پاگل

با ادب

محفلین
پاگل

عشق کرنا ہے تو پھر چاک گریباں کر لے
ہوش والوں سے کہاں رقص جنوں ہوتا ہے

پاؤں میں اضطراب کی لہر اٹھ اٹھ کے تھمتی ہے ۔ پورے وجود کو سنبھالے پاؤں کے تھرکنے کو قابو میں رکھنا محال ہوا جاتا تھا ۔
یہ جو وجد کی سب باتیں ہیں نا یہ فقط ضعیف الاعتقادی ہے اور کچھ نہیں ۔
پرانے پڑھے ہوئے اسباق دہرانے کی اشد ضرورت درپیش تھی ۔
لیکن یہاں اختیار گم ہوا جاتا تھا ۔ ضبط آخری حدوں پہ تھا ۔
ضبط کی کوشش میں آنکھیں لال انگارہ ہوئی جاتی تھیں ۔
اندر شور بڑھتا جا رہا تھا ۔ شور ایک لے میں اٹھتا اور شوق کو مہمیز کرتا ۔ وہ لڑتے لڑتے تھک چکی تھی ۔
پاؤں اب اسکے اختیار سے باہر تھے ۔ وہ تھرکتے جا رہے تھے ۔ یہ رقص نہیں اضطراب تھا ۔
کیونکر جوگی جوگ لے لیتے ہیں؟
کیوں ویرانوں میں پناہ چاہتے ہیں؟
دنیا کے عاقل خرد کے پیرو کیا انھیں اس طرح دیوانہ وار تھرکنے دیں گے ۔
ارے کیا بے قراری ہے ۔ کھاتا ہے پیتا ہے اچھا پہنتا اوڑھتا ہے ۔ گھر ہے بنگلہ ہے سب ہے پھر بھی اضطراب ۔ اسے کہتے ہیں ناشکرا پن ۔
زندگی کیا کھانے پینے جگالی کرنے پہننے اوڑھنے افزائش نسل کا ہی نام ہے؟ ؟؟
پھر تو بڑی سہل ہے یہ زندگی ۔
اور ذات؟ ؟
تلاش ذات؟ ؟
خود کو کھوج لینا؟ ؟
وہ جو اسکا خالق ہے اسکی کھوج؟ ؟
شاید دیوانوں کی باتیں ہیں ۔
وہ دیوانہ وار جھومتی جاتی ہے ۔
دیکھو دیکھو دیوانی ہے شدائن ۔
ارے کوئی روگ لگا ہوگا ۔
یہ روگ بھی کتنے اچھے ہوتے ہیں آپکو حساس بنا دیتے ہیں ۔ درد مندی سکھا جاتے ہیں ۔
جنھیں کبھی کوئی روگ لگا ہی نہیں جنھیں کبھی کوئی تکلیف ملی ہی نہیں وہ حساس دل کہاں سے لائیں گے؟
کبھی خود بیماری میں مبتلا ہوں تو احساس ہوگا جسمانی تکلیف کیا ہے ۔
خود بھوکے ہوں تو احساس ہوگا بھوک کیا ہے کیوں کوئی بھوک کی شدت سے مجبور ہو کے ہاتھ پھیلا دیتا ہے ۔
کبھی دل کے درد میں مبتلا ہوں تو انسان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوگا ۔
جو مبتلائے غم نہیں وہ ایک پتھر ہی تو ہے ۔ بے جان اور بے حس ۔ وہی تو لوگوں کا یقین کرنے والا نہیں وہی تو ہر بات پہ گواہیاں مانگنے والا ہے ۔
انسانوں کی گواہی انسان کے حق میں مانگتے ہو ۔
کس قدر ظالم اور بے حس ہو ۔
یقین کر لیجیے یقین کرنے میں جاتا کیا ہے ۔
اضطراب بڑھتا جاتا اور پاؤں تھمنے سے انکاری ہو گئے ۔
لوگوں نے دیکھا اور منہ میں انگلیاں داب لیں ۔
کون ہے یہ؟
پاگل ہے بے چاری ۔
ہائے نمانی کیسے جگ میں رسوا ہو رہی ہے ۔
پاگلوں کا کیا ہے رسوا ہوں یا نام کمائیں رہیں گے تو پاگل ہی نا ۔
اب بس انتظار ہے جب پاؤں تھک کے ساتھ دینے سے انکاری ہوں اور وہ تھکن سے گر جائے ۔
گرنے سے کیا خبر حواس کی دنیا میں لوٹ آئے ۔
اتنا بتائیے کیا دنیا کسی پاگل کو کبھی پھر سے ہوشمند تسلیم کر لیتی ہے؟ ؟

سمیرا امام
 
Top