آصف اثر
معطل
اس لڑی میں صرف تعارف اور چند دیگر تفصیلات ہیں۔ نیچے ایک مراسلے کا ربط دیا گیا ہے جس میں چند اہم واقعات کا ذکر ہے۔
روزروز ہزارہا بےگناہ قبائل پر لاٹھی چارج، زدوکوب، جسمانی سزائیں، ذہنی صعوبتیں، کال کوٹھری اور ہزاروں افراد کا لاپتہ کیے جانا معمول بن چکا تھا۔ اس دوران کچھ واقعات ایسے وقوع پذیر ہوئے کہ قبائل کا پیمانہ مکمل لبریز ہوگیا۔
2017 کاایک دِن تھاجب وزیرستان کے علاقے شَمَکئ میں ایک ناخوش گوار واقعے کے بعد (جنگ کے دوران بچایاگیا آئی ای ڈی پھٹ گیا تھا) فوج نے بے گناہ عوام پر انتہائی زیادہ لاٹھی چارج کیا جس دوران کسی ماں کا ایسا اِکلوتاجوان جو اٹھارہ سال سے بیمار تھا تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوا۔ اس پر عوام نے خصوصا 2015 میں (محسود تحفظ مومنٹ کی بنیاد رکھنے والے )کالج یونیورسٹیوں کے طلبا نے احتجاجی ریلی نکالی۔ دباؤ میں آکر فوج نے کرفیو اُٹھانے کے ساتھ ساتھ تشدد میں کمی کردی۔ لیکن ریلی میں شریک سرگرم اسٹوڈنٹس جن میں منظور پاشتین کے دو ساتھی بھی شامل تھے، کو حراست میں لے کر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ آئندہ ریلی نہیں نکالیں گے۔ لیکن دیگر ساتھیوں کے جوابی احتجاج اور سوشل میڈیا مہم پر انہیں چھوڑ کر کہا گیا کہ ٹھیک ہے آئندہ اس طرح کا سلسلہ بند کردیا جائےگا۔ لیکن وہ آرمی سے تحریری ضمانت لینا چاہتے تھے جو آرمی (کے چند آفیسرز) نہیں دے رہے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ چیک پوسٹس پر گھنٹوں انتظارکرانا، معمولی باتوں پر تشدد، عوام کی تذلیل اور ظلم کا سلسلہ دوبارہ بڑھتا گیا کیوں کہ وعدے سارے زبانی تھے۔ ہر آفیسر اپنی مرضی چلاتارہا۔
2018 جنوری میں ایک آئی ای ڈی دھماکے میں دو بچوں کی شہادت نے عوام کو مزید مشتعل کردیا۔ انہوں نے پھر احتجاجی مظاہرے شروع کردیے لیکن سب کچھ بے سودتھا۔ یہ سب دیکھتےہوئے منظور پاشتین اور ایک دو ساتھیوں نے مشورہ کیا ایک احتجاجی ریلی نکال کر ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد تک مارچ کیا جائے تاکہ پوری دنیا کو اِن مظالم سے آگاہ کیا جائے۔ کیوں کہ ملکی میڈیا ایجنسیوں کے چند آفیسرز کی فون ہدایات پر رپورٹنگ نہیں کررہی تھی ۔ چنانچہ یکم فروری کو ایم ٹی ایم نےاسلام آباد میں مظاہرے کا اعلان کردیا۔ لیکن اس دوران نقیب اللہ محسود کی شہادت نے سب کچھ ہلاکررکھ دیا۔جس کی تفصیل سے ہرکوئی واقف ہے۔
ایم ٹی ایم کے آئینی مطالبات میں:
لاپتا افراد کو عدالتوں میں پیش کرنا، بچھائے گئے مائنز کی صفائی،کسی بھی بم دھماکے کی صورت میں آرمی کا عوام پربےدریغ تشددبند کیاجائے۔
اسی طرح کراچی ، فاٹا اور دیگر پختون علاقوں میں پولیس،فوج اور ایجنسیوں کے ماورائے عدالت قتل عام کی تحقیقات کا مطالبہ شامل تھا۔
