ایک بار پڑھا تھا کہ فطرت میں قائمہ زاویہ نہیں پایا جاتا۔ اس کے علاوہ سمٹری یعنی دو اطراف سے ایک جیسا کٹاؤ ہونا وغیرہ سے علم ہو سکتا ہے
قائمہ زاویہ والی بات مجھے ہضم نہیں ہو رہی۔ کیونکہ پہاڑی علاقوں میں آوارہ گردی کے دوران قائمہ زاویہ کئی بڑی چٹانوں اور چھوٹے پتھروں کی اشکال میں خود دیکھ چُکا ہوں۔۔۔ البتہ سمٹری والی بات وزن رکھتی ہے۔ گو کہ فطرت کے عناصر سے بھی ایسی سمٹری کا ہونا کوئی اچنبے کی بات نہیں۔۔۔۔۔۔
پانی کے کٹاؤ سے جو پتھر کی شکل ہوتی ہے وہ انسانی ہاتھ سے نوکیلے اوزار سے کافی مختلف ہوتی ہے
یہ بات چند سو سال پرانے اوزاروں سے متعلق تو درست لگتی ہے، مگر کروڑوں سال پرانے اوازوں پر ذرا مشکل سے ہی فٹ آتی ہے۔کسی جگہ پر پڑے ہوئے پتھر پر اتنے لمبے عرصے میں بھی شکست و ریخت کے اثرات اتنے مرتب ہوتے ہیں کہ اس کی شکل میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔۔۔ اور اگر آپ اس تھریڈ میں دی گئی تصاویر کو بھی غور سے دیکھیں تو ایسے کٹاؤ اور اشکال کے پتھر ہمیں جابجا بکھرے مل جاتے ہیں، خاص طور پر پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں جہاں تہہ دار اور چٹانیں ہیں وہاں تو ایسے اوزاروں کی اشکال کے پتھر ڈھیروں کے حساب سے مل جاتے ہیں۔۔۔۔
جتنے پرانے یہ اوزار بتائے جا رہے ہیں، اس عرصے میں تو جمے ہوئے لاوے کے علاقے میں اتنی تبدیلی آجاتی ہے کہ وہاں مٹی، پتھر اور سبزہ پیدا ہوچکا ہوتا ہے۔۔۔۔۔