پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے - مرزا اختیار بیگ

پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے
SMS: #DIB (space) message & send to 8001
mirza.akhtiyar@janggroup.com.pk
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے گزشتہ دنوں کارپوریٹ سیکٹر کی مخصوص ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سربراہان سے کراچی میں ملاقات کی۔ یہ میٹنگ ایک معروف بزنس مین کی رہائش گاہ پر رکھی گئی تھی جس میں مجھے اور میرے بھائی اشتیاق بیگ کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ میٹنگ کا مقصد عمران خان کی نمل یونیورسٹی کیلئے فنڈ ریزنگ کرنا تھا اور اس نیک مقصد کے پیش نظر ہم دونوں بھائیوں نے میٹنگ میں شرکت کرنا مناسب سمجھا۔ ہمارے پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ہی عمران خان اپنی اہلیہ ریحام خان کے ہمراہ پہنچے۔ ملاقات کے دوران عمران خان نے مجھ سے کہا کہ ’’بیگ صاحب! ہم ٹی وی چینلز پر اکثر آپ کے پروگرام دیکھتے رہتے ہیں، کل رات ہی ہم نے ’’پاک چین اقتصادی راہداری‘‘ پر آپ کا پروگرام دیکھا جس پر کئے گئے آپ کے معاشی تجزیئے انتہائی مثبت اور میرٹ پر تھے۔‘‘ اس موقع پر ریحام خان نے اپنا ای میل ایڈریس دیتے ہوئے ’’پاک چین اقتصادی راہداری‘‘ اور یمن کی صورتحال پر تجزیہ بھیجنے اور اسلام آباد آنے کی دعوت بھی دی۔ دوران ملاقات عمران خان نے یمن کی صورتحال پر میری رائے جاننا چاہی تو میں نے انہیں بتایا کہ یمن کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے میں یمن کے صدر منصور الہادی کی حکومت کی حمایت کرتا ہوں لیکن میرے خیال میں یمن تنازع کا واحد حل صرف مذاکرات ہیں۔
گزشتہ دنوں چینی صدر شی چن پنگ نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران 45.6 ارب ڈالر کے 51 منصوبوں پر دستخط کئے جس نے پوری دنیا میں پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کیا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں 33.8 ارب ڈالر کے توانائی کے مختلف منصوبے اور11.8 ارب ڈالر کے انفرااسٹرکچر کے منصوبے کے شامل ہیں۔ ان منصوبوں میں وزارت بجلی و پانی کے15منصوبے جن میں 1320 میگاواٹ کا پورٹ قاسم کول پاور پلانٹ، 660 میگاواٹ کا حبکو کول پاور پلانٹ، 1320 میگاواٹ کا ساہیوال کول پاور پلانٹ، 300 میگاواٹ کا سالٹ رینج کول پاور پلانٹ، 870 میگاواٹ کا سوکی کناری ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، 720 میگاواٹ کا کاروٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، 100میگاواٹ کا UEP ونڈ پروجیکٹ، 50میگاواٹ کا سچل ونڈ پروجیکٹ، 50میگاواٹ کا ہائیڈرو چائنا ونڈ پروجیکٹ، 1320میگاواٹ کا SEC تھرکول پاور پلانٹ، 660میگاواٹ کا اینگروتھرکول پاور پلانٹ اور 1000میگاواٹ کا قائداعظم سولر پارک شامل ہیں، وزارت خزانہ کے 5، وزارت منصوبہ بندی کے 4، وزارت ریلوے کے 3، وزارت پورٹس اینڈ شپنگ کے 2 منصوبے شامل ہیں۔ توانائی کے منصوبوں میں کوئلے، ہوا، شمسی اور ہائیڈرو کے 15.5 ارب ڈالر کے مختصر المیعاد کے Early Harvest منصوبے شامل ہیں جو 2017ء تک 10400 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کرسکیں گے جبکہ 18.3 ارب ڈالر کے طویل المیعاد منصوبے 2021ء تک 6120 میگاواٹ بجلی پیدا کرسکیں گے۔ اس طرح ان تمام منصوبوں سے آئندہ 7 سالوں میں مجموعی 16520 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کی جاسکے گی۔ یہاں میں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ چین نے پاکستان کو ان منصوبوں کیلئے قرضے فراہم نہیں کئے بلکہ چین کے 3 بڑے بینکوں چائنا ڈویلپمنٹ بینک (CDB)، انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا (ICBC) اور چائنا انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ بینک (CIDB) نے ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کو ان منصوبوں کی سیکورٹی کے عیوض فنانسنگ فراہم کی ہے۔ چین کے توانائی سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں میں چین کی تھری جارجز کارپوریشن اور چائنا پاور انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ جیسی کمپنیاں بھی شامل ہیں جنہوں نے دنیا کے سب سے بڑے ہائیڈرو پروجیکٹس مکمل کئے ہیں۔ میرے دوست جنہوں نے چینی صدر کے دورے میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے 50 میگاواٹ کے منصوبے پر دستخط کئے ہیں،کو چین کے بینک ICBC نے 4% مارک اپ پر فنانسنگ کی ہے۔ ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ منافع بخش قومی اہمیت کے ان منصوبوں میں پاکستانی کمپنیوں کی ایکویٹی اورکیپٹل سرمایہ کاری کی شرط لازماً رکھی جائے تاکہ ان کمپنیوں کے منافع کو ملک سے باہر نہ بھیجا جاسکے اور اربوں ڈالر کا یہ منافع ملک میں ہی رہے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہمارے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو قائم رہے گا۔