قصہ مختصر یہ کے اسلام آباد تک مارچ کے دوران ہی اُن 22 دوستوں نے ایک دوسرے سے حلف لیا کہ تحریک کی کامیابی تک ہمیں موت بھی قبول ہے۔
اسلام آباد پہنچنے پر جب جرگہ کے وزیرِاعظم صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں ساری روداد منطور پاشتین نےخود سنائی اور ظلم کے وہ واقعات سُن کر وہاں وزیراعظم سمیت سب کے آنسو چھلک پڑے۔ یقین دہانی ملنےکے بعدواپسی پر آدھی رات ہی کو مشران نے اعلان کردیا (حالاں کہ سب پریس کلب کے باہر ابھی سوررہے تھے) کہ بوریا بستر سمیٹ کر روانہ ہوجاؤ۔ مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں۔ لیکن منظور پاشتین چوں کہ اِن ہتھکنڈوں کو سمجھ سکتاتھا اُس نے بہت منع کیا کہ جب تک تحریری طور پر ضمانت نہ دی جائے آپ مت جائے لیکن وہ سادہ لوح مشران نہ مانےجوپاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اپنے خلوص کے ترازو سے پرکھ رہے تھے۔
اس دوران منظور پاشتین اور اس کے دوستوں سمیت نوجوان طبقے نے فیصلہ کیا کہ تحریری ضمانت تک اپنی جگہ سے نہیں ہلیں گے۔ دو تین دِن کے بعد آرمی نے مجبوراً جی ایچ کیو بُلا کر اُن سے بات چیت کی۔ اور اُن کے سامنے اسی وقت فاٹا میں موجود ایم آئی اور دیگر ایجنسیوں کو فون کرکے لاپتہ افراد کو چھوڑنے کا حکم دیا اور سختی سے تاکید کی کے مزید ظلم اور تشدد بند کیاجائےجب کہ دیگر مطالبات کی منظوری کی یقین دہانی بھی کرائی۔ڈی جی آئی ایس پی آر چلے گئے تو ایک آفیسر نے آکر پوچھا کہ اب آپ مطمئن رہیں سب ٹھیک ہوجائے گا لیکن انہوں نے تحریری طور پر وعدہ دینے کا کہا۔ تو انہوں نے تاریخ دی کہ آپ کو پھر بلالیاجائے گا۔
دوسرے دِن آئی ایس آئی کے دفتر میں اُن کو بلایاگیا اور وہاں پر بھی انہوں وہی داستانِ غم سنائی۔ جس پر انہوں نے تسلیم کیا کہ آپ کے مطالبات بالکل جائز ہیں لیکن تحریری طور پر ضمانت دینے سے ریاست کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں لہذا یہ فی الحال ممکن نہیں۔ باقی اِزالہ کردیا جائے گا۔ کچھ دنوں بعد امیرمقام اور دیگر کی موجودگی میں تحریری طور پر ضمانت جاری کردی گئی جس کی تفصیل میڈیا پر موجود ہے۔
لاپتہ افراد کی فہرست جب طویل سے طویل تر ہوتی گئی تومتفقہ طور پر اسے ایم ٹی ایم سے پی ٹی ایم میں تبدیل کردیاگیا۔ہر علاقے سے بیواؤں، یتیموں اور بیٹوں سے محروم والدین کے فون آنے لگے کہ اُن کا بیٹا، شوہر، باپ،بھائی بغیر کسی جرم اور مقدمے کے طویل عرصےسے لاپتہ ہے لہذا اُن کے لیے کچھ کیا جائے۔ دوسری جانب نقیب اللہ محسود کے قاتل اور ریاستی ایجنسیوں کا لاڈلہ خون آشام راؤ انور منظرِ عام سے غائب کردیا گیا تھا۔ اور جب لایا گیا تو جو پروٹوکول اسے دی گئی اس سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اس پورے سیریل کلنگ کے پیچھے کون لوگ موجود تھے۔ لیکن افسوس کے اب بھی وہی وی آئی پی حاضری اور ظاہری حراست جاری ہے جو تمام مقتولین اور شہدا کے ساتھ کھلم کھلا مذاق ہے۔وہ ظالم اور قاتل جنہوں نے فاٹا میں قتلِ عام کیا اُن سے کوئی جواب طلبی نہیں ہورہی۔ چیف آف ارمی اسٹاف اور دیگر جنرلز منظور پاشتین اور دیگر ساتھیوں کو اپنے بچے قرار دے چکے ہیں جب کہ مذاکرات کے لیے جرگے بھی بنالیے گئے ہیں لیکن حالات ابھی بھی اس ڈگر چل رہے ہیں۔ اب بھی کئی ہزار افراد لاپتا ہے لیکن چند افراد رکاؤٹیں ڈال رہے ہیں جس سے ملکی ایجنسیوں اور افواجِ پاکستان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہورہی ہے۔
چند الزامات اور پروپیگنڈا پیغامات:
٭ منظور پاشتین این ڈی ایس، را اور سی آئی اے کے لیے کام کررہاہے۔
یہ الزام چیف آف آرمی اسٹاف اور اداروں کا مطالبات تسلیم کیے جانے کے بعد مکمل طور پر ردی میں چلا گیا۔جو بھی کرے گا وہ یا تو بغض رکھتاہے اور یا عقل سے عاری ہے۔
٭ سوشل میڈیا کے کچھ آئی ڈیز بیرون ملک سے چلائی جارہی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ اور یورپ وغیرہ میں ہزاروں کی تعداد میں پشتون ملازمت کے سلسلے میں آباد ہیں۔ اِن میں سے اکثر وہی چلارہے ہیں۔ کسی بھی مستند خبر کے لیے تین آئی ڈیز ہیں ایک منظور پاشتین کی، ایک محسن داوڑ کی اور ایک تحریک کی باقاعدہ آئی ڈی ہے۔ اس کےعلاوہ کوئی بھی مختلف خبر یا دعویٰ ناقابلِ استناد ہے۔
٭ اداروں کے خلاف نعرے لگا کر ملک کی بدنامی ہورہی ہے۔
اداروں کے خلاف نعرے نہیں لگائے جارہے بلکہ مجرموں اور قاتِلوں کو کٹہرے میں لانے کے لیے ایسا کیا جارہاہے حالاں اِن افراد کو یہی ادارے سپورٹ کررہے ہیں۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ ایک جانب جرگے بٹھائے جارہے ہیں تو دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں (پولیس، رینجرز) کی جانب سے رہنماؤں کو گرفتار اور پریشرائز کیا جارہاہے۔ یہ دوہرا معیار جلتی پر تیل کا کام دے رہا ہے۔
آخر میں یہاں ایک مراسلے میں صرف اُن واقعات کا ذکر ہے جو فاٹا اور خیبر پختون خوا ہ میں فوج کی جانب سے عوام کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے حوالے سے ہیں اور اُن عناصر کی ذہنیت کا عکاس ہے جو ہماری پیشہ ورانہ فوج کے لیے بدنامی اور عوامی حمایت کھونے کا باعث بن رہے ہیں۔اور اُن عوامل کا ذکر بھی ہےجو پشتونوں پر اثرانداز ہورہے ہیں۔
وضاحت: میں پی ٹی ایم کا کوئی باقاعدہ کارکن نہیں ہوں۔ لیکن ظلم، ملک پر چند لوگوں کی اجارہ داری، اداروں کے لیے رسوائی کا باعث بننے والے افراد کے خلاف اور مظلومین کے ساتھ یکجہتی کی بنیاد پر اخلاقی اور آئینی حمایت کرتاہوں۔ کل اگرپنجابی ، سندھی ، بلوچی اور دیگر بھائیوں کے مظلومین بھی آئینی حقوق کے لیے آواز اُٹھاتے ہیں تو میری حمایت اتنی ہی ہوگی جتنی کے پی ٹی ایم کے لیے ہیں۔ میں قومیت، عصبیت اور نسل پرستی سے اتنا ہی بچنے کی کوشش کرتا ہوں جتنا کہ رسول اللہﷺ نے حکم دیا ہے۔
فوجیوں کو فرشتے سمجھنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ احتساب پر یقین رکھیں۔ احتساب کے بغیر معاشرہ ظلم کی بھٹی بن جاتا ہے جس میں صرف کمزور اور بے بس ہی بھسم ہوجاتے ہیں۔ دنیا کی ہر فوج میں احتساب کا عمل ہوتاہے جس میں کسی بھی چھوٹے بڑے فوجی آفیسرز اور اہلکاروں کو برطرف یا کورٹ مارشل کیا جاتاہے۔
امریکہ، چین اور دیگر ممالک میں یہ کوئی انہونی نہیں اور وہ اس پر انتہائی سخت ایکشنز لیتےہیں۔ پاکستان میں یہ روایت اگرچہ بہت کم دیکھنے میں آئی ہے لیکن پھر بھی ایسی واقعات ہوئے جن میں لفٹننٹ جنرلز تک کو برطرف کیا گیا۔حالیہ عرصے میں اس حوالے سے بلوچستان میں کرپشن کا اسکینڈل بہت زیادہ مشہور ہوا۔ لیکن اس سے فوج کی کردار کُشی نہیں ہوئی بلکہ کردار اور زیادہ بہترہوا ۔
چند روابط:
Gen Raheel dismisses 6 army officers from service over 'corruption' - DAWN.COM
Court martial of serving army generals not new in India, United States
10 Generals/Admirals That Got Fired - History and Headlines
روزروز ہزارہا بےگناہ قبائل پر لاٹھی چارج، زدوکوب، جسمانی سزائیں، ذہنی صعوبتیں، کال کوٹھری اور ہزاروں افراد کا لاپتہ کیے جانا معمول بن چکا تھا۔ اس دوران کچھ واقعات ایسے وقوع پذیر ہوئے کہ قبائل کا پیمانہ مکمل لبریز ہوگیا۔
2017 کاایک دِن تھاجب وزیرستان کے علاقے شَمَکئ میں ایک ناخوش گوار واقعے کے بعد (جنگ کے دوران بچایاگیا آئی ای ڈی پھٹ گیا تھا) فوج نے بے گناہ عوام پر انتہائی زیادہ لاٹھی چارج کیا جس دوران کسی ماں کا ایسا اِکلوتاجوان جو اٹھارہ سال سے بیمار تھا تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوا۔ اس پر عوام نے خصوصا 2015 میں (محسود تحفظ مومنٹ کی بنیاد رکھنے والے )کالج یونیورسٹیوں کے طلبا نے احتجاجی ریلی نکالی۔ دباؤ میں آکر فوج نے کرفیو اُٹھانے کے ساتھ ساتھ تشدد میں کمی کردی۔ لیکن ریلی میں شریک سرگرم اسٹوڈنٹس جن میں منظور پاشتین کے دو ساتھی بھی شامل تھے، کو حراست میں لے کر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ آئندہ ریلی نہیں نکالیں گے۔ لیکن دیگر ساتھیوں کے جوابی احتجاج اور سوشل میڈیا مہم پر انہیں چھوڑ کر کہا گیا کہ ٹھیک ہے آئندہ اس طرح کا سلسلہ بند کردیا جائےگا۔ لیکن وہ آرمی سے تحریری ضمانت لینا چاہتے تھے جو آرمی (کے چند آفیسرز) نہیں دے رہے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ چیک پوسٹس پر گھنٹوں انتظارکرانا، معمولی باتوں پر تشدد، عوام کی تذلیل اور ظلم کا سلسلہ دوبارہ بڑھتا گیا کیوں کہ وعدے سارے زبانی تھے۔ ہر آفیسر اپنی مرضی چلاتارہا۔
2018 جنوری میں ایک آئی ای ڈی دھماکے میں دو بچوں کی شہادت نے عوام کو مزید مشتعل کردیا۔ انہوں نے پھر احتجاجی مظاہرے شروع کردیے لیکن سب کچھ بے سودتھا۔ یہ سب دیکھتےہوئے منظور پاشتین اور ایک دو ساتھیوں نے مشورہ کیا ایک احتجاجی ریلی نکال کر ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد تک مارچ کیا جائے تاکہ پوری دنیا کو اِن مظالم سے آگاہ کیا جائے۔ کیوں کہ ملکی میڈیا ایجنسیوں کے چند آفیسرز کی فون ہدایات پر رپورٹنگ نہیں کررہی تھی ۔ چنانچہ یکم فروری کو ایم ٹی ایم نےاسلام آباد میں مظاہرے کا اعلان کردیا۔ لیکن اس دوران نقیب اللہ محسود کی شہادت نے سب کچھ ہلاکررکھ دیا۔جس کی تفصیل سے ہرکوئی واقف ہے۔
ایم ٹی ایم کے آئینی مطالبات میں:
لاپتا افراد کو عدالتوں میں پیش کرنا، بچھائے گئے مائنز کی صفائی،کسی بھی بم دھماکے کی صورت میں آرمی کا عوام پربےدریغ تشددبند کیاجائے۔
اسی طرح کراچی ، فاٹا اور دیگر پختون علاقوں میں پولیس،فوج اور ایجنسیوں کے ماورائے عدالت قتل عام کی تحقیقات کا مطالبہ شامل تھا۔
قصہ مختصر یہ کے اسلام آباد تک مارچ کے دوران ہی اُن 22 دوستوں نے ایک دوسرے سے حلف لیا کہ تحریک کی کامیابی تک ہمیں موت بھی قبول ہے۔
اسلام آباد پہنچنے پر جب جرگہ کے وزیرِاعظم صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں ساری روداد منطور پاشتین نےخود سنائی اور ظلم کے وہ واقعات سُن کر وہاں وزیراعظم سمیت سب کے آنسو چھلک پڑے۔ یقین دہانی ملنےکے بعدواپسی پر آدھی رات ہی کو مشران نے اعلان کردیا (حالاں کہ سب پریس کلب کے باہر ابھی سوررہے تھے) کہ بوریا بستر سمیٹ کر روانہ ہوجاؤ۔ مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں۔ لیکن منظور پاشتین چوں کہ اِن ہتھکنڈوں کو سمجھ سکتاتھا اُس نے بہت منع کیا کہ جب تک تحریری طور پر ضمانت نہ دی جائے آپ مت جائے لیکن وہ سادہ لوح مشران نہ مانےجوپاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اپنے خلوص کے ترازو سے پرکھ رہے تھے۔
اس دوران منظور پاشتین اور اس کے دوستوں سمیت نوجوان طبقے نے فیصلہ کیا کہ تحریری ضمانت تک اپنی جگہ سے نہیں ہلیں گے۔ دو تین دِن کے بعد آرمی نے مجبوراً جی ایچ کیو بُلا کر اُن سے بات چیت کی۔ اور اُن کے سامنے اسی وقت فاٹا میں موجود ایم آئی اور دیگر ایجنسیوں کو فون کرکے لاپتہ افراد کو چھوڑنے کا حکم دیا اور سختی سے تاکید کی کے مزید ظلم اور تشدد بند کیاجائےجب کہ دیگر مطالبات کی منظوری کی یقین دہانی بھی کرائی۔ڈی جی آئی ایس پی آر چلے گئے تو ایک آفیسر نے آکر پوچھا کہ اب آپ مطمئن رہیں سب ٹھیک ہوجائے گا لیکن انہوں نے تحریری طور پر وعدہ دینے کا کہا۔ تو انہوں نے تاریخ دی کہ آپ کو پھر بلالیاجائے گا۔
دوسرے دِن آئی ایس آئی کے دفتر میں اُن کو بلایاگیا اور وہاں پر بھی انہوں وہی داستانِ غم سنائی۔ جس پر انہوں نے تسلیم کیا کہ آپ کے مطالبات بالکل جائز ہیں لیکن تحریری طور پر ضمانت دینے سے ریاست کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں لہذا یہ فی الحال ممکن نہیں۔ باقی اِزالہ کردیا جائے گا۔ کچھ دنوں بعد امیرمقام اور دیگر کی موجودگی میں تحریری طور پر ضمانت جاری کردی گئی جس کی تفصیل میڈیا پر موجود ہے۔
لاپتہ افراد کی فہرست جب طویل سے طویل تر ہوتی گئی تومتفقہ طور پر اسے ایم ٹی ایم سے پی ٹی ایم میں تبدیل کردیاگیا۔ہر علاقے سے بیواؤں، یتیموں اور بیٹوں سے محروم والدین کے فون آنے لگے کہ اُن کا بیٹا، شوہر، باپ،بھائی بغیر کسی جرم اور مقدمے کے طویل عرصےسے لاپتہ ہے لہذا اُن کے لیے کچھ کیا جائے۔ دوسری جانب نقیب اللہ محسود کے قاتل اور ریاستی ایجنسیوں کا لاڈلہ خون آشام راؤ انور منظرِ عام سے غائب کردیا گیا تھا۔ اور جب لایا گیا تو جو پروٹوکول اسے دی گئی اس سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اس پورے سیریل کلنگ کے پیچھے کون لوگ موجود تھے۔ لیکن افسوس کے اب بھی وہی وی آئی پی حاضری اور ظاہری حراست جاری ہے جو تمام مقتولین اور شہدا کے ساتھ کھلم کھلا مذاق ہے۔وہ ظالم اور قاتل جنہوں نے فاٹا میں قتلِ عام کیا اُن سے کوئی جواب طلبی نہیں ہورہی۔ چیف آف ارمی اسٹاف اور دیگر جنرلز منظور پاشتین اور دیگر ساتھیوں کو اپنے بچے قرار دے چکے ہیں جب کہ مذاکرات کے لیے جرگے بھی بنالیے گئے ہیں لیکن حالات ابھی بھی اس ڈگر چل رہے ہیں۔ اب بھی کئی ہزار افراد لاپتا ہے لیکن چند افراد رکاؤٹیں ڈال رہے ہیں جس سے ملکی ایجنسیوں اور افواجِ پاکستان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہورہی ہے۔
چند الزامات اور پروپیگنڈا پیغامات:
٭ منظور پاشتین این ڈی ایس، را اور سی آئی اے کے لیے کام کررہاہے۔
یہ الزام چیف آف آرمی اسٹاف اور اداروں کا مطالبات تسلیم کیے جانے کے بعد مکمل طور پر ردی میں چلا گیا۔جو بھی کرے گا وہ یا تو بغض رکھتاہے اور یا عقل سے عاری ہے۔
٭ سوشل میڈیا کے کچھ آئی ڈیز بیرون ملک سے چلائی جارہی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ اور یورپ وغیرہ میں ہزاروں کی تعداد میں پشتون ملازمت کے سلسلے میں آباد ہیں۔ اِن میں سے اکثر وہی چلارہے ہیں۔ کسی بھی مستند خبر کے لیے تین آئی ڈیز ہیں ایک منظور پاشتین کی، ایک محسن داوڑ کی اور ایک تحریک کی باقاعدہ آئی ڈی ہے۔ اس کےعلاوہ کوئی بھی مختلف خبر یا دعویٰ ناقابلِ استناد ہے۔
