محسن وقار علی
محفلین
ازبک معاشرے کے چار بڑے کمالات ہیں‘ اس کا پہلا کمال ’’ لاء اینڈ آرڈر‘‘ ہے‘ پورے ملک میں قانون کی پابندی ہوتی ہے‘ حکومت قانون کی کوئی خلاف ورزی برداشت نہیں کرتی‘ پورا ملک اسلحہ سے پاک ہے‘ آپ کو کسی گلی‘ سڑک اور عمارت کے سامنے گارڈ نظر نہیں آتا‘ آپ کو پورے ملک میں چاقو اور ڈنڈا تک دکھائی نہیں دیتا اور آپ سڑکوں پر پولیس کی گاڑیاں بھی نہیں دیکھتے‘ ڈاکٹر رازق داد کے مطابق پچھلے پندرہ برسوں میں انھوں نے چوری کی صرف چار وارداتیں سنیں اور ان میں بھی چور گھر کی کھڑکی توڑ کر چند ہزار روپے مالیت کی اشیا اٹھا کر لے گئے تھے‘ قتل کی واردات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ازبکستان میں پچھلے دس برسوں میں کوئی گاڑی چوری نہیں ہوئی۔
ازبکستان غریب ملک ہے‘ عام لوگوں کی آمدنی سو ڈالر سے زیادہ نہیں ہوتی مگر یہ اس کے باوجود جرائم کی طرف قدم نہیں اٹھاتے کیونکہ یہ جانتے ہیں یہ جرم تو کر لیں گے مگر یہ پولیس اور عدالت سے نہیں بچ سکیں گے چنانچہ یہ روکھی سوکھی کھا لیتے ہیں لیکن کسی کی چیز اٹھانے یا کسی کو لوٹنے کا نہیں سوچتے‘ جرائم کی کمی کی بڑی وجہ مذہبی طبقے پر حکومت کی مضبوط گرفت بھی ہے‘ ملک کی تمام مساجد حکومت کے کنٹرول میں ہیں‘ لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے لیکن یہ اپنی آزادی کا دائرہ دوسروں کے عقائد تک نہیں پھیلا سکتے‘ نماز صرف گھر اور مسجد میں ادا کی جا سکتی ہے‘ آپ دفتر یا کھلی جگہ پر نماز نہیں پڑھ سکتے‘ آپ تبلیغ بھی نہیں کر سکتے اور آپ مذہب پر اختلافی کتاب بھی نہیں لکھ سکتے‘ مساجد میں امام کا تعین حکومت کرتی ہے اور امام صرف نماز پڑھا سکتا ہے‘ جمعہ کا خطبہ بھی حکومت طے کرتی ہے لہٰذا کوئی عالم ازبکستان میں اختلافی بات نہیں کرتا اور یوں معاشرہ اختلاف‘ شدت اور ظلم سے آزاد ہے۔
اس چیز نے بھی جرائم کنٹرول کر رکھے ہیں‘ لاء اینڈ آرڈر کی اچھی صورتحال کی وجہ سے لوگوں کے چہروں پر اطمینان ہے‘ آپ کو لوگوں کے چہروں پر ٹینشن‘ پریشانی‘ اذیت یا شدت دکھائی نہیں دیتی‘ یہ مسکراتے ہوئے سڑکوں اور گلیوں میں چل پھر رہے ہوتے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں پاکستان لاء اینڈ آرڈر کی بدترین صورتحال کا شکار ہے‘ آپ کو سڑکوں اور گلیوں میں ہتھیار بردار لشکر نظر آتے ہیں‘ ملک کے تمام شہروں میں سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں کے باہر مسلح گارڈز دکھائی دیتے ہیں‘ آپ شاپنگ سینٹروں‘ دکانوں اور ریستورانوں میں بھی گارڈز دیکھتے ہیں‘ گاڑیوں میں بھی کمانڈوز ہوتے ہیں حتیٰ کہ ملک میں اسلحہ بردار محافظوں کے بغیر اب مسجدوں میں نماز اور قبرستانوں میں جنازہ ممکن نہیں رہا‘ ملک میں گاڑیاں چھیننا‘ اغواء برائے تاوان‘ ڈکیتی‘ چوری اور قتل ہماری زندگی کا معمول بن چکا ہے‘ ہمارے چینلز پر اوسطاً ہرآدھ گھنٹے میں قتل و غارت گری کی ایک خوفناک بریکنگ نیوز آتی ہے‘ان خبروں نے بھی پورے ملک کا مزاج بدل دیا ہے جب کہ اسلام آباد سے ایک گھنٹے پچاس منٹ کی فلائٹ کے بعد یہ صورتحال یکسر بدل جاتی ہے۔
ازبکستان کا دوسرا کمال سیاحت ہے‘ حکومت نے ملک کو سیاحوں کے لیے قابل قبول بنا دیا‘ ازبکستان میں غیر ملکی سیاحوں کی ضرورت کی تمام سہولتیں موجود ہیں‘ حکومت نے بخارا‘ سمر قند‘ خیوا اور تاشقند کی پرانی عمارتوں کی تزئین کر کے تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا‘ گرمیوں میں یورپ سے لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں‘ یہ دن بھر پرانی عمارتوں میں ماضی کے آثار تلاش کرتے ہیں اور شام کے وقت ریستورانوں‘ کلبوں اور بارز میں بیٹھ جاتے ہیں‘ ازبکستان میں ہوٹلز‘ ریستوران اور چائے خانے سستے ہیں‘ آپ کو رات کے وقت یہ تمام جگہیں آباد نظر آتی ہیں‘ یہ لوگ موسیقی کے دل دادہ ہیں لہٰذا تمام ریستورانوں میں لائیو میوزک چل رہا ہوتا ہے۔
رقاصوں کے طائفے بھی آتے ہیں اور ازبکستان کا مخصوص رقص پیش کرتے ہیں‘ یہ روایت دنیا کو ازبکستان کا متوازن چہرہ پیش کرتی ہے‘ میرے جیسے لوگ حضرت عثمان غنیؓ کے قرآن مجید اور حضرت امام بخاریؒ‘ حضرت بہاؤالدین نقش بندیؒ اور امام ترمذیؒ کے مزارات پر حاضری دینے کے لیے ازبکستان جاتے ہیں جب کہ یورپ کے لوگ تاریخ اور آج کی حسیناؤں کا رقص دیکھنے کے لیے وہاں پہنچ جاتے ہیں‘ مساجد اور خرابات دونوں آباد ہیں اور کوئی دوسرے پر اعتراض نہیں کر رہا‘ کوئی دوسرے کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا‘ ازبکستان کا تیسرا کمال ازبک لوگوں کی مہمان نوازی اور شائستگی ہے‘ یہ لوگ بہت حلیم‘ سادہ اور خوش مزاج ہیں‘ یہ کھانے کی میز سجانے کے ماہر ہیں‘ آپ ان کی میز پر بیٹھ جائیں تو یہ میز کو کھانے کی درجنوں چیزوں سے بھر دیں گے‘ آپ ریستوران میں چلے جائیں تو آپ کھانے سے قبل سلاد‘ چائے اور ڈرائی فروٹ دیکھ کر پریشان ہو جائیں گے۔
ہم سمرقند ریلوے اسٹیشن کے سامنے کبابوں کی ایک دکان پر رک گئے‘ یہ فضول قسم کا ڈھابہ تھا‘ ہم لوگ اس کے واش روم کے قریب تک سے نہیں گزر سکتے تھے‘ ہم نے وہاں چھ کبابوں کا آرڈر دیا لیکن ان لوگوں نے بھی مختلف قسم کی چٹنیوں‘ سلاد‘ نان اور دہی سے میز بھر دی‘ ہم ریستورانوں میں جاتے تھے تو تین چار گھنٹوں سے پہلے فارغ نہیں ہوتے تھے‘ پورے ازبکستان میں میز پوری دوپہر یا رات گئے کے لیے بک ہوتی ہے اور آپ جب تک چاہیں میز پر بیٹھ سکتے ہیں‘ یہ روایت بھی ازبکستان کو دنیا کے دوسرے ممالک سے ممتاز کرتی ہے‘ دنیا میں لوگ ریستوران میں آتے ہیں‘ کھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن ازبکستان میں آپ ریستوران میں آتے ہیں اور جانا بھول جاتے ہیں اور ازبکستان کا چوتھا کمال ٹرانسپورٹ ہے‘ شہر کی تقریباً تمام گاڑیاں ٹیکسیاں ہیں‘ آپ کسی گاڑی کو اشارہ کریں وہ ایک دو ڈالر لے کر آپ کو آپ کی منزل تک پہنچا دے گی۔
تاشقند شہر میں انڈر گراؤنڈ میٹرو بھی موجود ہے ‘ ٹرام بھی اور بسیں بھی‘ ان کی ریلوے یورپی اسٹینڈرڈ کے برابر نہیں لیکن اس کے باوجود وہاں ٹرینیں وقت پر چلتی ہیں اور ان میں فرسٹ اور سیکنڈ کلاس دونوں موجود ہیں ‘ اپ اپنا ’’کوپے‘‘ بھی بک کروا سکتے ہیں‘ تاشقند سے سمر قند تک بلٹ ٹرین سروس بھی موجود ہے‘ یہ یورپین اسٹینڈرڈ کی برق رفتار آرام دہ ٹرین ہے جو آپ کو سوا دوگھنٹے میں سمر قند سے تاشقند اور تاشقند سے سمر قند پہنچا دیتی ہے‘ ازبکستان ائیر لائنز نے نئے جہاز خریدے ہیں‘ یہ جہاز پوری دنیا میں جاتے ہیں ‘اندرون ملک بھی ہوائی سفر سستا ہے ‘ آپ پانچ چھ ہزار روپے میں تاشقند سے بخارا جاسکتے ہیں چنانچہ آپ کو ازبکستان میں ٹرانسپورٹ کا کوئی مسئلہ پیش نہیں آتا جب کہ ہم اس کے مقابلے میں کہیں پیچھے ہیں‘ہمارا ہوائی سفر مہنگا بھی ہے اور غیر یقینی بھی‘ آپ کو اسلام آباد تک میں پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ملتی۔
ہماری حکومت اگر سنجیدگی دکھائے‘ازبکستان کے ساتھ سیاحتی معاہدے کرے ‘ ویزے مزید آسان کرائے‘ ٹور آپریٹرز کو سہولتیں دے تو ازبکستان اور پاکستان کے درمیان سیاحتی آمدورفت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے‘ ہم ازبکستان سے بہت کچھ سیکھ بھی سکتے ہیں‘ہمارے پاس ٹیکسلا‘ کٹاس‘ لاہور‘ ملتان‘ ہڑپہ اور موہنجو داڑو جیسی ایسی درجنوں جگہیں ہیں جنھیں ہم بخارا اور سمرقند سے زیادہ بڑی سیاحتی فیکٹری بنا سکتے ہیں‘ ہم اگر ان علاقوں میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر بنا دیں‘ ہم یہاں سیاحتی سہولتیں پیدا کر دیں اور ان سیاحتی مقامات کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کر دیں تو ہم بھی ازبکستان کی طرح لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں‘ ہم اس سے کروڑوں ڈالر سالانہ بھی کما سکتے ہیں اور دنیا میں اپنا بگڑتا ہوا تاثر بھی ٹھیک کر سکتے ہیں مگر ہم شاید سب کچھ ہیں لیکن سمجھ دار اور پاکستانی نہیں ہیں‘ ہم اس ملک کے لیے کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ پتہ نہیں ہم کیا کرنا چاہتے ہیں‘ ہم کہاں جانا چاہتے ہیں۔
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس