اسد قریشی
محفلین
پرائی آگ میں تو نے اسد جلا لیے ہاتھ
ستم ہوا کہ قضا نے بھی پھر اُٹھا لیے ہاتھ
ہوا نے کیسے چراغوں سے ہیں ملا لیے ہاتھ
ہمارے گھر کے اندھیروں نے تو جلا لیے ہاتھ
خوشا نصیب کہا تھا ہمیں کسی نجومی نے
سو کر رہے ہیں ملامت کہ کیوں دکھا لیے ہاتھ
ہمی نے اپنے تمام عیب کر دیے عیاں اُس پر
خود اپنے ہاتھ سے ہم نے مگر کٹالیے ہاتھ
فلک نہ ہوگا کبھی ہم پہ مہرباں یقیں کر کے
سیاہ بخت ترے رنگ میں ہی رنگالیے ہاتھ
قبولیت کا گماں تک نہ تھا مگر تری خاطر
یونہی دعاکے لیے ہم نے بھی اُٹھا لیے ہاتھ