پختون تحفظ مومنٹ - تعارف اور چند حقائق

آصف اثر

معطل
اس لڑی میں صرف تعارف اور چند دیگر تفصیلات ہیں۔ نیچے ایک مراسلے کا ربط دیا گیا ہے جس میں چند اہم واقعات کا ذکر ہے۔

روزروز ہزارہا بےگناہ قبائل پر لاٹھی چارج، زدوکوب، جسمانی سزائیں، ذہنی صعوبتیں، کال کوٹھری اور ہزاروں افراد کا لاپتہ کیے جانا معمول بن چکا تھا۔ اس دوران کچھ واقعات ایسے وقوع پذیر ہوئے کہ قبائل کا پیمانہ مکمل لبریز ہوگیا۔

2017 کاایک دِن تھاجب وزیرستان کے علاقے شَمَکئ میں ایک ناخوش گوار واقعے کے بعد (جنگ کے دوران بچایاگیا آئی ای ڈی پھٹ گیا تھا) فوج نے بے گناہ عوام پر انتہائی زیادہ لاٹھی چارج کیا جس دوران کسی ماں کا ایسا اِکلوتاجوان جو اٹھارہ سال سے بیمار تھا تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوا۔ اس پر عوام نے خصوصا 2015 میں (محسود تحفظ مومنٹ کی بنیاد رکھنے والے )کالج یونیورسٹیوں کے طلبا نے احتجاجی ریلی نکالی۔ دباؤ میں آکر فوج نے کرفیو اُٹھانے کے ساتھ ساتھ تشدد میں کمی کردی۔ لیکن ریلی میں شریک سرگرم اسٹوڈنٹس جن میں منظور پاشتین کے دو ساتھی بھی شامل تھے، کو حراست میں لے کر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ آئندہ ریلی نہیں نکالیں گے۔ لیکن دیگر ساتھیوں کے جوابی احتجاج اور سوشل میڈیا مہم پر انہیں چھوڑ کر کہا گیا کہ ٹھیک ہے آئندہ اس طرح کا سلسلہ بند کردیا جائےگا۔ لیکن وہ آرمی سے تحریری ضمانت لینا چاہتے تھے جو آرمی (کے چند آفیسرز) نہیں دے رہے تھے۔

وقت کے ساتھ ساتھ چیک پوسٹس پر گھنٹوں انتظارکرانا، معمولی باتوں پر تشدد، عوام کی تذلیل اور ظلم کا سلسلہ دوبارہ بڑھتا گیا کیوں کہ وعدے سارے زبانی تھے۔ ہر آفیسر اپنی مرضی چلاتارہا۔

2018 جنوری میں ایک آئی ای ڈی دھماکے میں دو بچوں کی شہادت نے عوام کو مزید مشتعل کردیا۔ انہوں نے پھر احتجاجی مظاہرے شروع کردیے لیکن سب کچھ بے سودتھا۔ یہ سب دیکھتےہوئے منظور پاشتین اور ایک دو ساتھیوں نے مشورہ کیا ایک احتجاجی ریلی نکال کر ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد تک مارچ کیا جائے تاکہ پوری دنیا کو اِن مظالم سے آگاہ کیا جائے۔ کیوں کہ ملکی میڈیا ایجنسیوں کے چند آفیسرز کی فون ہدایات پر رپورٹنگ نہیں کررہی تھی ۔ چنانچہ یکم فروری کو ایم ٹی ایم نےاسلام آباد میں مظاہرے کا اعلان کردیا۔ لیکن اس دوران نقیب اللہ محسود کی شہادت نے سب کچھ ہلاکررکھ دیا۔جس کی تفصیل سے ہرکوئی واقف ہے۔

ایم ٹی ایم کے آئینی مطالبات میں:

لاپتا افراد کو عدالتوں میں پیش کرنا، بچھائے گئے مائنز کی صفائی،کسی بھی بم دھماکے کی صورت میں آرمی کا عوام پربےدریغ تشددبند کیاجائے۔

