پاک چین اقتصادی راہداری خطے پر ہمہ گیر اثرات مرتب کرے گی
ممتاز چینی دانشور وں اور محققین نے اسلام آباد میں ’’پاک چین تعلقات - دوطرفہ اموراور اس سے آگے‘‘ کے عنوان پر منعقدہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی تین روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خطے میں اقتصادی ترقی اور سیکورٹی کے معاملات میں پاک چین تعاون کے ایک نئے دور کے آغاز کا عندیہ دیا ہے۔
سنٹر فار سائوتھ ایشین اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر زی ڈائے گینگ نے اپنے خطاب میں
پاک چین اقتصادی راہداری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ مغربی چین کو سڑک، ریلوے، تیل اور گیس کی پائپ لائنوں اور آپٹیکل فائبر کے ذریعے پاکستان سے جوڑ دے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ راہداری محض راستہ ہی نہیں ہے بلکہ اس سے اس خطے میں اقتصادی سرگرمیوں کے لیے درکار بنیادی ڈھانچے اور توانائی، زراعت اور پانی کی صفائی پر مبنی ترقیاتی مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری مستقبل قریب کے لیے چین کی قومی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہے۔
اڑمچی ، سنکیانگ سے تعلق رکھنے والے محقق، زو ہائو می آئو نے سنکیانگ اور پاکستان کے درمیان حالیہ برسوں میں تجارتی سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ سنکیانگ کا تجارتی سرپلس نشاندہی کرتا ہے کہ اس تجارتی سرگرمی میں بہت بڑا عدم توازن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی وجوہات کے باعث 2012ء کے بعد یہ تجارت ایک نمایاں زوال کا بھی شکار ہے۔ ان مسائل کا حل پیش کرتے ہوئے زو نے کہا کہ سنکیانگ کو پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعاون کو بڑھانے کے لیے ریاستی پالیسیوں کا بھر پور استعمال کرنا چاہیے۔ انہوں نے کسٹم کی ادائیگی کے طریقہ کار میں نرمی کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ پاک چین ہائی وے کی کارکردگی کو بھی بہتر کیا جانا چاہیے۔