سید انور محمود
محفلین
تاریخ:22 اپریل، 2015
کہا جاتا تھا کہ پاکستان اور چین کی دوستی سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے اونچی ہے لیکن اب وزیراعظم نواز شریف نے پاک چین دوستی کو شہد سے زیادہ میٹھی اور فولاد سے زیادہ مضبوط بھی قرار دیا ہے، یعنی اب کہا جائے جایگا کہ پاکستان اور چین کی دوستی سمندروں سے گہری، شہد سے زیادہ میٹھی، فولاد سے زیادہ مضبوط اور ہمالیہ سے اونچی ہے۔ چین کے صدرشی چن پنگ نے کہا ہے کہ چین اور پاکستان کا مستقبل مشترک ہے، پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ ہے،دونوں ممالک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون کررہے ہیں۔ چینی صدر شی چن پنگ کا مزید کہنا تھا کہ یہ میرا پاکستان کا پہلا دورہ ہے اور دورے کا مقصددونوں ملکوں کے تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔ چینی صدر نے کہا کہ چین دہشت گردی کے خاتمے کی پاکستان کی کوششوں کو سراہتاہے،پاکستان کے ساتھ تعلقات کوعملی اقدامات کے ذریعے مزید مستحکم کریں گے۔چینی صدر نےاس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ دوستی کو نئی بلندیوں پر لے جائیں گے۔ اکیس مئی1951ء پاکستان اور چین کی دوستی اورسفارتی تعلقات کے آغازکا دن تھا۔ چین نے ہر مرحلے پر یہ ثابت کیا کہ وہ پاکستان کا سچا دوست ہےجبکہ پاکستان نے بھی جواب میں ایسا ہی کیا۔
چینی صدر شی چن پنگ پاکستان کا دو روزہ تاریخی دورہ مکمل کرکے وطن روانہ ہوگئے۔ چینی صدر کےدورہ پاکستان کے دوران اقتصادی راہ داری سمیت 51معاہدوں پر دستخط ہوئے جبکہ پاک چین تجارتی حجم 20ارب ڈالر تک لانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ چینی صدر نے دورہ پاکستان کےدوسرے روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدرکا کہنا تھا کہ پاکستان اور چین کی دوستی باہمی تعاون پر مبنی ہے،چینی عوام پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں ہمیشہ ساتھ رہیں گے،پاک چین دوستی آنےوالے وقت میں مزید مستحکم ہوگی، پاکستان کی ثقافتی روایات ایک جیسی ہیں، شاہراہ قراقرم دو تہذیبوں کے درمیان ایک بندھن ہے۔ ایوان صدر میں ایک پروقار تقریب میں چینی صدرشی چن پنگ کو پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ’’ نشان پاکستان ‘‘سے نوازا گیا۔ نشان پاکستان جیسے اعزازات کسی کسی پر سجتے ہیں اور چین کے لئے ”نشان پاکستان“ کا اعزاز پاکستان کے عوام کی بھی خواہش اور دلی مسرت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
چینی صدر کے مطابق چین اور پاکستان اہم بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر یکساں موقف رکھتے ہیں، پاکستان کے ساتھ گوادر بندرگاہ، توانائی، بنیادی تنصیبات اور صنعتی تعاون جاری رکھیں گے۔آج چین اور پاکستان کی انمول دوستی اقتصادی اور دفاعی ترقی کے اقدامات کئی ممالک کو کھٹکتے ہیں۔ چینی صدر شی چن پنگ کے حالیہ دورئے میں اقتصادی راہ داری سمیت جو51معاہدوں پر دستخط ہوئے اور پاک چین تجارتی حجم 20ارب ڈالر تک لانے پراتفاق کیا گیا ہے، پاکستان کو بجلی کے بحران سے نکالنے کے لیے بھی معاہدئے کیے گے ہیں جس سے پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پایا جاسکے گا۔ لیکن کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جو پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے ان معاہدوں اوربڑھتے ہوئے تعلقات کو پسند نہیں کرتے۔ بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات میں دراڑیں ڈالنے اور چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں مصروف رہتے ہیں اس لئے اس دوستی کی پائیداری کے لئے ضروری ہے کہ اس قسم کی سازشوں کو بھی سامنے رکھا جائے۔ اس سے پہلے پاکستان میں گوادر، گومل زیم ڈیم اور شاہراہ مکران کی تعمیر کے منصوبے سازشوں کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے اور اسکی وجہ سے ہی پاکستان کی معاشی صورتحال مسلسل تنزلی کا شکار ہے، اس دہشت گردی میں ہندوستان، مغربی طاقتیں اور امریکہ شامل ہیں۔ مذہب اور آزادی کے نام پر ہونے والی اس دہشت گردی کا مقصدپاکستان کو معاشی اور سیاسی طور پر کمزور کرنا ہے، اس کے علاوہ چین کے دنیا میں بڑھتے ہوئے معاشی اور سیاسی اثرورسوخ کو روکنا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے حملے مسلسل جاری ہیں۔ اسلیئے حکومت کو اگر ان معاہدوں میں شامل منصوبوں پر مکمل عمل کرنا ہے تو دہشت گردی کو جڑسے ختم کرنا ہوگا۔
وہ ممالک جن کو پاک چین دوستی ایک آنکھ نہیں بھاتی اُس میں امریکہ، اسرائیل، برطانیہ اور بھارت ہیں ۔ پاکستان اور چین کے درمیان مجوزہ ڈھائی ہزار کلومیٹر لمبی اقتصادی راہداری گوادر سے شروع ہوکر کاشغرتک جائے گی جو پاکستان کی معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن بھارت کے سابق سفارتکار راجیو ڈوگرہ کا کہنا ہے کہ یہ راہ داری بعض متنازع علاقوں سے گزرے گی جس پر بھارت کو اعتراض ہو گا۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے مطابق چینی صدر کے پاکستان دورے کو بھارت میں بہت باریک بینی سے دیکھا جا رہا ہے، پاکستان اور چین کے درمیان اربوں ڈالر کے ترقیاتی منصوبوں کے معاہدوں پر اسلام آباد اور بیجنگ میں اطمینان اور خوشی کا اظہار کیاگیا ہے لیکن بھارت میں اقتصادی راہداری کی تعمیر اور گوادر بندرگاہ لیز پرچین کودیے جانے کے معاہدوں پر بھارت میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدوں پر بھارتی میڈیا نے نکتہ چینی شروع کر دی اور اپنا پرانا راگ الاپتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ پاکستان میں سیکیورٹی صورت حال کے باعث چین کو اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کرنی چاہئے۔ پاکستان اور چین کے درمیان دفاعی معاہدوں پر جہاں بھارت کے حکمران پریشان ہوجاتے ہیں وہیں اس کی فوج کی نیندیں بھی حرام ہوجاتی ہیں، بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل آر کے دھاون نے کہا کہ بھارتی فوج کی پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدوں پر گہری نظر ہے اور خاص طور پر دونوں ممالک کے درمیان دفاعی شعبہ جات میں تعاون اور آبدوزوں کی فروخت کے معاملے کو باریک بینی سے دیکھا جا رہا ہے۔
چین نے کاشغر میں ایک خاص زون بنایا ہوا ہے جو تجارت کا مرکز ہے۔ کاشغر کی وجہ سے مسلمانوں کی بھی ترقی ہوگی اور چین مشرق وسطیٰ تک بھی پہنچے گا اور اسے گوادر کے ذریعے راستہ ملے گا مگر چین کا راستہ روکنے کے لئے پاکستان اور چین کے خلاف سازشیں کی جاتی رہی ہیں اور کی جاینگی۔ سال دو ہزار گیارہ میں سابق امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن کے دورہ چین کے بعد چین کی طرف سے پہلا منفی پیغام آیا اور وہ پاکستان کو تنہا کرنے کی مہم میں قدرے کامیاب ہوا جب چین نے یہ الزام لگایا کہ چین میں جن لوگوں نے سنکیانگ میں بموں سے 30/31 جولائی کو حملہ کیا، انہوں نے پاکستان میں تربیت حاصل کی۔ یہ بیان پاکستان کی توقعات کے بالکل برعکس تھا جبکہ پاکستان ہمیشہ چین کے خلاف ہونے والی کسی بھی کاروائی میں چین کے ساتھ رہا ہے۔ کہا جارہا تھا کہ امریکہ افغانستان سے2014ء میں نکل جائے گا اگر اُس کے نکلنے کے ارادے ہوتے تو وہ جو سازشیں کررہا ہے وہ نہیں کرتا۔ افغانستان میں سونا اور تانبا ہے۔ وہ کیسے چھوڑے گا اور یہی بات سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر نے کہی تھی کہ امریکہ کی بلوچستان میں بہت دلچسپی ہے، اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے چنائے انڈیا میں اپنے انڈیا کے دورے کے وقت کہا تھا کہ یہ راستہ جنوبی ایشیاء اور سینٹرل ایشیاء کے درمیان پل کی حیثیت رکھتا ہے۔