اسی طرح کراچی ، فاٹا اور دیگر پختون علاقوں میں پولیس،فوج اور ایجنسیوں کے ماورائے عدالت قتل عام کی تحقیقات کا مطالبہ شامل تھا۔

قصہ مختصر یہ کے اسلام آباد تک مارچ کے دوران ہی اُن 22 دوستوں نے ایک دوسرے سے حلف لیا کہ تحریک کی کامیابی تک ہمیں موت بھی قبول ہے۔

اسلام آباد پہنچنے پر جب جرگہ کے وزیرِاعظم صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں ساری روداد منطور پاشتین نےخود سنائی اور ظلم کے وہ واقعات سُن کر وہاں وزیراعظم سمیت سب کے آنسو چھلک پڑے۔ یقین دہانی ملنےکے بعدواپسی پر آدھی رات ہی کو مشران نے اعلان کردیا (حالاں کہ سب پریس کلب کے باہر ابھی سوررہے تھے) کہ بوریا بستر سمیٹ کر روانہ ہوجاؤ۔ مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں۔ لیکن منظور پاشتین چوں کہ اِن ہتھکنڈوں کو سمجھ سکتاتھا اُس نے بہت منع کیا کہ جب تک تحریری طور پر ضمانت نہ دی جائے آپ مت جائے لیکن وہ سادہ لوح مشران نہ مانےجوپاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اپنے خلوص کے ترازو سے پرکھ رہے تھے۔

اس دوران منظور پاشتین اور اس کے دوستوں سمیت نوجوان طبقے نے فیصلہ کیا کہ تحریری ضمانت تک اپنی جگہ سے نہیں ہلیں گے۔ دو تین دِن کے بعد آرمی نے مجبوراً جی ایچ کیو بُلا کر اُن سے بات چیت کی۔ اور اُن کے سامنے اسی وقت فاٹا میں موجود ایم آئی اور دیگر ایجنسیوں کو فون کرکے لاپتہ افراد کو چھوڑنے کا حکم دیا اور سختی سے تاکید کی کے مزید ظلم اور تشدد بند کیاجائےجب کہ دیگر مطالبات کی منظوری کی یقین دہانی بھی کرائی۔ڈی جی آئی ایس پی آر چلے گئے تو ایک آفیسر نے آکر پوچھا کہ اب آپ مطمئن رہیں سب ٹھیک ہوجائے گا لیکن انہوں نے تحریری طور پر وعدہ دینے کا کہا۔ تو انہوں نے تاریخ دی کہ آپ کو پھر بلالیاجائے گا۔

دوسرے دِن آئی ایس آئی کے دفتر میں اُن کو بلایاگیا اور وہاں پر بھی انہوں وہی داستانِ غم سنائی۔ جس پر انہوں نے تسلیم کیا کہ آپ کے مطالبات بالکل جائز ہیں لیکن تحریری طور پر ضمانت دینے سے ریاست کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں لہذا یہ فی الحال ممکن نہیں۔ باقی اِزالہ کردیا جائے گا۔ کچھ دنوں بعد امیرمقام اور دیگر کی موجودگی میں تحریری طور پر ضمانت جاری کردی گئی جس کی تفصیل میڈیا پر موجود ہے۔

