صبیح الدین شعیبی
محفلین
السلام علیکم،،ایک غزل لے کر حاضرہوا ہوں مکالماتی رنگ میں،،امید کرتا ہوں نوک پلک سنوارنے میں اپنا کرداراداکریںگے۔۔
میں جوکہتا ہوں“ تُو کج روی چھوڑدے“
وہ یہ کہتی ہے “تُو دوستی چھوڑدے“
میں یہ کہتا ہوں “مجھ کو دوانہ بنا“
وہ یہ کہتی ہے “دیوانگی چھوڑدے“
جب میں تعریف کرتا ہوں اس کی کبھی
تو وہ کہتی ہے“بس شاعری چھوڑدے“
جب میں کہتا ہوں جینا ہے مشکل بہت
تووہ کہتی ہے“ جا زندگی چھوڑدے“
جب میں کہتا ہوں “ہے جان حاضر مری“
تو وہ کہتی ہے“اب جاں مری چھوڑدے“
جب کبھی دل کی باتیں بتاتاہوں میں
تو وہ کہتی ہے “اب دل لگی چھوڑدے
آپ کا،
صبیح الدین شعیبی
میں جوکہتا ہوں“ تُو کج روی چھوڑدے“
وہ یہ کہتی ہے “تُو دوستی چھوڑدے“
میں یہ کہتا ہوں “مجھ کو دوانہ بنا“
وہ یہ کہتی ہے “دیوانگی چھوڑدے“
جب میں تعریف کرتا ہوں اس کی کبھی
تو وہ کہتی ہے“بس شاعری چھوڑدے“
جب میں کہتا ہوں جینا ہے مشکل بہت
تووہ کہتی ہے“ جا زندگی چھوڑدے“
جب میں کہتا ہوں “ہے جان حاضر مری“
تو وہ کہتی ہے“اب جاں مری چھوڑدے“
جب کبھی دل کی باتیں بتاتاہوں میں
تو وہ کہتی ہے “اب دل لگی چھوڑدے
آپ کا،
صبیح الدین شعیبی