٭ اداروں کے خلاف نعرے لگا کر ملک کی بدنامی ہورہی ہے۔
اداروں کے خلاف نعرے نہیں لگائے جارہے بلکہ مجرموں اور قاتِلوں کو کٹہرے میں لانے کے لیے ایسا کیا جارہاہے حالاں اِن افراد کو یہی ادارے سپورٹ کررہے ہیں۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ ایک جانب جرگے بٹھائے جارہے ہیں تو دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں (پولیس، رینجرز) کی جانب سے رہنماؤں کو گرفتار اور پریشرائز کیا جارہاہے۔ یہ دوہرا معیار جلتی پر تیل کا کام دے رہا ہے۔
آخر میں یہاں ایک مراسلے میں صرف اُن واقعات کا ذکر ہے جو فاٹا اور خیبر پختون خوا ہ میں فوج کی جانب سے عوام کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے حوالے سے ہیں اور اُن عناصر کی ذہنیت کا عکاس ہے جو ہماری پیشہ ورانہ فوج کے لیے بدنامی اور عوامی حمایت کھونے کا باعث بن رہے ہیں۔اور اُن عوامل کا ذکر بھی ہےجو پشتونوں پر اثرانداز ہورہے ہیں۔
وضاحت: میں پی ٹی ایم کا کوئی باقاعدہ کارکن نہیں ہوں۔ لیکن ظلم، ملک پر چند لوگوں کی اجارہ داری، اداروں کے لیے رسوائی کا باعث بننے والے افراد کے خلاف اور مظلومین کے ساتھ یکجہتی کی بنیاد پر اخلاقی اور آئینی حمایت کرتاہوں۔ کل اگرپنجابی ، سندھی ، بلوچی اور دیگر بھائیوں کے مظلومین بھی آئینی حقوق کے لیے آواز اُٹھاتے ہیں تو میری حمایت اتنی ہی ہوگی جتنی کے پی ٹی ایم کے لیے ہیں۔ میں قومیت، عصبیت اور نسل پرستی سے اتنا ہی بچنے کی کوشش کرتا ہوں جتنا کہ رسول اللہﷺ نے حکم دیا ہے۔
فوجیوں کو فرشتے سمجھنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ احتساب پر یقین رکھیں۔ احتساب کے بغیر معاشرہ ظلم کی بھٹی بن جاتا ہے جس میں صرف کمزور اور بے بس ہی بھسم ہوجاتے ہیں۔ دنیا کی ہر فوج میں احتساب کا عمل ہوتاہے جس میں کسی بھی چھوٹے بڑے فوجی آفیسرز اور اہلکاروں کو برطرف یا کورٹ مارشل کیا جاتاہے۔
امریکہ، چین اور دیگر ممالک میں یہ کوئی انہونی نہیں اور وہ اس پر انتہائی سخت ایکشنز لیتےہیں۔ پاکستان میں یہ روایت اگرچہ بہت کم دیکھنے میں آئی ہے لیکن پھر بھی ایسی واقعات ہوئے جن میں لفٹننٹ جنرلز تک کو برطرف کیا گیا۔حالیہ عرصے میں اس حوالے سے بلوچستان میں کرپشن کا اسکینڈل بہت زیادہ مشہور ہوا۔ لیکن اس سے فوج کی کردار کُشی نہیں ہوئی بلکہ کردار اور زیادہ بہترہوا ۔
چند روابط:
Gen Raheel dismisses 6 army officers from service over 'corruption' - DAWN.COM
Court martial of serving army generals not new in India, United States
10 Generals/Admirals That Got Fired - History and Headlines
مدیر کی آخری تدوین: