پتھر بنا دیا مجھے رونے نہیں دیا۔۔۔ انوپ جلوٹا

محسن حجازی

محفلین
[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=Qf1lVsICO6Q[/youtube]

پتھر بنا دیا مجھے رونے نہیں دیا
دامن بھی تیرے غم نے بھگونے نہیں دیا

تنہائیاں تمہارا پتہ پوچھتی رہیں
شب بھر تمہاری یاد نے سونے نہیں دیا

آنکھوں میں آ کے بیٹھ گئی اشکوں کی لہر
پلکوں پہ کوئی خواب پرونے نہیں دیا

دل کو تمہارے نام کے آنسو عزیز تھے
دنیا کا کوئی درد سمونے نہیں دیا

ناصر یوں اس کی یاد چلی ہاتھ تھام کے
میلے میں اس جہان کے کھونے نہیں دیا

(ناصر کاظمی)
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ واہ۔۔۔ کیا بات ہے حجازی صاحب۔۔۔ جوانی یاد دلا دی آپ نے۔۔۔ لگ بھگ بیس برس قبل سنی تھی یہ غزل
 

RAZIQ SHAD

محفلین
آنکھوں میں آ کے بیٹھ گئی اشکوں کی لہر
بحرِ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن

آنکھوں میں آکے بیٹھ گئی اشکوں کی لہر
پلکوں پہ کوئی خواب پرونے نہیں دیا

محسن حجازی صاحب
اس شعر کے مصرع اولٰی میں لفظ "
لَہْر
" کو فعو پر باندھا گیا جبکہ لفظ "
لَہْر
" کا وزن
فَعْلْ یا فَاْعْ
ہے۔۔۔۔۔
لَہْ ر
یہ لفظ
سنسکرت زبان کا ہے
اس لحاظ سے تو یہ شعر وزن سے خارج ہوتا ہے
ناصر کاظمی صاحب جیسے بڑے شاعر سے کیا اتنی بڑی غلطی ہو سکتی ہے
 

RAZIQ SHAD

محفلین
آنکھوں میں آ کے بیٹھ گئی اشکوں کی لہر
پلکوں پہ کوئی خواب پرونے نہیں دیا
------------
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
آنکھوں میں آ کے بیٹھ گئی اشکوں کی لہر
پلکوں پہ کوئی خواب پرونے نہیں دیا

لفظ " لہر " کو یہاں فعو 1 2 باندھا گیا
جبکہ لفظ ' لہر " فاع یا فعل 2 1 پر باندھا جاتا ہے
لفظ " لہر " ( لہ ر)
 

فاتح

لائبریرین
بحرِ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
آنکھوں میں آکے بیٹھ گئی اشکوں کی لہر
پلکوں پہ کوئی خواب پرونے نہیں دیا

محسن حجازی صاحب
اس شعر کے مصرع اولٰی میں لفظ "
لَہْر
" کو فعو پر باندھا گیا جبکہ لفظ "
لَہْر
" کا وزن
فَعْلْ یا فَاْعْ
ہے۔۔۔۔۔
لَہْ ر
یہ لفظ
سنسکرت زبان کا ہے
اس لحاظ سے تو یہ شعر وزن سے خارج ہوتا ہے
ناصر کاظمی صاحب جیسے بڑے شاعر سے کیا اتنی بڑی غلطی ہو سکتی ہے
ناصر واقعی بہت بڑا شاعر ہے اور اس سے اساتذہ و متقدمین کی سند کے بغیر ایسی "حرکت" كی توقع نہیں ركهی جا سكتی۔ یہ مثالیں دیکھیے گا:
ابر مت گور غریباں پہ برس غافل آہ
ان دل آزردوں کے جی میں بھی لہر آوے گی
(میر تقی میر)

شب نہاتا تھا جو وہ رشک قمر پانی میں
گتھی مہتاب سے اٹھتی تھی لہر پانی میں
(میر تقی میر)

سنبل کی لہر سے نہ رہے پھر ہمیں مطلب
یکدست جو تم کا کل خمدار دکھاؤ
(بہادر شاہ ظفر)​
 
آخری تدوین:
Top