لاپتہ افراد کی فہرست جب طویل سے طویل تر ہوتی گئی تومتفقہ طور پر اسے ایم ٹی ایم سے پی ٹی ایم میں تبدیل کردیاگیا۔ہر علاقے سے بیواؤں، یتیموں اور بیٹوں سے محروم والدین کے فون آنے لگے کہ اُن کا بیٹا، شوہر، باپ،بھائی بغیر کسی جرم اور مقدمے کے طویل عرصےسے لاپتہ ہے لہذا اُن کے لیے کچھ کیا جائے۔ دوسری جانب نقیب اللہ محسود کے قاتل اور ریاستی ایجنسیوں کا لاڈلہ خون آشام راؤ انور منظرِ عام سے غائب کردیا گیا تھا۔ اور جب لایا گیا تو جو پروٹوکول اسے دی گئی اس سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اس پورے سیریل کلنگ کے پیچھے کون لوگ موجود تھے۔ لیکن افسوس کے اب بھی وہی وی آئی پی حاضری اور ظاہری حراست جاری ہے جو تمام مقتولین اور شہدا کے ساتھ کھلم کھلا مذاق ہے۔وہ ظالم اور قاتل جنہوں نے فاٹا میں قتلِ عام کیا اُن سے کوئی جواب طلبی نہیں ہورہی۔ چیف آف ارمی اسٹاف اور دیگر جنرلز منظور پاشتین اور دیگر ساتھیوں کو اپنے بچے قرار دے چکے ہیں جب کہ مذاکرات کے لیے جرگے بھی بنالیے گئے ہیں لیکن حالات ابھی بھی اس ڈگر چل رہے ہیں۔ اب بھی کئی ہزار افراد لاپتا ہے لیکن چند افراد رکاؤٹیں ڈال رہے ہیں جس سے ملکی ایجنسیوں اور افواجِ پاکستان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہورہی ہے۔

چند الزامات اور پروپیگنڈا پیغامات:

٭ منظور پاشتین این ڈی ایس، را اور سی آئی اے کے لیے کام کررہاہے۔

یہ الزام چیف آف آرمی اسٹاف اور اداروں کا مطالبات تسلیم کیے جانے کے بعد مکمل طور پر ردی میں چلا گیا۔جو بھی کرے گا وہ یا تو بغض رکھتاہے اور یا عقل سے عاری ہے۔

٭ سوشل میڈیا کے کچھ آئی ڈیز بیرون ملک سے چلائی جارہی ہے۔

مشرقِ وسطیٰ اور یورپ وغیرہ میں ہزاروں کی تعداد میں پشتون ملازمت کے سلسلے میں آباد ہیں۔ اِن میں سے اکثر وہی چلارہے ہیں۔ کسی بھی مستند خبر کے لیے تین آئی ڈیز ہیں ایک منظور پاشتین کی، ایک محسن داوڑ کی اور ایک تحریک کی باقاعدہ آئی ڈی ہے۔ اس کےعلاوہ کوئی بھی مختلف خبر یا دعویٰ ناقابلِ استناد ہے۔

٭ اداروں کے خلاف نعرے لگا کر ملک کی بدنامی ہورہی ہے۔

اداروں کے خلاف نعرے نہیں لگائے جارہے بلکہ مجرموں اور قاتِلوں کو کٹہرے میں لانے کے لیے ایسا کیا جارہاہے حالاں اِن افراد کو یہی ادارے سپورٹ کررہے ہیں۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ ایک جانب جرگے بٹھائے جارہے ہیں تو دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں (پولیس، رینجرز) کی جانب سے رہنماؤں کو گرفتار اور پریشرائز کیا جارہاہے۔ یہ دوہرا معیار جلتی پر تیل کا کام دے رہا ہے۔

آخر میں یہاں ایک مراسلے میں صرف اُن واقعات کا ذکر ہے جو فاٹا اور خیبر پختون خوا ہ میں فوج کی جانب سے عوام کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے حوالے سے ہیں اور اُن عناصر کی ذہنیت کا عکاس ہے جو ہماری پیشہ ورانہ فوج کے لیے بدنامی اور عوامی حمایت کھونے کا باعث بن رہے ہیں۔اور اُن عوامل کا ذکر بھی ہےجو پشتونوں پر اثرانداز ہورہے ہیں۔

