پتھر سُلگ رہے تھے کوئی نقش پا نہ تھا

ظفری

لائبریرین
پتھر سُلگ رہے تھے کوئی نقش پا نہ تھا
ہم اس طرف چلے تھے جدھر راستہ نہ تھا

پرچھائیوں کے شہر کی تنہائیاں نہ پوچھ
اپنا شریکِ غم کوئی اپنے سوا نہ تھا

یوں دیکھتی ہے گمشدہ لمحوں کے موڑ سے
اس زندگی سے جیسے کوئی واسطہ نہ تھا

چہروں پہ جم گئی تھیں خیالوں کی الجھنیں
لفظوں کی جستجو میں کوئی بولتا نہ تھا

خورشید کیا ابھرتے دل کی تہوں سے ہم
اس انجمن میں کوئی سحر آشنا نہ تھا​
 
Top