عبدالباسط حبیب
محفلین
گلی میں بچے اُس کے پیچھے پاگل پاگل کی آوازیں لگاتے بھاگ رہے تھے۔ اُس نے پچھلے کئی مہینوںسے کپڑے بھی نہیں بدلے تھے، قمیض کا چاک اُدھڑتے اُدھڑتے گریبان سے جا ملا تھا۔ چہرے کا رنگ زرد پتے سا ہوتا جا رہا تھا۔ آنکھوں میں جل بجھے خوابوں کی راکھ پھیلی ہوئی تھی۔ بالوں میں کسی چڑیا کے ٹوٹے گھونسلے کے کچھ تنکے ابھی تک اٹکے ہوئے تھے ۔ وہ اپنا نام بھول چکا تھا سب اُس کو پاگل کہتے تھے۔ وہ پچھلے کئی برسوں سے رنگوں کے اس شہر کی گلیوں میں دشت کے سفر پہ تھا۔
شہر کی ہر گلی دوجے سے ملی ہوئی تھی، وہ ایک گلی سے نکلتا تو اگلی گلی میں کھیلتے بچے اپنے پرانے کھلونے چھوڑ کے نئے کھلونے سے کھیلنا شروع کر دیتے ۔ یہ کھیل اُن کے لیئے صرف جیت ہی جیت تھا، اور ہر کوئی جیتنا چاہتا تھا۔ شام پھیلتی جا رہی تھی اور اُس کے بدن پہ اور زخموں کے لیئے جگہ کم پڑتی جا رہی تھی۔ اس پھیلتی سیاہی میں ہی کہیں سے ایک بڑا پتھر آ اُس کے ماتھے لگا تبھی رات کے اندھیروں نے اُس کا ہاتھ تھام کے روشنیوں کی طرف سفر شروع کیا۔ درد بڑھتا ہی چلا جاتا تھا۔ اور پھر آہستہ آہستہ درد نے سب اپنے حصار میں لے لیا، اُسی لمحے کیف و مستی کا جنم ہوا۔
دیکھا! ماں اُس کے لیئے دیسی گھی کے پراٹھے بنا کے لائی ہے، کٹوری میں پڑوس سے منگوایا ہوا سرسوں کا ساگ اپنی مہک سے اُس کی تالو سے لگی زبان کو تَر کر رہی ہے۔ اور بہن اُس کا سر زانوں پہ رکھے اُس کے بالوں میں اُلجھے جنگلوں میں اُجڑے گھونسلوں کے تنکوں کو نکال رہی ہے۔ ماںاُس کو بیٹا کھانا کھا لو بیٹا کہ رہی تھی۔ اُس کی آنکھ میں چھپا پانی کا وہ اک نمکین قطرہ گواہی دے رہا تھا کہ وہ پاگل نہیں ہے۔ وہ تو اس دنیا کا سب سے پیارا بیٹا ہے، اُس کی بہن کے ہاتھوں کی پوریں اُس کے کانوں میں سرگوشی کر رہی تھیں ۔ بھیا تم سے اچھا بھائی تو اس بھری دنیا میں اور کوئی نہیں ہے ۔ تبھی ! سورج کی بے رہم کرنوں کی تاب نا لاتے ہوئے کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا اور ایک کاغذ میں لپٹا پتھر مسہری کے پاس آ کے گرا۔ اُس کاغذ پہ اک لفظ لکھا تھا۔ پاگل!
شہر کی ہر گلی دوجے سے ملی ہوئی تھی، وہ ایک گلی سے نکلتا تو اگلی گلی میں کھیلتے بچے اپنے پرانے کھلونے چھوڑ کے نئے کھلونے سے کھیلنا شروع کر دیتے ۔ یہ کھیل اُن کے لیئے صرف جیت ہی جیت تھا، اور ہر کوئی جیتنا چاہتا تھا۔ شام پھیلتی جا رہی تھی اور اُس کے بدن پہ اور زخموں کے لیئے جگہ کم پڑتی جا رہی تھی۔ اس پھیلتی سیاہی میں ہی کہیں سے ایک بڑا پتھر آ اُس کے ماتھے لگا تبھی رات کے اندھیروں نے اُس کا ہاتھ تھام کے روشنیوں کی طرف سفر شروع کیا۔ درد بڑھتا ہی چلا جاتا تھا۔ اور پھر آہستہ آہستہ درد نے سب اپنے حصار میں لے لیا، اُسی لمحے کیف و مستی کا جنم ہوا۔
دیکھا! ماں اُس کے لیئے دیسی گھی کے پراٹھے بنا کے لائی ہے، کٹوری میں پڑوس سے منگوایا ہوا سرسوں کا ساگ اپنی مہک سے اُس کی تالو سے لگی زبان کو تَر کر رہی ہے۔ اور بہن اُس کا سر زانوں پہ رکھے اُس کے بالوں میں اُلجھے جنگلوں میں اُجڑے گھونسلوں کے تنکوں کو نکال رہی ہے۔ ماںاُس کو بیٹا کھانا کھا لو بیٹا کہ رہی تھی۔ اُس کی آنکھ میں چھپا پانی کا وہ اک نمکین قطرہ گواہی دے رہا تھا کہ وہ پاگل نہیں ہے۔ وہ تو اس دنیا کا سب سے پیارا بیٹا ہے، اُس کی بہن کے ہاتھوں کی پوریں اُس کے کانوں میں سرگوشی کر رہی تھیں ۔ بھیا تم سے اچھا بھائی تو اس بھری دنیا میں اور کوئی نہیں ہے ۔ تبھی ! سورج کی بے رہم کرنوں کی تاب نا لاتے ہوئے کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا اور ایک کاغذ میں لپٹا پتھر مسہری کے پاس آ کے گرا۔ اُس کاغذ پہ اک لفظ لکھا تھا۔ پاگل!