وضاحت: میں پی ٹی ایم کا کوئی باقاعدہ کارکن نہیں ہوں۔ لیکن ظلم، ملک پر چند لوگوں کی اجارہ داری، اداروں کے لیے رسوائی کا باعث بننے والے افراد کے خلاف اور مظلومین کے ساتھ یکجہتی کی بنیاد پر اخلاقی اور آئینی حمایت کرتاہوں۔ کل اگرپنجابی ، سندھی ، بلوچی اور دیگر بھائیوں کے مظلومین بھی آئینی حقوق کے لیے آواز اُٹھاتے ہیں تو میری حمایت اتنی ہی ہوگی جتنی کے پی ٹی ایم کے لیے ہیں۔ میں قومیت، عصبیت اور نسل پرستی سے اتنا ہی بچنے کی کوشش کرتا ہوں جتنا کہ رسول اللہﷺ نے حکم دیا ہے۔

فوجیوں کو فرشتے سمجھنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ احتساب پر یقین رکھیں۔ احتساب کے بغیر معاشرہ ظلم کی بھٹی بن جاتا ہے جس میں صرف کمزور اور بے بس ہی بھسم ہوجاتے ہیں۔ دنیا کی ہر فوج میں احتساب کا عمل ہوتاہے جس میں کسی بھی چھوٹے بڑے فوجی آفیسرز اور اہلکاروں کو برطرف یا کورٹ مارشل کیا جاتاہے۔

امریکہ، چین اور دیگر ممالک میں یہ کوئی انہونی نہیں اور وہ اس پر انتہائی سخت ایکشنز لیتےہیں۔ پاکستان میں یہ روایت اگرچہ بہت کم دیکھنے میں آئی ہے لیکن پھر بھی ایسی واقعات ہوئے جن میں لفٹننٹ جنرلز تک کو برطرف کیا گیا۔حالیہ عرصے میں اس حوالے سے بلوچستان میں کرپشن کا اسکینڈل بہت زیادہ مشہور ہوا۔ لیکن اس سے فوج کی کردار کُشی نہیں ہوئی بلکہ کردار اور زیادہ بہترہوا ۔
چند روابط:
Gen Raheel dismisses 6 army officers from service over 'corruption' - DAWN.COM
Court martial of serving army generals not new in India, United States
10 Generals/Admirals That Got Fired - History and Headlines
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
مطالبات تو ان کے درست ہیں لیکن ان کے چند ایک لیڈر فوج مخالفت اور جوشِ خطابت میں کچھ زیادہ ہی آگے چلے گئے جس سے تحریک کی سپورٹ میں کمی ہوئی ہے۔

این ڈی ایف اور را والے الزامات البتہ بالکل بے بنیاد معلوم ہوتے ہیں۔
 

آصف اثر

معطل
دو واقعات تو مجھے میرے ایک شاگرد نے سنائے جو ہے تو وزیرستان کا لیکن رہائش ڈی آئی خان میں ہے۔ اسکول میں قبائلی اسٹوڈنٹس کی اکثریت کی وجہ سے مجھے انہیں سمجھنے اور قریب سے دیکھنے کا بہت زیادہ تجربہ رہا ۔

پچھلے سال جب گرمیوں کی چھٹیاں گزار کر آیا تو مجھے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ وہ اور کچھ دیگر دوست چہل قدمی کرتے ہوئے (ہزار ہا میں سے کسی ایک) چیک پوسٹ سے گزررہے تھے۔ فوجی صاحب نے سب لڑکوں کو روکا۔ کہا کہ کارڈ دکھاؤ۔ کارڈ سے مراد ”وطن کارڈ“ کے نام پر ایک غیرملکی ویزہ ٹائپ کا کارڈ ہے جو صرف قبائلی پشتونوں کے لیے تیار کیے گئے کیوں کہ انگریززدہ بیوروکریسی اور اپنے پہلے انگریز چیف کی تربیت یافتہ فوج اپنے مقاصد کے حصول کے بعد قبائل کو غیرملکی تصور کرنا شروع کردیتے ہیں۔ جتنے دوست تھے سب نے کارڈ دکھائے لیکن چوں کہ وہ پہلی بار گیا تھا لہذا کارڈ پاس نہ ہونے کی وجہ سے کہہ دیا کہ نہیں ہے۔ اہلکار نے درشت لہجے میں پوچھا کیوں نہیں ہے؟ تو اس نے جوابا عرض کیا کہ بنانا آپ کا کام ہے اور رکھنا میرا۔

