پاک ہند تعلقات کا مستقبل؟

گزشتہ کچھ دنوں سے فیس بک والوں کو پتہ نہیں کیا ہوا ہے کہ ’’واچ‘‘ کے عنوان کے تحت ہندتوا اور آریہ سماج وغیرہ کی وڈیوز ہمیں دکھائے جا رہا ہے۔ گو کہ سوشل میڈیا پر نظر آتے مباحث کی بدولت ایک عرصے سے میرا یہ تاثر ہے کہ پاک و ہند تعلقات کی سرد مہری کا بنیادی سبب محض (مبینہ) سرحد پار دہشت گردی نہیں ہے ۔۔۔ بلکہ اس کی جڑیں مذہبی تعصب میں چھپی ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مودی سرکار گزشتہ دونوں اتنخابات میں بے نظیر اکثریت لے کر اقتدار میں آئی ہے، اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارتی عوام کی اکثریت فی زمانہ ہندتوا سے موافقت رکھتی ہے۔ ۲۰۱۴ کے بعد سے سوشل میڈیا پر ان کے رویے کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ’’ہزار سالہ‘‘ غلامی کا بدلہ لینے پر تُلے بیٹھے ہیں۔
میرا یہ تاثر ان وڈیوز کو دیکھنے کے بعد مزید مستحکم ہوا ہے، جن کا تذکرہ میں نے اوپر کیا۔ ایسے میں، بالفرض اگر پاکستانی حکام بھارتی الزامات کو من و عن تسلیم کرکے ’’مذہبی شدت پسندوں‘‘ کے خلاف عین مودی سرکار کی منشا کے مطابق کاروائی کر بھی دیں، تو اس سوچ میں بدلاؤ آنے کی کیا گارنٹی ہے جس کے مطابق محمود غزنوی کے حملوں کے بعد اب کہیں جا کر ہندؤں کو صحیح معنوں میں ہندوستان کا اقتدار نصیب ہوا ہے، اور اب ہندوستان (یا پھر گریٹر ہندوستان) میں موجود مسلمانوں سے ان ’’ہزار سالہ غلامی‘‘ کے دوران ہوئی ’’زیادتیوں‘‘ کا بدلہ لینے کا وقت ہے!

مجھے تو اگلے ۲۰ سال میں بھی پاک و ہند تعلقات میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ تاہم اس مراسلے کا اصل مقصد ہندوستانی محفلین سے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے عمومی حالات اتنے ہی سنگین ہیں جتنے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں؟
 
ہندوستانی مسلمانوں کا تو پتا نہیں شاید ان کے لیے حالات کچھ بہتر ہوں۔۔جہاں تک کشمیری مسلمان کی بات ہے تو اس کو پورے ہندوستان میں بس ایک مخصوص عینک سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ کشمیری ہے تو دہشت گرد ہے یہ بات کوئی ایسے ہی نہیں کر رہا بلکہ جو پچھلے تین سالوں میں میں نے دیکھا وہی بتا رہا ہوں سارے لوگ ایک جیسے ہوں ایسا بھی نہیں
اچھے لوگ بھی ہیں مگر بہت کم
البتہ ایک بات ضرور ہے کہ شمالی ہندوستان کے مقابلے میں جنوبی ہندوستان میں حالات بہت بہتر ہیں
اور شاید مسلمانوں کے حالات بھی بہتر ہوں
 
ہندوستانی مسلمانوں کا تو پتا نہیں شاید ان کے لیے حالات کچھ بہتر ہوں۔۔جہاں تک کشمیری مسلمان کی بات ہے تو اس کو پورے ہندوستان میں بس ایک مخصوص عینک سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ کشمیری ہے تو دہشت گرد ہے یہ بات کوئی ایسے ہی نہیں کر رہا بلکہ جو پچھلے تین سالوں میں میں نے دیکھا وہی بتا رہا ہوں سارے لوگ ایک جیسے ہوں ایسا بھی نہیں
اچھے لوگ بھی ہیں مگر بہت کم
البتہ ایک بات ضرور ہے کہ شمالی ہندوستان کے مقابلے میں جنوبی ہندوستان میں حالات بہت بہتر ہیں
اور شاید مسلمانوں کے حالات بھی بہتر ہوں
اللہ پاک کشمیری مسلمانوں کی خصوصی نصرت فرمائے ۔۔۔ کیونکہ مسلم حکمرانوں سے تو کوئی امید رکھنا فضول ہے۔
 

