پردیسیوں کا المیہ

پردیسوں کے المیے کا ذمہ دار کون؟

  • قریبی عزیز

    Votes: 0 0.0%
  • معاشرہ

    Votes: 0 0.0%
  • ارباب سیاست

    Votes: 0 0.0%
  • ارباب حکومت

    Votes: 0 0.0%
  • مشرق وسطی کے ممالک

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    1
  • رائے شماری کا اختتام ہو چکا ہے۔ .
پردیسیوں کا المیہ

ایک دھائی ہونے کو ہے دیار غیرمیں، پلٹ کر دیکھوں، جمع تفریق کروں کیا کھویا کیا پایا،سراسر گھاٹے کا سودا ہے، لیکں یہ عجیب سودا ہے کہ مسلسل ہو رہا ہے ، ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ، ہزاروں لاکھوں لمحات پر مشتمل،

پردیس میں بھی دربدری کا سامنا رہا، کئی فرموں میں کام کیا، مختلف مملک کے لوگ، مختلف معاشی درجات کے لوگ،اپنے پیاروں کے بہتر مستقبل کے لیے اپنا آج قربان کر رہے ہیں ۔لاکھوں کمانے والوں کا اپنی آمدن سے کمتر درجے کی زندگی گزرانا ، پائی پائی جوڑنا، انتہا درجے کی کنجوسی۔۔۔۔۔۔ روزانہ کا مشاہدہ ہے،کچھ جمع کرلیں اورپھر دیس میں جا کر اچھی زندگی گزار لیں، لیکن یہ عجیب گھورکھ دھندا ہےدرجنوں سالوں بیت جاتے ہیں کچھ جمع ہو کے نہیں دیتا ۔ پھر اگر کچھ جمع کر بھی لیا تو کیا وقت ٹھہر جائے گا ، زندگی کے قیمتی لمحات تو گزر چکے ہوتے ہیں

جو کچھ جمع کر لیتے ہیں، وہ اپنی جمع پونجی اپنے دیسی ڈاکووں کے ہاتھوں گنوا دیتے ہیں، کچھ کو اپنے قریبی عزیزواقارب کھا جاتے ہیں،پیسے ان کے ،،،جائیدادیں وہ اپنی بناتے ہیں، ان کے پیسے کو دیس میں پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ دیس میں کاروبار کا تجربہ بھی تلخ ہوتا ہے، پردیس کی سادہ زندگی اور دیس میں کاروبار میں ناتجربہ کاری آڑے آتی ہے اور بہت سے تو جیبیں خالی کر کے پھر پردیس کو پلٹ جاتے ہیں، ان کی آپ بیتی ،بہت سوں کی ہمت توڑ دیتی ہے ، ایک ختم نہ ہونے والی مایوسی چھا جاتی ہے سننے والوں کے چہروں پر

جب کسی محفل میں مستقبل کے خواب بنتے دیکھتا ہوں، اپنی بچت کی بنیاد پر کسی کاروبار کی بات کی جاتی ہے،شیخ چلی کی طرح منصوبے بنائے جاتے ہیں، ایک عجیب چمک ہوتی ہے ان آنکھوں میں،مستقبل کے خوابوں کی – ان کی آنکھوں کو دیکھ کر دل بھر آتا ہے کہ یہ خواب اکثر پورے نہیں ہوتے، بات کرنے والے کو بھی معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، شاید اپنے آپ کو بہلایا جاتا ہے

پھر جن کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے، وہ بھی ان کے بغیر زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں،یہ بس پیسے کمانے والی مشین بن کے رہ جاتے ہیں جس کو اور کوئی مصرف نہیں ، اپنے پیاروں کے لیے – جب مستقل طور پر وطن لوٹتے ہیں تو اب آنکھیں کھلتی ہیں، کچھ آنکھیں تو کبھی بھی نہیں کھل سکتی، پردیس سے سیدھے گور کو سدھارتے ہیں ۔ کی سالوں سے سنتے ہیں بہت سے افراد سے ۔۔۔۔۔۔ کہ اب کی بار دیس کو جانا ہے تو پلٹ کے واپس نہیں آوں گا ،اور یہ بات ہر بار دہرائی جاتی ہے، دہائیوں تک


بچوں کی تربیت تو کی نہیں ، ان کو وقت تو دیا نہیں، کوئی جذباتی تعلق قائم نہیں ہوا ، جس پیسے کے پیچھے بھاگتے رہے وہ تو ہاتھ آیا نہیں، اولاد بھی بیگانی ہوئی ،

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم

یہ المیہ ہے اکثر مڈل کلاسیے افراد کا۔۔ مشرق وسطی میں بسے افراد کا
اس سب کا ذمہ دار کون؟؟
نوٹ: یہ کوئی ادبی تحریر نہیں ہے ،بس اپنے خیالات کو تحریر کی شکل دی ہے اور مقصد تحریر" ابلاغ" ہے
 

arifkarim

معطل
یہ بس پیسے کمانے والی مشین بن کے رہ جاتے ہیں جس کو اور کوئی مصرف نہیں
یہاں مغرب میں بھی یہی حال ہے زیادہ تر مڈل کلاس پاکستانی نژاد طبقے کا۔

بچوں کی تربیت تو کی نہیں ، ان کو وقت تو دیا نہیں، کوئی جذباتی تعلق قائم نہیں ہوا ، جس پیسے کے پیچھے بھاگتے رہے وہ تو ہاتھ آیا نہیں، اولاد بھی بیگانی ہوئی ،
یہی تو اصل المیہ ہے۔ جب بچوں سے پیار نہیں کرنا، محبت نہیں کرنی تو پیدا کیوں کرتے ہیں؟
 
Top