بلوچستان کے دہشت گردوں کےامریکہ اورمغربی طاقتوں کی سراغ رساں ایجنسیوں سے تعلقات ہیں اور پاکستانی حکومت اور اُسکے سیکورٹی ادارے اس چیز کو بخوبی جانتے ہیں۔برطانیہ کی ایم آئی سکس کے تو بلوچستان لبریشن آرمی سے اسکے بننے کے کچھ عرصہ بعد ہی سے تعلقات ہیں۔ امریکی کانگرس کے دانا روہر باچر جیسے کئی قانون دان بھی اس سازش میں شریک ہیں اور بلوچستانیوں کو حقِ خود ارادیت دینے کی باتیں کر رہے ہیں۔ دانا روہر باچر امریکی حکومت کو صلاح دیتا رہا ہے کہ دہشت گردوں سے تعلقات قائم کرو اور پاکستان کی جمہوری حکومت سے رشتے توڑ لو۔ ان تمام سازشوں کا مقصد یہ ہے بلوچستان کو پر امن نہ رہنے دیا جائے۔ امریکہ کا ایک بہت بڑا مقصد یہ ہے کہ اگر امریکہ بلوچستان کو کنٹرول نہ بھی کرپائے تو چین بھی بلوچستان میں سکون سے اپنی سرمایہ کاری نہ کر سکے یعنی معدنی ذخائر کو نکالنے میں اور گوادر پورٹ بنانے میں چین کے کردار کو روکنا مقصود ہے اور یہ ہی مقصد ہندوستان اور ہندوستانی لیڈروں کا ہے تاکہ پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر ترقی نہ کرسکے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں آئے دن دہشتگردی ہوتی رہتی ہے ، تربت میں 20 بےگناہ مزدوروں کا قتل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے اپنے دورۂ امریکہ کے دوران بھی بلوچستان میں بھارتی دراندازوں اور بھارت نواز دہشت گردوں کے مسئلے کو اُٹھایا تھا۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر پاکستان اور چین کو یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ امریکہ اور بھارت وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ اپنی پالیسیوں پر غور و فکر اور نظر ثانی کرتے رہتے ہیں اور پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدوں کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کرسکتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ اورمغربی طاقتوں کی پاک چین دوستی کے خلاف عالمی سازشوں پر نگاہ رکھی جائے۔
پاک چین دوستی اور عالمی سازشیں
تحریر: سید انور محمود
تحریر: سید انور محمود
کہا جاتا تھا کہ پاکستان اور چین کی دوستی سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے اونچی ہے لیکن اب وزیراعظم نواز شریف نے پاک چین دوستی کو شہد سے زیادہ میٹھی اور فولاد سے زیادہ مضبوط بھی قرار دیا ہے، یعنی اب کہا جائے جایگا کہ پاکستان اور چین کی دوستی سمندروں سے گہری، شہد سے زیادہ میٹھی، فولاد سے زیادہ مضبوط اور ہمالیہ سے اونچی ہے۔ چین کے صدرشی چن پنگ نے کہا ہے کہ چین اور پاکستان کا مستقبل مشترک ہے، پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ ہے،دونوں ممالک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون کررہے ہیں۔ چینی صدر شی چن پنگ کا مزید کہنا تھا کہ یہ میرا پاکستان کا پہلا دورہ ہے اور دورے کا مقصددونوں ملکوں کے تعلقات کو مضبوط بنانا ہے۔ چینی صدر نے کہا کہ چین دہشت گردی کے خاتمے کی پاکستان کی کوششوں کو سراہتاہے،پاکستان کے ساتھ تعلقات کوعملی اقدامات کے ذریعے مزید مستحکم کریں گے۔چینی صدر نےاس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ دوستی کو نئی بلندیوں پر لے جائیں گے۔ اکیس مئی1951ء پاکستان اور چین کی دوستی اورسفارتی تعلقات کے آغازکا دن تھا۔ چین نے ہر مرحلے پر یہ ثابت کیا کہ وہ پاکستان کا سچا دوست ہےجبکہ پاکستان نے بھی جواب میں ایسا ہی کیا۔