چین نے اپنی معاشی پالیسی کے 4 اہداف مقرر کئے ہیں جن میں ایشیاء پیسفک اور یورپ سے رابطے میں اضافہ، ون بیلٹ ون روڈ کا قیام، آزادانہ تجارت کا فروغ اور عوام کے باہمی رابطے شامل ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان ان چاروں اہداف پر پورا اترتا ہے جس کی وجہ سے چین، پاکستان میں دوسرے ممالک کی بہ نسبت سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہا ہے۔
چین مستقبل میں دنیا کی معیشت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے تاکہ ملکوں کے پوٹینشل اور مواقعوں کو شیئر کیا جاسکے جس کیلئے چین کے صدر نے 65ممالک میں باہمی تجارت کیلئے روڈ، ریلوے اور پورٹس کے موثر نیٹ ورک کا اعلان کیا ہے جس سے شاہراہ ریشم کو روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کو چین سے منسلک کیا جاسکے گا جس سے 2.5 کھرب ڈالر کی تجارت حاصل کی جاسکے گی اور اس سے 65منتخب ممالک میں تقریباً 4.4 ارب افراد مستفید ہوسکیں گے۔ ون بیلٹ ون روڈ کے تمام منصوبوں کو ایشین انفرااسٹرکچر اینڈ انویسٹمنٹ بینک (AIIB) فنانسنگ کرے گا۔پاک چین اقتصادی راہداری منصوبوں میں گوادر پورٹ کو مغربی چین کے ساتھ ملانے کیلئے سڑکوں اور ریلوے لائنوں کے 2000 میل کے جال بچھائے جائیں گے۔ 2005ء میں چین کے وزیراعظم نے گوادر پورٹ کا افتتاح کیا تھا لیکن 2007ء میں گوادر پورٹ کے انتظامی حقوق چین کے بجائے سنگاپور کی کمپنی کو دے دیئے گئے جو 6 سال تک پورٹ کو فعال نہیں کرسکی اور بالآخر گوادر پورٹ کے انتظامی حقوق 40 سال کیلئے دوبارہ چین کو دیئے گئے ہیں۔ چین اپنے سنکیانگ اور مغربی صوبوں میں گوادر کے راستے تیل کی پائپ لائن بچھانا چاہتا ہے جو خلیج فارس اور ایران سے تیل اور گیس کی درآمد کیلئے آئیڈیل ٹرانزٹ راہداری ہے لیکن گوادر پورٹ فعال نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت چین کو شنگھائی پورٹ سے بحری تجارت کیلئے 16000 کلومیٹر کا ایک سے ڈیڑھ ماہ کی طویل مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ گوادر پورٹ کے فعال ہونے کے بعد یہ مسافت صرف 15 دن میں طے کی جاسکے گی۔ چین وہ واحد ملک ہے جس نے پاکستان کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کی۔ 700 میگاواٹ کے چشمہ I اور چشمہ II کامیابی سے پاکستان میں بجلی پیدا کررہے ہیں اور اب چین نے اضافی 700 میگاواٹ کے چشمہ III اور چشمہ IV منصوبوں کیلئے معاہدے کئے ہیں۔
چین دفاعی شعبے میں بھی پاکستان کی بھرپور مدد کررہا ہے اور پاک فضائیہ میں پاکستان اور چین کے تعاون سے بنایا جانے والا JF-17 تھنڈر جیٹ طیارہ امریکی F-16 طیارے کا بہترین متبادل ہے۔ چینی صدر کے دورے میں پاکستان نیوی کیلئے 4 سے 5 ارب ڈالر مالیت کی 8 چینی آبدوزوں کے سودے بھی کئے گئے ہیں۔ ان منصوبوں کے علاوہ چین نے پاکستانی علاقوں میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کیلئے بھی دلچسپی ظاہر کی ہے لیکن چین کے صدر نے پاکستان سے روانگی کے وقت یہ واضح کردیا ہے کہ ان منصوبوں کی تکمیل کیلئے حکومت کو ان علاقوں میں امن و امان کی صورتحال یقینی بنانا ہوگی اور مجھے خوشی ہے کہ ان منصوبوں پر بلاتعطل عملدرآمد کیلئے حکومت نے آرمی کے میجر جنرل کی سربراہی میں 5 ہزار ایس ایس جی کمانڈوز پر مشتمل خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو ملک دشمن عناصر کی سازشوں کو ناکام بنائے گی۔
یاد رہے کہ چین نے بنگلہ دیش کے ساتھ بھی کئی ارب ڈالر کے منصوبوں پر دستخط کئے تھے لیکن بنگلہ دیش کے اصلاحات نہ کرنے کی وجہ سے یہ منصوبے ابھی تک فائلوں تک ہی محدود ہیں۔ ملکوں کی تاریخ میں کچھ منصوبے ایسے ہوتے ہیں جو ملکوں کی قسمت بدل دیتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے تکمیل کے بعد نہ صرف دونوں ممالک کی اقتصادی خوشحالی کی ضمانت ثابت ہوں گے بلکہ بہتر جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان خطے میں مضبوط معاشی طاقت کی حیثیت سے ابھرے گا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے چین اس خطے کو کنٹین کرنا چاہتا ہے ۔۔۔ جنگ تو چین اور امریکہ کے درمیان ہے ہماری خارجہ پالیسی ان کی خارجہ پالیسی سے بنتی ہے۔جبکہ یہ ملک(امریکہ،چائینہ) اپنی ہوم پالیسی کی بنیاد پر تشکیل کرتے ہیں۔
 
ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے چین اس خطے کو کنٹین کرنا چاہتا ہے ۔۔۔ جنگ تو چین اور امریکہ کے درمیان ہے ہماری خارجہ پالیسی ان کی خارجہ پالیسی سے بنتی ہے۔جبکہ یہ ملک(امریکہ،چائینہ) اپنی ہوم پالیسی کی بنیاد پر تشکیل کرتے ہیں۔
تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
 
Top