیتر آرتھک وے ساموک اتھل پتھل مچے گی جو اس کی وویستا کو نشٹ کر دے گی اور کھُد بھارت کو اس سے کوئی لا بھ نہ ہو گا الٹا نکسان ہوگا۔