چینی صدر شی چن پنگ پاکستان کا دو روزہ تاریخی دورہ مکمل کرکے وطن روانہ ہوگئے۔ چینی صدر کےدورہ پاکستان کے دوران اقتصادی راہ داری سمیت 51معاہدوں پر دستخط ہوئے جبکہ پاک چین تجارتی حجم 20ارب ڈالر تک لانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ چینی صدر نے دورہ پاکستان کےدوسرے روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدرکا کہنا تھا کہ پاکستان اور چین کی دوستی باہمی تعاون پر مبنی ہے،چینی عوام پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں ہمیشہ ساتھ رہیں گے،پاک چین دوستی آنےوالے وقت میں مزید مستحکم ہوگی، پاکستان کی ثقافتی روایات ایک جیسی ہیں، شاہراہ قراقرم دو تہذیبوں کے درمیان ایک بندھن ہے۔ ایوان صدر میں ایک پروقار تقریب میں چینی صدرشی چن پنگ کو پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ’’ نشان پاکستان ‘‘سے نوازا گیا۔ نشان پاکستان جیسے اعزازات کسی کسی پر سجتے ہیں اور چین کے لئے ”نشان پاکستان“ کا اعزاز پاکستان کے عوام کی بھی خواہش اور دلی مسرت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
چینی صدر کے مطابق چین اور پاکستان اہم بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر یکساں موقف رکھتے ہیں، پاکستان کے ساتھ گوادر بندرگاہ، توانائی، بنیادی تنصیبات اور صنعتی تعاون جاری رکھیں گے۔آج چین اور پاکستان کی انمول دوستی اقتصادی اور دفاعی ترقی کے اقدامات کئی ممالک کو کھٹکتے ہیں۔ چینی صدر شی چن پنگ کے حالیہ دورئے میں اقتصادی راہ داری سمیت جو51معاہدوں پر دستخط ہوئے اور پاک چین تجارتی حجم 20ارب ڈالر تک لانے پراتفاق کیا گیا ہے، پاکستان کو بجلی کے بحران سے نکالنے کے لیے بھی معاہدئے کیے گے ہیں جس سے پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پایا جاسکے گا۔ لیکن کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جو پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے ان معاہدوں اوربڑھتے ہوئے تعلقات کو پسند نہیں کرتے۔ بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات میں دراڑیں ڈالنے اور چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں مصروف رہتے ہیں اس لئے اس دوستی کی پائیداری کے لئے ضروری ہے کہ اس قسم کی سازشوں کو بھی سامنے رکھا جائے۔ اس سے پہلے پاکستان میں گوادر، گومل زیم ڈیم اور شاہراہ مکران کی تعمیر کے منصوبے سازشوں کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے اور اسکی وجہ سے ہی پاکستان کی معاشی صورتحال مسلسل تنزلی کا شکار ہے، اس دہشت گردی میں ہندوستان، مغربی طاقتیں اور امریکہ شامل ہیں۔ مذہب اور آزادی کے نام پر ہونے والی اس دہشت گردی کا مقصدپاکستان کو معاشی اور سیاسی طور پر کمزور کرنا ہے، اس کے علاوہ چین کے دنیا میں بڑھتے ہوئے معاشی اور سیاسی اثرورسوخ کو روکنا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے حملے مسلسل جاری ہیں۔ اسلیئے حکومت کو اگر ان معاہدوں میں شامل منصوبوں پر مکمل عمل کرنا ہے تو دہشت گردی کو جڑسے ختم کرنا ہوگا۔
وہ ممالک جن کو پاک چین دوستی ایک آنکھ نہیں بھاتی اُس میں امریکہ، اسرائیل، برطانیہ اور بھارت ہیں ۔ پاکستان اور چین کے درمیان مجوزہ ڈھائی ہزار کلومیٹر لمبی اقتصادی راہداری گوادر سے شروع ہوکر کاشغرتک جائے گی جو پاکستان کی معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن بھارت کے سابق سفارتکار راجیو ڈوگرہ کا کہنا ہے کہ یہ راہ داری بعض متنازع علاقوں سے گزرے گی جس پر بھارت کو اعتراض ہو گا۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے مطابق چینی صدر کے پاکستان دورے کو بھارت میں بہت باریک بینی سے دیکھا جا رہا ہے، پاکستان اور چین کے درمیان اربوں ڈالر کے ترقیاتی منصوبوں کے معاہدوں پر اسلام آباد اور بیجنگ میں اطمینان اور خوشی کا اظہار کیاگیا ہے لیکن بھارت میں اقتصادی راہداری کی تعمیر اور گوادر بندرگاہ لیز پرچین کودیے جانے کے معاہدوں پر بھارت میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدوں پر بھارتی میڈیا نے نکتہ چینی شروع کر دی اور اپنا پرانا راگ الاپتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ پاکستان میں سیکیورٹی صورت حال کے باعث چین کو اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کرنی چاہئے۔ پاکستان اور چین کے درمیان دفاعی معاہدوں پر جہاں بھارت کے حکمران پریشان ہوجاتے ہیں وہیں اس کی فوج کی نیندیں بھی حرام ہوجاتی ہیں، بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل آر کے دھاون نے کہا کہ بھارتی فوج کی پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدوں پر گہری نظر ہے اور خاص طور پر دونوں ممالک کے درمیان دفاعی شعبہ جات میں تعاون اور آبدوزوں کی فروخت کے معاملے کو باریک بینی سے دیکھا جا رہا ہے۔
