کاشف اسرار احمد
محفلین
ابھی چند یوم قبل ہی یہ غزل مکمل کی تھی ۔ موبائل میں ہی ٹائپ کرتا ہوں اور وہیں سے پوسٹ بھی کر رہا ہوں ۔ احباب سے توجہ کی درخواست ہے
------------------------------------------------
پتھر کا آسمان مرے سر پہ آ گرا !
حسبِ وفا لگان مرے سر پہ آ گرا !
میں مَرغزارِ طِفلی سے نکلا ہی تھا تبھی
اس عمر کا مکان مرے سر پہ آ گرا !
اُس خود پرست بُت نے جو سجدہ کیا مجھے
تو اُس کا بارِ شان مرے سر پہ آ گرا !
آیا ہی تھا خیال کہ"یہ وصل ہے بھرم"
نوزائیدہ گمان مرے سر پہ آ گرا !
آئینہ خانہ تھا جو مری خود شناسی کا
شیشہ کا وہ مکان مرے سر پہ آ گرا !
اندازے اور گمان تو دنیا کے ہو گئے
سچائی کا بیان مرے سر پہ آ گرا !
جب دشتِ بے خودی میں ملا سایہءِ فہم
کاشف وہ سائبان مرے سر پہ آ گرا !
سید کاشف
------------------------------------------------
------------------------------------------------
پتھر کا آسمان مرے سر پہ آ گرا !
حسبِ وفا لگان مرے سر پہ آ گرا !
میں مَرغزارِ طِفلی سے نکلا ہی تھا تبھی
اس عمر کا مکان مرے سر پہ آ گرا !
اُس خود پرست بُت نے جو سجدہ کیا مجھے
تو اُس کا بارِ شان مرے سر پہ آ گرا !
آیا ہی تھا خیال کہ"یہ وصل ہے بھرم"
نوزائیدہ گمان مرے سر پہ آ گرا !
آئینہ خانہ تھا جو مری خود شناسی کا
شیشہ کا وہ مکان مرے سر پہ آ گرا !
اندازے اور گمان تو دنیا کے ہو گئے
سچائی کا بیان مرے سر پہ آ گرا !
جب دشتِ بے خودی میں ملا سایہءِ فہم
کاشف وہ سائبان مرے سر پہ آ گرا !
سید کاشف
------------------------------------------------