صاحب یہ جواب سُن کر کچھ لمحے کے لیے لاجواب ہوگیا۔ پھر پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ (جو اتنا باغیانہ مزاج رکھتے ہو!)۔ کراچی سے۔ کیا کرتے ہو؟ پڑھتاہوں۔ کہاں پر؟ اسکول میں۔ ٹھیک ہے جاؤ۔

یہ واقعہ سُن کر میں نے اُسے شاباش دی۔

اب دوسرا واقعہ سُنیے۔ مذکورہ طالب علم کا ایک بھائی ڈیرہ اسماعیل خان میں کسی یونیورسٹی میں انجنئیرنگ میں ماسٹر کررہاہے اور مقامی طور پر پی ٹی آئی کا متحرک رہنما ہے۔ ایک دِن کسی کام سے وزیرستان جانا پڑا۔ راستے میں دونوں بھائی چیک پوسٹ پر پہنچے تو دیکھا کہ ہزاروں لوگ کھڑے انتظار کررہےہیں۔ پوچھا کیا مسئلہ ہے؟ جواب مِلا آرمی نے فی الحال آگے جانے پر پابندی لگائی ہے۔ کام شائد بہت ضروری تھا لہذا اس سے صبر نہ ہوا اور چیک پوسٹ پر کھڑے اہلکار سے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ کوئی وی آئی پی موومنٹ ہے لہذا فی الحال اجازت نہیں۔ اس یہ یک طرفہ پابندی پر اس نے احتجاج کیا اور کہا کہ مجھے اپنے کیپٹن سے ملائیے مجھے ہر صورت میں جانا ہے وگرنہ دیر ہوجائے گی۔ سپاہی نے بہت ڈرایا دھمکایا لیکن وہ نہ مانا۔ آخرکار چاروناچار اوپر کیپٹن کے پاس لے گیا۔

کیپٹن نے پوچھا کیا مسئلہ ہے؟ سپاہی نے کہا کہ یہ آگے جانا چاہتاہے۔ کیپٹن صاحب نے سمجھایا کہ اجازت نہیں دی جاسکتی۔ لیکن جب وہ تکرار کرنے لگا تو کیپٹن نے سپاہی سے انگریزی میں کہا کہ اسے نیچے لےجا کر ایسی سزا دو کہ سب کے لیے نشانِ عبرت بن جائے۔ یہ سن کر ہمارے طالبِ علم کا بھائی خود پر قابو نہ رکھ سکا اورانگریزی ہی میں ترکی بہ ترکی جواب دیتےہوئے کہاکہ آپ آئین کی رُو سے مجھے کسی بھی قسم کی سزا نہیں دےسکتے۔ اپنے حقوق مانگنا کوئی جرم نہیں۔ یاد رکھیے کہ میں یہاں مرجاؤں گا لیکن واپس نہیں جاؤں گا۔ انگریزی میں جواب سُن کر کیپٹن صاحب یک دم ٹھنڈے پڑگئے۔ پوچھا کون ہو؟ کہا اسٹوڈنٹ ہوں۔ کیپٹن کہنے لگا کہ اسٹوڈنٹ ہوکر بھی اتنی بےوقوفانہ باتیں کررہے ہو۔ تو اس نے جواب دیا کہ میں بےوقوف سہی۔ اور کچھ دیگر باتیں سُنا کرپوچھاکہ آپ اجازت دیتے ہیں یانہیں؟ کیپٹن کچھ ڈر گیا کہ پتا نہیں (کسی آرمی آفیسر کا رشتہ دار نہ نکل آئے) لہذا اجازت دے دی۔

یہ صرف دو واقعات ہیں لیکن وہاں کے حالات سمجھنے میں خاصے ممدہیں۔ قتل وغارت اور وحشت ناکی کی داستانیں ایک الگ کتابِ غم ہے۔

تیسرا واقعہ:
میرا چچا زاد بھائی جو ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہیں، ایک روز اپنے کچھ مہمانوں کے ساتھ قریب ہی کے گاؤں کی جانب پیدل عازمِ سفر تھے کہ راستے میں چیک پوسٹ پر ایک سپاہی نے روک کر شناختی کارڈ طلب کیے۔ سب نے کارڈ دکھائے۔ ایک مہمان چوں کہ بیرونِ ملک رہائش پذیر ہے لہذا انہوں نے نادرا کا اوورسیز کارڈ دکھایا جو انگریزی میں بنا ہوتاہے۔ ”پڑھے لکھے باشعورمحبِ وطن“ پشتو نہ جاننے والےسپاہی نے کارڈ دیکھ کر کہا شناختی کارڈ دکھاؤ۔ بھائی نے جواب دیا کہ یہی شناختی کارڈ ہے اور نادرا سے جاری شدہ ہے۔ دیکھیے اِس پر P-A-K-I-S-T-A-Nلکھا ہوا ہے۔ اُس نے کہا یہ نہیں چلے گا۔ اردو والا چاہیے۔ انہوں نے اردو میں لاکھ سمجھایا لیکن فوجی میاں کہاں سمجھنے والے تھے۔ خیر آدھا گھنٹہ گزر گیا اجازت نہیں مل رہی تھی کہ خوش قسمتی سے وہاں کے کمانڈر چہل قدمی کرتے ہوئے آ پہنچے(وگرنہ پتا نہیں کتنے گھنٹے انتظار کرنا تھا!)۔ پوچھا کیا مسئلہ ہے ؟ سپاہی نے کہا یہ غیر ملکی ہے کارڈ نہیں۔تو کمانڈر صاحب بھی ”آسمانی فرمان“ سمجھ کر آنکھ بند کرکے درشت لہجے میں پوچھتا ہے کہاں گیا کارڈ تمھارا؟ کیوں سپاہی کو پریشان کررہے ہو؟وقت ضائع مت کرو۔ کارڈ لاؤ اور چلتے بنو۔ بھائی نے پھر عرض کیا جناب وقت ہم نہیں آپ کا سپاہی ہمارا خراب کررہاہے۔ یہ اوورسیز کارڈ ہے آپ خود چیک کریں ۔ شناختی کارڈ کے مساوی ہے۔ کمانڈر صاحب نے جب کارڈ چیک کیا تو کھسیانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ٹھیک ہے تم لوگ جاؤ میں اسے سمجھا دوں گا!۔۔۔شاباش!
 

شاہد شاہ

محفلین
مطالبات تو ان کے درست ہیں لیکن ان کے چند ایک لیڈر فوج مخالفت اور جوشِ خطابت میں کچھ زیادہ ہی آگے چلے گئے جس سے تحریک کی سپورٹ میں کمی ہوئی ہے۔
این ڈی ایف اور را والے الزامات البتہ بالکل بے بنیاد معلوم ہوتے ہیں۔
اگر یہ سرخ جھنڈے چھوڑ کر ہلالی پرچم اٹھا لیں تو سارا معاملہ ہی ختم ہوجائے گا۔ اصل مسئلہ وہی ہے کہ اپنے حقوق کے نام پر اغیار کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ پشتون نسل پرستی کو ہوا دینے کی بجائے یکساں پاکستانی قومیت کے نام پر سیاست کریں۔ پھر اگر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ساتھ نہ دے تو بیشک آزادی کا مطالبہ کریں۔ مگر ابتدا انکو صحیح کرنی ہوگی
 
Top