چین نے کاشغر میں ایک خاص زون بنایا ہوا ہے جو تجارت کا مرکز ہے۔ کاشغر کی وجہ سے مسلمانوں کی بھی ترقی ہوگی اور چین مشرق وسطیٰ تک بھی پہنچے گا اور اسے گوادر کے ذریعے راستہ ملے گا مگر چین کا راستہ روکنے کے لئے پاکستان اور چین کے خلاف سازشیں کی جاتی رہی ہیں اور کی جاینگی۔ سال دو ہزار گیارہ میں سابق امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن کے دورہ چین کے بعد چین کی طرف سے پہلا منفی پیغام آیا اور وہ پاکستان کو تنہا کرنے کی مہم میں قدرے کامیاب ہوا جب چین نے یہ الزام لگایا کہ چین میں جن لوگوں نے سنکیانگ میں بموں سے 30/31 جولائی کو حملہ کیا، انہوں نے پاکستان میں تربیت حاصل کی۔ یہ بیان پاکستان کی توقعات کے بالکل برعکس تھا جبکہ پاکستان ہمیشہ چین کے خلاف ہونے والی کسی بھی کاروائی میں چین کے ساتھ رہا ہے۔ کہا جارہا تھا کہ امریکہ افغانستان سے2014ء میں نکل جائے گا اگر اُس کے نکلنے کے ارادے ہوتے تو وہ جو سازشیں کررہا ہے وہ نہیں کرتا۔ افغانستان میں سونا اور تانبا ہے۔ وہ کیسے چھوڑے گا اور یہی بات سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر نے کہی تھی کہ امریکہ کی بلوچستان میں بہت دلچسپی ہے، اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے چنائے انڈیا میں اپنے انڈیا کے دورے کے وقت کہا تھا کہ یہ راستہ جنوبی ایشیاء اور سینٹرل ایشیاء کے درمیان پل کی حیثیت رکھتا ہے۔
بلوچستان کے دہشت گردوں کےامریکہ اورمغربی طاقتوں کی سراغ رساں ایجنسیوں سے تعلقات ہیں اور پاکستانی حکومت اور اُسکے سیکورٹی ادارے اس چیز کو بخوبی جانتے ہیں۔برطانیہ کی ایم آئی سکس کے تو بلوچستان لبریشن آرمی سے اسکے بننے کے کچھ عرصہ بعد ہی سے تعلقات ہیں۔ امریکی کانگرس کے دانا روہر باچر جیسے کئی قانون دان بھی اس سازش میں شریک ہیں اور بلوچستانیوں کو حقِ خود ارادیت دینے کی باتیں کر رہے ہیں۔ دانا روہر باچر امریکی حکومت کو صلاح دیتا رہا ہے کہ دہشت گردوں سے تعلقات قائم کرو اور پاکستان کی جمہوری حکومت سے رشتے توڑ لو۔ ان تمام سازشوں کا مقصد یہ ہے بلوچستان کو پر امن نہ رہنے دیا جائے۔ امریکہ کا ایک بہت بڑا مقصد یہ ہے کہ اگر امریکہ بلوچستان کو کنٹرول نہ بھی کرپائے تو چین بھی بلوچستان میں سکون سے اپنی سرمایہ کاری نہ کر سکے یعنی معدنی ذخائر کو نکالنے میں اور گوادر پورٹ بنانے میں چین کے کردار کو روکنا مقصود ہے اور یہ ہی مقصد ہندوستان اور ہندوستانی لیڈروں کا ہے تاکہ پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر ترقی نہ کرسکے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں آئے دن دہشتگردی ہوتی رہتی ہے ، تربت میں 20 بےگناہ مزدوروں کا قتل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے اپنے دورۂ امریکہ کے دوران بھی بلوچستان میں بھارتی دراندازوں اور بھارت نواز دہشت گردوں کے مسئلے کو اُٹھایا تھا۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر پاکستان اور چین کو یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ امریکہ اور بھارت وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ اپنی پالیسیوں پر غور و فکر اور نظر ثانی کرتے رہتے ہیں اور پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدوں کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کرسکتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ اورمغربی طاقتوں کی پاک چین دوستی کے خلاف عالمی سازشوں پر نگاہ رکھی جائے۔