م حمزہ

محفلین
گزشتہ کچھ دنوں سے فیس بک والوں کو پتہ نہیں کیا ہوا ہے کہ ’’واچ‘‘ کے عنوان کے تحت ہندتوا اور آریہ سماج وغیرہ کی وڈیوز ہمیں دکھائے جا رہا ہے۔ گو کہ سوشل میڈیا پر نظر آتے مباحث کی بدولت ایک عرصے سے میرا یہ تاثر ہے کہ پاک و ہند تعلقات کی سرد مہری کا بنیادی سبب محض (مبینہ) سرحد پار دہشت گردی نہیں ہے ۔۔۔ بلکہ اس کی جڑیں مذہبی تعصب میں چھپی ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مودی سرکار گزشتہ دونوں اتنخابات میں بے نظیر اکثریت لے کر اقتدار میں آئی ہے، اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھارتی عوام کی اکثریت فی زمانہ ہندتوا سے موافقت رکھتی ہے۔ ۲۰۱۴ کے بعد سے سوشل میڈیا پر ان کے رویے کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ’’ہزار سالہ‘‘ غلامی کا بدلہ لینے پر تُلے بیٹھے ہیں۔
میرا یہ تاثر ان وڈیوز کو دیکھنے کے بعد مزید مستحکم ہوا ہے، جن کا تذکرہ میں نے اوپر کیا۔ ایسے میں، بالفرض اگر پاکستانی حکام بھارتی الزامات کو من و عن تسلیم کرکے ’’مذہبی شدت پسندوں‘‘ کے خلاف عین مودی سرکار کی منشا کے مطابق کاروائی کر بھی دیں، تو اس سوچ میں بدلاؤ آنے کی کیا گارنٹی ہے جس کے مطابق محمود غزنوی کے حملوں کے بعد اب کہیں جا کر ہندؤں کو صحیح معنوں میں ہندوستان کا اقتدار نصیب ہوا ہے، اور اب ہندوستان (یا پھر گریٹر ہندوستان) میں موجود مسلمانوں سے ان ’’ہزار سالہ غلامی‘‘ کے دوران ہوئی ’’زیادتیوں‘‘ کا بدلہ لینے کا وقت ہے!

مجھے تو اگلے ۲۰ سال میں بھی پاک و ہند تعلقات میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ تاہم اس مراسلے کا اصل مقصد ہندوستانی محفلین سے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے عمومی حالات اتنے ہی سنگین ہیں جتنے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں؟
بات صرف اتنی نہیں ہے کہ بھارت میں موجود ہندو اکثریت مذہبی جنون میں مبتلا پاکستان سے شدید عداوت رکھتی ہے بلکہ اپنے ہم وطن مسلمانوں کو عدو مبین جان کر بدلہ لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اس پر ستم یہ کہ بھارتی مسلمانوں میں بھی اتفاق رائے مفقود ہے۔ یہاں تک کہ ایک اچھی خاصی تعداد کشمیریوں کو بھی اپنا دشمن تصور کرتی ہے اور وہ اس کا اظہار قولا و فعلا کرتے رہتے ہیں۔ اس بات کا تجربہ ان کشمیریوں کو اکثر ہوتا رہتا ہے جو بھارت کی دوسری ریاستوں میں کسی کام سے جاتے رہتے ہیں۔ خاص طور سے طالب علموں کو اور کاروباری شخصیات کو۔

اب آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ آپ کس میڈیا کی بات کررہے ہیں اور وہاں پر کیا کچھ بتایا اور دکھایا جاتا ہے۔ لیکن جہاں تک ہماری جانکاری ہے بھارت میں موجود اقلیتوں کا حال انتہائی افسوس ناک ہے۔ جسے میڈیا میں سامنے لے آنا کسی کے بس کی بات نہیں۔
 

بابا-جی

محفلین
مُجھے علاقائی تعصب کے مسائل زیادہ نظر آتے ہیں۔ کم از کم پاکستان کی حد تک۔ انڈیا میں شاید مذہبی تعصب کی بات زیادہ چلتی ہے، یہاں زیادہ تر لوگ مُسلم ہیں؛ چاہے نام نہاد سہی، اِس لیے علاقائی تعصب کا مُعاملہ بہت پہلے سامنے آ جاتا ہے۔ شاید انڈیا میں بھی ایسا ہی ہو۔
 
Top